• 26 اپریل, 2024

وطن سے محبت، ایمان کا حصّہ

اطفال کارنر
تقریر
وطن سے محبت، ایمان کا حصّہ

یٰۤاَیُّہَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ

(النساء: 60)

اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی۔

’’اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ‘‘ کے الفاظ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مومنوں کے لئے ایک راہنما اصول وضع کیا ہے اور وہ یہ کہ روحانی میدان میں اللہ، اس کے رسول اور نمائندوں کی اطاعت کرتے رہو اور دنیاوی لحاظ سے یا ملکی و سیاسی اعتبار سے جو بھی حکمران مقرر ہوں۔ اس کی ہر صورت میں اطاعت کرنی ہے۔ اور اسی مضمون میں وطن سے محبت کا سبق بھی عیاں ہے۔ کیونکہ حکمران اگر ظالم بھی ہوں۔ آپ کو مذہبی آزادی بھی نہ ہو۔ آپ کو اپنی عبادات بجا لانے پر پابندی ہو۔ آپ کی مساجد اور اس کے میناروں اور محرابوں کو مسمار کیا جاتا ہو۔ آپ کے مُردے قبرستانوں میں بھی آرام محسوس نہ کریں۔ ان حالات میں بھی حکام بالا کی اطاعت در اصل وطن سے محبت ہی کے مترادف ہے۔

وطن سے محبت کی بات ہو رہی ہو تو ’’ماں‘‘ کا لفظ اکثر سننے کو ملتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں وطن، ماں کی دھرتی کی طرح ہے۔ جس طرح ماں بچے کی حفاظت کا موجب ہوتی ہے۔ اسی طرح وطن بھی اپنے باشندوں کی حفاظت کی ضمانت ہوتا ہے۔ جس طرح بچے کو ماں کی دیکھ بھال کا حکم ہے۔ اسی طرح وطن کے باشندوں کو وطن یعنی ماں کی دیکھ بھال اور حفاظت کرنے کا حکم ہے۔ اسی لئے آنحضورﷺ نے فرمایا ہے: حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔

ہمارے پیارے رسول حضرت محمد مصطفےٰﷺ کو اپنی بستی مکہ سے بہت پیار تھا۔ آپؐ نے اپنی اس پیاری بستی کے لئے بہت دعائیں کیں۔ صدقات دیے۔ اس کی ترقی و استحکام کے لئے روزے رکھے۔ مگر بستی میں بسنے والے مشرکین نے جب آنحضورﷺ پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تو آپؐ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرماتے ہوئے مکہ کو مخاطب ہو کر فرمایا۔ اے مکہ! مجھے تو بہت پیارا تھا مگر میں کیا کروں۔ یہاں کے باشندے مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔

آپؐ کو مکہ بستی اتنی پیاری تھی کہ ہجرت کرتے ہوئے آپؐ نے دوبارہ اس میں داخلے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے یہ دعا کی کہ رَبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّاَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّاجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا

(بنی اسرائیل: 81)

ہم احمدیوں کو بھی پاکستان میں کچھ ایسے حالات کا سامنا ہے۔ اور وہاں کے باشندے اور حکومتی و سرکاری کارندے ہمیں وہاں رہنے نہیں دے رہے۔ ہم پر بھی آنحضورﷺ کی طرح عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ ہمیں نمازیں پڑھنے کی اجازت نہیں۔ ہم کلمہ سرِ عام نہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ اپنی عمارتوں پر، نہ کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کر سکتے ہیں۔ ہمیں اسلامی شعار قربانی کرنے پر مقدمات کا سامنا ہے۔ ہم اپنی عبادت گاہوں پر نہ مینارے بنا سکتے ہیں اور نہ محراب بنانے کی اجازت ہے بلکہ پرانی مسجدوں کے مینار بھی گرائے جاتے ہیں اور محرابوں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ قرآن کریم کو موبائل فونز میں رکھنے پر بھی احمدیوں کو مقدمات کا سامنا ہے۔ چہ جائیکہ اس مقدس کتاب کی اشاعت کی جائے۔

ان تکلیف دہ حالات میں سے ہم میں بعض دوست آنحضورﷺ کی تقلید میں ہجرت کر کے باہر ایسے ملکوں میں آ بسے ہیں۔ جہاں مذہب کی آزادی ہے۔ ایسے لوگوں پر دوہری ذمہ داری ہے ایک اپنی جنم بھومی پاکستان کی عزت و وقار کو بحال رکھنا اور نئے وطن جس نے ہمیں مذہب کی آزادی دے رکھی ہے اس سے محبت اور ملکی قوانین کی پابندی کو حرز جان بنانا۔

ہمارا احمدی بھائی بہنوں کا یہ طرّہ امتیاز رہا ہے اور ہم آئے روز اس کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مخالفت کے بدلے اپنی جائیداد یں جلوانے والے، اپنی املاک لٹ جانے کے بعد بھی اپنے وطن سے محبت کے دعوےدار ہیں۔ اپنی جنم بھومی جب یاد آجائے تو آنکھوں میں آنسو آ ہی جاتے ہیں۔ میں نے الفضل آن لائن میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کے بیان کردہ فقرہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’لاہور لاہور اے پر ربوہ ربوہ اے‘‘ پر ایک مضمون نظروں سے گزرا تھا۔ جس میں ربوہ میں پلنے پوسنے والوں وہاں کے مقیم حضرات کی یادیں جمع ہوئی تھیں۔ وہ تصویر اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ تنگدستی و خوشحالی، خوشی و نا خوشی، اور ترجیحی بنیادوں پر جیسا بھی سلوک ہم سے ہو ہم نے اپنی مملکت خداداد پاکستان کی حفاظت، سلامتی اور محبت کی قسم اٹھا رکھی ہے اور ہجرت کرکے ہم یہاں یورپین ممالک میں آباد ہوئے تو ہم پر لازم ہے کہ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ کے تحت ہم ان ممالک سے بھی محبت کریں۔ ان ممالک کی ترقی و استحکام کے لئے نہ صرف دعائیں کریں بلکہ ان کی حفاظت کے لئے خون پسینہ ایک کر دیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین

(فرخ شاد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ