• 7 مئی, 2024

دین کے ساتھ دنیا جمع نہیں ہو سکتی (حضرت مسیح موعودعلیہ السلام)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کچھ اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:
’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ دین کے ساتھ دنیا جمع نہیں ہو سکتی۔ ہاں خدمتگار کے طور پر بیشک ہو سکتی ہے۔ لیکن بطور شریک کے ہر گز نہیں ہو سکتی۔ یہ کبھی نہیں سناگیا کہ جس کا تعلق صافی اﷲ تعالیٰ سے ہو وہ ٹکڑے مانگتا پھرے۔ اﷲ تعالیٰ تو اس کی اولاد پر بھی رحم کرتا ہے۔ جب یہ حالت ہے تو پھر کیوں ایسی شرطیں لگاکر ضدّیں جمع کرتے ہیں۔ ہماری جماعت میں وہی شریک سمجھنے چاہئیں جو بیعت کے موافق دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہیں۔ جب کوئی شخص اس عہد کی رعایت رکھ کر اﷲ تعالیٰ کی طرف حرکت کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کو طاقت دے دیتا ہے۔ صحابہ کی حالت کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے ان کو پاک صاف کر دیا۔ حضرت عمر کو دیکھو کہ آخر وہ اسلام میں آکر کیسے تبدیل ہوئے۔ اسی طرح پر ہمیں کیا خبر ہے کہ ہماری جماعت میں وہ کون سے لوگ ہیں جن کے ایمانی قویٰ ویسے ہی نشوونما پائیں گے۔ اﷲ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے۔ اگر ایسے لوگ نہ ہوں جن کے قویٰ نشوونما پاکر ایک جماعت قائم کرنے والے ہوں تو پھر سلسلہ چل کیسے سکتاہے۔ مگر یہ خوب یاد رکھو کہ جس جماعت کا قدم خد اکے لیے نہیں اس سے کیا فائدہ؟ خدا کے لیے قدم رکھنا امر سہل بھی ہے جبکہ خدا تعالیٰ اس پر راضی ہو جاوے اور روح القدس سے اس کی تائید کرے۔ یہ باتیں پیدا نہیں ہوتی ہیں۔ جبتک اپنے نفس کی قربانی نہ کرے اور نہ اس پر عمل ہو۔ فرمایا وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی۔ فَاِنَّ الۡجَنَّۃَ ہِیَ الۡمَاۡوٰی اور وہ جو اپنے ربّ کے مرتبے سے خائف ہوا اور اُس نے اپنے نفس کو ہوس سے روکا تو یقینا ً جنت ہی اُس کا ٹھکانہ ہو گی‘‘۔ فرمایا: ’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہشتی زندگی اسی دنیا سے شروع ہو جاتی ہے اگر ہوائے نفس کو روک دیں۔ فرمایا کہ صوفیوں نے جو فنا وغیرہ الفاظ سے جس مقام کو تعبیر کیا ہے وہ یہی ہے کہ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی کہ اپنے نفس کو ہوس سے روکو، اس کے نیچے ہو۔‘‘

(ملفوظات جلدنمبر4 صفحہ320۔ ایڈیشن 2003ء)

پھر فرماتے ہیں: ’’مَیں یہ سب باتیں با ر بار اس لیے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گُم ہو چکی ہے اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانہ میں پائی نہیں جاتی، اُسے دوبارہ قائم کرے۔ عام طور پر تکبر دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ علماء اپنے علم کی شیخی اور تکبر میں گرفتار ہیں۔ فقراء کو دیکھو تو ان کی بھی حالت اَور ہی قسم کی ہو رہی ہے۔ اُن کو اصلاح نفس سے کوئی کام ہی نہیں رہا۔ اُن کی غرض و غایت صرف جسم تک محدود ہے۔ اس لیے اُن کے مجاہدے اور ریا ضتیں بھی کچھ اَور ہی قسم کی ہیں جیسے ذکرِ ارّہ وغیرہ۔ جن کا چشمۂ نبوت سے پتہ نہیں چلتا‘‘۔ ایسی ایسی ریاضتیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہوتیں، پتہ نہیں چلتا۔ فرمایا ’’مَیں دیکھتا ہوں کہ دل کو پاک کرنے کی طرف ان کی توجہ ہی نہیں۔ صرف جسم ہی جسم باقی رہا ہوا ہے جس میں روحانیت کا کوئی نام و نشان نہیں۔ یہ مجاہدے دل کو پاک نہیں کر سکتے اور نہ کوئی حقیقی نور معرفت کا بخش سکتے ہیں۔ پس یہ زمانہ اب بالکل خالی ہے۔ نبوی طریق جیسا کہ کرنے کا تھا وہ بالکل ترک کر دیا گیا ہے اور اس کوبھلا دیا ہے۔ اب اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ عَہدِ نبوت پھر آجاوے اور تقویٰ اور طہارت پھر قائم ہو اور اس کو اُس نے اِس جماعت کے ذریعہ چاہا ہے‘‘۔ فرمایا ’’پس فرض ہے کہ حقیقی اصلاح کی طرف تم توجہ کرو اسی طرح پر جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح کا طریق بتایا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلدنمبر4 صفحہ213تا214 ایڈیشن 2003ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ آنے والے اُس انقلاب اور تغیر کا حصہ بن سکیں جو اب آپ کے ذریعہ مقدر ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

(خطبہ جمعہ 23؍ ستمبر 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 جولائی 2021