• 25 اپریل, 2024

ارکان نماز آداب خدمتگاران ہیں

’’ارکان نماز دراصل روحانی نشست و برخاست ہیں۔ انسان کو خدا تعالیٰ کے روبرو کھڑا ہونا پڑتا ہے اور قیام بھی آداب خدمتگاران میں سے ہے۔ رکوع جو دوسرا حصہ ہے بتلاتا ہے کہ گویا تیاری ہے کہ وہ تعمیلِ حکم کو کس قدر گردن جھکاتا ہے۔ اور سجدہ کمالِ آداب اور کمالِ تذلّل اور نیستی کو جو عبادت کا مقصود ہے ظاہر کرتا ہے۔ یہ آداب اور طُرق ہیں جو خدا تعالیٰ نے بطور یادداشت کے مقرر کر دئیے ہیں اور جسم کو باطنی طریق سے حصہ دینے کی خاطر ان کو مقرر کیا ہے۔ علاوہ ازیں باطنی طریق کے اثبات کی خاطر ایک ظاہری طریق بھی رکھ دیا ہے۔ اب اگر ظاہری طریق میں (جو اندرونی اور باطنی طریق کا ایک عکس ہے) صرف نقّال کی طرح نقلیں اتاری جاویں اور اسے ایک بار گراں سمجھ کر اتار پھینکنے کی کوشش کی جاوے تو تم ہی بتاؤ اس میں کیا لذت اور حظ آ سکتا ہے؟ اور جب تک لذت اور سرور نہ آئے اس کی حقیقت کیونکر متحقق ہو گی ؟ اور یہ اس وقت ہو گا جبکہ روح بھی ہمہ نیستی اور تذلّل تام ہو کر آستانہ الوہیت پہ گرے۔ اور جو زبان بولتی ہے روح بھی بولے، اس وقت ایک سرور اور نور اور تسکین حاصل ہو جاتی ہے۔

میں اس کو اَور کھول کر لکھنا چاہتا ہوں کہ انسان جس قدر مراتب طے کر کے انسان ہوتا ہے۔ یعنی کہاں نطفہ بلکہ اس سے بھی پہلے نطفے کے اجزاء یعنی مختلف قسم کی اغذیہ اور ان کی ساخت اور بناوٹ پھر نطفے کے بعد مختلف مدارج کے بعد بچہ۔ پھر جوان۔ بوڑھا۔ غرض ان تمام عالموں میں جو اس پر مختلف اوقات میں گزرے ہیں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا معترف ہو اور وہ نقشہ ہر آن اس کے ذہن میں کھنچا رہے تو بھی وہ اس قابل ہو سکتا ہے کہ ربوبیت کے مدّ مقابل میں اپنی عبودیت کو ڈال دے۔ غرض مدّعا یہ ہے کہ نماز میں لذت اور سرور بھی عبودیت اور ربوبیت کے ایک تعلق سے پیدا ہوتا ہے۔ جب تک اپنے آپ کو عدم محض یا مشابہ بالعدم قرار دے کر جو ربوبیت کا ذاتی تقاضا ہے نہ ڈال دے اس کا فیضان اور پَرتو اس پر نہیں پڑتا۔ اور اگر ایسا ہو تو پھر اعلیٰ درجہ کی لذت حاصل ہوتی ہے جس سے بڑھ کر کوئی حظ نہیں ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ164-165 ایڈیشن1984ء مطبوعہ انگلستان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 ستمبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ