• 14 مئی, 2025

کتاب، تعلیم کی تیاری (قسط 6)

کتاب، تعلیم کی تیاری
قسط 6

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔

1۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
2۔ نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
3۔بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ کے حضور ہمارے فرائض

٭… بعض لوگوں کا اعتقاد ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ (البقرہ: 21) ہے اس واسطے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ جھوٹ بولے۔ ایسا اعتقاد بے ادبی میں داخل ہے۔ ہر ایک امر جو خدا تعالیٰ کے وعدہ،اس کی ذات، جلال اور صفات کے برخلاف ہے وہ اس کی طرف منسوب کرنا بڑا گناہ ہے۔ جو امر اس کی صفات کے برخلاف ہے اُن کی طرف اس کی توجہ ہی نہیں۔

(ملفوظات۔ جلد8 صفحہ10۔ ایڈیشن 1984ء)

٭… خدا تعالیٰ کی طلب میں جو شخص پوری کوشش نہیں کرتا وہ بھی کافر ہے۔ ہر ایک چیز کو جب اس کی حد مقررہ تک پہنچایا جاتا ہے تب اس سے فائدہ حاصل ہو سکتاہے۔ جیسے اس زمین میں چالیس یا پچاس ہاتھ کھودنے سے کنواں تیار ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص صرف چار پانچ ہاتھ کھود کر چھوڑ دے اور کہہ دے کہ یہاں پانی نہیں ہے تو یہ اس کی غلطی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس شخص نے حقِ محنت ادا نہیں کیا۔

(ملفوظات۔ جلد8 صفحہ32۔ ایڈیشن 1984ء)

٭… اولاد کا ابتلاء بھی بہت بڑا ابتلاء ہے۔ اگر اولاد صالح ہو تو پھر کس بات کی پروا ہو سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ (الاعراف: 197) یعنی اﷲ تعالیٰ آپ صالحین کا متولی اور متکفل ہوتا ہے۔ اگر بدبخت ہے تو خواہ لاکھوں روپیہ اس کے لئے چھوڑ جاؤ وہ بدکاریوں میں تباہ کرکے پھر قلاش ہوجائے گی۔ اور ان مصائب اور مشکلات میں پڑے گی جو اس کے لئے لازمی ہیں۔ جو شخص اپنی رائے کو خدا تعالیٰ کی رائے اور منشا سے متفق کرتا ہے وہ اولاد کی طرف سے مطمئن ہو جاتا ہے اور وہ اسی طرح پر ہے کہ اس کی صلاحیت کے لئے کوشش کرے اور دعائیں کرے۔ اس صورت میں خود اﷲ تعالیٰ اس کا تکفل کرے گا۔ اور اگر بدچلن ہے تو جائے جہنّم میں۔ اس کی پروا تک نہ کرے۔

حضرت داؤد علیہ السّلام کا ایک قول ہے کہ میں بچّہ تھا۔ جوان ہوا۔ اب بوڑھا ہوگیا۔ میں نے متقی کو کبھی ایسی حالت میں نہیں دیکھا کہ اسے رزق کی مار ہو اور نہ اس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے دیکھا۔ اﷲ تعالیٰ تو کئی پشت تک رعایت رکھتا ہے۔

پس خود نیک بنو اور اپنی اولاد کے لئے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقوٰی کا ہو جاؤ اور اس کو متقی اور دیندار بنانے کے لئے سعی اور دُعا کرو۔ جس قدر کوشش تم ان کے لئے مال جمع کرنے کی کرتے ہو اسی قدر کوشش اس امر میں کرو۔

خوب یاد رکھو کہ جب تک خدا تعالیٰ سے رشتہ نہ ہو اور سچا تعلق اس کے ساتھ نہ ہو جاوے۔ کوئی چیز نفع نہیں دے سکتی۔ یہودیوں کو دیکھو کہ کیا وہ پیغمبروں کی اولاد نہیں؟ یہی وہ قوم ہے جو اس پر ناز کیا کرتی تھی اور کہا کرتی تھی نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ (المائدہ: 19) ہم اﷲ تعالیٰ کے فرزند اور اس کے محبوب ہیں مگر جب انہوں نے خدا تعالیٰ سے رشتہ توڑ دیا اور دُنیا ہی دُنیا کو مقدم کر لیا تو کیا نتیجہ ہوا؟ خدا تعالیٰ نے اسے سؤر اور بندر کہا۔ اور اب جو حالت ان کی مال و دولت ہوتے ہوئے بھی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔

پس وہ کام کرو جو اولاد کے لئے بہترین نمونہ اور سبق ہو اور اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے اول خود اپنی اصلاح کرو۔ اگر تم اعلیٰ درجہ کے متقی اور پرہیزگار بن جاؤ گے۔ اور خدا تعالیٰ کو راضی کر لوگے تو یقین کیا جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ تمہاری اولاد کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرے گا۔ قرآن شریف میں خضر اور موسیٰ علیہما السّلام کا قصہ درج ہے کہ ان دونوں نے مِل کر ایک دیوار کو بنا دیا جو یتیم بچوں کی تھی وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَکَانَ اَبُوْھُمَا صَالِحًا (الکھف:83) ان کا والد صالح تھا۔ یہ ذکر نہیں کیا کہ وہ آپ کیسے تھے۔ پس اس مقصد کو حاصل کرو۔اولاد کے لئے ہمیشہ اس کی نیکی کی خواہش کرو۔ اگر وہ دین اور دیانت سے باہر چلے جاویں۔ پھر کیا؟ اس قسم کے امور اکثر لوگوں کو پیش آجاتے ہیں۔ بددیانتی خواہ تجارت کے ذریعہ ہو یا رشوت کے ذریعہ یا زراعت کے ذریعہ جس میں حقوقِ شرکاء کو تلف کیا جاتا ہے۔

اس کی وجہ یہی میری سمجھ میں آتی ہے کہ اولاد کے لئے خواہش ہوتی ہے کیونکہ بعض اوقات صاحب جائیداد لوگوں کو یہ کہتے سُنا ہے کہ کوئی اولاد ہو جاوے جو اس جائیداد کی وارث ہو تاکہ غیروں کے ہاتھ میں نہ چلی جاوے مگر وہ نہیں جانتے کہ جب مَر گئے تو شرکاء کون اور اولاد کون۔ سب ہی تیرے لئے تو غیر ہیں۔

اولاد کے لئے اگر خواہش ہو تو اس غرض سے ہو کہ وہ خادم دین ہو۔

غرض حق العباد میں پیچ در پیچ مشکلات ہیں۔ جب تک انسان ان میں سے نکلے نہیں مومن نہیں ہو سکتا۔ نِری باتیں ہی باتیں ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا کسی سے رشتہ ناطہ نہیں۔ اس کے ہاں اس کی بھی کچھ پروا نہیں کہ کوئی سیّد ہے یا کون ہے۔ آنحضرت ﷺ نے خود فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ یہ خیال مت کرنا کہ میرا باپ پیغمبر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر کوئی بھی بچ نہیں سکتا۔ کسی نے پوچھا کہ کیا آپ بھی؟ فرمایا ہاں۔ میں بھی۔

(ملفوظات۔ جلد8 صفحہ 109-111۔ ایڈیشن 1984ء)

نفس کے ہم پر حقوق

٭… اب ان باتوں کو مِلا کر غور کرو کہ آپؐ آئے ایسے وقت جبکہ بالکل تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ جیسا کہ فرمایا اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ۔ (القدر:2) ایک لیلۃ القدر تو وہ ہے جو پچھلے حصّہ رات میں ہوتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ تجلی فرماتا ہے اور ہاتھ پھیلاتا ہے کہ کوئی دُعا کرنے والا اور استغفار کرنے والا ہے جو میں اس کو قبول کروں۔ لیکن ایک معنے اس کے اَور ہیں جس سے بدقسمتی سے علماء مخالف اور منکر ہیں۔ اور وہ یہ ہیں کہ ہم نے قرآن کو ایسی رات میں اُتارا ہے کہ تاریک و تار تھی اور وہ ایک مستعد مصلح کی خواہاں تھی۔ خدا تعالیٰ نے انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے جبکہ اس نے فرمایا۔ وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ۔ (الذاریات: 57) پھر جب انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ تاریکی ہی میں پڑا رہے۔ ایسے زمانے میں بالطبع اس کی ذات جوش مارتی ہے کہ کوئی مصلح پیدا ہو۔ پس اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ۔ اس زمانہ ضرورت بعثت آنحضرت ﷺ کی ایک اَور دلیل ہے اور انجام اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ (المائدہ: 4) میں فرما دیا۔ گویا یہ باب نبوت کی دوسری فصل ہے۔ اکمال سے یہی مطلب نہیں کہ سُورتیں اُتار دیں بلکہ تکمیل نفس اور تطہیر قلب کی۔ وحشیوں سے انسان پھر اس کے بعد عقلمند اور بااخلاق انسان اور پھر باخدا انسان بنا دیا اور تطہیر نفس، تکمیل اور تہذیب نفس کے مدارج طے کرا دیئے۔ اور اسی طرح پر کتاب اللہ کو بھی پُورا اور کامل کر دیا۔ یہانتک کہ کوئی سچائی اور صداقت نہیں جو قرآن شریف میں نہ ہو۔ میں نے اگنی ہوتریؔ کو بارہا کہا کہ کوئی ایسی سچائی بتاؤ جو قرآن شریف میں نہ ہو مگر وہ نہ بتا سکا۔ ایسا ہی ایک زمانہ مجھ پر گذرا ہے کہ میں نے بائبل کو سامنے رکھ کر دیکھا۔ جن باتوں پر عیسائی ناز کرتے ہیں۔ وہ تمام سچائیاں مستقل طور پر اور نہایت ہی اکمل طور پر قرآن مجید میں موجود ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں کو اس طرف توجہ نہیں۔ وہ قرآن شریف پر تدبّر ہی نہیں کرتے اور نہ ان کے دل میں کچھ عظمت ہے۔ ورنہ یہ تو ایسا فخر کا مقام ہے کہ اس کی نظیر دوسروں میں ہے ہی نہیں۔

(ملفوظات۔ جلد8 صفحہ 398-399۔ ایڈیشن 1984ء)

٭… نفس کو تین قسم پر تقسیم کیا ہے۔ نفس امّارہ، نفس لوّامہ، نفس مطمئنّہ۔ ایک نفس زکیہ بھی ہوتا ہے۔مگر وہ پچپن کی حالت ہے جب گناہ ہوتا ہی نہیں اس لئے اس نفس کو چھوڑ کر بلوغ کے بعد تین نفسوں ہی کی بحث کی ہے۔ نفس امّارہ کی وہ حالت ہے جب انسان شیطان اور نفس کا بندہ ہوتا ہے اور نفسانی خواہشوں کا غلام اور اسیر ہو جاتا ہے۔ جو حکم نفس کرتا ہے اس کی تعمیل کے واسطے اس طرح تیار ہو جاتا ہے جیسے ایک غلام دست بستہ اپنے مالک کے حکم کی تعمیل کے لئے مستعد ہو تا ہے۔ اس وقت یہ نفس کا غلام ہو کر جو وہ کہے یہ کرتا ہے۔وہ کہے خون کر۔ تو یہ کرتا ہے۔ زنا کہے، چوری کہے غرض جو کچھ بھی کہے سب کے لئے تیار ہوتا ہے۔ کوئی بدی کوئی بُرا کام ہو جو نفس کہے یہ غلاموں کی طرح کر دیتا ہے۔یہ نفس امارہ کی حالت ہے اور یہ وہ شخص ہے جو نفسِ امّارہ کا تابع ہے۔

اس کے بعد نفس لوّامہ ہے۔ یہ ایسی حالت ہے کہ گناہ تو اس سے بھی سرزد ہوتے رہتے ہیں۔ مگر وہ نفس کو ملامت بھی کرتا رہتا ہے اور اس تدبیر اور کو شش میں لگا رہتا ہے کہ اُسے گناہ سے نجات مل جائے۔ جو لوگ نفس لوّامہ کے ما تحت یا اس حالت میں ہوتے ہیں وہ ایک جنگ کی حالت میں ہوتے ہیں۔ یعنی شیطان اور نفس سے جنگ کرتے رہتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نفس غالب آکر لغزش ہو جاتی ہے اور کبھی خود نفس پر غالب آ جاتے اور اس کو دبا لیتے ہیں۔ یہ لوگ نفس امّارہ والوں سے ترقی کر جاتے ہیں۔ نفس امارہ والے انسان اور دوسرے بہائم میں کوئی فرق نہیں ہو تا جیسے کتا یا بلی جب کوئی برتن ننگا دیکھتے ہیں تو فوراً جا پڑتے ہیں اور نہیں دیکھتے کہ وہ چیز ان کا حق ہے یا نہیں۔ اسی طرح پر نفس امارہ کے غلام انسان کو جب کسی بدی کا موقعہ ملتا ہے تو فو راًاُسے کر بیٹھتا ہے اور تیار رہتا ہے۔اگر راستہ میں دو چار روپے پڑے ہوں تو فی الفور اُن کے اُٹھانے کو تیار ہو جائے گا اور نہیں سوچے گا کہ اس کو اُن کے لینے کا حق ہے یا نہیں مگر لوّامہ والے کی یہ حالت نہیں۔ وہ حالت جنگ میں ہے جس میں کبھی نفس غالب کبھی وہ، ابھی کامل فتح نہیں ہوئی۔

مگر تیسری حالت جو نفس مطمئنّہ کی حالت ہے یہ وہ حالت ہے جب ساری لڑائیوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور کامل فتح ہو جاتی ہے اسی لئے اس کا نام نفس مطمئنّہ رکھا ہے یعنی اطمینان یا فتہ۔ اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر سچا ایمان لاتا ہے اور یقین کرتا ہے کہ واقعی خدا ہے۔ نفس مطمئنّہ کی انتہائی حد خدا پر ایمان ہوتا ہے کیونکہ کامل اطمینان اور تسلی اسی وقت ملتی ہے جب اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ہو۔

(ملفوظات۔ جلد5صفحہ367-368۔ ایڈیشن 2018ء)

بنی نوع کے ہم پر حقوق

٭… یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ایک طرف انبیاء و رُسل اور خدا تعالیٰ کے مامورین اہلِ دنیا سے نفور ہوتے ہیں اور دوسری طرف مخلوق کے لئے ان کے دل میں اس قدر ہمدردی ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے لئے بھی خطرہ میں ڈال دیتے ہیں اور خود ان کی جان جانے کا اندیشہ ہوتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کی نسبت قرآن شریف میں فرماتا ہے لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ۔ (الشعراء:4) یہ کس قدر ہمدردی اور خیر خواہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں فرمایا ہے کہ تو ان لوگوں کے مومن نہ ہونے کے متعلق اس قدر ہمّ و غم نہ کر۔ اس غم میں شاید تو اپنی جان ہی دے دے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمدردیٔ مخلوق میں کہاں تک بڑھ جاتے ہیں۔ اس قسم کی ہمدردی کا نمونہ کسی اَور میں نہیں پایا۔ یہاں تک کہ ماں باپ اور دوسرے اقارب میں بھی ایسی ہمدردی نہیں ہوسکتی۔

مخلوق تو انہیں کاذب اور مفتری کہتی ہے اور وہ مخلوق کے لئے مرتے ہیں۔ یقیناً یاد رکھو کہ یہ ہمدردی والدین میں بھی نہیں ہوتی اس لئے کہ وہ جب دیکھتے ہیں کہ اولاد سرکش اور نافرمان ہے یا اَور نقص اس میں پاتے ہیں۔ مگر انبیاء رُسل کی یہ عادت نہیں ہوتی۔ وہ مخلوق کو دیکھتے ہیں کہ اُن پر حملہ کرتی اور ستاتی ہے لیکن وہ اِس کے لئے دعا کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ لوگوں کی ہدایت کے لئے اس قدر دُعا کرتے تھے جس کا نمونہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں ایک پیاس لگا دی تھی کہ لوگ مسلمان ہوں اور خدائے واحد کے پرستار ہوں۔ جس قدر کوئی نبی عظیم الشان ہوتا ہے اسی قدر یہ پیاس زیادہ ہوتی ہے اور یہ پیاس جس قدر تیز ہوتی ہے اسی قدر جذب اور کشش اس میں ہوتی ہے۔ آنحضرت ﷺ چونکہ خاتم الانبیاء اور جمیع کمالات نبوت کے مظہر تھے اسی لئے یہ پیاس آپ میں بہت زیادہ تھی اور چونکہ یہ پیاس بہت تھی اسی واسطے آپ میں جذب اور کشش کی قوت بھی تمام راستبازوں اور ماموروں سے بڑھ کر تھی جس کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ آپ کی زندگی ہی میں کل عرب مسلمان ہوگیا۔ یہ کشش اور جذب جو مامورین کو دیا جاتا ہے وہ مستعد دلوں کو تو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور ان لوگوں کو جو اس سے حصہ نہیں رکھتے دشمنی میں ترقی کرنے کا موقعہ دیتا ہے۔

(ملفوظات۔ جلد8 صفحہ80-81۔ ایڈیشن 1984ء)

٭… دنیا میں لاکھوں بکریاں بھیڑیں ذبح ہوتی ہیں لیکن کوئی ان کے سرہانے بیٹھ کر نہیں روتا اس کا کیا باعث ہے؟ یہی کہ ان کا خدا تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایسے انسان کی ہلاکت کی بھی آسمان پر کوئی پروا نہیں ہوتی جو ا س سے سچا تعلق نہیں رکھتا۔ انسان اگر خدا تعالیٰ سے سچا تعلق رکھتا ہے تو اشرف المخلوقات ہے ورنہ کیڑوں سے بھی بد تر ہے۔ اس میں دو اُنس ہیں۔ ایک انس احکام الٰہی سے (جو ہو تو وہ کامل آدم ہے ورنہ وہ مردہ کیڑا ہے)۔ دوم مخلوق الٰہی سے۔ دنیا میں دیکھا جاتا ہے کہ کئی ایک محض بے گناہ قید ہو جاتے ہیں اور ظالمانہ دست اندازیوں کا نشانہ بنتے ہیں مگر اس کا باعث یہ ہوتا ہے کہ وہ خد اتعالیٰ کے احکام کی پوری پروا نہیں کرتے اور دعاؤں سے اس کی پناہ نہیں چاہتے اور شریعت میں بالکل لا پروا ہوتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ بھی ان سے لا اُبالی کا معاملہ کرتا ہے ورنہ ان کا خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہوتا تو ہرگز ممکن نہ تھا کہ وہ اپنے دوست کو دشمنوں کے ہاتھوں میں یُوں چھوڑے کیونکہ وہ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ (آل عمران: 69) ہونے اور نَحۡنُ اَوۡلِیٰٓؤُکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ (حٰمٓ السجدۃ: 32) کا وعدہ کرتا ہے۔

آدم علیہ السلام کامل انسان تھے تو فرشتوں کو سجدہ (اطاعت) کا حکم ہوا۔ اسی طرح اگر ہم میں ہر ایک آدم بنے تو وہ بھی فرشتوں سے سجدہ کا مستحق ہے۔

(ملفوظات۔ جلد8 صفحہ129-130۔ ایڈیشن 1984ء)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 اگست 2021