• 30 اپریل, 2024

شادی کے بعد الگ الگ گھر ہونا چاہیے

بعض گھروں میں اس لئے فساد اور لڑائی جھگڑا ہوتا ہے کہ لڑکی بیاہ کر جب رخصت ہوتی ہے تو خاوند کے پاس علیحدہ گھر نہیں ہوتا اور وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہ رہا ہوتا ہے۔ اس میں بعض حالات میں تو مجبوری ہوتی ہے کہ لڑکے کی اتنی آمد نہیں ہے کہ وہ علیحدہ گھر لے سکے یا لڑکا ابھی پڑھ رہا ہے تو مجبوری ہے اور لڑکی کو بھی پتا ہونا چاہئے کہ لڑکے کی آمد یا مجبوری کی وجہ سے علیحدہ گھر لینا مشکل ہے تو پھر ایسے حالات میں کچھ عرصہ وہ سسرال میں گزارہ کرے۔ لیکن بعض دفعہ لڑکی اور اس کے والدین جلدبازی کی وجہ سے رشتے ہی تڑوا دیتے ہیں۔ شادی بھی ہو گئی اور پھر خلع لے لی۔ یہ غلط طریقہ کار ہے۔ اگر سسرال میں نہیں رہ سکتے تو پہلے بتائیں اور پھر اتنی جلدی شادی نہ کریں کیونکہ لڑکے والوں کے حالات ایسے نہیں ہیں۔ لیکن بعض لڑکے اپنی غیر ذمہ دارانہ طبیعت یا ماں باپ کے کہنے پر، ان کے دباؤ پر ماں باپ کے ساتھ رہتے ہیں حالانکہ علیحدہ گھر لے سکتے ہیں اور بہانہ ہے کہ ماں باپ بوڑھے ہیں۔ اس لئے ان کے ساتھ رہنا ضروری ہے جبکہ دوسرے بھائی بہن بھی والدین کے ساتھ ہوتے ہیں یا پھر اگر وہ نہ بھی ہوں تو والدین کی عمومی صحت اور حالت ایسی نہیں ہے کہ وہ علیحدہ نہ رہ سکتے ہوں۔ ا س میں صرف لڑکے کے ماں باپ کی ضد ہوتی ہے۔ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: لَیۡسَ عَلَی الۡاَعۡمٰی حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡاَعۡرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡمَرِیۡضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَنۡ تَاۡکُلُوۡا مِنۡۢ بُیُوۡتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اٰبَآئِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اُمَّہٰتِکُمۡ۔ (النور:62) یعنی اندھے پر کوئی حرج نہیں اور نہ لولے لنگڑے پر حرج ہے اور نہ مریض پر اور نہ تم لوگوں پر کہ تم اپنے گھروں سے یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے کھانا کھاؤ یا اپنی ماؤں کے گھروں سے۔ یہ لمبی آیت ہے لیکن اتنے حصہ کی وضاحت فرماتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے خوبصورت انداز میں اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ فرمایا کہ ’’ہندوستان میں لوگ اکثر اپنے گھر میں خصوصاً ساس بہو کی لڑائی کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ قرآن مجید پر عمل کریں تو ایسا نہ ہو۔ دیکھو اس میں (یعنی اس آیت میں) ارشاد ہے کہ گھر الگ الگ ہوں۔ ماں کا گھر الگ۔ اولاد شادی شدہ کا گھر الگ۔‘‘ (جب الگ الگ گھر ہوں گے تبھی تو کھانا کھانے کی اجازت ہے۔)

(حقائق الفرقان جلد3 صفحہ233)

پس سوائے کسی مجبوری کے گھر الگ ہونے چاہئیں۔ گھروں کی علیحدگی سے جہاں ساس بہو اور نند بھابھی کے مسائل ختم ہوں گے وہاں لڑکے اور لڑکی کو اپنی ذمہ داری کا احساس بھی ہو گا۔

یہاں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ بعض لوگ اپنی لڑکیوں کے رشتہ سے پہلے لڑکے سے پوچھتے ہیں کہ اس کا اپنا گھر ہے یعنی گھر کا مالک ہے۔ اس کے پاس اس گھر کی ملکیت ہے۔ اگر نہیں تو رشتہ نہیں کرتے۔ یہ طریق بھی بڑا غلط طریقہ کار ہے۔ پس دنیاوی لالچ کی بجائے لڑکی والوں کو لڑکے کا دین دیکھنا چاہئے۔ گھر تو آہستہ آہستہ بن ہی جاتے ہیں اگر گھر میں پیار محبت ہو۔

(خطبہ جمعہ 3؍ مارچ 2017ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 اگست 2021