• 25 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍اکتوبر 2022ء

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 7؍اکتوبر 2022ء بمقام

آج دنیا کی بقاء ہمارے ہاتھوں میں ہے کیونکہ ہم اُس مسیح موعود اور آنحضرت صلی الله علیہ و سلم کے غلام صادق علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والے ہیں جسے دنیا کو زندگی دینے اور آپؐ کی لائی ہوئی تعلیم کے پھیلانے کے لئے الله تعالیٰ نے بھیجا ہے اور اب اُس کے ساتھ جُڑنے سے ہی دنیا و آخرت سنور سکتے ہیں۔ دنیا والوں کو بتائیں کہ تم اِس دنیا کی چمک دھمک اور ترقیات پر خوش نہ ہو جاؤ، مرنے کی بعد کی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہے اور وہاں اگر انسان خالی ہاتھ جائےتو الله تعالیٰ کی ناراضگی کا سامنا کرنا ہو گا اور پھر وہ کیا سلوک کرتا ہے وہ بہتر جانتا ہے لیکن اِس کے ساتھ ہمیں ہمیشہ اِس بات کو بھی سامنے رکھنا چاہئے کہ جب ہم دنیا کو اِس تفصیل سے ہوشیار کریں گے تو ہمارا اَپنا ہر قول و فعل بھی اِس تعلیم کے مطابق ہو

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ، سورۃالفاتحہ نیز سورۃ الاعراف کی آیات 31 اور 32 کی تلاوت بمعہ ترجمہ پیش کرنے کے بعد ارشاد فرمایا! آج آپ کو اپنی مسجد کے افتتاح کی الله تعالیٰ توفیق عطاء فرما رہا ہے، گو اِس کی تعمیر تو کچھ عرصہ پہلے مکمل ہو گئی تھی لیکن رسمی افتتاح اب ہو رہا ہے۔الله تعالیٰ اُن سب کو اِس مسجد کا حق اداء کرنے کی توفیق عطاء فرمائے جنہوں نے اِس کی تعمیر میں حصہ لیا ہے۔

الله کی رضا کی خاطر بنائی ہوئی مسجد کا کام تعمیر کے بعد ختم نہیں ہو جاتا

الله تعالیٰ کرے کہ یہ مسجد آپ نے خالصتًہ الله تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بنائی ہو اور آنحضرت ؐ کے اِس ارشاد سے فیض پانے والے ہوں جس میں آپؐ نے فرمایا! جس نے الله تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مسجد بنائی ، الله تعالیٰ جنت میں اُس کے لئے ویسا ہی گھر بنائے گا۔الله تعالیٰ کی رضا کی خاطر بنائی ہوئی مسجد کا کام مسجد کی تعمیر کے بعد ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اُس کی رضا کا انسان تبھی حامل بنتا ہے جب اُس کے حکموں پر چلنے، اُس کی عبادت کا حق اور حقوق العباد اداء کرنے، وفاء اور اخلاص سے دین کو دنیا پر مقدم اور اپنی بیعت کا حق اداء کرنے والا ہو۔

اپنی ذمہ داریوں کو ہم میں سے ہر ایک کو سمجھنا ہو گا

ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے زمانہ کے امام اور آنحضرتؐ کے غلام صادق کو مانا، ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ آپؑ کو ماننا اور آپؑ کی بیعت میں آنا ہم پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالتا ہے ۔ ہمارا کام آپؑ کی بیعت میں آ کر ختم نہیں ہو گیا بلکہ پہلے سے بڑھ گیا ہے، تبھی ہم اُن انعامات کے وارث ٹھہریں گے جن کا وعدہ الله تعالیٰ نے آپؑ سے کیا ہے، پس اپنی ذمہ داریوں کو ہم میں سے ہر ایک کو سمجھنا ہو گا۔ اِس مسجد کو آباد رکھنا ، آپس میں پیار و محبت سے رہنا، رواداری اور بھائی چارہ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانا ، اسلام کی خوبصورت تعلیم کا پیغام دنیا کو دینا ، مسلسل دعاؤں سے اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینا نیز اپنی نسلوں کی اصلاح کی فکر کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ تبھی ہم مسجد کا حق بھی اداء کر سکیں گے۔

دنیا کو ایک واضح فرق نظر آنا چاہئے

آپؑ نے ایک موقع پر فرمایا! جہاں اسلام کا تعارف کروانا ہو وہاں مسجد بنا دو۔ اب اِس مسجد کے بننے سے ظاہری طور پر تعارف اِس علاقہ میں ہو جائے گا، مسجد سے تعارف ہمسائیوں اور یہاں سڑک سے گزرنے والوں کو بھی ہو گا اور یہ جو تعارف کا راستہ کھلا ہے اِس سے آپ کے تبلیغ کے راستے بھی کھلیں گے۔پس ہر احمدی کو اسلام کی تعلیم کا نمونہ بھی بننا پڑے گا اور بننا چاہئے، دنیا کو ایک واضح فرق نظر آنا چاہئے کہ اِس دنیا دار معاشرہ میں ایسے لوگ بھی ہیں جو دنیا میں رہتے، دنیا کے کام کرتے ہوئے پھر دین کو دنیا پر مقدم، اپنے پیدا کرنے والے قادر و توانا خدا سے تعلق اور مخلوق سے ہمدردی رکھنے اور اِس کے کام آنے والے بھی ہیں۔ جب یہ چیز دنیا دار دیکھتے ہیں تو اُن میں تجسس پیدا ہوتا ہے اور پھر یہی اسلام کی تبلیغ کے راستے کھولتا ہے، پس اب ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر اسلام کی عملی تصویر بننے کی ضرورت ہے۔

الله تعالیٰ کی مسجد میں آنے والے حقیقی مؤمنوں کو پہلی نصیحت

حضور انور ایدہ الله نے اوّل الذکر آیات مبارکہ کی روشنی میں بیان فرمایا! پس الله تعالیٰ نے حقیقی مؤمنوں، مسجد میں آنے والوں کو بحوالہ مسجد پہلی نصیحت یہ فرمائی ہے کہ حقوق العباد کی ادائیگی کے سامان کرو اور اِس کے لئے سب سے اہم چیز انصاف قائم کرنا ہے۔ اب جہاں الله تعالیٰ غیروں اور دشمنوں سے بھی انصاف قائم کرنے کا حکم دے رہا ہے تو اپنوں سے کس قدر پیار و محبت سے ہمیں رہنا چاہئے اور جب یہ حالت ہوتی ہے تو پھر الله تعالیٰ کے پیار کی نظر بھی ایسے لوگوں پر پڑتی ہے۔ جب یہ لوگ مسجد میں الله تعالیٰ کی عبادت کے لئے داخل ہوتے ہیں تو وہ اُن کی عبادت کو قبول فرماتا ہے لیکن اگر ایک شخص اپنے گھر میں اپنی بیوی سے نیک سلوک نہیں کر رہا، ہر وقت اُسے طعن و تشنیع کا نشانہ بنا یا ہوا ہے، بچے اُس سے علیحدٰہ خوفزدہ ہیں اور پھر وہ اپنے عمل سے بچوں کی دین سے دُوری کا باعث بھی بن رہا ہے تو پھر اُس کے نہ ہی جماعتی کام اور نہ ہی عبادتیں الله تعالیٰ کے حضور قابل قبول ہوتے ہیں۔ اِس دو عملی کی وجہ سے دھوکا ہے جو انسان کسی اور کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو دے رہا ہوتا ہے۔

یہ معیار حاصل کرنا ہمارا کام ہے

پس حقیقی مومن وہی ہے جو اندر اور باہر انصاف قائم کرنے والا اور اُس کا قول و فعل اندر اور باہر ایک جیسا ہے اور یہی لوگ وہ ہیں جو حقیقت میں مسجد کی آبادی کا حق اداء کرنے والےہیں کیونکہ اِن کے دل الله تعالیٰ کی خشیّت سے پُر ہیں۔ پس یہ معیار حاصل کرنا ہمارا کام ہے ورنہ صرف مسجد بنا دینا اور یہاں آ کر نمازیں پڑھ لینا جلدی جلدی اپنے سر سے بوجھ اُتارنے کے لئے یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور جب انسان یہ معیار حاصل کر لیتا ہے تو پھر وہ الله تعالیٰ کے نزدیک ایک معصوم بچہ کی طرح اور اُس کا انجام بخیر ہے کیونکہ وہ الله تعالیٰ کے حق کے ساتھ بندوں کے حق بھی اداء کر رہا ہے۔کسی کو اِس بات پر ہی ناز نہیں ہونا چاہئے کہ مَیں بہت نماز پڑھنے والا ، پانچ وقت مسجد میں آ جاتا اور جماعت کے کام بھی کر رہا ہوں تو یہ کافی ہے ۔ آنحضرتؐ نے فرمایا! جو بندوں کے حقوق اداء نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کا بھی حق اداء نہیں کرتا۔ پس کسی خوش فہمی میں ہمیں نہیں رہنا چاہئے، حقیقی عابد اور مسجدوں کو آباد کرنے والا وہ ہے جو خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیّت اپنے اندر رکھتے ہوئے اُس کے حکموں پرعمل کرنے والا ہو۔

مسلمانوں کی حالت بگڑنے کی وجہ سے ہی زوالِ اسلام شروع ہوا

جب اُنہوں نے انصاف اور عبادتوں کو دکھاوا بنا لیا یا اُس کا حق اداء نہیں کیا اور پھر سب کچھ ضائع ہو گیا، خوبصورت مسجدیں تو بے شک بناتے رہے اور بنا رہے ہیں اور احمدیوں کی مساجد کو تو آجکل گرانے کا بھی زور ہے اِس لئے کہ ا ُن کی مسجدوں جیسی شکل (مینار و محراب) نہ ہو لیکن عباد الرحمٰن نہیں اِن میں پیدا ہوئے۔۔۔حضرت علیؓ سے مروی ہے، آنحضرتؐ نے فرمایا! عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سواء اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا، الفاظ کے سواء قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا، اُس زمانہ کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آ ئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی، اُن کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بد ترین مخلوق ہوں گے، اُن میں سے ہی فتنے اُٹھیں گے اور اُنہی میں لَوٹ جائیں گے۔ اور یہی کچھ ہم آجکل اکثر مسلمانوں کی مساجد میں دیکھ رہے ہیں تو یہ حالت ہمیں ہوشیار کرنے والی ہے۔۔۔ہم ہی ہیں جنہوں نے اسلام کی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوباہ قائم کرنا ہے، دنیا کو ہم نے بتانا ہے تم جو اسلام اور مسلمانوں کو حقیر سمجھتے ہو اور تمہارے نزدیک یہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں لیکن یاد رکھو! یہی لوگ ہیں جن کی تعلیم پر عمل سے دنیا کی بقاء ہے، پس مکمل خوداعتمادی کے ساتھ الله تعالیٰ کے فضلوں کو اُس کے آگے جھکتے، مانگتے ہوئے ہمیں دنیا کی رہنمائی کا کام کرنا ہو گا۔

پس الله تعالیٰ نے بڑی متوازن تعلیم دی ہے

دنیا بھی کماؤ لیکن دین کو بھی ہمیشہ سامنے رکھو، اِس میں اِسراف نہ کرو اور حقیقی مؤمن وہی ہے جو دین کو دنیا پر مقدم رکھتا ہے۔ اور جب ایک انسان حقیقت میں دین کو دنیا پر مقدم رکھتا ہے تو پھر الله تعالیٰ اُس کے لئے رزق کے بھی نئے سے نئے راستے کھولتا اور اُس کے کام میں برکت بھی عطاءفرماتا ہے۔ پس جو الله تعالیٰ کے حکموں پر چلے اور اپنی زندگی کو اُس کے احکامات کے مطابق ڈھالے، اپنی عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کی کوشش کرے اُسے الله تعالیٰ کے فضل سے دنیا کی ضروریات بھی مِل جاتی ہیں۔ ہاں! دنیاوی لالچ کی خواہشات بڑھتی جاتی ہیں اور اگر یہ بڑھ جائیں تو ایسی آگ ہے کہ جو کبھی بجھتی نہیں ہے۔

تعمیر مسجد کا مقصد

آنحضرت ؐ فرماتے ہیں۔ الله کی مساجد کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا اَور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، پس ہمیں اُن ایمان لانے والوں میں سے ہونا چاہئے جو مسجدوں کو آباد کرنے والے ہیں اور مسجد کو آباد کرنے والوں کی نشانی ہے کہ وہ ایک نماز سے دوسری نماز تک انتظار کرتے ہیں کہ کب وقت ہو اور ہم نماز کے لئے جائیں، پس یہ مقصد ہے مسجد کی تعمیر کا کہ اِسے آباد کرنا اور کس طرح آباد کرنا ہے۔ پس یہ مسجد بنانے کے بعد یہاں کے رہنے والوں کا کام ہے کہ اِسے آباد بھی کریں۔یہی طریق ہے الله تعالیٰ کے فضلوں کو جذب اور اپنی اصلاح کرنے اور اپنی نسلوں کو بھی خدا تعالیٰ کے ساتھ جوڑنے کا ورنہ موجودہ زمانے کی چمک دھمک ہماری نسلوں کو دین سے دُور لے جائے گی، بچپن سے ہی اُنہیں مسجد کے ساتھ جوڑنے اور دین کی اہمیت بتانے کی ضرورت ہے اور یہ ماں، باپ دونوں کا کام ہے۔اِس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھیں!مسجد کے بننے اور اَب افتتاح سے جماعت کا مزید تعارف ہو گا، مسجد اور اسلام کا تعارف ہو گا تو تبلیغ کے راستے کھلیں اور مزید رابطے بھی ہوں گے، پس اِن سے فائدہ اُٹھا کر اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچانا بھی ہر احمدی کا کام ہے۔

اِس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔ اِس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے، یہ خانۂ خدا ہوتا ہے ۔ جس شہر یا گاؤں میں ہماری مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیت بااخلاص ہو، محض لله اُسے کیا جاوے۔ پس آپؑ کے فرمان کے مطابق مسجد سے جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی، اگر یہاں کے احمدیوں کی کوششیں اخلاص سے ہوں گی، عبادتوں کے معیار ہوں گے تو اِنْ شَآءَ اللهُ سمجھیں کہ اب جماعت کی ترقی کی بنیاد یہاں بھی پڑ گئی ہے۔ پس اپنی عبادتوں اور اخلاص کے معیار بڑھاتے چلے جائیں، اپنی نسلوں میں بھی اِس اخلاص اور دعاء اَور عبادت کی اہمیت کو منتقل کرتے چلے جائیں تو اِس مادی دنیا کے دلدادوں میں بھی ہم انقلاب پیدا ہوتا دیکھیں گے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں سے نہیں بلکہ اُن نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نمازپڑھتے ہیں۔ الله تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ وہ اخلاص کے ساتھ نمازیں پڑھنے والے اور اِس مسجد کو آباد کرنے والے ہوں، الله تعالیٰ ہماری دعاؤں اور عبادتوں کو بھی قبول فرمائے۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

ارشادات نور (کتاب)

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ