اے خدائے ذوالمنن اے مالکِ کون و مکاں
اپنے وعدے پورے کرتا آیا ہے تو ہر زماں
جب خلافت کا امیں رخصت اچانک ہو گیا
ایک عالم خوف کا ہم پر مسلّط ہو گیا
پر مرے مولا ترے وعدے تو ٹل سکتے ہیں
ہر دل ِرنجور کو تھا تیرے وعدوں پر یقیں
نور کی پھوٹی کرن اور ’بند دروازہ کھلا‘
دے کے پھر مسرُور (ایدہ) تونے امن قائم کر دیا
اک طرف تھا رنج اور تھی دوسری جانب خوشی
یہ تسلسل کی کڑی تھی جس نے بخشی تھی خوشی
آنے والے کے لئے دل فرشِ راہ ہم نے کئے
اور وعاؤں سے گنُدھے پھر ہار لے کر ہم بڑھے
اشکبار آنکھیں تھیں اپنی ، دل عزائم سے تھے پرُ
حمد کے لب پر ترانے، آنکھ میں نورِ سحر
آنے والے سے دوبارہ عہد تازہ پھر کیا
آنے والے آ خوشی سے مرحبا صد مرحبا
(احمدی بیگم)
(وفا کے قرینے صفحہ439)