• 28 اپریل, 2024

سو سال قبل کا الفضل

11ستمبر 1922ء یومِ دو شنبہ (سوموار)
مطابق 18 محرم الحرام 1341 ہجری

صفحہ3 اور 4 پر ’’غیر مبائعین و ہجرت‘‘ کے نام سے مضمون شائع ہوا ہے جس میں اہلِ پیغام کو مخاطب کیا گیا ہے۔ اس مضمون کا پس منظر یہ ہے کہ 23 اگست 1922ء کو ’’پیغام‘‘ اخبار میں ’’ہجرت‘‘ کے عنوان سے ایک لیڈنگ آرٹیکل شائع ہوا۔اس آرٹیکل کو پڑھ کر ثابت ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کی قائم فرمودہ خلافت کے بالمقابل انسانوں کے ہاتھوں سے قائم کردہ امارت کی حیثیت یوں ہی ہے گویا

خدا کے قول سے قولِ بشر کیوں کر برابر ہو
وہاں قدرت یہاں درماندگی فرقِ نمایاں ہے

پس منظر کچھ یوں ہے کہ دو تین سال قبل اسی اخبار ’’پیغام‘‘ میں ہندوستان کے مسلمانوں کانقل مکانی کر کے افغانستان جانے کوایک نہایت بابرکت ہجرت قرار دیا گیا اور مولوی صدرالدین صاحب کی ایک تقریر کا ذکر کیا گیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’’میں تو یہ کہتا ہوں کہ رسول اللہﷺکے بعد اگر کسی کو اس سنت (ہجرت) پر عمل کرنے کا پہلا موقع ہے تو وہ مسلمانانِ ہند ہیں۔‘‘

(پیغام 25جولائی 1920ء)

مزید طرفہ یہ کہ کچھ روز بعد اسی اخبارمیں حضرت مسیحِ موعودؑ کے الہام ’’داغِ ہجرت‘‘ کو اس ترکِ وطن کی تحریک پر چسپاں کر دیا گیا۔چنانچہ پیغام نے اس الہام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’موجودہ واقعات نے ثابت کر دیا کہ داغِ ہجرت کے الفاظ کے اندر ان حرمان نصیب مسلمانوں کی الم ناک، یاس انگیز و درد افزاء داستان مرکوز ہے۔ جنہیں حال ہی میں واقعاتِ پیش آمدہ کی بناء پر اپنے وطن مالوف، اپنے عزیزو اقارب، اپنی جائیداد و املاک کو خیرباد کر کے ایک غیر ملک کی طرف رخ کرنا پڑا۔‘‘

(پیغام 8اگست 1920ء)

تاہم بعدازاں جب اس نقل مکانی اور ترکِ وطن کے بداثرات کا مشاہدہ کیا تو اسی اخبار ’’پیغامِ صلح‘‘ نے قلابازی کھاتے ہوئے اسے ایک نقصان دہ عمل لکھنا شروع کر دیا۔چنانچہ لکھا کہ ’’جو نتائج اس سے پیدا ہوئے۔مسلمانوں کی ہزار ہا روپیہ کی املاک کی تباہی،ان کی خانمان بربادی اور باحسرت و یاس واپسی کے جو مناظر دیکھنے میں آئے وہ ابھی بھولے نہیں۔۔۔۔۔۔۔ ان نتائج کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے بلا سوچے سمجھے یا خاص اغراض کے ماتحت اس آواز کو اٹھایا۔انہوں نے نہ کسی نظام کی پرواہ کی اور نہ مسلمانوں کے خاص حالات پرغور کیا اور اندھا دھند انہیں تباہی کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا۔فتووں پر فتوے دیئے گئے اور اتنا نہ سوچا گیا کہ آخر جس جگہ یہ جائیں گے ان کے رہنے،ان کے معاش اور ضروریاتِ زندگی کا بھی کوئی سامان ہو گا اور سب سے بڑھ کر انہوں نے کوئی غور اس بات پر نہ کی کہ اس ہجرت کا نتیجہ آخر سوائے اس کے کیا ہو گا کہ ہندوستان سے مسلمانوں کی رہی سہی تعداد بھی نابود ہو جائے گی۔‘‘

(پیغام 23؍اگست 1922ء)

اخبار الفضل نے اس دو رُخی پر تحریرکیا کہ ’’کیا ہی پُرلطف ماجرا ہے۔ مولوی صدر الدین صاحب کے نز دیک تیرہ سو سال کے عرصہ میں جو سعادت صرف مسلمانانِ ہند کے حصہ میں آئی تھی اور خود پیغام نے جس کا اعلان کیا تھا۔ اسی کو اب پیغامِ صلح تمام تاریخِ اسلام میں ایک نہایت ہی افسوسناک واقعہ قرار دیتا ہے اور اس کے محرکوں کو بے رحم ٹھہراتا ہے۔ بلکہ ان کے متعلق یہاں تک کہتا ہے کہ ’’اس سے بڑھ کر اور کیا خواہش ایک دشمنِ اسلام کی ہوسکتی ہے‘‘۔ گویا انہیں دشمنِ اسلام قرار دیتا ہے۔۔۔بات یہ ہے کہ جو لوگ دین کو دنیا کے لیے چھوڑ دیتے ہیں اُن کی کوئی بھی بات ٹھکانے کی نہیں ہوتی۔وہ وقت کے بندے ہوتے ہیں۔جیسا موقع دیکھتے ہیں ویسے بن جاتے ہیں۔یہی حال غیر مبائعین کا ہے۔‘‘

صفحہ5 اور6 پرحضرت مصلح موعودؓ کا ارشاد فرمودہ ایک خطبہ نکاح درج ہے جو آپؓ نے 21جولائی 1922ء کو ارشاد فرمایا۔

صفحہ6 اور 7 پرحضرت مولانا ذوالفقار علی خان صاحبؓ ناظر امورِ عامہ کی جانب سے ایک تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی جس میں مقدمہ مالابار کا ذکر کیا ہے۔ اس مقدمہ میں مدراس کی ہائیکورٹ نے جماعتِ احمدیہ کو امتِ اسلام کا یک فرقہ قرار دیا تھا۔ اس مقدمہ کی کچھ تفصیل 4ستمبر 1922ء کو شائع ہوئی تھی۔ جس کا ذکرالفضل آن لائن میں 3ستمبر کے شمارہ کے مضمون میں ذکر کیا گیا ہے۔

مذکورہ اخبار کے مفصل ملاحظہ کےلیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں۔

https://www.alislam.org/alfazl/rabwah/A19220911.pdf

(م م محمود)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ