• 30 اپریل, 2024

نیکی کے دائرے کو کس قدر وسیع کرنا چاہئے؟

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اس بارے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’یاد رکھو ہمدردی کا دائرہ میرے نزدیک بہت وسیع ہے۔ کسی قوم اور فرد کو الگ نہ کرے۔ میں آجکل کے جاہلوں کی طرح یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں سے ہی مخصوص کرو۔ نہیں۔ مَیں کہتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو۔ خواہ وہ کوئی ہو۔ ہندو ہو یا مسلمان یا کوئی اور۔ مَیں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسند نہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں بعض اس قسم کے خیالات بھی رکھتے ہیں کہ اگر ایک شِیرے کے مٹکے میں ہاتھ ڈالا جاوے اور پھر اس کو تِلوں میں ڈال کر تِل لگائے جاویں تو جس قدر تل اس کو لگ جاویں اس قدر دھوکہ اور فریب دوسرے لوگوں کو دے سکتے ہیں۔‘‘ (یہ بعض غیر احمدیوں کے نظریے ہیں کہ شیرا یا شہد کوئی میٹھی چیز لیں۔ ہاتھ ڈالو باہر نکالو باہر نکال کے تلوں کے ڈھیر میں ہاتھ ڈالو اور جتنے تل ہاتھ کے ساتھ لگ جائیں اتنا تم دھوکہ دے سکتے ہو۔ اتنا دھوکہ دینا جائز ہے۔ اتنے لوگوں کے حقوق غصب کرنا جائز ہیں۔ فرمایا کہ یہ سب چیزیں انتہائی گناہ ہیں۔ یہ بالکل جائز نہیں۔ فرمایا کہ) ’’ان کی ایسی بیہودہ اور خیالی باتوں نے بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے اور ان کو قریباً وحشی اور درندہ بنا دیا ہے۔‘‘ (یہی آجکل مسلمانوں کی حالت ہے۔) ’’مگر مَیں تمہیں بار بار یہی نصیحت کرتا ہوں کہ تم ہرگز ہرگز اپنی ہمدردی کے دائرے کو محدودنہ کرو اور ہمدردی کے لئے اُس تعلیم کی پیروی کرو جو اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔ یعنی اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی (النحل:91) یعنی اوّل نیکی کرنے میں تم عدل کو ملحوظ رکھو۔ جو شخص تم سے نیکی کرے تم بھی اس کے ساتھ نیکی کرو۔ اور پھر دوسرا درجہ یہ ہے کہ تم اس سے بھی بڑھ کر اس سے سلوک کرو۔ یہ احسان ہے۔ احسان کا درجہ اگرچہ عدل سے بڑھا ہوا ہے اور یہ بڑی بھاری نیکی ہے لیکن کبھی نہ کبھی ممکن ہے احسان والا اپنا احسان جتلاوے۔ مگر ان سب سے بڑھ کر ایک درجہ ہے کہ انسان ایسے طور پر نیکی کرے جو محبتِ ذاتی کے رنگ میں ہو جس میں احسان نمائی کا بھی کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے۔ جیسے ماں اپنے بچّہ کی پرورش کرتی ہے۔ وہ اس پرورش میں کسی اجر اور صلہ کی خواستگار نہیں ہوتی بلکہ ایک طبعی جوش ہوتا ہے جو بچے کے لئے اپنے سارے سکھ اور آرام قربان کر دیتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی بادشاہ کسی ماں کو حکم دے دے کہ تُو اپنے بچّہ کو دودھ مت پلا اور اگر ایسا کرنے سے بچہ ضائع بھی ہو جاوے تو اس کو کوئی سزا نہیں ہو گی۔ تو کیا ماں ایسا حکم سن کر خوش ہو گی؟ اور اس کی تعمیل کرے گی؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ وہ تو اپنے دل میں ایسے بادشاہ کو کوسے گی کہ کیوں اس نے ایسا حکم دیا۔ پس اس طریق پر نیکی ہو کہ اسے طبعی مرتبہ تک پہنچایا جاوے کیونکہ جب کوئی شئے ترقی کرتے کرتے اپنے طبعی کمال تک پہنچ جاتی ہے اُس وقت وہ کامل ہوتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ282-283۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

پس نیکیاں ایسی ہوں کہ دل سے ہر وقت نیکیوں کا خیال آتا رہے۔ آپ نے فرمایا کہ ’’طبعی جوش سے نوع انسان کی ہمدردی کا نام اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی ہے اور اس ترتیب سے خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ اگر تم پورا نیک بننا چاہتے ہو تو اپنی نیکی کو اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی۔ یعنی طبعی درجہ تک پہنچاؤ۔ جب تک کوئی شئے ترقی کرتی کرتی اپنے اس طبعی مرکز تک نہیں پہنچتی تب تک وہ کمال کا درجہ حاصل نہیں کرتی۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ283 حاشیہ۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

فرمایا کہ ’’یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نیکی کو بہت پسند کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے۔ اگر وہ بدی کو پسند کرتا تو بدی کی تاکید کرتا مگر اللہ تعالیٰ کی شان اس سے پاک ہے۔ (سُبْحَانَہٗ تَعَالٰی شَاْنہٗ۔)‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ284۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ نیکیوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بجا لانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ نے فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ کا جو مطمح نظر، جو ٹارگٹ ہمارے لئے مقرر فرمایا ہے اسے ہم حاصل کرنے والے ہوں۔

(خطبہ جمعہ 27 اکتوبر 2017ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 اگست 2021