• 3 مئی, 2024

صبر کرنے کا حق کس طرح ادا ہو؟

صبر ایک ایسا خلق ہے، اگر کسی میں پیدا ہو جائے یعنی اس طرح پیدا ہو جائے جو اس کا حق ہے تو انسان کی ذاتی زندگی بھی اور جماعتی زندگی میں بھی ایک انقلاب آ جاتا ہے۔ اور انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش اپنے اوپر نازل ہوتے دیکھتا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ صبر کرنے کا حق کس طرح ادا ہو؟ اس کو آزمانے کے لئے ہر روز انسان کو کوئی نہ کوئی موقع ملتا رہتا ہے، کوئی نہ کوئی موقع پیدا ہوتا رہتا ہے کوئی نہ کوئی دکھ، مصیبت، تکلیف، رنج یا غم کسی نہ کسی طرح انسان کو پہنچتا رہتا ہے، چاہے وہ معمولی یا چھوٹا سا ہی ہو۔ تو اس آیت میں فرمایا کہ جب کوئی ایسا موقع پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو تمہیں اس دکھ، تکلیف، پریشانی یا اس مشکل سے نکال سکتی ہے اس لئے اس کے سامنے جھکو، اس سے دعا مانگو کہ وہ تمہاری تکلیف اور پریشانی دور فرمائے لیکن دعا بھی تب ہی قبولیت کا درجہ پاتی ہے جب کسی قسم کا بھی شکوہ یا شکایت زبان پر نہ ہو اور لوگوں کے سامنے اس کا اظہار کبھی نہ ہو بلکہ ہمیشہ صبر کا مظاہرہ ہو اور ہمیشہ صبر دکھاتے رہو۔ اور اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو اور اس سے عرض کرو کہ اے اللہ! میں تیرے سامنے سر رکھتا ہوں، تیرے سامنے جھکتا ہوں، تجھ سے ہی اپنی اس پریشانی اور تکلیف اور مشکل کو دور کرنے کی التجا کرتا ہوں۔ میں نے کسی اور کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا۔ یہ تکلیف یا پریشانی جو مجھے آئی ہے میری کسی غلطی کی وجہ سے آئی ہے یا میرے امتحان کے لئے آئی ہے میں اس کی وجہ سے تیرا نافرمان نہیں ہوتا، نہ ہونا چاہتا ہوں، اس کو دور کرنے کے لئے میں کبھی بھی غیراللہ کے سامنے نہیں جھکتا۔ بلکہ صبر سے اس کو برداشت تو کر رہا ہوں لیکن تجھ سے اے میرے پیارے خدا! میں التجا کرتا ہوں کہ مجھے اس سے نجات دے اور ساتھ ہی یہ بھی التجا کرتا ہوں کہ اس امتحان میں، اس ابتلاء میں مجھے اپنے حضور میں ہی جھکائے رکھنا کبھی کسی غیراللہ کے درپر جانے کی غلطی مجھ سے نہ ہو۔۔ ۔

(خطبہ جمعہ13؍فروری 2004ء بحوالہ الاسلام)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ