• 4 مئی, 2024

پروفیسر کرامت راجپوت

بیادوالدِ محترم
پروفیسر کرامت راجپوت
میں ہوں صدائے قلب، محبت ہے میرا نام

قدرت نے ایک بے قرار روح کو قلندروں کا مزاج، درویشوں کا غناء اور شاعرانہ تخیل دے کر جِس پیکرِ خاکی میں جلوہ گر کیا اسے گھر والوں نے کرامت اللہ، عِلمی دنیا نے پروفیسر کرامت راجپوت اور حلقہ بزم و سخن نے کے۔ راجؔ کے نام سے موسوم کیا۔

کرامت اللہ راجپوت صاحب، پیدائش فروری 1946 کراچی، چوہدری عظمت اللہ راجپوت و محترمہ مقبول جان صاحبہ کی پانچویں اولاد تھے۔ آپ پیدائشی احمدی تھے اور ماں اور باپ، دونوں کی طرف سے آپ کا شجرہ صحابہ حضرت مسیحِ موعودؑ سے ملتا تھا۔ آپ کے دادا حضرت میاں جان محمد صاحب ہیلانی ؒ، نانا حضرت حافظ ملک مشتاق احمد صاحب پشاوریؒ اور پڑ دادا میاں عبدالعزیز صاحبؒ کو حضرت مسیحِ موعودؑ کو دیکھنے اور اُن ہی کے ہاتھ پر مشرف بہ بیعت ہونے کی سعادت نصیب ہوئی، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔

کرامت اللہ راجپوت نے ابتدائی تعلیم کراچی میں حاصل کی اور1955ء میں، ون یونٹ کے قانون کے باعث، اپنے والد صاحب، جو وفاقی سیکریٹیریٹ میں سرکاری ملازم تھے، کے لاہور تبادلہ کے بعد، باقی تعلیم لاہور میں ہی مکمل کی۔ آپ نے 1968ء میں جامعہ پنجاب سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری لی اور حصولِ روزگار کے لئے کراچی آگئے اورعملی زندگی کے اگلے48 سال اسی شہر میں برس کئے۔ 2016ء میں آپ کینیڈا منتقل ہوئے اور مارچ2022ء میں اپنے انتقال کے وقت تک مِلٹن اونٹاریو میں رہائش پذیر رہے۔

ابا جان مرحوم ایک ہمہ گیر شخصیت تھے۔ آپ ایک سعادت مند بیٹا، خبر گیر بھائی، بہترین شوہر، مشفق باپ، با وصف استاد، با کمال شاعر، کہنہ مشق لکھاری، با وفا دوست اور ہر دل عزیز شخصیت تھے۔ آپ ایک خوددار، با مروت، دیانت دار، اصول پسند، قانع اور نافع الناس وجود تھے۔ ساری عمر رزقِ حلال کمایا، کوئی جائیداد تو نہیں بنائی لیکن ورثہ میں ایک علمی اور درویشانہ میراث چھوڑی ہے، اب جِس کی امین اُن کی روحانی و جسمانی اولاد ہے۔

درس و تدریس محض آپ کا پیشہ نہیں، محبت و عبادت تھی۔ اپنے شاگردوں سے آپ کا قلبی تعلق تھا اور اُن کے لئے ہمہ وقت میسر ہوتے۔ آپ کے ہزاروں شاگرد ہیں جوآج اپنے اپنےشعبوں میں کامیاب ہیں اور اپنی کامیابی کی کلید پروفیسر کرامت راجپوت کو ہی جانتے ہیں۔ اِس بات کی گواہی سینکڑوں جاننے والے دیں گے کہ ہمارے گھر میں مہمانوں والا کمرہ ہمہ وقت اُن کے شاگردوں سے ہی بھرا رہتا تھا۔ وہ محض ایک استاد نہیں تھے بلکہ ایک دوست، ہمدرد اور رہبر بھی تھے۔ میں کئی ایسے شاگردوں کو جانتا ہوں جن کے داخلہ کی فیس بھی آپ نے ادا کی، پڑھایا بھی خود ہی، امتحانی فیس بھی دی اور پھر نوکری تک کی کوششیں ایسے کیں جیسے کوئی اپنی سگی اولاد کے لئے کرتا ہے۔

ان کی شخصیت میں ایک کشش تھی جس کی وجہ اُن کا اخلاص تھا، جِس بھی کام کا بیڑہ اٹھاتے، اُس میں جُت جاتے اور کام مکمل کر کے ہی دم لیتے تھے۔ یہ حیرت کی بات نہیں کہ اُن کے شاگردوں میں سے ایک وزیرِ اعظم پاکستان بھی ہوا اور کئی ایسے ہیں جو سول سروس میں کامیاب ہوئے۔ ڈاکٹرز اور انجینیرز کا تو شمار ہی ممکن نہیں۔

آپ کی علمی زندگی کی معراج وہ وقت تھا جب 1998ء میں آپ کو اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کا ناظم الامتحانات مقرر کیا گیا۔ یہ ایک کلیدی عہدہ تھا اور احمدی ہونے کی وجہ سے اِس تعیناتی کی شدید مخالفت کی گئی۔ شاید ہی کوئی ایسا اخبار تھا جِس میں آپ کے خلاف خبر نہ لگی ہو۔ آپ نے اس چیلنج کو قبول کیا اور تین ماہ کی قلیل مدت میں تمام امتحانات کروائے۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق، اُس سال تقریباً تین لاکھ کے قریب طلباء اعلیٰ ثانوی امتحانات میں شریک ہوئے۔ آپ نے ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ امتحانات کے نتائج انٹرنیٹ پر دیئے جو1998ء میں ایک آسان کام نہیں تھا۔ آپ کی خودداری، رزقِ حلال کمانے کی لگن اور شہرِ کراچی کی سیاسی صورتِ حال آپ کے عہدہ پررہنے کے حق میں نہ تھی، اسی وجہ سے نتائج کے اعلان کے بعد آپ نے اس عہدہ سے استعفیٰ دیا اور درس و تدریس کی طرف واپس آگئے۔آپ نے 2006ء میں منگھو پیر ڈگری کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹارمنٹ لی لیکن کسی نہ کسی صورت میں2016ء تک درس و تدریس سے منسلک رہے۔

شاعری آپ کی روح تھی۔ آپ نے نوجوانی سے ہی شعر کہنا شروع کر دیئے تھے۔ آپ کی بڑی ہمشیرہ محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیرؔ صاحبہ بھی جماعت کی صفِ اول کی شاعرہ تھیں۔ اپنی شاعری کے متعلق ابا جان بتاتے تھے کہ 1970ء کے عشرہ سے مشاعروں میں شامل ہوئے، اوّل اوّل آپ نے ثاقب زیرویؔ صاحب کی زیرِ مدارت ہفت روزہ لاہور میں اپنی غزلیں بھجوانا شروع کیں تو زیروی صاحب نے کمال شفقت سے نہ صرف حوصلہ افزائی فرمائی بلکہ اصرار کے ساتھ تازہ کلام کی فرمائش بھی کرتے رہتے۔ 1970ء تا1996ء تک آپ باقاعدگی سے مشاعروں میں شرکت کرتے، جوش ملیح آبادی، عبید اللہ علیمؔ، سلیم کوثرؔ، شبنم رومانیؔ، حمایت علی شاعر اور صابر ظفرؔ جیسے نام ور شعراء سے ذاتی دوستی تھی اور اکثر ان احباب کو مشاعروں میں لے کر جانا اور واپس لانے کی ذمہ داری بھی نہایت محبت سے انجام دیتے۔ یہی وقت تھا جب ملک کے کئی نام ور علمی و ادبی جرائد میں آپ کی غزلیں شائع ہوئیں۔

آپ کی شاعری میں جماعت اور خلافت سے محبت و وارفتگی فطری تھی۔ 1991ء میں جب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیحِ الرابع رحمہ اللہ قادیان تشریف لائے تو جلسہ سالانہ کے ایام میں قادیان میں ہونے والے مشاعرہ کی صدارت کا اعزاز آپ کو حاصل ہوا جب کہ مہمانِ خصوصی مکرم حافظ مظفر احمد صاحب تھے۔ اس موقع پر جلسہ کے دوسرے روز کے پہلے اجلاس میں آپ کو اپنی مشہور غزل تجدیدِ عہد ترنم کے ساتھ سنانے کا موقع ملا اور شرکا جلسہ کو بے اختیار ثاقب زیروی صاحب یاد آگئے۔ اُس غزل کے چند اشعار یہ تھے۔

کئے ہیں تُجھ سے جو عہدوپیماں ہمارے دل میں جواں رہیں گے
زمانہ کِتنے سِتم ہی ڈھائے ترے رہیں گے جہاں رہیں گے
چراغ ہم نے لہو سے اپنے قدم قدم پہ جلا دیئے ہیں
جُنوں کے صحرا میں کہکشاں سے ان آبلوں کے نشاں رہیں گے
کبھی جو مقتل بھی راہ میں تھا نہ ہم رُکے تھے نہ رُک سکیں گے
یہ قافِلے ہیں صداقتوں کے یہ سوئے منزل رواں رہیں گے
اُٹھیں گے گر چہ اُدھر سے طُوفاں رقابتوں کے اذیتوں کے
اِدھر بھی لیکن یقین و ایماں سِپر رہے ہیں سِناں رہیں گے
ہماری چاہت نہ چُھپ سکی ہے، ہمارے جذبے نہ چُھپ سکیں گے
جو ضبطِ غم سے نہ لب ہلیں گے تو اشک بنکر عیاں رہیں گے
قسم ہے تیری اَے جانِ جاناں یہ جاں امانت ترے لئے ہے
ابھی چُکا دےیہ قرض جاں کا، نہ جانے کل تک کہاں رہیں گے

اِسی طرح 1988ء میں بھی قادیان ہی میں جلسہ سالانہ میں پڑھی گئی یہ غزل بھی بہت مقبول ہوئی۔

ہے کاروانِ عِشق ازل سے رواں دواں
باطِل کے کوہسار ابد تک دھواں دھواں
پروانے سجدہ ریز ہیں ابتک وہاں وہاں
روشن ترےلہوسےہیں شمعیں جہاں جہاں
لالے کا سوز، رنگِ شفق، سُرخئ حنا
پہنچے ترے لہو کے شرارے کہاں کہاں
نہرِ فرات اپنے مقدر پہ خندہ زن
جذبِ حسین تِشنہ لبی میں جواں جواں
ظُلمت کدوں کو تونے زمیں بو س کردیا
تیری جبیں سے نور کی کِرنیں عیاں عیاں

آپ کی قادیان دارالایمان کی محبت میں کہی گئی نظم وہ قادیاں کی رونقیں! وہ کُو بکُو محبتیں! تو زبان زدِ خاص و عام ہے اور اسی نظم سے آپ کو جہاں گیر شہرت حاصل ہوئی۔ اِس نظم کے کچھ اشعار درج ذیل ہیں

وہ قادیاں کی رونقیں! وہ کُو بکُو محبتیں!
خدا کرے ہمیں ملیں، جہاں کہیں بھی ہم رہیں
ہر اک طرف سے کارواں، تھے سوئے قادیاں رواں
ہر ایک طفل و مرد و زن کشاں کشاں، جواں جواں
قدم قدم تھے ضوفشاں، مسیح وقت کے نشاں
‘‘بڑھے چلو، بڑھے چلو’’ یہ کہہ رہی تھیں دھڑکنیں
وہ قادیاں کی رونقیں! وہ کُو بکُو محبتیں!
خدا کرے ہمیں ملیں، جہاں کہیں بھی ہم رہیں
طبیعتوں میں اک الگ، عجیب سا نکھار تھا
آرزو تھی مضطرب، ہر ایک دل میں پیار تھا
نفس نفس تھا مطمئن ہر اک طرف قرار تھا
جبیں جبیں تھی سجدہ ریز، برس رہی تھیں رحمتیں
وہ قادیاں کی رونقیں! وہ کُو بکُو محبتیں!
خدا کرے ہمیں ملیں، جہاں کہیں بھی ہم رہیں

سال2021 کے اوائل میں آپ کو جگر کا عارضہ لاحق ہوا تو صحت گرنی شروع ہوئی لیکن آپ کے مشاغل میں کوئی فرق نا آیا۔ آپ معمول کے مطابق والدہ کو ڈائیلیسز کے لئے لے کر جاتےاور اپنے حلقہ احباب کے ساتھ تعلق قائم رکھتے۔ صحت کی بتدریج گراوٹ کی وجہ سے آخری چند ہفتوں میں نقاہت و کم زوری بڑھتی گئی اور 30 مارچ کو اسپتال میں مختصر علالت کے بعد داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔

آج جب اُن کی زیرِ تکمیل مجموعہ کلام ’’دارو رسن‘‘ کو دیکھ رہا تھا، اور 1972 کی لکھی ایک غزل سامنے آئی تو یوں لگا جیسے اُن کی زندگی کا نچوڑ اور خلاصہ ہو۔ اسی غزل پر اپنے پیارے والد صاحب کا ذکرِ خیر اس دُعا کے ساتھ مکمل کرتا ہوں، حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا!

ہر گام پر دیا سا جلاتا چلا گیا
یُوں شامِ غم کا ساتھ نبھاتا چلا گیا
میں ہوں صدائے قلب، محبت ہے میرا نام
میں دِل کو دِل کی بات سُناتا چلا گیا
دینے کو میرے پاس فقط ایک جام تھا
میں قطرہ قطرہ سب کو پِلاتا چلا گیا
دستِ دُعا تھا کوئی مرے ساتھ اِس طرح
سوئے نصیب جو کہ جگاتا چلا گیا
دُشمن نہیں ہےکوئی مرا، سُن میرےرفیق
رُوٹھے ہُووں کو روز مناتا چلا گیا
پہنچا دیارِ عِشق میں مَیں اسطرح ندیم
میں آگ نفرتوں کی بجھا تا چلا گیا

(احمد صفی اللہ راجپوت۔ ملٹن، کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ