• 6 مئی, 2024

پرتگال میں جماعتِ احمدیہ کا قیام

میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہچاوٴں گا
پرتگال میں جماعتِ احمدیہ کا قیام

(قارئین اس اہم تاریخی مضمون کو روزنامہ الفضل آن لائن کے خصوصی نمبر ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاوٴں گا‘‘ کا حصہ بنا لیں جو موٴرخہ 21-29؍مارچ 2022ء تک شائع ہوا۔ ایڈیٹر)

پرتگال میں جماعتِ احمدیہ کا قیام 1987ء میں برازیل کی ایک احمدی خاتون محترمہ ایدلوئیس دی المیدا دیاش (Edelweiss de Almeida Dias) کے ذریعہ ہوا، ان کا اسلامی نام امینہ تھا۔محترمہ امینہ ایدلوئیس دی المیدا دیاش صاحبہ نے مکرم اقبال احمد نجم صاحب مبلغ سلسلہ برازیل کی تحریک پر اسلام احمدیت قبول کرنے کے بعد اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ان کے وقف کو قبول فرمایا اور مبلغ سلسلہ کو ہدایت فرمائی کہ ان کو مشن ہاؤس میں کمرہ دے دیا جائے اور ان سے بیس پچیس سال کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر پہلے پمفلٹس پھر کتابچے اور پھر کتابیں ترجمہ کروائی جائیں۔ چنانچہ چند ابتدائی کتب، پمفلٹس اور قرآن کریم کے ترجمہ کو مکمل کرنے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے انہیں جماعت کی رجسٹریشن کے لئے پرتگال بھجوایا گیا۔مکرم اقبال احمد نجم صاحب مبلغ سلسلہ برازیل نے ان کا پاسپورٹ بنوایا اور پھر نومبر 1987ء کو جماعت کی رجسٹریشن کے لئے پرتگال روانہ کیا۔ محترمہ امینہ ایدلوئیس دی المیدا دیاش صاحبہ نے پرتگال پہنچ کرGrande Pensão Alcobia نامی ایک گیسٹ ہاؤس جو کہ Rua Poço do Borratem, 15-R/C, Lisboa میں واقع ہے قیام کیا۔چنانچہ 4 نومبر 1987ء کو جماعتِ احمدیہ پرتگال کا قیام عمل میں آیا۔ جماعت احمدیہ پرتگال کے دستورکے مطابق پرتگال میں جماعت احمدیہ کا قیام مکرم اقبال احمد نجم صاحب مبلغ سلسلہ برازیل، مکرم عبد الستار خان صاحب مبلغ سلسلہ سپین اور محترمہ ایدلوائس دی المیدا دیاش صاحبہ آف برازیل کے ذریعہ ہوا۔ مکرم اقبال احمد نجم صاحب چونکہ جماعت کی رجسٹریشن کے وقت پرتگال میں موجود نہیں تھے اس لئے ان کی جگہ گیسٹ ہاؤس کے مالک Manuel Júlio de Faria Alcobia Graça جو وکیل بھی تھے نے دستخط کیے۔ پرتگال میں جماعتِ احمدیہ ’’Associação Ahmadia do Islã em Portugal‘‘ کے نام سے رجسٹرڈ ہے۔

قرآن کریم کا پرتگیزی ترجمہ

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی ہدایت پر قرآن کریم کا پرتگیزی ترجمہ ماہرین کی ایک ٹیم نے کیا اور اس کی نظر ثانی کی سعادت برازیل سے تعلق رکھنے والی خاتون محترمہ امینہ ایدلوئیس دی المیدا دیاش صاحبہ اور مکرم اقبال احمد انجم صاحب مربی سلسلہ برازیل نے سر انجام دی۔ دونوں نے انتہائی انتھک محنت کے ساتھ مسودے کو پڑھا اور اس میں ضروری تصحیح کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ترجمہ کی تکمیل پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور محترمہ امینہ ایدلوئیس دی المیدا دیاش صاحبہ کو پہلی احمدی خاتون مبلغ قرار دیا۔

’’محترمہ امینہ صاحبہ (برازیل) نے 1989ء میں احمدیہ صد سالہ جشنِ تشکر کے موقع پر اپنی گراں قدر خدمات سے عظیم الشان مثالیں قائم کیں۔ قرآن کریم کا پرتگالی میں ترجمہ کیا جو شائع ہو چکا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس قابلِ صد احترام خاتون کو پہلی احمدی مشنری خاتون کے خطاب سے نوازا۔‘‘

(محسنات، احمدی خواتین کی سنہری خدمات صفحہ53)

محترمہ امینہ صاحبہ نے 23؍اکتوبر 1999ء کو بعمر 82 سال رِ یو دی جنیرو، برازیل میں وفات پائی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ پرتگیزی ترجمہ کی اشاعت کے تمام اخراجات مکرم الیاس نصیر دہلوی صاحب اور ان کی فیملی نے ادا کیے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس کی جزا عطا فرمائے اور ان کی قربانی کو قبول فرمائے۔ آمین

پرتگال کے پہلے مبلغ و صدر جماعت

مولانا کرم الٰہی ظفر صاحب کو جماعتِ احمدیہ پرتگال کے پہلے مبلغ اور صدر جماعت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ 1988ء کے اوائل میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مولانا کرم الٰہی ظفر صاحب کو پرتگال جانے کی ہدایت کی اور فرمایا کہ وہاں مشن ہاؤس کا انتظام کریں اور مسجد کی تعمیر کے لئے زمین تلاش کی جائے۔ چنانچہ مولانا کرم الٰہی ظفر صاحب 12 مارچ 1988ء میں غرناطہ سے پرتگال کے دارالحکومت لزبن پہنچے۔آپ کی آمد سے قبل پرتگال میں جماعت کی باقاعدہ رجسٹریشن ہو چکی تھی تا ہم ابھی یہاں جماعت کا کوئی مشن ہاؤس نہیں تھا۔ آپ نے چند ماہ Grande Pensão Alcobia نامی ایک گیسٹ ہاؤس جو کہ Rua Poço do Borratem, 15-R/C, Lisboa میں واقع ہے میں قیام کیا۔ محترمہ امینہ صاحبہ جب جماعت احمدیہ پرتگال کی رجسٹریشن کے لئےبرازیل سے پرتگال آئی تھیں تو انہوں نے بھی اسی گیسٹ ہاؤس میں قیام کیا تھا۔ جماعت کی رجسڑیشن کے وقت اسی گیسٹ ہاؤس کا ایک کمرہ جماعت کا عارضی مشن ہاؤس قرار دیا گیا۔مولانا صاحب نے پرتگال پہنچنے کے بعد لزبن کے علاقہ Rossio میں جماعتی لٹریچر تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ تبلیغ کےکام کا آغاز کیا۔

آپ کی تبلیغ سے چند افریقن اور انڈین افراد کو جماعت میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی جن میں ابراہیم جوف صاحب آف مالی، اسماعیل صاحب (انتونیو صانع) آف گنی بساؤ، محمد سوعارش صاحب آف سینیگال، انڈیا کے علاقہ Goa سے تعلق رکھنے والے محمد یوسف خان صاحب اور ان کے ایک چچا زاد بھائی غلام نبی صاحب اور پرتگال کے انتونیو سیلوا شامل ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے انتونیو سیلوا کا اسلامی نام احمد اسلام تجویز فرمایا اور اس طرح ان کو پہلے پرتگیزی احمدی ہونے کا شرف حاصل ہوا۔انہی ایام میں ایک پاکستانی احمدی دوست مکرم ظہیر احمد خالد صاحب بھی پرتگال منتقل ہوئے اور مشن ہاؤس سے رابطہ قائم کیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے پرتگال میں مولانا کرم الٰہی ظفر صاحب کی فیملی کے علاوہ سات افراد پر مشتمل جماعت قائم ہوئی۔ ابتدائی دو ماہ گیسٹ ہاؤس میں قیام کے بعد مولانا کرم الٰہی ظفر صاحب نے Rua Rodrigo da Fonseca, Nº 83, 1º Esq. Lisboa میں ایک کمرہ کرایہ پر لیا اور پھر وہاں منتقل ہو گئے۔تمام نو مبائعین اور احمدی دوست پہلے Grande Pensão Alcobia نامی گیسٹ ہاؤس اور پھر کرایہ پر حاصل کردہ کمرہ میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لئے آجاتے تھے۔ شروع میں مولانا کرم الٰہی ظفر صاحب اکیلے رہتے رہے پھر اکتوبر 1988ء میں ان کی اہلیہ رقیہ بشرٰی صاحبہ بھی پرتگال منتقل ہو گئیں۔

مشن ہاؤس کی خریداری

جب جماعت کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوا تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے مارچ 1989ء میں مشن کی ضروریات کے لئے ایک عارضی مکان خریدنے کی اجازت عطا فرمائی۔ حضور کی اجازت سے 18 مئی 1989ء کو جماعت نے لزبن کے مضافاتی علاقہ Nova Oeiras میں اپنا ایک اپارٹمنٹ خریدا اور اس کو اپنا مشن ہاؤس بنایا۔ اس مشن ہاؤس میں پہلا نمازِ جمعہ 9 جون 1989ء کو ادا کیا گیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی زبان مبارک سے
پرتگال مشن کے قیام کا ذکر

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ برطانیہ سال 1989ء کے موقع پر دوسرے دن کے خطاب میں پرتگال میں مشن کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’بہرحال جو مغربی ممالک میں نئے ممالک کا جہاں تک تعلق ہے اس میں پرتگال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک نئے مشن ہاؤس بنانے کی توفیق ملی ہے۔‘‘

(دوسرے دن بعد دوپہر کا خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ بر موقع جلسہ سالانہ برطانیہ 1989ء)

اسپین کے شہزادہ فلپ ششم کو
اسلامی اصول کی فلاسفی کا تحفہ

مولانا کرم الٰہی ظفر صاحب کو تبلیغ کا بے حد جوش تھا۔ 1989ء میں Estoril, Portugal میں جہا ں اسپین کےسابقہ بادشاہ Don Calros I نے اپنی عمر کا ایک لمبا عرصہ گذارا وہاں اسپین کے شہزادہ فلپ ششم جو کہ اب اسپین کے بادشاہ ہیں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی پیش کرنے کی توفیق ملی۔

جشنِ تشکر کے موقع پرخدا تعالیٰ کے فضلوں اور برکتوں سے بھر پور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کا دورہ پرتگال

جنوری 1990ء میں جماعت احمدیہ پرتگال کو مرکز کی طرف حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے دورہ کی اطلاع ان الفاظ میں موصول ہوئی ’’سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بمع افراد قافلہ ماہِ مارچ کے شروع میں پرتگال تشریف لا رہے ہیں‘‘ اس خط میں جماعت کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے دورہ کے بارہ میں تفصیلی ہدایات دی گئیں۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ 28؍ فروری کو لندن سے روانہ ہوئے، ایک روز فرانس میں قیام کیا اور پھر 3 مارچ 1990ء کو پرتگال آمد ہوئی۔حضور رحمہ اللہ مقامی وقت کے مطابق صبح 9:30 بجےپرتگال پہنچے۔ حضور کاپرتگال میں ایک ہفتہ قیام رہا اور پھر 9 مارچ 1990ء کو نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد سپین روانہ ہوئے۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے دورہ پرتگال کی تفصیل درج ذیل ہے۔

3 مارچ 1990ء بروز ہفتہ: 3 مارچ 1990ء کا دن جماعتِ احمدیہ پرتگال کے لئے ایک نہایت ہی مبارک دن تھا۔ اِس دن جماعت احمدیہ عالمگیرکے چوتھے امام حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ بمع سیّدہ حضرت بیگم صاحبہ و افرادِقافلہ فرانس سے ہوتے ہوئے براستہ سپین صبح 9:30 بجےپرتگال کےسرحد ی گاؤں Vilar Formoso پہنچے۔ مولانا کرم الٰہی ظفر صاحب اپنے بیٹے مکرم فضل الٰہی قمر صاحب کے ساتھ حضور کے استقبال کے لئے رات کو لزبن سے روانہ ہو کر پرتگال اور سپین کی سرحد پر پہنچ چکے تھے۔ سرحد پر کاغذات کی ضروری جانچ پڑتال کے بعد وہاں سے روانگی ہوئی۔ راستہ میں Guarda نامی شہر پہنچ کر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے کسی سستے ہوٹل کا پتہ کرنے کا ارشاد فرمایا۔ راستہ میں دو لڑکوں نے ایک ہوٹل کا پتہ دیا مگر وہ اچھا نہ تھا۔چنانچہ قافلہ Porto جو پرتگال کا ایک اہم شہر ہے کی طرف رواں دواں ہوا۔ شہر میں داخل ہونے سے 50 کلومیٹر پہلےصحت افزا مقام پر ایک نہایت صاف ستھرا ریسٹ ہاؤس بنا ہوا تھا جس کا ایڈریس جماعت کے پاس تھا۔ چنانچہ حضور رحمہ اللہ کے ارشاد کے مطابق وہیں قیام کا فیصلہ ہوا۔ ریسٹ ہاؤس کے مینیجر و دیگر ملازمین سب بہت حسنِ اخلاق سے پیش آئے اور انہوں نے بخوشی وہاں پر کھانا بنانے کی اجازت بھی دے دی۔

4 مارچ 1990ء بروز اتوار: 4 مارچ کو جماعت کی درخواست پر حضور رحمہ اللہ بمع اہلِ قافلہ Viana do Castelo تشریف لے گئے۔ یہ پرتگال کا شمالی علاقہ ہے اور بہت ہی خوبصورت ہے۔ راستہ میں تصاویر بنوائیں اور ایک دیہاتی قسم کے ریسٹورانٹ میں دوپہر کا کھانا تناول فرمایا اوروہاں سے ریسٹ ہاؤس کا سفر سمندر کے ساتھ ساتھ بنی شاہراہ سے ہوا جو نہایت ہی خوبصورت راستہ تھا۔

5 مارچ 1990ء بروز سوموار:5 مارچ کو صبح دس بجے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ ریسٹ ہاؤس سے Porto شہر کے لئے روانہ ہوئے۔ جب شہر میں داخل ہوئے تو پارلیمنٹ کے ایک ممبر حضور رحمہ اللہ کے استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے۔ حضور کو دیکھتے ہی وہ بڑی محبت اور عقیدت سے آگے بڑھے تو حضور رحمہ اللہ نے از راہِ شفقت معانقہ کا شرف بخشا۔ Porto شہر کی وائس سول گورنر Maria Cândida Guedes de Oliveira نے گیارہ بجے ملاقات کا وقت دیا ہوا تھا۔ وائس گورنر نہایت اخلاق سے پیش آئیں۔ چونکہ وہ انگلش جانتی تھیں اس لئے ترجمان کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ انہوں نے حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں Porto شہر کے متعلق ایک کتاب اور میڈل پیش کیا جبکہ حضور رحمہ اللہ نے قرآن کریم بمع پرتگیزی ترجمہ ان کو تحفہ میں دیا جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔

جب جماعت نے Porto شہر کی سابق وائس سول گورنر سےرابطہ کیا اورحضورسے ملاقات کے بارے میں ان سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ:
’’مجھے تفصیلات تویاد نہیں ہیں کیونکہ اس بات کو 30سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے، البتہ مجھے یاد ہے کہ اس وقت میں جناب Raúl Brito صاحب کے ساتھ خلیفہ سے ملی تھی اور میں ان کی کرشماتی اور پرحکمت شخصیت سے بہت متاثر ہوئی تھی۔‘‘

وائس گورنر سے ملاقات کے بعد حضور رحمہ اللہ شہر کے میئر سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے۔ یہ ملاقات 11:45پر ہوئی۔ Porto شہر کے میئر جناب Fernando Manuel dos Santos Gomes نے حضور رحمہ اللہ کو خوش آمدید کہا اور حضورؒ سے ملاقات کر کے بہت خوش اور متاثر ہوئے۔ انہوں نے حضوررحمہ اللہ کی خدمت میں ایک کتاب اور میڈل پیش کیا۔ بعد ازاں حضور نے میئر کو قرآنِ کریم (پرتگیزی ترجمہ کے ساتھ) اور اپنی کتاب ’’مذہب کے نام پر خون‘‘ پیش فرمائی جو انہوں نے بہت خوشی کے ساتھ قبول کی۔ میئر صاحب چونکہ انگلش جانتے تھے اس لئے دورانِ ملاقات ترجمان کی ضرورت پیش نہ آئی۔ اس ملاقات میں پارلیمنٹ کے ایک ممبر بھی موجود تھے۔ جناب Fernando Gomes صاحب کو بعد ازاں پرتگال کے وزیرِ داخلہ کے طور پر بھی ملک کی خدمت کی توفیق ملی۔

جناب Fernando صاحب جو کہ Ateneu Comercial do Porto (ثقافتی و تفریحی سنٹر آف پورتو) کے صدر تھے نے حضور رحمہ اللہ کے اعزاز میں دوپہر کے کھانے کی دعوت کا انتظام کیا تھا۔ اس وقت اس ثقافتی و تفریحی سنٹر کے قریباً دو ہزار ممبرز تھے۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد حضور رحمہ اللہ بمع اہلِ قافلہ ریسٹ ہاؤس تشریف لے گئے اور کچھ دیر آرام فرمایا۔

نمازیں ادا کرنے کے بعد حضور رحمہ اللہ بمع قافلہ Porto روانہ ہوئے جہاں چھ بجے پریس کانفرنس تھی۔ اس پریس کانفرنس میں اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے نمائندگان بھی موجود تھے۔ حضور رحمہ اللہ نے اپنے بیانات میں اس امر کا بھی ذکر فرمایا کہ پرتگیزی قوم میں بہت خوبیاں پائی جاتی ہیں، اس طاقت سے فائدہ اٹھا کر قوم ترقی کر سکتی ہے اور بنی نوع انسان کی خدمت کا فریضہ بھی ادا کر سکتی ہے۔

شام آٹھ بجے Ateneu Comercial do Porto (ثقافتی و تفریحی سنٹر آف پورتو)کی طرف سے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ اور ممبرانِ قافلہ کی پر تکلف دعوت کا انتظام کیا گیا۔ حضور رحمہ اللہ کے اعزاز میں دی گئی اس دعوت میں ستر کے قریب معززین شہر کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ شہر کی وائس سول گورنر بھی اس دعوت میں تشریف لائیں۔ بعد ازاں ثقافتی و تفریحی سنٹر کے ہال میں حضور رحمہ اللہ کا لیکچر تھا۔ حضور نے ’’بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیا جس کو تمام حاضرین نے بہت پسند کیا۔ لیکچر کے بعد مکرم فضل الٰہی قمر صاحب نے احمدیت کے متعلق لٹریچر تقسیم کیا۔ اس طرح Porto شہر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچ گیا۔ان نظاروں اور کامیابیوں کو دیکھ کر احبابِ جماعت کے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر گئے اور حمد کے ترانے لبوں پر جاری ہو گئے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک سوسال قبل اپنے پیارے بندے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ الہام بتا دیا تھا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔اور پھر اپنے پاک مسیح کے چوتھے خلیفہ کو اس قوم کے عمائدین کو بنفس نفیس اسلام احمدیت کے پیغام کو پہنچانے کی توفیق عطا فرمائی۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مغرب و عشاء کی نمازیں ثقافتی و تفریحی سنٹر کے ایک کمرہ میں پڑھائیں اور اس کے بعدریسٹ ہاؤس میں واپسی ہوئی۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پرتگال پارلیمنٹ کے ممبر جناب Raúl Fernando Sousela da Costa Brito نے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے Porto شہر میں ہونے والے پروگرام کو کامیاب بنانے میں دلی محبت اور پوری کوشش سے کام لیا اور ہر جگہ ساتھ رہے۔ جزاہ اللّٰہ احسن الجزاء۔اس موقع پر جناب Jim Karygiannis ممبر آف پارلیمنٹ کنیڈا بھی Porto شہر پہنچ گئے تھے اور انہیں بھی ہر مجلس میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ جناب Raúl Brito کو 11 نومبر 1995ء سے 11 نومبر 1999ء تک Porto شہر کے نائب سول گورنر کے طور پر ملک کی خدمت کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔آپ نے 14 مارچ 2011ء کو وفات پائی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے دورہ پرتگال سے پہلے اکتوبر یا نومبر 1989ء میں پرتگال پارلیمنٹ کے ممبر جناب Raúl Brito صاحب نے لنڈن میں حضور سے ملاقات کی۔ حضور کی شخصیت اور احمدیت کی تعلیم سے اتنے متاثر ہوئے کہ اس خواہش کا اظہار کیا کہ جب حضور پرتگال آئیں تو انہیں جماعت کی خدمت کا موقع دیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے دورہ پرتگال کے انتظامات کے سلسلہ میں غیر معمولی مستعدی کے ساتھ جماعت کی مدد کی۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نےان کاذکر اپنے خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ 9 مارچ 1990ء بمقام Caia پرتگال میں ان الفاظ میں فرمایا:
’’چنانچہ یہاں آنے سے کچھ عرصہ قبل محض اتفاقاً یوں لگ رہا تھا لیکن اب معلوم ہوا ہےکہ خدا کی تقدیر نے ایسا کام کروایا۔ پرتگال کی پارلیمنٹ کے ایک ممبر سے کسی دوست نے تعارف کروایا۔ وہ وہاں ہمارے ساتھ کھانے کے لئے بھی تشریف لائے اور تھوڑے عرصے میں ہی وہ اتنا گھل مل گئے اور احمدیت کی تعلیم سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے مجھ سے اس تمنا کا اظہار کیا کہ جب میں پرتگال آؤں تو ان کو بھی جماعت کی کچھ خدمت کا موقعہ ملے۔ چنانچہ میری اطلاع پر جب مبلغ پرتگال نے ان سے رابطہ کیا تو یہاں کے انتظامات کے سلسلے میں انہوں نے غیر معمولی مستعدی کے ساتھ غیر معمولی طور پر نصرت کی اور جن باتوں کا وہم و گمان میں بھی نہیں تھا وہ ساری باتیں ان کی اس غیر معمولی محبت اور تعلق اور کوشش کے نتیجہ میں سر انجام پا گئیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ 9 مارچ 1990ء بمقام Caia پرتگال)

6مارچ 1990ء بروز منگل:6مارچ کو 11:30پرریسٹ ہاؤس سے ناشتہ وغیرہ سے فراغت کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ بمع قافلہ Porto شہرسے Oeiras شہرکی طرف روانہ ہوئےجوکہ لزبن کے مضافات میں واقع ہے جہاں جماعت کا پہلا مشن ہاؤس واقع تھا۔ حضور رحمہ اللہ کے قافلہ کی کاروں کی ترتیب میں مکرم فضل الٰہی قمر صاحب کی کار بطور گائیڈ حضور کی کار کے آگے تھی۔تین گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعدحضور رحمہ اللہ بمع حضرت سیّدہ بیگم صاحبہ و ممرانِ قافلہ Oeiras مشن ہاؤس پہنچے۔ ظہر و عصر کی نمازیں مشن ہاؤس میں ہی ادا کیں۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد حضور کے قافلہ کے دیگر افراد Smart Hotel میں قیام کےلئے تشریف لے گئے۔

شام پانچ بجے احمدی احباب سے ملاقات کا پروگرام تھا۔ مکرم محمد یوسف خان صاحب بمع اپنی اہلیہ (پرتگیزی) اور اپنی بیٹی کے تشریف لائے، مکرم احمد اسلام بمع اپنے بیٹے انتونیو، مکرم عبد الرشید صاحب (نو احمدی) تشریف لائے اور حضور رحمہ اللہ سے ملاقات کی سعادت حاصل کی، دیگر احمدی احباب میں مکرم اسماعیل صاحب آف گنی بساؤ، مکرم محمد گاساما صاحب، عبد القادر جیلانی صاحب آف سینیگال، مکرم غلام نبی صاحب، مکرم ظہیر احمد خالد صاحب شامل تھے۔ ان سب احباب نے اپنی زندگی میں پہلی بار کسی خلیفہ سے ملاقات کی۔ سب احباب بہت خوش تھے۔ حضور رحمہ اللہ نے دیر تک ان سے گفتگو فرماتے رہے اور نصیحت فرمائی کہ پرتگال میں افریقن باشندوں کو احمدیت کی تبلیغ کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔

7 مارچ 1990ء بروز بدھ:7 مارچ کو 11:30 بجے Oeiras شہر کے میئر سے حضور رحمہ اللہ کی ملاقات کا وقت مقرر تھا۔ وہاں پہنچنے پر شہر کے میئر جناب Isaltino Afonso Morais نے بمع اپنے اسٹاف کے حضور رحمہ اللہ کو خوش آمدید کہا اور دلی خوشی کا اظہار کیا اور بتایا کہ ہمارے علاقہ میں سب شہریوں کو مذہبی حقوق حاصل ہیں۔

حضورؒ نے میئر کا شکریہ ادا کیا کہ آپ لوگوں نے ہمارے مشن کے قیام میں ہر طرح تعاون کیا۔ نیز حضورؒ نے فرمایا کہ ہماری جماعت انسانی اخلاق اور کردار کو احسن رنگ میں پیش کرنے کے لئے اور اعلیٰ نمونہ قائم کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے۔ اور فرمایا کہ اس پہلو سے ان شاء اللہ ہم اہالیان Oeirasکی ہر طرح مدد کریں گے۔ میئر نے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں ایک کتاب پیش کی۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خدمت میں قرآنِ کریم (پرتگیزی ترجمہ کے ساتھ) اور اپنی کتاب ’’مذہب کے نام پر خون‘‘ پیش فرمائی۔

بعد ازاں 12:30 پر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ اسمبلی ہال تشریف لے گئے۔ جہاں حضور رحمہ اللہ نے پارلیمانی کمیٹی برائے امورخارجہ کے پریذیڈنٹ جناب Pedro Manuel Cruz Roseta سے ملاقات کی۔پریذیڈنٹ نے حضور کو خوش آمدید کہا۔ پارلیمانی کمیٹی برائے امورخارجہ کے چالیس ممبران تھے۔ حضور نے ان سے خطاب فرمایا۔ بعد ازاں پارلیمنٹ کے بعض ممبران نے جماعت کے متعلق سوالات بھی کیے جن کے حضور رحمہ اللہ نے تسلی بخش جوابات بیان فرمائے۔

پارلیمانی کمیٹی برائے امورخارجہ کے پریذیڈنٹ جناب Pedro Manuel Cruz Roseta نے حضور کے اعزاز میں دوپہر کے کھانے کا انتظام کیا ہوا تھا۔ اس موقع پرپارلیمنٹ کی وائس پریذیڈنٹ محترمہ Maria Manuela Aguiar Dias Moreira اور پرتگال کی تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈر بھی مدعو تھے۔ اس طرح خدا تعالیٰ نے قوم کے اعلیٰ طبقہ تک احمدیت کا پیغام پہنچانے کے معجزانہ طور پر سامان پیدا فرمائے۔کھانے سے فارغ ہو کر حضور رحمہ اللہ واپس مشن ہاؤس تشریف لے گئے اور ظہر و عصر کی نمازیں پڑھائیں۔

شام چھ بجے Hotel Méridien de Lisboa میں جماعت کی طرف سے ایک Reception کا انتظام کیا گیا تھا جس میں ملک کے عمائدین، سیاسی طبقہ کے لوگوں کو، مختلف ممالک کے سفیروں اور احمدی احباب کو مدعو کیا گیا تھا۔ مولانا کرم الٰہی ظفر صاحب کی بیٹی محترمہ شاہدہ طاہرہ صاحبہ نےاس تقریب کو کامیاب بنانے کے لئے انتہائی محنت سے کام کیا۔ خدا تعالیٰ کے فضل اور خلیفہ وقت کی دعاؤں کے طفیل یہ تقریب کامیاب رہی۔ اس تقریب میں 28 غیر ملکی سفیر، سیاسی نمائندے، پرتگال اسمبلی کے ممبرز اور علمی طبقہ سے تعلق رکھنے والے دیگر عمائدین اس استقبالیہ میں شامل ہوئے۔ ہوٹل میں Refreshment کا اعلیٰ انتظام تھا۔ بعد میں اس تقریب میں شامل ہونے والے مہمانوں کو سوالات کا موقع دیا گیا۔ تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا، تلاوت کی سعادت مکرم نصیر احمد قمر صاحب پرائیویٹ سیکرٹری کو ملی۔ تلاوتِ قرآن کریم کا پرتگیزی ترجمہ مکرم لوئیش صاحب نے پیش کیا۔ سوال و جواب کا سلسلہ خوشگوار ماحول میں جاری رہا۔ مجلس برخاست ہونے پر مہمانوں نے حضور رحمہ اللہ سے ملاقات کی، سب کے چہروں پر خوشی، مسرّت اور بشاشت ٹپک رہی تھی اور ایک نور کا عالم تھا۔اس کے بعد حضور رحمہ اللہ واپس مشن ہاؤس تشریف لے گئے اور مغرب و عشاء کی نمازیں پرھائیں۔ کھانے کے بعد قافلہ کے احباب اپنی جائے رہائش پر تشریف لے گئے۔

8 مارچ 1990ء بروز جمعرات:8 مارچ کو ساڑھے گیارہ بجےپرتگال کے وفاقی محتسب جناب Ângelo Vidal de Almeida Ribeiro جو پرتگال سے اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے خصوصی نمائندہ اور رکن یورپین کمیشن برائے انسانی حقوق بھی تھے سے حضور رحمہ اللہ کی ملاقات کا وقت مقرر تھا۔ کافی دیر تک ان سے تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے وفاقی محتسب کی خدمت میں قرآنِ کریم (پرتگیزی ترجمہ کے ساتھ) اور اپنی کتاب ’’مذہب کے نام پر خون‘‘ پیش فرمائی۔

اس کے بعد ساڑھے بارہ بجے Lisbon شہر کے میئر جناب Jorge Fernando Branco de Sampaio سے حضور رحمہ اللہ کی ملاقات کا وقت مقرر تھا۔ یہ پرتگال کی سوشلسٹ پارٹی کے ممبر تھے اور کچھ عرصہ پہلے ہی میئر کے الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے۔ میئر صاحب حضور رحمہ اللہ سے مل کر بہت خوش ہوئے اور حضور کی خدمت میں شہر کا میڈل پیش کیا۔ حضور رحمہ اللہ نے انہیں قرآن کریم (بمع پرتگیزی ترجمہ) بطور تحفہ پیش کیا۔ اس ملاقات میں جماعت کے دوست اور پرتگال پارلیمنٹ کے ممبر جناب Raúl Brito بھی موجود تھے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بعد ازاں جناب Jorge Sampaio نے 9 مارچ 1996ء سے 9 مارچ 2006ء تک ملک کے صدر کے طور پر خدمات سر انجام دیں اور 10 ستمبر 2021ء کو 81 سال کی عمر میں وفات پائی۔

اس کے بعد ایک ملک کے سفیر نے فون کیا اور حضور رحمہ اللہ سے دوبارہ ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ سفیر جماعت کی طرف سے دیئے گئے Reception کے موقع پر حضور سے ملاقات کر چکے تھے۔ ان کی خواہش کے احترام میں حضور رحمہ اللہ ان سے ملاقات کرنے کے لئے اس ملک کے سفارت خانہ میں تشریف لے گئے۔ سفارت خانہ سے واپس آکر حضور رحمہ اللہ نے نمازیں ادا کیں۔

شام سات بجے Hotel-Ritz میں پریس کانفرنس تھی جہاں ٹیلی ویژن اور ریڈیو اور اخبارات کے نمائندے آئے ہوئے تھے۔ ان نمائندگان نے حضور رحمہ اللہ کے انٹرویوز کیے۔لزبن اور پورتو شہر میں ہونے والی تقریبات کی کاروائی ملک بھر میں دکھائی گئی۔ پریس کانفرنس کے بعد کینیڈا کے سفیر نے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ اس کے بعد حضور رحمہ اللہ واپس مشن ہاؤس تشریف لے گئے اور مغرب و عشاء کی نمازیں ادا کی گئیں۔

9 مارچ 1990ء بروز جمعہ:9 مارچ کو جمعۃ المبارک کا دن تھا۔ اِس دن خدا تعالیٰ کے پیارے خلیفہ پرتگال کو برکت دے کر واپس روانہ ہو رہے تھے۔مکرم محمد سوعارش صاحب، مکرم غلام نبی صاحب اور مکرم ظہیر خالد صاحب بھی اپنے آقا کو الوداع کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے از راہ شفقت مولانا کرم الٰہی ظفر صاحب مرحوم، ان کی اہلیہ صاحبہ، مکرم احسان الٰہی بشیر صاحب، مکرمہ شاہدہ طاہرہ صاحبہ کو اپنے ساتھ سپین جانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ مکرم فضل الٰہی قمر صاحب کی کار قافلہ میں بطور گائیڈ سب سے آگے تھی۔ پرتگال اور سپین کی سرحد پر Caiaکے مقام پر پہنچ کر حضور رحمہ اللہ نے نمازِ جمعہ ادا کرنے کی غرض سے رُک جانے کا ارشاد فرمایا۔ سب نے وضو کیا اور نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لئے چادریں بچھائیں۔ نمازِ جمعہ کو دونوں اذانیں کہنے کی سعادت مکرم احسان الٰہی بشیر صاحب کہ حصّہ میں آئی۔حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے پرتگال میں Caia کے مقام پر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور نماز پڑھائی۔ یہ دن جماعتِ احمدیہ پرتگال کی تاریخ کا ایک اہم دن تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کسی خلیفہ نے پرتگال کی سر زمین پر پہلا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور نمازِ جمعہ ادا کی۔

نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد سب نے بیٹھ کر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کھانا تناول کیا۔ کھانا وغیرہ کھانے کے بعد حضور کا قافلہ Caia سے سپین کی طرف روانہ ہوا اور جلد ہی سپین کی سرحد پر پہنچ گیا۔ سپین کی سرحد پر جماعتِ احمدیہ سپین کے امیر مکرم عبد الستار خان صاحب اور مکرم ڈاکٹر عطا الٰہی منصور صاحب حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے۔ سرحد پر ضروری کاغذی کاروائی کے بعدحضور کا قافلہ سپین کی سر زمین میں داخل ہوا۔ سپین میں مکرم ڈاکٹر عطا الٰہی منصور صاحب کار بطور گائیڈ کے سب سے آگے تھی۔

پرتگال کے سفر میں حضور رحمہ اللہ کے قافلہ میں جن حضرات کو شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ان کے نام درج ذیل ہیں۔

1۔ حضرت سیّدہ آصفہ بیگم صاحبہ (بیگم حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ)
2۔ مکرم نصیر احمد قمر صاحب (پرائیویٹ سیکرٹری)
3۔ مکرم میجر محمود احمد صاحب (افسر حفاظت خاص)
4۔ مکرم ملک اشفاق احمد صاحب (محافظ)
5۔ مکرم ناصر احمد سعید صاحب (محافظ)
6۔ مکرم عبد الماجد طاہر صاحب (وکالت تبشیر)
7۔ مکرم صاحبزادہ مرزا سفیر احمد صاحب
8۔ مکرم بشیر احمد صاحب (بطورڈرائیور)
9۔ مکرم کرم الٰہی ظفر صاحب مرحوم (مبلغ سلسلہ جماعتِ احمدیہ پرتگال)
10۔ مکرم فضل الٰہی قمر صاحب ابن کرم الٰہی ظفر صاحب
11۔ مکرم مسعود حیات صاحب (بطورڈرائیور)

(ماخوذ از دستاویزات، رپورٹس و خطوط جماعتِ احمدیہ پرتگال)

پرتگال میں کسی خلیفہ کا پہلا خطبہ جمعہ
اور احمدیہ مشن کا باقاعدہ افتتاح

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 9؍مارچ 1990ء کو خطبہ جمعہ بمقام Caia پرتگال ارشاد فرمایا:

تشہد اور تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
آج یہ مختصر خطبہ جمعہ جو میں دے رہا ہوں یہ پرتگال ملک میں دیا جا رہا ہے۔ یہاں خطبہ دینے کی وجہ یہ بنی کہ چونکہ یہ پہلا موقعہ ہے کہ مجھے پرتگال میں آکر جماعت احمدیہ کے مشن کا باقاعدہ افتتاح کرنے کا موقعہ ملا ہے اس لئے میری خواہش تھی کہ اس سفر میں ایک جمعہ بہر حال پرتگال کی زمین پر پڑھا جائے۔

جہاں تک اس سفر کا تعلق ہے۔ جب سے ہم سپین کی سر زمین سے پرتگال میں داخل ہوئے ہیں اور اب جب کہ ہم جانے کے قریب ہیں اس تمام عرصے میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہم سب نے بے شمار تائیدات الٰہی کے نظارے دیکھے ہیں۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں احمدیت بالکل غیر معروف تھی۔ اگرچہ دو سال سے مکرم کرم الٰہی صاحب ظفر نے یہاں مشن کا آغاز کر رکھا ہے اور چند سعید روحوں کو احمدیت میں داخل ہونے کی بھی توفیق ملی ہے لیکن جہاں تک ملک کے اکثر عوام کا تعلق ہے، یہاں کے دانشوروں کا تعلق ہے، یہاں کی حکومت کے نمائندگان کا تعلق ہے جماعت احمدیہ عملاً کالعدم سمجھی جاتی ہے لیکن خدا تعالیٰ نے یہاں آنے سے پہلے ایسے حیرت انگیز انتظامات جماعت کو یہاں متعارف کروانے کے پہلے سے ہی تجویز فرما رکھے تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ سارا سفر خدا تعالیٰ کے ہاتھوں میں اس کی انگلیوں کے درمیان چل رہا ہے۔ چنانچہ یہاں آنے سے کچھ عرصہ قبل محض اتفاقاً یوں لگ رہا تھا لیکن اب معلوم ہوا ہےکہ خدا کی تقدیر نے ایسا کام کروایا۔ پرتگال کی پارلیمنٹ کے ایک ممبر سے کسی دوست نے تعارف کروایا۔ وہ وہاں ہمارے ساتھ کھانے کے لئے بھی تشریف لائے اور تھوڑے عرصے میں ہی وہ اتنا گھل مل گئے اور احمدیت کی تعلیم سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے مجھ سے اس تمنا کا اظہار کیا کہ جب میں پرتگال آؤں تو ان کو بھی جماعت کی کچھ خدمت کا موقعہ ملے۔ چنانچہ میری اطلاع پر جب مبلغ پرتگال نے ان سے رابطہ کیا تو یہاں کے انتظامات کے سلسلے میں انہوں نے غیر معمولی مستعدی کے ساتھ غیر معمولی طور پر نصرت کی اور جن باتوں کا وہم و گمان میں بھی نہیں تھا وہ ساری باتیں ان کی اس غیر معمولی محبت اور تعلق اور کوشش کے نتیجہ میں سر انجام پا گئیں۔

تمام پارٹیوں کے اہم نمائندے ایک ایسی دعوت میں تشریف لائے جو (Foreign affairs) فارن افیئرز کی ہاؤس کمیٹی کے چیئرمین نے دی اور یہ ایک بہت ہی اہم تقریب تھی۔ جس میں یہاں کے فارن افیئرز کی کمیٹی کے ممبران شریک ہوئے اور مجھے اپنے خیالات کے اظہار کا موقعہ دیا اور پھر اس کے بعد بعض سوالات کئے جن کے جواب دئے۔ اس کے بعد ان کی طرف سے لنچ دیا گیا۔ جس میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے تمام پارٹیوں کے نمائندگان شامل تھے اور وائس پریذیڈنٹ بھی تھے اور اس فارن افیئرز کمیٹی کے پریذیڈنٹ بھی تھے اور بعض سابق وزراء بھی تھے اور ان سے جب گفت و شنید ہوئی تو اندازہ ہوا کہ کس طرح اسلام کے لئے یہ جگہ پیاسی ہے اور اسلام کی تعلیم سے متاثر ہونے کے لئے بالکل تیار بیٹھی ہے۔ میرے ساتھ جو معزز خاتون بیٹھی ہوئی تھیں انہوں نے تعارف کروایا کہ وہ ایک یونیورسٹی میں پروفیسر تھیں لیکن چونکہ پریذیڈنٹ ان کو جانتا تھا ان کی قابلیت سے متاثر تھا اس لئے ان کو حکومت میں ایک لمبا عرصہ وزیر کے طور پر رہنے کا موقع ملا اور اب بھی بڑے اہم عہدے پر فائز تھیں اور انہوں نے باتوں باتوں میں جب اپنا تعارف کروایا تو پتا چلا کہ ایک Nun School میں امکانی طور پر ایک Nun بننے کے لئے وہ داخل ہوئی تھیں اور چونکہ عیسائیت کے متعلق وہ بےتکلف سوال کیا کرتی تھیں۔ اس لئے وہ ایک پسندیدہ طالب علم نہ بنیں اور یہ کورس مکمل کرنے کے بعد وہ باقاعدہ یونیورسٹی میں داخل ہوئیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ان کے بیان کے مطابق وہ عیسائی تو ضرور ہیں لیکن عیسائیت کی بہت سی ایسی تعلیمات جو ان کے دماغ کو مطمئن نہیں کر سکتی تھیں اس کی وہ قائل نہیں رہیں۔ جب میں نے اسلامی تعلیمات کے متعلق ان کو بتایا اور اسلام کے عمومی رجحانات کے متعلق بتایا تو حیرت انگیز طور پر متاثر ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ آج کا دن میرے لئے بڑا خوش قسمت دن ہے مجھے آج پہلی دفعہ اسلام کی سچی تعلیم کا علم حاصل ہوا ہے۔ یہ ایک نمونے کا ردعمل ہے جو سب نے اسی طرح دکھایا۔

ایک اور بڑی اہم تقریب Porto میں جو یہاں کا دوسرا بڑا اہم شہر ہے اور تجارتی لحاظ سے پہلا اہم شہر ہے۔ وہاں کی سب سے زیادہ معزز کلب جس کے دو ہزار ممبر ہیں ان کے پریذیڈنٹ نے پہلے ہمیں لنچ دیا۔ پھر اس کے بعد رات کو ایک ڈنر دیا جس میں بہت شہر کے بڑے بڑے معززین اور اسسٹنٹ گورنر بھی شامل ہوئے اور بہت ہی بارونق محفل رہی۔ اس کے بعد مجھے کلب کے ہال میں تقریر کا موقع دیا گیا۔ جس کا موضوع یہ تھا کہ‘‘ اسلام انسان کے بنیادی حقوق کے متعلق کیا رائے رکھتا ہے’’ چنانچہ میں نے مختلف پہلوؤں سے اسلام کی بنیادی حقوق کی تعلیم کا ذکر کیا تو اس کے بعد جو دوست ملے ہیں انہوں نے بہت ہی خوشی اور محبت کا اظہار کیا بلکہ ایک ممبر پارلیمنٹ Brito صاحب نے یہ اصرار کیا کہ انہیں اس کی کیسٹ مہیا کی جائے کیونکہ وہ اپنے دوستوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ تو یہ سارے امور ایسے ہیں جن پر ہمارا کچھ اختیار نہیں تھا۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں کے اونچے طبقے تک اسلام کا صحیح پیغام پہنچانے کے ذریعے خدا تعالیٰ نے مہیا فرمائے اور ان ذریعوں میں سے ہمیں بھی ایک ذریعہ بنا دیا۔

ان ذریعوں میں جو مقامی طور پر احمدیوں کو خاص سعادت نصیب ہوئی ہے ان میں مکرم کرم الٰہی ظفر صاحب کا خاندان حسب سابق، اپنی سابقہ سپین کی روایات کے مطابق بہت مستعدی سے ہر پہلو سے ہر خدمت کے میدان میں صف اول میں رہا ہے اور ان کی ایک بیٹی طاہرہ بھی اپنی بڑی بہن کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے جنہوں نے سپین کی تقریبات میں غیر معمولی محنت کی تھی اسی شان کے ساتھ محنت کر کے جماعت احمدیہ کی تقریبات کو کامیاب کرانے میں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے ایک تاریخی سعادت حاصل کی ہے۔ پس ایک مبلغ نہیں بلکہ اس مبلغ کا سارا خاندان ہی مبلغ ہے۔ اور جو مخلص احمدی یہاں ملے ہیں ان کے اندر میں نے یہ صلاحیتیں دیکھی ہیں کہ اگر انہیں باقاعدہ مستعد کیا جائے تو وسیع پیمانے پر تبلیغ کے نئے رستے کھل سکتے ہیں چنانچہ ان کے ساتھ جو مجالس ہوئیں ان میں اس موضوع پر گفتگو ہوئی اور میں یہ اندازہ کرتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے توقع رکھتا ہوں کہ میرا یہ اندازہ درست ہو گا اور وہ ایک نیا ولولہ لے کر نئے عزم لے کر اسلام کی تبلیغ کو پھیلانے کے لئے مستعد ہو چکے ہیں اور ان کی آنکھوں میں ان کی طرز میں ایسے ولولے میں نے دیکھے ہیں جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ آئندہ جب بھی خدا یہاں آنے کی توفیق دے گا اس سے پہلے یہ جماعت جو چند نفوس پر مشتمل ہے سینکڑوں بلکہ ہزارہا نفوس تک پھیل چکی ہوگی۔

صرف اب ایک مسئلہ یہاں باقی ہے کہ ابھی تک ہمیں باقاعدہ مسجد کے لئے زمین دستیاب نہیں ہو سکی۔ جو جگہ مشن کے طور پر خریدی گئی ہے وہ سردست اس چھوٹی جماعت کے لئے تو کافی ہے لیکن آئندہ جیسا کہ میں توقعات کا اظہار کیا ہے ضروریات کے لئے بالکل ناکافی ثابت ہو گی اور میری دعا یہ ہے کہ بہت جلد ناکافی ہو جائے اور اس عرصہ میں خدا تعالیٰ ہمیں ایک بہت عمدہ، بڑی وسیع زمین بھی مہیا فرما دے۔ آمین

جو Reception جماعت کی طرف سے کل یہاں دی گئی تھی اس Reception میں دنیا کے مختلف ممالک کے اور بعض بہت اہم ممالک کے سفارت کار بھی شریک ہوئے اور ان سے گفت و شنید کے دوران ان کے ممالک میں بھی تبلیغ کے نئے رستے نکلے بلکہ ایک ملک کے سفیر نے تو تقریب کے معاً بعد فون کرکے اس خواہش کا اصرار سے اظہار کیا کہ میں دوبارہ ملنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ ان کے سفارت خانے جاکر ان سے گفتگو ہوئی اور اس سے مجھے یہ اندازہ ہے بڑی احتیاط کے ساتھ وہ وعدے کر رہے تھے لیکن ان کی طرز سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بڑے مخلصانہ طور پر وہ اپنے ملک میں احمدیت کی تعلیم کی اشاعت چاہتے ہیں۔ وعدے اس لئے نہیں کرتے کہ ممکن ہے کہ ان کی حکومت اس طرح ان کے ساتھ تعاون نہ کرے جس طرح وہ چاہتے ہیں لیکن ان کے محتاط الفاظ سے ایک بات قطعی طور پر ثابت ہو رہی تھی کہ وہ اپنی ذات میں عزم رکھتے ہیں اور چونکہ اسی ملک کے ایک اور سفیر نے بھی پہلے رابطہ کیا تھا اور اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا تھا اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ ان دونوں سفراء کی کوششیں انشاء اللہ بار آور ثابت ہوں گی اور اگر جماعت دعاؤں میں مشغول رہے اور اللہ تعالیٰ سے غیبی امداد طلب کرتی رہے تو ایک تقریب کئی اور تقریبات کے راستے کھول دیتی ہے اور ایک ملک میں مقبولیت کئی اور ملکوں میں مقبولیت کے سامان مہیا کر دیا کرتی ہے۔ اس طرح ہمارے دروازے اور میدانوں میں کھلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں صرف یہ ایک فکر لاحق ہوتی ہے کہ نئے تقاضوں کو ہم پورا کرنے کے اہل ثابت ہوں گے یا نہیں اور ان نئی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کر سکیں گے کہ نہیں لیکن چونکہ یہ دروازوں کے کھلنے کا جو سلسلہ جاری ہوا ہے یہ بھی ہماری کوششوں سے نہیں بلکہ محض اللہ کے فضل کے ساتھ جاری ہوا ہے اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ وہی فضل ہمارا حامی و مددگار ہو گا اور ان نئے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ہمیں نئی جوان ہمتیں عطا کرے گا، نئے حوصلے بخشے گا، نیا استحکام جماعت کو عطا کرے گا اور جو نئی زمینیں ہم اسلام کے لئے فتح کریں گے ساتھ ساتھ ان کو مستحکم کرتے چلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بخشے۔ جماعت احمدیہ کے لئے ساری عالمگیر جماعت احمدیہ کے لئے بہت سی خوشخبریاں ہیں جو ظاہر ہو چکی ہیں اور بہت سی ظاہر ہو رہی ہیں اور اس جوبلی کے سال کا پھل ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کثرت سے کھا رہے ہیں کہ دشمن کے لئے سوائے حسرت اور ناکامی اور دانت پیسنے کے کچھ بھی باقی نہیں رہا۔

اللہ تعالیٰ دشمن کے اس بڑھتے ہوئے غیظ و غضب کو ہمارے لئے مزید فضلوں کا موجب بنا دے اور اس کا جو دکھ جو تکلیف جماعت کو پہنچی ہے اپنے فضل سے اس کثرت سے برکتیں نازل فرمائے کہ وہ دکھ راستہ چلتے ہوئے ایک معمولی سے کانٹے کے دکھ سے بھی کم حیثیت کا دکھ رہ جائے اور خدا کے فضل ہمیں ہر آن ہر پہلو سے بڑھاتے چلے جائیں۔ (آمین)

(خطبہ جمعہ 9؍مارچ 1990ء فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ بمقام Caia پرتگال)

خطبہ جمعہ 23؍مارچ 1990ء میں دورہ پرتگال کا ذکر

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 23؍مارچ 1990ء کے خطبہ جمعہ میں اپنے دورہ پرتگال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’دو تین تازہ باتیں ہیں جو اس سلسلے میں آپ کے سامنے بیان کرنی تھیں۔ ایک تو اس سفر سے تعلق رکھتی ہے جو ابھی میں نے حال ہی میں کیا اور گزشتہ سال تشکر کے سال کا یہ آخری سفر تھا جس میں فرانس سے گذرتے ہوئے پہلے تو پرتگال گئے اور پھر پرتگال سے سپین اور سپین سے پھر واپس فرانس کے راستے واپس پہنچے۔ پرتگال جیسا کہ آپ جانتے ہیں ایک ایسا ملک ہے جہاں صرف دو سال پہلے ایک مبلغ کو بھیجا گیا تھا مولانا کرم الٰہی صاحب ظفر کو اور جیسے وہ درویش صفت انسان ہیں اُسی طرح کے وہ دُعا گو بھی ہیں اور بہت دُعائیں کر کے کام کرنے والے ہیں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اُن کی دعاؤں کو پھل لگایا اور اس وقت تک جب میں گیا ہوں خدا تعالیٰ کے فضل سے نو بیعتیں وہاں ہو چکی تھیں اور ان نو میں آگے پھر پھیلنے کا جذبہ پایا جاتا تھا۔ ان میں سے ایک جو خالص پرتگالی نسل کے تھے وہ دیکھنے میں بالکل سادہ اور یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ جذباتی ہوں گےلیکن ان کی شخصیت کے اندر چھپے ہوئے بعض ایسے خواص تھے جو رفتہ رفتہ ظاہر ہونے شروع ہوئے۔ بہت کم گو اور اپنے جذبات کو ضائع نہ کرنے والا مزاج تھا لیکن جب ان سے رخصت ہو کر ہم سپین پہنچے تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں وہ استقبال کے لئے کھڑے تھے۔ جو ان کی زبان جانتے تھے میں نے اُن سے کہا کہ پوچھو کہ ہم ان کو الوداع کہہ کے آئے تھے اور انہوں نے ہمیں رخصت کیا تھا یہ یہاں کہاں سے آگئے؟ اُنہوں نے کہا کہ یہ تو آپ سے پہلے سے یہاں پہ پہنچے ہوئے ہیں۔ آگے انہوں نے ہمیں یہ بتایا کہ رخصت کر کے مجھے بے چینی لگ گئی اور میں نے کہا کہ جب تک میرا بس ہے میں ساتھ ضرور دوں گا۔ چنانچہ جاتے ہی وہاں جو استقبال کی تیاریاں تھیں اُن میں سب سے زیادہ اُنہوں نے محنت کی۔ جو جھنڈیاں لگائیں اُنہوں نے لگائیں، جھاڑو اپنے ہاتھ سے دئیے اور حیرت انگیز اخلاص کا اظہار کیا جس سے سپین کی جماعت کو بھی بڑی روحانی تقویت ملی۔ جو دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے بعض افریقن ممالک کے دوست تھے جو پرتگیزی اثر کے نیچے ہیں ان میں بھی میں نے بہت ہی جذبہ دیکھا اور تمام پرتگال کے معززین کی بہترین نمائندگی ہماری ریسپشن (Reception) میں ہوئی۔ اس سلسلہ میں مَیں گزشتہ خطبے میں کچھ ذکر کر چکا ہوں ان باتوں کو دہرانے کی ضرورت نہیں لیکن یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں زمین تیار ہے اور بہت تیزی سے جماعت احمدیہ کی محبت بڑھ رہی ہے۔ ٹیلی ویژن نے، ریڈیو نے، اخبارات نے جماعت احمدیہ کے چرچے کئے اور جہاں جہاں بھی ہم ٹھہرے اور جہاں جہاں بھی ہمارے رابطے ہوئے وہاں ہم نے غیر معمولی محبت، جوابی محبت کو اُبھرتے ہوئے دیکھا اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایسے رابطے پیدا ہوئے جن سے انشاء اللہ تعالیٰ نہ صرف اُس ملک میں بلکہ اور بھی دوسرے ملکوں میں احمدیت کی داغ بیل ڈالنے کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ مثلاً ہماری ریسپشن میں وہاں کی تمام پارٹیوں کے نمائندگان شامل تھے اور مقامی طور پر حکومت کے نمائندگان اور معزز شخصیتیں بھی لیکن اس کے علاوہ بہت سے دیگر ممالک کے ایمبیسیڈرز تشریف لائے ہوئے تھے اور اُن ایمبیسیڈرز نے جس طرح سوال و جواب میں حصہ لیا اور اُس کے بعد جس محبت سے اظہار کیا ہے اُس کو دیکھ کر یقین نہیں آتا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیونکہ جماعت احمدیہ تو بالکل غیر معروف تھی، کسی کو کانوں کان بھی خبر نہیں تھی کہ جماعت احمدیہ کوئی موجود ہے لیکن دیکھتے دیکھتے ساری فضا پلٹ گئی۔ کوئی ریڈیو سے رابطہ نہیں تھا لیکن کیونکہ ایسی مجلس جس میں معززین تشریف لائیں وہاں ٹیلی ویژین اور ریڈیو کو خود بخود دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے اس لئے نیشنل ٹیلی ویژین کی ایک نمائندہ وہاں تشریف لائی ہوئی تھی انہوں نے ساری تقریب کی کاروائی کو ٹیلی وائز کیا اور پھر ہمیں بتایا کہ کل یہ فلاں وقت نشر ہو گی اور یہ بھی وعدہ کیا کہ میں اس کی مکمل کاپی آپ کو دے دوں گی تاکہ آپ بھی اس سے استفادہ کریں۔ بعض ایمبیسیڈرز نے تو دونوں ہاتھوں سے میرا ہاتھ پکڑ کر جانے سے پہلے بارہا یہ کہا کہ I am deeply touched کہ میرے دل میں گہرائی تک اثر ہو گیا ہے اور وہ ہاتھ ہی نہیں چھوڑتے تھے، زیادہ انگریزی نہیں آتی تھی یہی فقرہ بار بار کہے جاتے تھے اور پھر اپنے کارڈز دئیے اور آئندہ مستقل تعلق رکھنے کی تاکید کی۔ ایک ایمبیسیڈر صاحب کا وہاں جہاں مشن ہاؤس میں ہمارا قیام تھا وہاں پہنچتے پہنچتے فون آگیا کہ میں تو دوبارہ ملنا چاہتا ہوں۔ مجھے آپ دوبارہ وقت دین چنانچہ دوسرے روز پھر ہم اُن کے ہاں حاضر ہوئے اور بڑی محبت کے ماحول میں گفتگو ہوئی جو موضوع تھا گفتگو کا وہ یہ تھا کہ ہمارے ملک میں آپ جلدی پہنچیں اور کس طرح پہنچیں؟ اس سلسلے میں انہوں نے مجھ سے باتیں کیں کہ میں مدد کرنا چاہتا ہوں اور اگر آپ آنا چاہیں دروازے کھلے ہیں اور میں اپنی حکومت سے رابطہ کرتا ہوں میں یہ وعدہ تو نہیں کر سکتا کہ میں سو فیصدی کامیاب ہو جاؤں گا لیکن میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی انتہائی کوشش ضرور کروں گا کیونکہ انہوں نے بتایا کہ میرے نزدیک ہمارے ملک کو جماعت احمدیہ کی ضرورت ہے۔ چنانچہ وہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل تھا ورنہ انسان کہاں یہ تبدیلیاں دلوں میں پیدا کر سکتا ہے۔ یہ اُس خاص سال کی برکت ہی ہے جسے جشن تشکر کا سال کہتے ہیں اور چونکہ وہ مباہلے کا بھی سال تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس دہری برکتیں دی ہیں، غیر معمولی کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں۔

(خطبہ جمعہ 23؍مارچ 1990ء فرمودہ حضرت مرزا طاہر احمد، خلیفۃ المسیح الرابع ؒ)

جہاں زمین ختم ہوتی ہے اور سمندر شروع ہوتا ہے

(Cabo de Roca کابو دی روکا) پرتگال اور براعظم یورپ کا سب سے مغربی مقام ہےجس کے بعد بحر ِ اوقیانوس شروع ہوتا ہے اور امریکہ سے جاملتا ہے۔ یہ مقام Serra de Sintra کے پہاڑی سلسلہ کا انتہائی مغربی کنارہ ہے جو بالآخر بحرِ اوقیانوس میں ڈوب جاتا ہے۔ یہاں پر نصب ایک تختی پر یہ الفاظ تحریر ہیں۔

‘‘Onde a terra se acaba e o mar começa’’

جہاں زمین ختم ہوتی ہے اور سمندر شروع ہوتا ہے۔

یہ الفاظ پرتگالی زبان کے مشہور شاعر Luís Vaz de Camões کی شہرۂِ آفاق شاعری کا ایک مصرعہ ہے جس کا سیاق و سباق پرتگیزیوں خاص طور پر پرتگیزی عورتوں کےان جذبات کی عکاسی کرتا ہے جن کے کچھ پیارے نئی دنیاؤں کو دریافت کرنے کی دھن میں اور کچھ جنگوں میں ہیرو بننے کا عزم لے کر اسی سمندر کی بے پناہ وسعتوں میں ہی کھوگئے اور پھر کبھی لوٹ نہ سکے۔ اس مصرعہ میں پنہاں کرب کا اندازہ یہاں کے لوک گانوں اورموسیقی سے بھی ہوتا ہے جو Fado کے نام سے موسوم ہے۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح ِ موعود علیہ السلام کو الہاماً بتایا تھا کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ اور اسی کے فضل اور قدرتوں کا یہ ثبوت ہے کہ یہ الہام دنیا کے ہر خطہ میں، ہر دورمیں، ہر رنگ میں پورا ہوا۔ پرتگال بھی زمین کے کناروں میں سے ایک کنارہ ہے جہاں جماعتِ احمدیہ کا قیام 1987ء میں برازیل کی ایک احمدی خاتون محترمہ امینہ صاحبہ کے ذریعہ ہوا اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ اس ملک میں بھی پورا ہوا اور یہ سر زمین اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث ہوئی۔ پرتگال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس پیغام کو پھیلانے والے پہلے مبلغ آپ کے ایک فدائی حضرت مولانا کرم الٰہی ظفر تھے جو 1988ء میں یہاں آپ کے سفیر کی حیثیت سے آئے اور آپ کے پیغام کو زمین کے اس کنارہ تک پہنچانے کے گواہ بنے۔ اور پھر بعد میں مارچ 1990ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے ورودِ مسعود کے ذریعے اس سرزمین کو عزت بخشی۔

(فضل احمد مجوکہ۔ صدر و مبلغ انچارج جماعتِ احمدیہ پرتگال)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ