• 29 جولائی, 2025

ابنِ بَطوطَہ

مشہور عالم سیاح اور مورخ اِبنِ بَطوطَہ قرونِ وسطیٰ کے عالمی تاریخی شہرت کے حامل مسلمان سیاح تھے۔ اِبنِ بَطوطَہ کا مکمل نام ابوعبداللہ محمد ابن بطوطہ ہے۔ ’ابن بطوطہ‘ اُن کا خاندانی لقب تھا۔ ابن بطوطہ 24/جنوری 1304ء عیسوی میں مراکش کے شہر طنجہ (Tangiers) میں پیدا ہوئے اور 1368ء میں مراکش ہی میں اُن کی وفات ہوئی۔ ان کا خاندان اس وقت بھی مراکش میں موجود ہے۔ مراکش شمالی افریقہ کا ایک ملک ہے جس کی ساحلی پٹی بحرِ اوقیانوس کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ اس کے شمال میں اسپین سے ملتی بحری سرحد ہے۔ آپ ایک علمی گھرانے کے چشم وچراغ تھے۔ ان کا خاندان محکمہ قضاء سے متعلق تھا۔ مقامی علاقے کے قاضیوں کی اکثریت ابن بطوطہ کے خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ ابن بطوطہ نے بچپن اور آغاز شباب میں اسلامی فقہ و قضا، ادب، تاریخ اور جغرافیہ کی تعلیم حاصل کی۔

آپ نے 21 سال کی عمر میں پہلا حج کیا۔ اس سفر کے بعد ان کے اندر سیاحت کا شوق پیدا ہوا ۔ابن بطوطہ نے ایسے وقت میں اپنے سفر کا آغاز کیا جب نہ ریل تھی، نہ موٹر، نہ طیارے اور نہ ہی موجودہ زمانے کی سفری سہولتیں میسر تھیں۔ اُس زمانے میں سمندر کا سفر جان جوکھوں کا کام تھا۔ اکیس بائیس برس کا ایک منچلا نوجوان رخت سفر باندھ کر اپنے ذوق سیاحت کو تسکین پہنچانے کے لئے عازم ِ سفر ہوا اور برابر 28 سال تک سمندر کی لہروں سے لڑتا، ہولناک ریگستانوں سے گزرتا، پُرشور دریاؤں کو کھنگالتا، چھوٹے بڑے پہاڑوں پر چڑھتا، جنگلوں، بیابانوں اور برفستانوں کو قطع کرتے ہوئے، ایک کے بعد ایک منزل طے کرتا رہا۔ یہ سفر کبھی قافلوں کی شکل میں اور کبھی تنہا طے ہوا۔ اپنے 28سالہ سفر کے اختتام پر ابن بطوطہ نے ایک مایہ ناز سفرنامہ ’’رحلہ‘‘ (جس کا مکمل نام: رحلۃ ابنِ بطُوطَہْ، المُسَمّاہ تحفۃ النطارفِی غرائب الامصار و عجائب الاسفَار ہے) تصنیف کیا۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنے 75ہزار میل طویل سفر کی رُوداد نقل کی ہے۔ اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی کوئی ترقی یافتہ زبان ایسی نہیں جس میں اس کتاب کا ترجمہ نہ ہوا ہو۔ مشرق اور ایشیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں اس سیاح کے قدم نہ پہنچے ہوں۔ انہوں نے سر زمینِ مغرب کے بعض مقامات کی بھی سیاحت کی اور پھر اپنے تاثرات و مشاہداتِ سفر، پوری سچائی، بے باکی اور جرأت کے ساتھ قلم بند کر دیئے۔

ابن بطوطہ اپنے سیاحتی سفر کے آغاز پر اپنے والد کے ہمراہ فریضہ حج کی ادائیگی اور زیارت روضہ ٔرسول ﷺ کے ارادہ سے نکلے۔ وہ کہتے ہیں کہ ماہ ِرجب 725ء میں حج بیت اللہ اور زیارت قبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادہ سے نکلا، نہ کوئی رفیق سفر تھا، نہ مونس اور دم ساز، یہ کٹھن گھڑی تھی لیکن میں نے زن ومرد اور احباب کی جدائی اس شوق ِسفر کے باعث گوارا کرلی، میں اپنے وطن سے اس طرح نکلا، جیسے چڑیا اپنے گھونسلے سے نکلتی ہے جب میں سفر کے ارادے سے نکلا تو میرے والدین بقید حیات تھے لیکن میں نے ان کی جدائی بھی گوارا کرلی، آمادۂ سفر ہوتے وقت میری عمر 22سال کی تھی۔ آپ اپنے شہر طنجہ سے چل کر تلمان پہنچے اور فرمانروائے افریقہ سلطان ابو یحییٰ کے دوسفیروں، ابو عبداللہ محمد بن ابی بکر بن علی ابراہیم نغزادی اور شیخ صالح ابو عبداللہ محمد بن الحسین بن عبداللہ قرشی زبیدی سے ملاقات کی۔ یہ دونوں بزرگ شہر تیونس میں عہدہ قضائے نکاح پر مامور تھے۔ وہاں سے ایک قافلے کے ہمراہ الجزائر پہنچے۔یہاں سے ہوتے ہوئے وہ مصر اور فلسطین کے علاقوں پر مشتمل سلطنت مملوک (Mamlul Empire) کی حدود میں داخل ہوئے۔ مصر میں چند روزہ قیام کے دوران انہوں نے تاریخی شہر اسکندریہ، غزہ اور قاہرہ کی سیاحت کی۔ جزیرہ نما عرب جانے کے لئے صحرائے سینائی (Desert Sinai) کے مروجہ راستے کو اختیار کرنے کے بجائے انہوں نے بحیرہ احمر کے راستے جدہ جانے کا فیصلہ کیا، تاہم راستے میں مقامی قزاقوں کی لوٹ مار کی وجہ سے انہیں واپس آنا پڑا۔ چنانچہ وہ صحرائے سینائی کو پار کرکے ایشیا (فلسطین) میں داخل ہوئے اور فلسطین کے مقدس مقامات کی سیاحت کی اور شام کے راستے مدینہ منورہ سے ہوتے ہوئے مکہ معظمہ پہنچے اور مناسک حج ادا کئے۔

مکہ معظمہ میں قیام کے دوران ابن بطوطہ نے مغربی ایشیا کی سیاحت کا فیصلہ کیا۔ ابن بطوطہ حاجیوں کے ایک قافلے کے ہمراہ عراق کے لئے روانہ ہوئے۔ عراق کے شہر نجف سے ہوتے ہوئے وہ دریائے فرات کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے جنوب میں واقع بصرہ پہنچے۔ عراق کی چند روزہ سیر کے بعد ایک قافلے کے ہمراہ ایران کی طرف سفر کا آغاز کیا اور جنوب مشرقی ایران میں واقع سلسلہ ہائے زاگروس (Zagros) میں داخل ہوئے۔ مراکش کے خشک اور بنجر کوہ ِاٹلس میں زندگی گزارنے والے کسی افریقی باشندے کے لئے زاگروس کی برف پوش چوٹیوں کا نظارہ مبہوت کر دینے والا تھا۔ (سلسلہ کوہ زاگرس یا سلسلہ کوہ زاگروس (Zagros Mountains) ایران اور عراق میں سب سے بڑی پہاڑی سلسلے کی تشکیل ہے۔ سلسلہ کوہ کی کل لمبائی 1500کلومیٹر ہے۔ سلسلہ کوہ زاگرس کا آغاز شمال مغربی ایران سے ہوتا ہے۔ یہ مغربی اور جنوب مغربی مرتفع ایران میں پھیلا ہوا ہے اور آبنائے ہرمز تک جاتا ہے)ابن بطوطہ نے اصفحان (Esfahan) اور شیراز کی سیاحت کی اور ایک بار پھر عراق میں آگئے۔ انہوں نے بغداد شہر میں 13ویں صدی کے دوران چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان (Hulagu Khan) کے ہاتھوں ڈھائی جانے والی تباہی کا مشاہدہ کیا۔ عراق کی سیاحت کے بعد انہوں نے ترکی کی سیاحت کی اور عراق کے راستے ہوتے ہوئے دوسری بار حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔

مصر میں اپنے قیام کے دوران ایک صاحب ِکرامات بزرگ سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اسکندریہ کے اولیائے کرام میں جو اس زمانہ میں موجود تھے۔ امام وقت عالم یکتا زاہد و متقی خدا سے ڈرنے والے ایک بزرگ برہان الدین اعرج تھے جن کا شمار وقت کے بہت بڑے عابدوں اور زاہدوں میں ہوتا تھا۔ اپنے زمانہ قیام اسکندریہ میں مجھے ان سے ملاقات کا موقع ملا تھا اور تین دن تک میں ان کا مہمان بھی رہا تھا۔ یہ بھی صاحب کرامات بزرگ تھے۔ میں ایک دن آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا: میں دیکھتا ہوں کہ تم بلادو دُور و دراز کی سیاحت کرو گے، تمہارا تمام بلاد کی سیاحت و گشت کا ارادہ ہے، میں نے عرض کیا ارادہ تو ہے حالانکہ اس زمانہ میں اس قدر ممالک دوردراز مثلاً ہند اور چین اور اچین (اچین ،غالباً افغانستان یا اُس کے کسی علاقے کا نام تھا۔ آج بھی موجودہ افغانستان کے صوبہ ننگر ہار کے ایک ضلع کا نام اچین ہے۔ ناقل) وغیرہ کی سیاحت کا خیال بھی نہ تھا۔ فرمایا: ان شاء اللہ تم میرے بھائی فریدالدین سے ہندوستان میں، رکن الدین زکریا سے سندھ اور برہان الدین سے چین میں ضرور ملو گے، تو اُن سے میرا سلام کہنا۔ مجھے آپ کے اس ارشاد سے بڑا تعجب ہوا اور اس مسافتِ بعیدہ کا خیال کرکے میرے رونگٹے گھڑے ہوگئے۔ غرض شیخ کے حسب ارشاد واقعی مجھے یہ سیاحت پیش آئی، ان مقامات میں میرا گزر بھی ہوا، اور ان حضرات سے ملا بھی، اور آپ کا سلام بھی ان حضرات تک پہنچا دیا۔

(سفرنامہ ابن بطوطہ صفحہ 32-31۔ ناشر نفیس اکیڈمی اردوبازار کراچی)

ابن بطوطہ اُس زمانے میں دریائے نیل کے ذریعہ سفر کی رُوداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’سمندر اور مصر (مقامی زبان میں قاہرہ کو مصر کہتے ہیں۔ ناقل) کے مابین نیل کے بہت سے شہر اور قصبے پاس پاس ایک دوسرے سے بالکل متصل ملتے ہیں۔ مسافر نیل کو اپنے ساتھ کسی زادِ راہ کی ضرورت نہیں۔ جہاں دل چاہے اتر جائیے۔ وضو کرکے نماز پڑھئے۔ بھوک لگے تو ہرچیز موجود جو چاہے خرید لیجئے۔ اسکندریہ سے مصر تک، اور مصر سے اسوان تک مسلسل بازار ملتے ہیں۔‘‘

(سفرنامہ ابن بطوطہ مترجم صفحہ 42)

یاد رہے کہ مصر (قاہرہ) یُوں تو بہت ہی قدیم شہر ہے بلکہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے لیکن موجودہ قاہرہ خلافت فاطمیہ کے عہد میں تعمیر ہوا تھا اور یہ کام ایک غلام جوہر کا کارنامہ ہے جو سسلی کا نو مسلم تھا اور جسے بارگاہِ خلافت میں وہ مرتبہ ملا جو کسی غلام کو کم ملا ہوگا۔ جوہر بہت بڑا فاتح بھی تھا۔ اس نے نہ صرف مصر چھینا، بلکہ بڑھتے بڑھتے شام تک پہنچ گیا اور یہ سارے علاقے خلافت فاطمیہ کے ماتحت کردیئے۔ جوہر کا کارنامہ صرف قاہرہ ہی نہیں ہے بلکہ جامع ازہر بھی اسی کی یادگار ہے۔

دوسری بار مناسک حج کی ادائیگی کے بعد ابن بطوطہ یمن جانے والے ایک قافلے کے ہمراہ بحیرہ عرب کی مشہور بندرگاہ عدن پہنچے۔ اس زمانے میں گرم مسالوں کے یورپین اور عرب تاجر عدن کے راستے جنوبی ہندوستان کی بندرگاہ کالی کٹ جاتے تھے۔ ابن بطوطہ نے عدن کے بازاروں میں لونگ، دار چینی اور کالی مرچ کے ڈھیر دیکھے۔ چند ہفتوں بعد وہ بحیرہ احمر کو پارکرتے ہوئے صومالیہ پہنچ گئے۔ وہاں انہوں نے صومالیہ، کینیا، تنزانیہ اورتنزانیہ میں واقع جزیرہ زین زی بار کی سیر کی۔ اس کے بعد ابن بطوطہ نے تیسری مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ مکہ معظمہ میں قیام کے دوران ابن بطوطہ کی ہندوستان کے بادشاہ سلطان محمد بن تغلق سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مکہ میں قیام کے دوران سلطان کے لئے مترجم کے فرائض سر انجام دیئے۔ اس بار بھی مراکش واپس جانے کی بجائے ابن بطوطہ نے یورپ کی سیاحت کا فیصلہ کیا۔ اس مرتبہ ابن بطوطہ ترکی اور جنوب مشرقی یورپ (یونان، بلغاریہ، یوگو سلاویہ اور جنوبی اٹلی) پر مشتمل بازنطینی سلطنت (Byzantine Empire) کی حدود میں داخل ہوئے۔ قسطنطنیہ میں بازنطینی حکمران اینڈ رونی کوس سوم (Andronikos III) سے ملاقات کی اور انہیں مشرق وسطی کے سیاسی حالات سے آگاہ کیا۔ استنبول کے بعد ابن بطوطہ یوکرائن پہنچے۔ وہ دریائے وولگا کو پار کرکے بحیرہ کیسپین کے شمالی کنارے پر واقع روسی بندرگاہ استراخان (Aastrakhan) پہنچے۔ وہاں چند دن گزارنے کے بعد قازقستان سے ہوتے ہوئے ازبکستان میں داخل ہوئے۔

یاد رہے کہ اپنے ابتدائی سفر کے دوران انہوں نے مصر، شام اور حجاز کے متعدد شافعی المسلک فقہا اور جید علماء سے اکتساب علم کیا اور علم فقہ و قضا میں اپنی علمی قابلیت کو پروان چڑھایا۔ان کی سیلانی طبیعت نے انہیں سیروتفریح پر آمادہ کیا اور انہوں نے طلب علم وتجارت کو حصول مقصد کا ذریعہ بناتے ہوئے ملک ملک سفر کا آغاز کرتے ہوئے یہ طے کیا کہ ایک راستے سے دوبارہ نہیں گزریں گے۔ اُن کا شوق سفر اُنہیں کسی خاص علاقے تک محدود نہ کرسکا بلکہ وہ یمن کے دشوار گزار راستوں کو طے کرتے ہوئے مصر، بغداد، شام، عراق، ایران، ترکستان، ماوراء النہر (یہ وسطِ ایشا کے ایک علاقے کا نام ہے جس میں موجودہ ازبکستان، تاجکستان اور جنوب مغربی قازقستان شامل ہیں۔ ماوراء النہر کے اہم ترین شہروں میں سمرقند، بخارا، خجند اور ترمذ شامل تھے)، بلخ (قدیم بلخ، خراسان کا ایک اہم ترین شہر تھا اور یہ موجودہ افغانستان کا سب سے قدیم شہر ہے) بدخشاں (شمال مشرقی افغانستان اور جنوب مشرقی تاجکستان میں ایک تاریخی علاقہ ہے)، آذربائیجان، عیسائیوں کے مرکزِ ثقافت قسطنطنیہ (قسطنطنیہ :استنبول کا پرانا نام ہے۔ یہ شہر یورپ اور ایشیا کے سنگم پر شاخ زریں اور بحیرہ مرمرہ کے کنارے واقع ہے او ر قرون وسطیٰ میں یورپ کا سب سے بڑا اور امیر ترین شہر تھا۔اُس زمانے میں قسطنطنیہ کو Vasileousa Polis یعنی شہروں کی ملکہ کہا جاتا تھا۔ قسطنطنیہ سن 330ء سے 395ء تک رومی سلطنت اور 395ء سے 1453ء تک بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت رہا اور 1453ء میں فتح کے بعد سے 1923ء تک سلطنت عثمانیہ کا دارالخلافہ رہا۔ فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد فاتح نے اس شہر کا نام اسلام بول رکھا مگر ترکوں کو اسلام بول، بولنے میں مشکل ہوتی تھی اس لیے وہ استنبول کہتے تھے اسی وجہ سے اس کا نام استنبول پڑگیا) تک بھی پہنچے اور بالآخر ہندوستان جا پہنچے۔ اپنے سفر کو انہوں نے طلب علم جبکہ تجارت کو حصول آمد کا ذریعہ بنایا۔ وہ جس علاقے سے گزرتے وہاں کے حکمرانوں، بادشاہوں، گورنروں، سلطانوں، علماء و صلحاء، امراء نیز اصحابِ علم وفضل سے ملاقاتیں کرتے اور اُنہیں اپنے سفر کے تفصیلی حالات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اسفار کی دلچسپ داستانیں سناتے۔ اُس زمانے میں اخبارات اور معلومات کے دیگر ذرائع میسر نہیں تھے۔اسلئے لوگوں کو دنیا کے زیادہ تر حالات سیاحوں اور تجارت پیشہ افراد کی زبانی معلوم ہوا کرتے تھے۔اسی وجہ سے سیاحوں کی داستانیں ہر طبقہ کے لوگوں کی دلچسپی کا باعث ہوتی تھیں۔

ابن بطوطہ مسلمان بادشاہ محمد بن تغلق کے زمانے میں سندھ کے راستے ہند آئے تھے۔ انہوں محمد بن تغلق کی علم دوستی اور علماء نوازی کی داستانیں سن رکھی تھیں اس لئے بادشاہ کے دربار میں جانے کے لئے سند ھ کے راستے ہندوستان میں داخل ہوئے۔انہوں نے سندھ کے شہروں کو دیکھا اور یہاں کے علماء اور لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور بالآخر دلی جا پہنچے۔سلطان محمدبن تغلق نے اُنہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور منصب قضا پر مامور کردیا۔اس طرح اُنہیں سارے ہندوستان کی سیروسیاحت کا اہم موقع میسر آگیا۔ سلطان نے انہیں سفیر بناکر چین بھیجا تو اُنہیں چین کے علاقوں میں مسلمانوں کے طرزِ بودوباش جاننے اور اقتدارو اختیار کے ایوانوں سے واقفیت پیدا کرنے کا موقع میسر آگیا۔ وہ خاقان ِ چین سے بھی ملے، اُنہوں نے چین کی تہذیب، ثقافت اور مدنیت کا بغور جائزہ لیا اور پھر ہندوستان واپس آگئے۔ ہندوستان کے مختلف شہروں کی سیاحت کے بعد وہ سیلان (ابن بطوطہ کے زمانے میں سری لنکا کا نام سیلان تھا جبکہ عرب اس خطے کو سراندیپ بھی کہتے تھے) گئے اور وہاں بدھوں کے قدیم آثار دیکھے، یہاں بھی اُنہیں سر آنکھوں پر بٹھایا گیا۔ وہ سراندیپ (سری لنکا میں سراندیپ نام کا ایک انتہائی دشوار گزار پہاڑ ہے جس کی چوٹی پر مسلمانوں کے نزدیک حضرت آدم ؑ کے پاؤں کا نشان بنا ہے۔ بدھ مت کے مطابق یہ نشان بدھا کا ہے اور ہندوؤں کے مطابق یہ نقش شیوا جی کا ہے) کی پہاڑی چوٹی پر پہنچے اور حضرت آدم ؑ کے نقش پا کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور بالآخر 28 سالہ سفر کے اختتام پر اپنے علاقہ بربر (افریقہ) یعنی مغرب اقصٰی (موجودہ مراکش) واپس آئے تو اُن کی زندگی کے پچاس برس بیت چکے تھے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے

؎مجھے خبر تھی مرا انتظار گھر میں رہا
یہ حادثہ تھا کہ میں عمر بھر سفر میں رہا

ابن بطوطہ کو اس طویل ترین سفر کے دوران جن خطرناک حالات اور سختیوں کا سامنا کرنا پڑا، وہ بذات ِ خوددکھوں بھری طویل داستان ہے۔ دوران سفر انہوں نے جن مشکلات کا سامنا کیا اُس کا کچھ اندازہ اُن کے سفر کے بالکل ابتداء میں پیش آنے والے ایک واقعہ سے کیا جا سکتا ہے۔ وہ ایک شہر بوانہ سے سفر کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
سوداگروں کے قافلہ کے جو لوگ ہمارے ساتھ تھے انہیں یہیں چھوڑا کیونکہ راستہ خطرناک تھا۔ اب میں پھر تنہا تھا، نہ کوئی ساتھی نہ رفیق، دشوار گذار منزلیں طے کرتا، سخت و صعب، گھاٹیاں پارکرتا اور راستہ کی صعوبتوں کا مقابلہ کرتے برابر آگے بڑھتا رہا۔ لیکن پھر بخار میں مبتلا ہوگیا، خوف و دہشت کے باعث سواری سے اترنے کی ہمت نہ تھی۔ اور بیماری نے یہ سکت بھی باقی نہ چھوڑی تھی۔ آخراپنے آپ کو خوب سواری سے باندھ لیا تاکہ کمزوری اور بیماری کے باعث گِر نہ جاؤں،آخر گرتا پڑتا میں تیونس پہنچا۔

؎سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں
ہر ایک موڑ پہ کچھ لوگ چھوٹ جاتے ہیں

اہل تیونس شیخ ابو عبداللہ زبیدی اور ابوطیب وغیرہ استقبال کے لئے باہر آئے ہوئے تھے، یہ سب لوگ آپس میں بہت گرم جوشی اور تپاک سے ملے، علیک سلیک ہوئی، مگر چونکہ مجھ سے کوئی متعارف نہ تھا۔ اس لئے نہ کسی نے مجھے سلام کیا نہ کچھ پوچھ گچھ کی۔ اس سرد مہری نے میرے دل کو پارہ پارہ کر دیا، اور تو کچھ مجھ سے نہ ہوسکا، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ بعض حاجیوں نے میرے اس شدّت احساس کا اندازہ کرلیا۔ وہ میرے پاس آئے سلام کیا، مزاج پرسی کی اور دل جوئی کی باتیں کرنے لگے۔

(سفرنامہ ابن بطوطہ (مترجم) صفحہ 23-22۔ ناشر نفیس اکیڈمی اردوبازار کراچی)

ابن بطوطہ نے اپنے طویل سفر کے دوران متعدد شادیاں بھی کیں۔ انہیں نئی نئی شادیاں کرنے کا بہت شوق تھا۔ طویل سیاحت کے دوران جہاں جی چاہا شادی رچالی پھر طلاق۔

(سفرنامہ ابن بطوطہ (مترجم) صفحہ 26حاشیہ)

ابن بطوطہ کے سفر نامے سے متعلق دو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ بعض تاریخ سے ناواقف ذرائع نے لکھا ہے کہ ابن بطوطہ اپنے سفر کے اختتام پر ایران پہنچے اور انہوں نے ایرانی بادشاہ ابو عنان فارس کے کہنے پر اپنا سفر نامہ لکھا جبکہ تاریخی اعتبار سے یہ بات غلط ہے۔ شاید ابوعنان کے نام سے جڑے ’’فارس‘‘ کے لفظ سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی ہے کہ وہ ایران کا بادشاہ تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ابو عنان فارس، ایران کی بجائے مراکش کا سلطان تھا۔ وہ 1329ء میں مراکش میں پیدا ہوا اور 1348ء میں اپنے والد ابوالحسن ابن اوتھان کی وفات کے بعد مراکش کا حکمران بنا۔

ابن بطوطہ کے سفر نامے سے متعلق دوسری غلط فہمی، ابن جوزی کے نام سے متعلق ہے۔ بعض ذرائع نے مشہور عراقی عالم، شاعر اور مورخ علامہ ابن جوزی کو ابن بطوطہ کے سفر نامے کا مصنف لکھا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ علامہ ابن جوزی، ابن بطوطہ کے دنیا میں آنے سے لگ بھگ سو سال پہلے انتقال کر چکے تھے۔ اُن کا زمانہ 1116ء سے 1206ء کے درمیان ہے جب کہ ابن بطوطہ کے سفر نامے کے مصنف ابن جوزی الکلبی کا زمانہ 1321ء سے 1357ء کے درمیان ہے۔

ماخذ: سفر نامہ ابن بطوطہ۔ مترجم رئیس احمد جعفری۔ ناشر نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی۔ طبع پنجم: دسمبر 1986ء

https://www.urduweb.org/mehfil/threads/93057

(ظہیر احمد طاہر نائب صدر مجلس انصاراللہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 جولائی 2021