ہمارے ایشیائی معاشرے کی ستم ظریفی اور بد قسمتی ہے کہ ہم اپنے اعمال اور فکر پر دھیان دینے کی بجائے اپنے ماحول میں بسے عزیز و اقارب اور دوستوں کے اعمال اور ان کی سوچ پر دھیان دیتے، ان پر نقطہ چینی کرتے اور غیبت اور چغلی کرتے ہیں اور بعض اوقات دن کا اکثر حصہ اس پر گزر جاتا ہے۔ اس کے کئی ایک نقصان ہوتے ہیں۔
- غیبت اور چغلی کا گناہ تو ملتا ہی ہے یہ ایک نقصان ہے۔
- ایک نقصان یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح احوال کی بجائے لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ جو بھائی چا رہ اور اخوّت پر حملہ آور ہوتی ہے۔
- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنےآپ کو متقی نہ کہو یا نه سمجھو اور یوں اپنی اصلاح کے دروازے بھی بند ہو جاتے ہیں۔
خود احتسابی (Self Accountability) کی مذہبی دنیا میں بہت اہمیت ہے۔ قرآن کریم میں مختلف اچھوتے انداز میں احتساب کی اہمیت اور خود احتسابی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ احادیث میں بھی آنحضور ﷺ نے نہ صرف اس اہم موضوع کی طرف توجہ دلائی بلکہ آپ ﷺ رات کو بستر پر جانےسے پہلے سارے دن کے کردنی اور ناکردنی کا جائزہ لیا کرتے تھے اور نیکی کے کام رہ جاتے ان کا عزم صمیم کیا کرتے تھے ۔ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبات، خطابات اور تقاریر میں جائزہ لیتے رہنے کا اکثر ذکر فرماکر دوستوں کو محاسبہ اور خود احتسابی کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔محاسبہ دراصل کہتے ہیں اپنے آپ سے سوال کرنے، اپنے آپ سے پوچھ گچھ کر نے، اپنی پرسش کرنے کو۔ بلکہ لغات میں اس کے معنی اپنے آپ کو آزمائش میں ڈالنے کے بھی ہیں۔ جو لوگ اپنے آپ کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے لئے سختی میں ڈالتے، مشکلات برداشت کرتے ہیں وہی کامیاب و کامران ٹھہرتے ہیں۔ لغت میں ’’محاسبہ‘‘ لفظ کے تحت حساب طلب کرنا اور حساب لینے کے معنی بھی ہیں اور ان معنوں کا سب سے پہلے اطلاق انسان کے اپنے نفس پر ہوتا ہے۔نفس کو کنٹرول کرکے رکھنا ہی خود احتسابی کا دوسرا نام ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
؎نفس کو مارو کہ اس جیسا کوئی دشمن نہیں
چپکے چپکے کرتا ہے پیدا وہ سامان دیمار
آج اس آرٹیکل میں خود احتسابی کو قرآن کریم کے حوالے سے قارئین کے لئے بیان کیا جارہا ہے۔
سب سے پہلے اپنے مضمون کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے نفس کے حوالے سے سورۃ البقرہ کی آیت 285 پیش ہے :
لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ اِنۡ تُبۡدُوۡا مَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اَوۡ تُخۡفُوۡہُ یُحَاسِبۡکُمۡ بِہِ اللّٰہُ ؕ فَیَغۡفِرُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۲۸۵﴾
یہی آیت احتساب کے حوالے سے بنیادی آیت ہے۔ اور ہم اپنی نمازوں اور عبادات میں اس آیت کو اگلی دو دعائیہ آیات کے ساتھ ملا کر پڑھتے ہیں۔ اور ان تینوں آیتوں میں احتساب کا مضمون بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ آیت نمبر285 میں فرماتا ہے:
’’اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور خواہ تم اسے ظاہر کرو جو تمہارے دلوں میں ہےیا اسے چھپاؤ اللہ اس کے بارہ میں تمہارا محاسبہ کرے گا۔ پس جسے وہ چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا۔ اور اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔‘‘
اور آیت نمبر287 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔ اس کے لئے ہے جو اس نے کمایا اور اس کا وبال بھی اسی پر ہے جو اس نے (بدی کا) اکتساب کیا۔ اے ہمارے ربّ! ہمارا مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا ہو جائے۔
اور آخر پر یہ دعا مانگی گئی ہے ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہو۔
یہ تمام مفہوم اپنے جائزہ لینے، محاسبہ کرنے کا ہی ہے یا اس مضمون کی وضاحت ہے۔ یہ مضمون اس وقت زیادہ اُجاگر ہوتا ہے جب ہم سورۃالبقرہ کی ان دو آخری آیات کو سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ارشادات کے سانچے میں ڈال کر دیکھیں اور ان آیات کو اس کی اہمیت و افادیت کے مدّنظر رکھ کر پڑھیں تو احتساب کا مضمون دوبالا ہوجاتا ہے ۔آنحضور ﷺ نے فرمایا:
’’ان آیات کو یاد کرو اور اپنے اہل و عیال کو یاد کراؤ کیونکہ یہ صلوٰۃ، قرآن اور دعا پر مشتمل ہیں۔‘‘
(الدّر منثور لسیوطی جلد1 صفحہ378)
حضرت ابومسعودؓ بیان کرتے ہیں:
’’سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات رات کو پڑھ کر سونے والے کے لئے بہت کافی ہیں۔ نیزعرش کے اُس خزانہ میں سے ہیں جو آج تک آنحضرت ﷺ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیا گیا۔‘‘
(تفسیر طبری جزو3 صفحہ434)
پھر اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے :
وَ کُلَّ اِنۡسَانٍ اَلۡزَمۡنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیۡ عُنُقِہٖ ؕ وَ نُخۡرِجُ لَہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلۡقٰٮہُ مَنۡشُوۡرًا ۔
(بنی اسرائیل: 14)
ترجمہ: اور ہر انسان کا اعمال نامہ ہم نے اُس کی گردن سے چمٹا دیا ہے اور ہم قیامت کے دن اس کے لئے اُسے ایک ایسی کتاب کی صورت میں نکالیں گے جسے وہ کھلی ہوئی پائے گا۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بہت واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہےکہ ہر انسان کی گردن میں اس کے اعمال نامہ کا رجسٹر لٹک رہا ہے۔ جس پر روزانہ کی بنیاد پر اس کے اعمال کا اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس کو نظر نہیں آتا مگر آخری روز کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا ۔اور اس کی جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے اس آیت کے تحت تحریر فرمایا ہے:
’’گردن میں عمل باندھنے کے یہ معنیٰ ہیں کہ وہ اس کی جزاء سے بچ نہیں سکتا ۔۔۔ طائر کے معنیٰ عمل کے بھی ہوتے ہیں۔‘‘
(تفسیر کبیر سورۃ بنی اسرائیل آیت 14)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے تحت نوٹ میں تحریر فرمایا:
’’یہاں طَآئِر سے ۔۔۔ اس کا اعمال نامہ مراد ہے جو ظاہری شکل میں لٹکا ہوا نہیں ہوتا مگر قیامت کے دن اُسے ظاہر کر دیا جائے گا۔ یہ ایسا ہی محاورہ ہے جیسے اردو میں کہا جاتا ہے کہ گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو کہ تم کیسے ہو۔‘‘
پھر اسی آیت کے معاً بعد آیت 15 میں اللہ تعالیٰ نےبہت واضح الفاظ میں احتساب کے مضمون کو یوں بیان کیا ہے:
’’اپنی کتاب پڑھ! آج کے دن تیرا نفس تیرا حساب لینے کے لئے کافی ہے۔‘‘
اسی سورت کی آیت 72 میں بھی احتساب کا مضمون بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’وہ دن یاد کرو جب ہم ہر قوم کو اس کے امام کے حوالے سے بلائیں گے اور جن کا اعمال نامہ ان کے بِیَمِیْنِہٖ یعنی دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ تویہی وہ لوگ ہوں گے جو اپنا اعمال نامہ پڑھیں گے۔‘‘
سورۃ الحاقہ آیت 20 اور سورۃ الانشقاق میں بھی ایسی کتاب یعنی اعمال نامہ کا ذکر ہے ۔ جو دائیں ہاتھ سے دیا جائے گا تو وہ کامیاب ہوں گے جبکہ اس کے بالمقابل سورۃ الحاقہ آیت 26 میں بِشِمَالِہٖ یعنی بائیں ہاتھ اور سورۃ الانشقاق آیت 11 میں وَرَآءَظَھْرِہٖ یعنی پیچھے سے اعمال نامہ دیا جائے گا تو وہ سزا کے لئے تیار رہے۔
اس اہم مضمون کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے مومنوں کو اس زندگی میں بار بار سیدھےراستہ پر رکھنے کے لئے مخاطب فرمایا ہے۔ اور تین مقامات پر اعمال نامہ کو مَوَازِیْنُہٗ کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ جیسے المؤمنون آیت 103 میں ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ کہہ کر فرمایا جس کے اعمال کے پلڑے بھاری ہوں گے وہ کامیاب ہوں گے اور آیت 104 میں خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فرما کر لوگوں کو متنبہ فرمایا کہ جن کے اعمال کے پلڑے ہلکے ہوئے تو یہی لوگ اپنے آپ کو نقصان پہنچائیں گے اور جہنم رسید ہوں گے۔
اور یہ مضمون بیان کرنے سے قبل اللہ تعالیٰ نے آیت 102 میں فرمایا کہ جب بگل میں پھونکا جائے گا تو اس دن ان کے درمیان کوئی رشتے اور قرابتیں (اَنْسَابَ) نہیں رہیں گی وہ ایک دوسرے سے کوئی سوال نہیں کریں گے۔
یہی مضمون مَوَازِیْنُہ ٗ کے الفاظ کے ساتھ سورۃ القاریہ آیت 7 اور 9 میں بیان ہوا ہے۔
آئیں اب سورۃ الکھف کے آخری رکوع میں بیان مضمون کو دیکھتے ہیں جس کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ دجال کےشر سے بچنے کے لئے ان آیات کو پڑھنا چاہئے ۔ ان میں کفار کے بد اعمال کا ذکرکر کے بیان فرمایا گیا ہے:
فَحَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فَلَا نُقِیۡمُ لَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَزۡنًا۔
(سورۃ الکھف 106)
کہ ان کے اعمال ضائع ہوں گے اور قیامت کے دن ان کا کوئی وزن نہ ہوگا اور مومنوں کو اعمال صالحہ بجالانے کی تلقین کی گئی ہے گویا اب کِتَاب، مَوَازِیْنُہٗ لکھنے کی جگہ اَعْمَال کا لفظ براہ راست استعمال فرمایا ہے۔
اب آخر پر سورۃ المؤمنون میں بیان مضمون کی طرف واپس آتے ہوئے یہ لکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مضمون کو ایک بار پھر کِتَاب اور ذِکْر کے الفاظ سے باندھتے ہوئے اپنی زندگیوں کو سنوارنے اور جہنم کی آگ سے دور رہنے کی تلقین فرماتا ہے۔ آیت 63 میں فرمایا ہم کسی جان کے ذمہ کوئی کام نہیں لگاتے مگر اس کی طاقت کے مطابق اور ہمارے پاس ایک اعمال نامہ (کِتَاب) ہے جو سچی سچی بات کہتا ہے اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘
(ترجمہ ازحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ)
اور آیت 72 میں بیان فرمایا ’’حقیقت یہ ہے کہ ہم انہیں کا ذِکْر (اعمال نامہ) ان کے پاس لائے ہیں اور وہ اپنے ہی ذِکْر سے منہ پھیر رہے ہیں۔‘‘
انسان زندگی میں اچھے اعمال بجا لائے تو مرنے کے بعد ذکر خیر ہوتا ہے اور بُرے اعمال کئے ہوں تو اس کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ اس لئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے پر لازم کر لینا چاہئے کہ ہم زندگی میں اچھے اور نیک اعمال کا ایسا مائدہ تیار کریں گے۔ جو اُخروی زندگی میں کام آئے گا۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح ہم اپنی اولاد کے لئےبنک بیلنس جمع کرتے ہیں۔ ہمارے صحابۂ رسولؐ نے احکام خداوندی کی فہرستیں تیار کر رکھی تھیں تا قرآن میں بیان ہر حکم پر عمل ہو سکے۔ ایک صحابی جو سوائے ایک حکم کےتمام احکام خداوندی پر عمل کر چکے تھے۔ اس اکیلے حکم کہ ’’جب تمہیں کہا جائے کہ چلے جاؤ تم چلے جایا کرو‘‘ پر عمل کرنے کے لیے مدینہ کی گلی محلوں میں نکلے اور ایک ایک گھر کا دروازہ صرف اور صرف اس غرض سے کھٹکھٹایا کہ اندر سے آواز آئے کہ چلے جاؤ۔ (میں اس وقت ملنا نہیں چاہتا) تو میں چلا آؤں گا تو رسول خدا کی تربیت کی وجہ سے یہ صحابی ایک حکم پر عمل کرنے سے محروم رہے کیونکہ مدینہ کے تمام صحابہ کی تربیت ایسے رنگ میں ہو چکی تھی کہ آپ کے پاس کوئی آئے تو اسے پیار ومحبت سے ملو۔
یہی روش اور کیفیت آج کے مامور حضرت مرزا غلام احمد مسیح و مہدیؑ کے ماننے والوں کی ہے۔ آپؑ کے صحابہؓ نے بھی اصحابِ رسولؐ کی اقتداء میں ایسی فہرستیں بنا رکھی تھیں۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے ان جیسے نیکی کے کاموں کو ’’کر نہ کر‘‘ کی صورت میں کتابی شکل دے رکھی ہے۔ ’’سات سواحکام خداوندی‘‘ کے نام سے جامع کتاب بھی ’’الاسلام‘‘ https://alisl.am/u194 میں موجود ہے جن کے متعلق حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا ہے۔
’’مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے، وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔‘‘
(کشتی نوح روحانی خزائن جلد19صفحہ26)
(ابو سعید)