• 19 مئی, 2024

کسی کو اپنی جماعتی خدمات پر خوش ہونا چاہئے

پس نہ کسی کو اپنی نمازوں پر خوش ہونا چاہئے۔ نہ کسی کو اپنی جماعتی خدمات پر خوش ہونا چاہئے۔ نہ کسی کو کوئی خاص عہدہ ملنے پر خوش ہونا چاہئے۔ نہ کسی کو کسی مالی قربانی پر خوش ہونا چاہئے جبتک کہ عاجزی، انکساری اور اپنے بھائیوں سے ہمدردی اُس میں نہ ہو۔ اور جب حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کے جذبات ایک انسان میں موجزن ہوتے ہیں تو پھر وہ حقیقی تقویٰ پر قدم مار رہا ہوتا ہے اور حقیقی تقویٰ پر چلنے والا پھر کسی نیکی پر خوش نہیں ہوتا۔ اُس میں فخر نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور اُس کی خشیت اُس میں بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ہر نیکی کرنے کے بعد یہ فکر دامنگیر رہتی ہے کہ پتہ نہیں یہ نیکی خدا تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ بھی پاتی ہے کہ نہیں۔ پس حقیقی نیکیاں تقویٰ پیدا کرتی ہیں اور تقویٰ انسان میں عاجزی اور انکساری پیدا کرتا ہے۔ اور یہی چیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس زمانے میں ہم میں پیدا کرنے آئے ہیں۔ دوسروں کے لئے ہمدردی کے جذبات رکھنے کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ شرائطِ بیعت جو ایک احمدی کے حقیقی احمدی مسلمان کہلانے کے لئے بنیادی چیز ہے، اس کی چوتھی شرط میں آپ فرماتے ہیں کہ:
’’یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا، نہ زبان سے، نہ ہاتھ سے، نہ کسی اور طرح سے‘‘۔

(مجموعہ اشتہارات جلداول 159 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘ اشتہار نمبر 51مطبوعہ ربوہ)

پس ایک احمدی مسلمان سے نہ صرف احمدی مسلمان بلکہ ہر مسلمان، ہر قسم کی ناجائز تکلیف سے محفوظ ہونا چاہئے اور نہ صرف مسلمان بلکہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق کا محفوظ رہنا ضروری ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے۔ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ تکلیف پہنچانے کی برائی سے وہ پاک ہوتے ہیں تو کوئی یہ نہ سمجھے کہ پھر اُس نے بھی نیکی کے اعلیٰ معیار کو پا لیا۔ مومن کا تو ہر قدم آگے سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور بڑھنا چاہئے، ورنہ تقویٰ اور ایمان میں ترقی نہیں ہو سکتی۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شرائطِ بیعت کی نویں شرط میں فرمایا کہ:
’’یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چلتا ہے، اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا‘‘۔

(مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ160 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘ اشتہار نمبر51مطبوعہ ربوہ)

پس حقیقی نیکی اُس وقت ہو گی جب اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو گی اور اس رضا کے حصول کے لئے اپنی تمام تر طاقتوں اور استعدادوں کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی میں ایک شخص استعمال کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے سب سے بڑھ کر انسان ہے جو اشرف المخلوقات ہے۔ پس حقیقی انسان اُس وقت بنتا ہے جب حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہو۔ دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی طرف توجہ دے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جون 2012)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 اکتوبر 2020