• 7 جولائی, 2025

اے چھاؤں چھاؤں شخص !تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص !تیری عمر ہو دراز

لطف و مزاح کے چند لمحات

ہم Folkestone میں روانگی سے تیس منٹ پہلے پہنچ گئے تو اس دوران حضور انور اپنی گاڑی سے باہر تشریف لائے اور چند منٹوں کے لیے سروس ایریا میں تشریف فرما ہوئے۔ حضور انور نے گرے اچکن اور کریم رنگ کی افغانی ٹوپی زیب تن کر رکھی تھی اور اپنا پڑھنے والا چشمہ بھی پہن رکھا تھا۔ حضور انور سے چند میٹر کے فاصلے پر کھڑے ہوئے میں نے دیکھا کہ حضور انور اپنے آئی فون پر کچھ پڑھ رہے تھے اور مسکرا رہے تھے۔

ایک منٹ کے بعد حضور انور نے اوپر دیکھا اور مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ آپ نے اپنے فون پر ایک لطیفہ پڑھا ہے جو آپ نے مجھے بھی سنایا۔ یہ لطیفہ پاکستان کے ایک ڈرائیور کے بارے میں تھا جس کو ڈرائیونگ کرتے ہوئے سیٹ بیلٹ پہننے پر ایک ہزار روپے انعام دیے گئے۔ انعام وصول کرنے پرڈرائیور نے کہا کہ وہ یہ پیسے ڈرائیونگ لائسنس کے حصول پر خرچ کرے گا۔ جس کے بعد اس کی والدہ نے جو اس کے ساتھ ہی بیٹھی تھیں کہا کہ میرے بیٹے کی کسی بات پر یقین نہ کرنا کیونکہ وہ شراب کے نشے میں ہے۔ پھر اس کے والد نے کہا جو پیچھے سو رہے تھے کہ میں جانتا تھا کہ ہم اس چوری کی گاڑی میں ضرور پکڑے جائیں گے۔ پھر اچانک ڈرائیور کا بھائی جو پیچھے چھپا ہوا تھا بآواز بلند کہنے لگا کہ بھائی کیا ہم نے قانونی طور پر بارڈر کراس کر لیا ہے یا نہیں۔

اس لطیفے کو سناتے ہوئے حضور انور ہنس رہے تھے اور اس لطیفے سے خوب لطف اندوز ہو رہے تھے۔ حضور انور نے فرمایا اس آدمی نے جس نے سیٹ بیلٹ باندھنے پر انعام وصول کیا ہے اور اس (قانونی) کام کے سوا، ڈرائیونگ کا ہر دوسرا قانون توڑنا ہے۔

حضور انور کا خیال رکھنا اور مدد فرمانا

Nunspeet (ہالینڈ) میں دفتری کاموں کے لیے عمومی طور پر جگہ نہ تھی۔ اس لیے میں سوچ رہا تھا کہ میں کہاں بیٹھ کر کام کروں گا۔ اپنے تئیں میں نے سوچا کہ میں اپنے بیڈ پر بیٹھ کر وہیں سے ہی کام کروں گا۔ میں نے اس بارے میں حضور انور کی خدمت میں کچھ عرض نہ کیا تھا لیکن اس دن حضور انور نے ازخود خاکسار سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں اپنے بیڈ روم سے ملحقہ کمرے کا کھانے کا میز دفتری کاموں کے لیے استعمال کر لوں۔ میں حضور انور کا بے حد ممنون تھا کہ باوجود اس قدر مصروفیات کے حضور انور اپنے ساتھ رہنے والوں کی معمولی سے معمولی اور اہم ترین معاملات پر نگاہ رکھتے ہیں۔

لوکل احمدیوں سے ملاقات

اس شام حضور انور نے جرمنی جماعت کی فیملیز سے ملاقات فرمائی اس دوران مجھے موقع ملا کہ ان احباب سے ملوں جن کو ابھی ابھی حضور انور سے ملاقات کا شرف ملاتھا۔

*میری ملاقات ایک خادم عزیزم تنویر (بعمر 18 سال) سے ہوئی اور ان کی ہمشیرہ مختار صاحبہ (بعمر 23 سال) سے بھی ہوئی۔ جب میں ان سے ملا تو میں نے ایک بڑی غلطی کھائی اور انہیں میاں اور بیوی خیال کیا۔ انہوں نے بھی میری غلطی پر تبسم اور حیرت کا ایک جیسا اظہار کیا۔

ان دونوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ کس طرح ایک جرمن معاشرے میں پروان چڑھنے کی وجہ سے ان کو کئی چیلنجز کا سامنا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ آزادی کے نام پر بہت زور ہے اور معاشرے کی اقدار مذہب کے اس شدت سے خلاف ہیں کہ لوکل معاشرے کے اثر سے بچنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔

تاہم اس شام حضور انور سے ملاقات کرنے اور آپ کے پیچھے نماز ادا کرنے سے انہیں اپنے ایمان کے ساتھ ایک منفرد اور فوری کشش محسوس ہوئی۔ مختار صاحبہ نے بتایا کہ ’’یہ نہایت اہم اور مفید ہے کہ جب کبھی بھی حضور انور ہمارے پاس دورے کے لیے تشریف لاتے ہیں کیونکہ جب ہم حضور انور کو دیکھتے اور سنتے ہیں تو اپنے ایمان اور مساجد کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہو جاتی ہے۔ ہالینڈ میں بہت سے منفی اثرات ایسے ہیں جو ہمیں ہمارے ایمان سے دور لے جاتے ہیں۔ لیکن جب آپ حضور کو دیکھتے ہیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ مذہب کی کیا اہمیت ہے اور کیوں یہ ہمارے لیے بہتر ہے۔‘‘

جب ہماری گفتگو ختم ہوئی اور میں نے رخصت لی تو تنویر صاحب نے مجھے واپس بلایا اور میرا شکریہ ادا کیا کہ ہم نے وہ چند منٹ اکٹھے گزارے۔ انہوں نے کہا کہ ’’صرف حضور انور کے بارے میں گزشتہ پانچ منٹ بات کرنا مجھے بہت اچھا لگا کیونکہ اس نے مجھے میرے ایمان کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا اور اس نے مجھے خلافت کی اہمیت باور کروائی۔ میں پہلے ہی اپنے تئیں حضور انور اور اپنے مذہب کے قریب پاتا ہوں۔‘‘

دیگر دوستوں سے ملاقات

بعد ازاں میری ملاقات ایک احمدی دوست مکرم عبدالمومن (بعمر اکتیس سال) سے ہوئی جو گزشتہ تین سال سے ہالینڈ میں رہ رہے تھے۔ جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت جذباتی ہو رہے تھے کیونکہ ان کی حضرت خلیفۃ المسیح سے زندگی میں پہلی بار ملاقات ہوئی تھی۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے جب انہوں نے بتایا کہ
’’حضور انور کی ذات کا بالمشافہ مشاہدہ کرنا بجائے ٹی وی پر دیکھنے کے ایسا تھا جیسے کوئی معجزہ رونما ہوا ہو۔ حضور انور کے وجہ مبارک کے نور، وجاہت اور خوبصورتی کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ میں اپنے تئیں سب سے خوش قسمت ترین انسان خیال کرتا ہوں کیونکہ آج میں نے اسی ہوا میں سانس لیا ہے جس میں میرے پیارے آقا نے لیا ہے۔ آج مجھے احساس ہوا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح کی موجودگی کس قدر متاثر کرنے والی ہے اور یہ کہ آپ کے وجود سے سچائی چھلکتی ہے۔‘‘

*بعد ازاں ایک نوجوان مکرم محمد طارق (بعمر انیس سال) سے میری ملاقات ہوئی جو حضور انور سے آٹھ سال کے بعد مل رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’آج میں بطور ایک بالغ (مرد) کے حضور انور سے پہلی بار ملا ہوں اور جب میں خلافت کی برکات کے بارے میں سوچتا ہوں تو وہ غیر معمولی ہیں۔ حضور انور کی وجہ سے دنیا بھر میں لوگ احمدیت قبول کر رہے ہیں۔ جس کا باعث آپ کا مثالی نمونہ ہے۔ میں پوری ایمانداری اور وثوق سے کہتا ہوں کہ ہماری تبلیغی مساعی کی کوئی وقعت نہیں اور ہماری جماعت کو جو بھی کامیابی نصیب ہوتی ہے وہ خلافت کی برکات کی وجہ سے ہے۔‘‘

*پھر میری ملاقات ایک خادم مکرم عباس (بعمر تئیس سال) سے ہوئی جو حال ہی میں ربوہ سے ہالینڈ منتقل ہوئے تھے۔ ان کی حضور انور سے زندگی کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ
’’چند لمحات قبل میں دنیا کی عظیم ترین شخصیت کے سامنے بیٹھا تھا۔ میرے لیے بولنا ناممکن ہو رہا تھا لیکن کسی طرح میں نے ہمت کر کے حضور انور سے دعاؤں کی درخواست کی۔ یہی بہت کافی تھا کیونکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ حضور انور کی دعائیں عمر بھر میری حفاظت کریں گی۔ ان چند لمحات نے میری زندگی بدل ڈالی۔‘‘

مکرم عباس صاحب نے مزید بتایا کہ ’’آج میں نے حضور انور کی اقتدا میں نماز ادا کی اور خلیفہ کے پیچھے نماز پڑھنا ایک مختلف اور منفرد تجربہ تھا۔ نماز میں ایسے جذبات اس سے پہلے میں نے کبھی محسوس نہیں کئے۔‘‘

*میری ملاقات ایک احمدی مکرم ملک حسن احمد (بعمر پچیس سال) سے ہوئی۔ جو 2014ء میں پاکستان سے ہالینڈ تشریف لائے تھے۔حضور انور سے زندگی کی پہلی ملاقات کےبعد انہوں نے بتایا کہ
’’جب میں حضور انور کے دفتر میں داخل ہوا تو بالکل بے خود ہو کر رہ گیا کیونکہ میں نہیں جانتا تھا کہ کسی وجود کا چہرہ ایسا نورانی اور وجیہہ ہو سکتا ہے۔ مجھے علم نہ تھا کہ کسی وجود کی آواز میں ایسی محبت، شفقت اور رعب یکساں ہو سکتا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آج کے بعد سے میں ہمیشہ قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا۔ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اور حضرت خلیفۃ المسیح جو بھی ارشاد فرمائیں گے اس کی پیروی کروں گا۔‘‘

*ایک اور دوست جنہیں زندگی میں پہلی مرتبہ حضور انور سے ملاقات کا شرف حاصل ہواتھا ان کا نام مکرم محمد لقمان احمد (بعمر بتیس سال) تھا۔ انہوں نے بتایا کہ
’’میری ملاقات ابھی پوری دنیا کے امام سے ہوئی ہے۔ مجھے آپ کے سامنے بیٹھنے کا موقع ملا آپ کو دیکھنے کا اور سننے کا موقع ملا۔ میں کس قدر خوش قسمت ہوں۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری عزت اور شرف حضور انور کی ہر ہدایت کی فرمانبرداری میں ہے۔اگر میں امن سے رہنا چاہتا ہوں تو اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ میں حضور انور کی ہر بات کو سنوں اور اس پر عمل کروں۔‘‘

(ہالینڈ میں) لندن سے آئے
کچھ مہمانوں سے ملاقات

حضور انور کے دورے کے ابتدائی ایام میں Jonathon Butterworth صاحب اور ان کی اسپینش اہلیہ محترمہ ماریہ صاحبہ بھی Nunspeet مشن ہاؤس میں رہائش پذیر تھے۔ وہ اپنی چھوٹی بیٹی کے ساتھ مختصر رخصت پر آئے تھے۔ مکرم Jonathon صاحب اور ان کی اہلیہ نو مبائعین میں سے ہیں۔ تاہم جب آپ ان سے بات کرتے ہیں یا ملتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ پیدائشی احمدی ہوں۔ یقینی طور پر جب میری Jonathon صاحب سے بات ہوئی تو میں اپنے احمدیت کے معیار پر نادم تھا اور اس دورہ ہالینڈ کے دوران میری ملاقات ان کی اہلیہ سے بھی ہوئی اور جماعت کے لیے ان کا اخلاص بھی خوب عیاں تھا۔

اس شام حضور انور کا پروگرام ڈَچ پارلیمنٹ جانے کا تھا۔ اس لیے یہ دونوں میاں بیوی حضور انور کی رہائش کے باہر سڑک پر کھڑے تھے تاکہ گاڑی کی طرف جاتے ہوئے حضور انور کو ہاتھ ہلا کر محبت کا اظہار کر سکیں۔ مجھے ان سے ملنے کا موقع ملا اور میں نے ماریہ صاحبہ سے پوچھا کہ Nunspeet میں ان کا قیام کیسا گزر رہا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ انہیں لگ رہا ہے جیسے وہ کسی اور دنیا میں ہوں اور اپنی خوشی کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ وہ ہالینڈ میں حضور انور کی اس قدر قربت میں رہ رہی ہیں۔

Jonathon صاحب بھی حضور انور کو دیکھنے کی وجہ سے بہت خوش تھے اور اگرچہ یہ دونوں مسجد فضل لندن کے قریب رہتے ہیں تاہم حضور انور کی قربت میں کسی دوسرے ملک میں رہنا ان کے لیے ایک خاص اور بہت special تجربہ تھا۔

(حضور انور کا دورہ جرمنی مئی-جون 2015ء اردو ترجمہ از ڈائری مکرم عابد خان)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

ارشادات نور (کتاب)

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ