پھر مضمون پڑھنے والے نے بیان کیا کہ قرآن میں لکھا ہے کہ عورتیں کھیتوں کی مانند صرف شہوت رانی کا ذریعہ ہیں اب دیکھنا چاہئے کہ یہ ناپاک طبع ہندو افترا میں کہاں تک بڑھتا جاتا ہے اور کیسے اپنی طرف سے الفاظ تراش کر قرآن شریف کی طرف منسوب کرتاہے ایسے مفتری کے مقابل پر بجز اس کے ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ لَعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ۔ قرآن شریف میں صرف یہ آیت ہے۔ نِسَآؤُکُمۡ حَرۡثٌ لَّکُمۡ ۪ فَاۡتُوۡا حَرۡثَکُمۡ اَنّٰی شِئۡتُم یعنی تمہاری عورتیں تمہاری اولاد پیدا ہونے کے لئے ایک کھیتی ہیں۔ پس تم اپنی کھیتی کی طرف جس طور سے چاہو آؤ۔ صرف کھیتی ہونے کا لحاظ رکھو یعنی اس طور سے صحبت نہ کرو جو اولاد کی مانع ہو ……… عورتوں کا نام کھیتی رکھا یعنی ایسی زمین جس میں ہر قسم کا اناج اُگتا ہے پس اس آیت میں ظاہر فرمایا کہ چونکہ عورت درحقیقت کھیتی کی مانند ہے جس سے اناج کی طر ح اولاد پیدا ہوتی ہے سو یہ جائز نہیں کہ اُس کھیتی کو اولاد پیدا ہونے سے روکا جاوے۔ ہاں اگرعورت بیمار ہو اور یقین ہوکہ حمل ہونے سے اُس کی موت کا خطرہ ہوگا ایسا ہی صحتِ نیّت سے کوئی اور مانع ہو تو یہ صورتیں مستثنیٰ ہیں ورنہ عند الشرع ہرگز جائز نہیں کہ اولاد ہونے سے روکا جائے۔
غرض جب کہ خدا تعالیٰ نے عورت کا نام کھیتی رکھا تو ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اسی واسطے اُس کا نام کھیتی رکھا کہ اولاد پیدا ہونے کی جگہ اُس کو قرار دیا اور نکاح کے اغراض میں سے ایک یہ بھی غرض رکھی کہ تا اس نکاح سے خدا کے بندے پیدا ہوں جو اُس کو یاد کریں۔ دوسری غرض اللہ تعالیٰ نے یہ بھی قرار دی ہے کہ تا مرد اپنی بیوی کے ذریعہ اور بیوی اپنے خاوند کے ذریعہ سے بدنظری اور بدعملی سے محفوظ رہے۔ تیسری غرض یہ بھی قرار دی ہے کہ تا باہم اُنس ہوکر تنہائی کے رنج سے محفوظ رہیں۔ یہ سب آیتیں قرآن شریف میں موجود ہیں۔
(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ293)