• 1 مئی, 2024

وقف زندگی کی اہمیت اور اس کے تقاضے

وقف زندگی کے لغوی معنی یہ ہیں کہ اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا۔ عربی زبان میں کہتے ہیں وَقَفَ الدَّارَ اَیْ جَعَلَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یعنی اس نے گھر کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کردیا۔

وقف زندگی ایک نہایت ہی مبارک کام ہے۔ ویسے تو ہر مومن کی زندگی وقف ہوتی ہے اور وہ ہر وقت اپنی جان و مال اور عزت کو قربان کرنے کے لئے آمادہ رہتا ہے۔ لیکن جب خاص طور پر صدق دل کے ساتھ خدمت دین کا جذبہ رکھتے ہوئے اس مبارک باغ میں قدم رکھا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے خاص انعامات سے نوازتا ہے۔ وہ انعامات کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ واقف زندگی کو حقیر سے عزیز بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ خاص عزت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی رضا عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ واقف زندگی کے تقویٰ کو دیکھتے ہوئے اُسے بے حساب رزق بھی عطا فرماتا ہے جیساکہ سورۃ الطلاق آیات 3 تا 4 میں آتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرے وہ اُس کے لئے نجات کی کوئی راہ بنا دیتا ہے اور وہ اُسے وہاں سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کرسکتا۔ پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ واقف زندگی کا آپ متکفل ہوجاتا ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ ؒ نے صحابی رسول حضرت عبداللہؓ بن الحارث سے آنحضرتﷺ کا یہ فرمان سنا آپﷺ نے فرمایا:مَنْ تَفَقَّہَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ کَفَاہُ اللّٰہُ تَعَالیٰ مُھِمَّہٗ وَ یَرْزُقُہٗ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ (مُسند الامام الاعظم کتاب العلم روایت نمبر33 صفحہ59-60 ناشر مکتبۃ البشریٰ کراچی) یعنی جو شخص بھی اپنے اندر تفقّہ فی الدین پیدا کرتا تو اللہ تعالیٰ اُس کے تمام کاموں اور مقاصد کا خود متکفل ہو جاتا ہے اور اُس کے لیے ایسی جگہوں سے رزق کے سامان مہیا کرتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کرتا۔ پھر ایک انعام اور اعزاز اللہ تعالیٰ واقف زندگی کو یہ عطا کرتا ہے کہ لوگ اُسے دیکھ کر اپنے لئے قابلِ اقتدا سمجھتے ہیں اور اس طرح وہ لوگوں کو راہ راست پر لانے کا موجب بنتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے حضرت علیؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ خدا کی قسم ! تیرے ذریعے سے ایک آدمی کا بھی ہدایت پا جانا اعلیٰ درجے کے سرخ اونٹوں کے مل جانے سے بہتر ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الجہاد باب من اختار الغزو بعد البناء حدیث 2942)

یہ تو وہ چند ایک انعامات ہیں جن کا مشاہدہ واقف زندگی اپنی زندگی میں ہی کرلیتا ہے۔ ان کےعلاوہ بھی بہت سے انعامات ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کےحضور اُسے نوازا جائے گا۔ مثلاً ایک حدیث میں آتا ہے کہ مَنْ شَابَ شَیْبَۃً فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ كَانَتْ لَهٗ نُوْرًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ

(ترمذی کتاب فضائل الجہاد باب ما جاء فی فضل من شاب شیبۃ فی سبیل اللہ)

یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ جو دینِ اسلام ہے اس کی خدمت کرتے ہوئے بوڑھا ہوجائے گا اُس کے لئے قیامت کے دن نُور ہوگا۔ غرض وقف زندگی کے بے شمار فوائد اور برکات ہیں۔

زندگی وقف کرنے کا یہ سفر حضرت آدمؑ سے شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ تاریخ نے ان ناموں کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیا ان کے نام آج تک ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور رہتی دنیا تک یہ نام زندہ رہیں گے۔ وہ خوش قسمت لوگ کون ہیں؟ ان میں سرفہرست وہ سارے انبیاء اور ان کے صحابہ ہیں اور پھر وہ سارے واقفین ہیں جو ہر دور میں وقفِ زندگی کی تحریک پر لبیک کہنے والے اور اپنی اولادوں کو پیش کرنے والے لوگ ہیں۔وہ حضرت ابرا ہیمؑ ہیں جو خود بھی بہت بڑے واقف زندگی تھےجن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا : وَ اِبْرَاھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی (النجم:38) ’’اور ابراہیم جس نے عہد پورا کیا ‘‘۔ اُنہوں نے اپنے بیٹے کو بھی خدا کی راہ میں وقف کیا۔ وہ حضرت اسماعیلؑ ہیں جنہوں نے محض اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں بے آب و گیاہ وادی میں بغیر کسی ظاہری حفاظتی سامان کے اپنی والدہ کے ساتھ قیام کیا۔ وہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی کا ایک ایک لمحہ اس پاک راہ میں خرچ کر دیا۔ لوگوں کی تکالیف کے باوجود آپﷺ اپنے اس مقصد سے پیچھے نہ ہٹے بلکہ اس کا پورا حق ادا کیا۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ وَ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْن

(البقرہ: 113)

سچ یہ ہے کہ جو بھی اپنا آپ خدا کے حضور سپرد کردے اور وہ احسان کرنےوالا ہو تو اس کا اجر اس کے ربّ کے پاس ہے اور اُن لوگوں پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔

اس آیت کی تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب آئینہ کمالاتِ اسلام میں وقف کی حقیقت کو بیان فرمایا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنا دو قسم پر ہے اوّل یہ کہ اللہ تعالیٰ کو ہی اپنا معبود اور مقصود اور محبوب ٹھہرایا جائے یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور محبت میں کوئی شریک نہ ہواور اس کے سب حکموں پر عمل کیا جائے اور دوم یہ کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کی خدمت اور ہمدردی اور غمخواری میں اپنی زندگی وقف کردی جائے۔

اسلام چیز کیا ہے خدا کیلئے فنا
ترکِ رضائے خویش پئے مرضی خدا

اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کی حیثیت عطا فرمائی ہے۔ اس کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا۔ آپؑ نے اپنی ساری عمر اسی کام میں لگادی کہ اللہ تعالیٰ کے دین اور محبوب رسولﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلا دیا جائے۔ یہی وہ عظیم الشان مقصد تھا جسے آپ نے نہایت کامیابی کے ساتھ سر انجام دیا۔ آپؑ کا تو سب کچھ ہی اپنے خدا پر نچھاور تھا۔ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کے لیے آپؑ کے دل میں اس قدر جوش پایاجاتا تھا جس کی گزشتہ تیرہ سوسال میں مثال نہیں ملتی آپؑ نے اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں وقف کر دیا۔ یہی روح آپؑ اپنی جماعت میں قائم کرنا چاہتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کے مشن کی تکمیل کا کام ان کے متبعین کے ذمہ ہوتا ہے ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ان کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچائیں۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم نے ایک ایسے گروہ کا ذکر فرمایا ہے جس کا کام یہ ہو کہ وہ دین کی خدمت کے لئے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَیَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَیَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ

(آلِ عمران: 105)

اور چاہیے کہ تم میں سے ایک جماعت ہو۔ وہ بھلائی کی طرف بلاتے رہیں اور اچھی باتوں کی تعلیم دیں اور بُری باتوں سے روکیں اور یہی ہیں وہ جو کامیاب ہونے والے ہیں۔

وقف زندگی سے متعلق
حضرت مسیح موعودؑ کے فرمودات
کیوں مسلمان اسلام کی خدمت کے لئے اور خدا کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف نہیں کر دیتے؟

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے مشن کی تکمیل کے لئے جانی و مالی ہر دو قسم کی قربانیوں کو لازم و ملزوم ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:
• ’’غرض یہ ہے کہ انسان کو ضروری ہےکہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف کر ے۔میں نے بعض اخبارات میں پڑھا ہے کہ فلاں آریہ نے اپنی زندگی آریہ سماج کیلئے وقف کر دی اور فلا ں پادری نے اپنی عمر مشن کو دے دی۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ کیوں مسلمان اسلام کی خدمت کے لئے اور خدا کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف نہیں کر دیتے۔ رسول اللہﷺ کے مبارک زمانہ پر نظر کرکے دیکھیں، تو اُن کو معلوم ہوکہ کس طرح اسلام کی زندگی کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی جاتی تھیں۔ یاد رکھو یہ خسارہ کا سودا نہیں ہے بلکہ بے قیاس نفع کا سودا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 ایڈیشن 1988ء صفحہ369)

میں اسلام کی خدمت سے رک نہیں سکت

• ’’میں خود جو اس راہ کا پورا تجربہ کار ہوں اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور فیض سے میں نے اس راحت اور لذّت سے حظّ اٹھایا ہے۔ یہی آرزو رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کےلئے اگر مر کر پھرزندہ ہوں اور پھر مروں اور زندہ ہوں تو ہر بار میرا شوق ایک لذّت کے ساتھ بڑھتا ہی جاوے۔ پس میں چونکہ خود تجربہ کار ہوں اور تجربہ کر چکا ہو ں اور اس وقف کےلئے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ جوش عطا فرمایا ہے کہ اگر مجھے یہ بھی کہہ دیا جاوےکہ وقف میں کوئی ثواب اور فائدہ نہیں ہے بلکہ تکلیف اور دُکھ ہو گا تب بھی میں اسلام کی خدمت سے رک نہیں سکتا۔‘‘

(ملفوظات جلد1 ایڈیشن 1988ء صفحہ370)

اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے

• ’’میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو وصیّت کروں اور یہ بات پہنچادُوں آئندہ ہر ایک کا اختیار ہے کہ وُہ اُسے سنے یا نہ سُنے! اگر کوئی نجات چاہتا ہے اور حیاتِ طیّبہ یا اَبدی زندگی کا طلبگار ہے، تو وُہ اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 ایڈیشن 1988 صفحہ370)

دین کو آج ایسے مخلص خادموں کی ضرورت ہے

• ’’انسان اگر چاہتا ہے کہ اپنی عمر بڑھائے اور لمبی عمر پائے تو اُس کو چاہیے کہ جہانتک ہوسکے خالص دین کے واسطے اپنی عمر کو وقف کر ے۔ یہ یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ سے دھوکہ نہیں چلتاجو اللہ تعالیٰ کو دغا دیتا ہےوہ یاد رکھے کہ اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے وہ اس کی پاداش میں ہلاک ہو جائے گا۔پس عمر بڑھانے کا اس سے بہتر کوئی نسخہ نہیں ہےکہ انسان خلوص اور وفاداری کے ساتھ اعلاء کلمۃ الاسلام میں مصروف ہو جاوے اور خدمتِ دین میں لگ جاوےاور آجکل یہ نسخہ بہت ہی کارگر ہےکیونکہ دین کو آج ایسے مخلص خادموں کی ضرورت ہے۔ اگریہ بات نہیں ہے تو پھر عمر کا کوئی ذمہ دار نہیں ہےیونہی چلی جاتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 ایڈیشن 1988ء صفحہ563)

دولت و مال کا ان کو فکر نہ ہو

• ’’حضرت رسول کریمﷺ کے اصحاب کا نمونہ دیکھنا چاہئے۔ وہ ایسے نہ تھے کہ کچھ دین کے ہوں اور کچھ دنیا کے بلکہ وہ خالص دین کے بن گئے تھے اور اپنی جان و مال سب اسلام پر قربان کر چکے تھے۔ ایسے ہی آدمی ہونے چاہئیں جو سلسلہ کے واسطے مبلغین اور واعظین مقرر کئے جائیں وہ قانع ہونے چاہئیں اور دولت و مال کا ان کو فکر نہ ہو۔حضرت رسول کریمﷺ جب کسی کو تبلیغ کے واسطے بھیجتے تھے تو وہ حکم پاتے ہی چل پڑتا تھا۔ نہ سفر خرچ مانگتا تھا اور نہ گھر والوں کے افلاس کا عذر پیش کرتا تھا۔ یہ کام اس سے ہو سکتا ہے جو اپنی زندگی کو اس کیلئے وقف کر دے۔ متقی کو خدا تعالیٰ آپ مدد دیتا ہے۔ وہ خدا کے واسطے تلخ زندگی اپنے لئے گوارا کرتا ہے… خدا اُس کو پیار کرتا ہے جو خاص دین کے واسطے ہو جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کچھ آدمی ایسے منتخب کئے جائیں جو تبلیغ کے کام کے واسطے اپنے آپ کو وقف کر دیں اور دوسری کسی بات سے غرض نہ رکھیں۔ ہر قسم کے مصائب اٹھائیں اور ہر جگہ پر پھر تے رہیں اور خدا کی بات پہنچائیں۔ صبر اور تحمل سے کام لینے والے آدمی ہوں ان کی طبیعتوں میں جوش نہ ہو۔ ہر ایک سخت کلامی اور گالی سن کر نرمی کے ساتھ جواب دینے کی طاقت رکھتے ہوں۔‘‘

(بدر 3؍اکتوبر1907ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا ارشاد
دین کو دنیا پر اپنے عمل اور چلن سے
مقدم کر کے دکھاؤ

• ’’اس وقت خداتعالیٰ پھر ایک قوم کو معزز بنانا چاہتا ہےاور اس پر فضل کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے لئے بھی وہی شرط اور امتحان ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے لئے تھا۔ وہ کیا؟ سچی اطاعت اور پوری فرمانبرداری۔ اس کو اپنا شعار بناؤ اور خداتعالیٰ کی رضا کو اپنی رضاپر مقدم کر لو۔ دین کو دنیا پر اپنے عمل اور چلن سے مقدم کر کے دکھاؤ۔ پھر خداتعالیٰ کی نصرتیں تمہارے ساتھ ہونگی۔… ہم سب ایک عظیم الشان وعدہ کر چکے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اور جہاں تک طاقت اور سمجھ ہے گناہوں سے بچتے رہیں گے۔ اس وعدہ کو ایفاء کرنے کی پوری کوشش کرو اور پھر خداتعالیٰ ہی سے توفیق اور مدد چاہو کیونکہ وہ مانگنے والوں کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ان کی دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے۔‘‘

(خطبات نور صفحہ189)

وقف زندگی سے متعلق
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے فرمودات
ان کو بڑے بڑے انعامات کا وارث بنائے گا

• ’’جہاں میں یہ کہتا ہوں کہ زندگیاں وقف کرو وہاں یہ بھی کہتا ہوں کہ خوب سوچ سمجھ کر اس راہ میں قدم رکھو۔ کیونکہ یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ ہم اپنی زندگیوں سے دستبردار ہو گئے۔ بعض عزیزوں رشتہ داروں کی طرف سے مشکلات پیدا کی جائیں گی یا اپنا نفس ہی پیچھے ہٹنے کے لئے کہے گا۔ پس خوب سمجھ کر دعاؤں کے بعد اس راہ میں قدم رکھو۔ پھر یہ بھی اقرار کرنا پڑے گا کہ جہاں اور جس جگہ چاہو بھیج دو ہمیں انکار نہیں ہو گا۔ اگر ایک منٹ کے نوٹس پر بھی ان کو بھیجا جائے گا تو ان کو جانا پڑے گا۔ اگرچہ یہ بہت بڑا کام اور بہت بڑا ارادہ ہے مگر اس کے انعامات بھی بہت بڑے ہیں۔ اگر کسی کو ایک ہزار روپیہ بھی آمدنی ہو گی تو اس کو چھوڑنا پڑے گا اور ایسی جگہ جانا ہوگا جہاں صرف دس روپے ملنے کی امید ہوگی اور آباد علاقوں کو چھوڑ کر جنگلوں کے سفر پر جانا پڑے گا۔ شہروں کو چھوڑ کر گاؤں میں رہنا پڑے گا۔ خطرناک موسم ان کو اس ارادہ سے روک نہ سکیں۔ جنگیں ان کے لئے رکاوٹ کا موجب نہ ہوں۔ دشوارگزار راستہ ان کو بددل نہ کرے۔ بیوی بچوں کے تعلقات ان کے عزم کو ڈھیلا نہ کر سکیں۔ وہ چاہیں تو بیوی بچوں کو لے جائیں یا کہیں رکھیں مگریہ نہیں ہو گا کہ کہیں کہ ہم ان سے علیحدہ نہیں ہو سکتے۔ پس جو ان تکالیف کو برداشت کریں گے خدا اُن کی مدد کرے گا اور ان کو بڑے بڑے انعامات کا وارث بنائے گا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ موٴرخہ 27؍ستمبر 1917ء)

وہ بہت زیادہ عزت حاصل کرتا ہے

• ’’یہ یاد رکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی خاطر کے لئے ذلت اختیار کرتا ہے وہ بہت زیادہ عزت حاصل کرتا ہے۔ کوئی تم میں سے یہ خیال نہ کرے کہ وہ خدا تعالیٰ کے دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کر کے اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل کرے گا۔ ذلیل وہی ہوتا ہے جس کے دل میں دوغلی حکومت ہوتی ہے آدھی خدا کی اور آدھی شیطان کی۔ ایسا شخص کبھی ذلت بھی دیکھ لیتا ہے مگر وہ جس کے دل پر خالص خدا تعالیٰ کی حکومت ہو وہ کبھی ذلیل نہیں ہوتا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍دسمبر 1938ء)

وقف زندگی زمانہ کی ضرورت ہے

• ’’ہمیں ایسے نوجوان نہیں چاہئیں جو حکومت کے طالب ہوں بلکہ ہمیں وہ نوجوان چاہئیں جو سچے طور پر غرباءکی خدمت اور سلسلہ کی خدمت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ میں ان واقفین کے ذریعے وہ جماعت تیار نہیں کرنا چاہتا جو افسروں کی جماعت ہو بلکہ وہ جماعت تیار کرنا چاہتا ہوں جس کے ہر فرد کو یہ احساس ہو کہ میں نے جماعت احمدیہ کی خصوصاً اور بنی نوع انسان کی عموماً خدمت کرنی ہے۔ جب تک اس رنگ میں ہمیں کام کرنے والے نہیں ملیں گے اس وقت تک وہ تمدن قائم نہیں ہو سکتا جو رسول کریمﷺ نے اپنے زمانے میں قائم کیا تھا اور جس کے قائم کرنے کی آپﷺ نے تعلیم دی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 2؍دسمبر 1938ء)

اے امیر الموٴ منین! یہ خدا اور اس کے رسول اور اس کے دین اور اس کے اسلام کے لئے حاضر ہے

• ’’زندگی کی علامت یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص اپنی جان لے کر آگے آئے اور کہے کہ اے امیر الموٴ منین! یہ خدا اور اس کے رسول اور اس کے دین اور اس کے اسلام کے لئے حاضر ہے۔ جس دن سے تم یہ سمجھ لو گے کہ تمہاری زندگیاں تمہاری نہیں بلکہ اسلام کے لئے ہیں۔ جس دن سے تم نے محض دل میں ہی نہ سمجھ لیا بلکہ عملاً اس کے مطابق کام بھی شروع کر دیا اس دن تم کہہ سکو گے کہ تم زندہ جماعت ہو۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ موٴرخہ 11؍جنوری 1935ء)

جب میرا یہ خطبہ چھپے گا تو لاکھوں احمدی محمد حسن صاحب آسان کا نام لے کر ان کی تعریف کر یں گے

• ’’میں نے جب وقف کی تحریک کی تو گوسینکڑوں مالدار ہماری جماعت میں موجود تھے مگر اُن کو یہ توفیق نہ ملی کہ وہ اپنی اولاد کو خدمتِ دین کے لیے وقف کریں۔ لیکن ماسٹر محمد حسن صاحب آسان نے اپنے چار لڑکے اسلام کی خدمت کے لیے وقف کر دیئے۔ جن میں سے دو بیٹے اُن کی وفات کے وقت پاکستان سے باہر تھے۔ ان میں سے ایک ویسٹ افریقہ میں وائس پرنسپل ہے اور ایک لندن مشن کا انچارج اور انگلستان میں ہمارا مبلغ ہے۔ ان کے سات بچے تھے اور وہ غریب آدمی تھے اُنہوں نے اپنے خرچ پر اُنہیں گریجوایٹ کرایا اور پھر سات میں سے چارکو وقف کر دیا۔ ان میں سے ایک الفضل کا ایڈیٹر ہے۔ ایک لندن مشن کا انچارج ہے۔ ایک ویسٹ افریقہ میں وائس پرنسپل ہے اور ایک کراچی میں تحریک جدید کی تجارت کا انچارج ہے۔ ان سارے لڑکوں کو انہوں نے بی اے یا ایم اے اپنے خرچ پر کرایا۔سلسلہ سے انہوں نے کوئی رقم نہیں لی۔ انہیں یہ بھی خیال نہ آیا کہ میں ایک غریب آدمی ہوں اگر میرے بیٹے پڑھ کر اعلیٰ ملازمتیں حاصل کر لیں تو ہمارے خاندان کا نام روشن ہو جائے گا۔ انہوں نے روشنی صرف اسلام میں دیکھی اور اپنے لڑکوں کو دین کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔… اِسی طرح میں سمجھتا ہوں ماسٹر محمد حسن صاحب آسان نے بھی ایسا نمونہ دکھایا ہے جوقابلِ تعریف ہے۔ وہ ایک معمولی مدرس تھے اور غریب آدمی تھے۔ اُنہوں نے فاقے کر کر کے اپنی اولا دکو پڑھایا اور اسے گر یجویٹ کرایا اور پھر سات لڑکوں میں سے چار کو سلسلہ کے سپرد کر دیا۔ اب وہ چاروں خدمتِ دین کر رہے ہیں اور قریباً سارے ہی ایسے اخلاص سے خدمت کر رہے ہیں جو وقف کا حق ہوتا ہے۔ اگر یہ بچے وقف نہ ہوتے تو ساتوں مل کر شاید دس بیس سال تک اپنے باپ کا نام روشن رکھتے اور کہتے کہ ہمارے ابا جان بڑے اچھے آدمی تھے۔ مگر جب میرا یہ خطبہ چھپے گا تو لاکھوں احمدی محمد حسن صاحب آسان کا نام لے کر ان کی تعریف کر یں گے اور کہیں گے کہ دیکھو! یہ کیسا با ہمت احمدی تھا کہ اس نے غریب ہوتے ہوئے اپنے سات بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی اور پھر ان میں سے چار کو سلسلہ کے سپر دکر دیا اور پھر وہ بچے بھی ایسے نیک ثابت ہوئےکہ انہوں نے خوشی سے اپنے باپ کی قربانی کو قبول کیا۔‘‘

(خطباتِ محمود جلد 36صفحہ156-158)

وقف زندگی سے متعلق
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکے فرمودات
ایک واقف زندگی خداتعالیٰ کی صفات پر یقین رکھتے ہوئے حقیقی توکل اپنے رب پر کرنے والا ہوتا ہے

• ’’جو نوجوان یا بڑی عمر کے مرد یا عورتیں جو خداتعالیٰ کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں وہ اس معنی میں اپنی زندگیاں وقف کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں اِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا دنیا میں اگر کوئی شخص حقیقی عزت پاسکتا ہے تو محض اپنے رب سے ہی پا سکتا ہے۔ اس لئے اگر ساری دنیا ان کی بے عزتی کے لئے کھڑی ہو جائے اور انہیں برابھلا کہے تو وہ سمجھتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ عزت کی جگہوں کو خود تلاش نہیں کرتے، نہ عزت واحترام کے فِقروں کو سننے کی خواہش ان کے دل میں پیدا ہو تی ہے بلکہ ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ اپنے رب کی نگاہ میں عزت حاصل کرلیں۔ اگر ان کا دل اللہ تعالیٰ کے بتانے پر یا اس کے سلوک کی وجہ سے یہ سمجھ لے کہ ہم خداتعالیٰ کی نگاہ میں معزز ہیں تو وہ ان ساری عزتوں کو جو دنیوی ہیں ٹھکرا دیتے ہیں اور ان سے خوشی محسوس نہیں کرتے کیونکہ حقیقی خوشی اُنہیں حاصل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح خداتعالیٰ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرنے والے یہ جانتے ہیں کہ حقیقی رزاق اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ اس لئے دنیا کے اموال کی طرف ان کی توجہ نہیں ہوتی، نہ وہ اس بات کے پیچھے پڑتے ہیں کہ انہیں دنیا کے رزق دئیے جائیں، نہ وہ اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے گزاروں میں ایزادی کی جائے کیونکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حقیقی رزاق اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔پھر ایک واقف زندگی یہ یقین رکھتا ہے کہ حقیقی شافی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ جس وقت وہ یا اس کا کوئی عزیز جس کے اخراجات کا بار اس پر ہے بیمار ہو جاتا ہے تو اسے اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ نظام سلسلہ یا اس کے اپنے وسائل مہنگی دوا کے متحمل نہیں ہو سکتے بلکہ وہ جانتا ہے کہ شفا دینا خداتعالیٰ کا کام ہے۔ جب وہ شفا دینے پر آتا ہے وہ مٹی کی چٹکی میں شفا رکھ دیتا ہے۔ غرض ایک واقف زندگی خداتعالیٰ کی صفات پر یقین رکھتے ہوئے حقیقی توکل اپنے رب پر کرنے والا ہوتا ہے اور خداتعالیٰ کے سوا کسی حالت میں اور کسی ضرورت کے وقت وہ کسی اور کی طرف نہیں جھکتا۔‘‘

(الفضل 25؍اپریل 1967ء صفحہ3)

صحابہؓ جیسے وقف کا نمونہ دکھانا چاہئے

• ’’جماعت احمدیہ کے قیام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے ذریعہ اسلام کے لئے ترقی کے سامان پیدا ہوگئے ہیں۔ اس لئے ہر احمدی کو وقف کا وہی نمونہ دکھانا چاہئے جو آج سے چودہ سو سال پہلے صحابہ کرامؓ نے دکھایاتھا۔ اِس وقت بھی اسلام کے مخالفوں اور دشمنوں کی چُھری ہماری گردنوں کی تلاش میں ہے اس لئے میں پوچھتا ہوں کہ کہاں ہیں وہ واقف گردنیں جو برضاء ورغبت اپنے آپ کو اس چُھری کے نیچے رکھ دیں؟ اور خداتعالیٰ کی نعمتوں کو حاصل کریں؟…… میں پھر پوچھتا ہوں کہ کہاں ہیں حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی بہنیں جو اپنے بچوں کو خداتعالیٰ کی راہ میں وقف کریں اور کہاں ہیں حضرت اسمعٰیلؑ کے وہ بھائی جو دنیا کو چھوڑ کر اور دنیا کی لذّت، آرام اور عیش سے منہ موڑ کر خداتعالیٰ کی طرف آئیں اور اس کی خاطر بیابانوں میں اپنی زندگیاں گزارنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں؟‘‘

(روزنامہ الفضل ربوہ موٴرخہ 4؍مئی 1966ءصفحہ3)

وقف زندگی سے متعلق
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے فرمودات
اب تیرا کام ہے تُو جانتا ہے،
جہاں لگائے گا وہاں لگ جائیں گے

• ’’بسا اوقات ایک واقف زندگی ابتلاؤں سے گزارا جاتا ہے۔ بسا اوقات ایک واقف زندگی کا بظاہر مقام بلند ہونا چاہئےاپنے منصب کے لحاظ سےلیکن اس سے ادنیٰ کام لئے جاتے ہیں، بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک واقف زندگی سمجھتا ہے کہ میں دنیا میں باہر تبلیغ کے لئے مفید ہوں، میرا وجود زیادہ انسب ہے اس بات کا کہ باہر مقرر کیا جائے، اسے دفتر میں کلرک مقرر کر دیا جاتا ہے۔…اس آیت پر غور ضروری ہے۔ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام یہ عرض کرتے ہیں وَاَرِنَامَنَاسِکَنَا جب ہم پیش کرچکے ہیں تو ہمیں یہ بھی حق حاصل نہیں ہے کہ ہم فیصلہ کریں کہ ہم نے کیا قربانیاں دینی ہیں؟ جس کے سپرد کردیا ہے اپنے آپ کو اس کا کام ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کیا قربانیاں لینی ہیں؟ کیسی کامل دعا ہے! حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی سپردگی کا کمال اور آپؑ کی کمال ذہانت کا بھی کمال ہے۔ کتنا باریک نکتہ ہے جسے خدا کے حضور پیش کر رہے ہیں کہ خدا میں تو پیش کرچکا ہوں اب یہ نہیں کہوں گا کہ میں نے یہ قربانی دینی ہے۔ اب تیرا کام ہے تُو جانتا ہے، جہاں لگائے گا وہاں لگ جائیں گےجس قسم کا کام تُو ہم سے لے گا اسی قسم کا کام ہم کریں گے۔‘‘

(خطبہ عیدالاضحیہ 5؍اگست 1987ء)

ابراہیمؑ والا انکسار آپ کو پیدا کرنا ہوگا

• ’’ (حضرت) ابراہیمؑ والا انکسار آپ کو پیدا کرنا ہوگا وقف کرتے ہوئے یہ خوف دامنگیر ہوجانا چاہئے کہ کِیا تو ہے پر کیا کِیا؟ اس لائق بھی ہے کہ نہیں کہ خدا اسے قبول کرے؟ اور جانتے ہوئے کہ لائق نہیں ہے، کامل انکسار کے ساتھ اور عجز کے ساتھ خدا کے حضور یہ التجائیں کریں کہ اے خدا! ہمیں پتہ ہے کچھ بھی نہیں، ہم جانتے ہیں ہم کیا ہیں، کس حال پر کھڑے ہیں؟ تُو قبول فرما! اس طرح قبول فرمالے کہ توبہ بھی قبول فرمالے، بخشش فرما، کمزوریوں کو نظر انداز فرما اور آئندہ دور کرنے کا انتظام فرما۔ تو یہ انکسار اگر دعاؤں میں شامل ہوگیا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ ان شاء اللّٰہ تعالیٰ ہم آئندہ ایک صدی نہیں بلکہ آئندہ ہر آنے والی صدی پر ایک عظیم احسان کر رہے ہوں گے اور خدا نے جو ہم پر احسان کیا ہوگا وہ ان پر رحمتیں اور فضلوں کی بارش بن کے برستا رہے گا۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ آمین۔ ‘‘

(خطبات عیدین صفحہ446-447)

وقف زندگی سے متعلق
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کے فرمودات
ایک واقف زندگی کا وقار اسی میں ہے کہ
کسی کے سامنے اپنی مشکلات کا ذکر نہ کرے

• ’’یہ میرا اپنا ذاتی تجربہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ضروریات پوری کرتا ہے۔ گھانا میں میدان میں رہا ہوں۔ بڑے مشکل حالات تھے۔ جو مانگنا ہے خدا تعالیٰ سے مانگیں۔ تنگی ترشی برداشت کر لیں، لیکن اپنے وقار کو کبھی نہ گرائیں اور یہ باتیں صرف نئے آنے والوں کو نہیں کہہ رہا بلکہ پرانوں کوبھی جو میدانِ عمل میں ہیں انہیں بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔ بعض دفعہ بھول جاتے ہیں یا بعض دفعہ دنیا داروں کو دیکھ کر خواہشات بڑھ جاتی ہیں۔ ہر مربی جماعت کی نظر میں، مرکز کی نظر میں، افرادِ جماعت کی نظر میں خلیفۂ وقت کا نمائندہ ہے۔ پس کوئی ایسی حرکت نہیں ہونی چاہئے جس سے اس نمائندگی پر حرف آتا ہو۔ بعض دفعہ بیوی بچوں کی وجہ سے مجبور ہو کر بعض ضروریات کا اظہار ہو جاتا ہے۔ جماعت اپنے وسائل کے لحاظ سے حتی الامکان واقفِ زندگی کو سہولت دینے کی کوشش کرتی ہے اور کرنی چاہئے۔ لیکن جس طرح دنیا میں معاشی بدحالی بڑھ رہی ہے، غریب ممالک میں خاص طور پر برا حال ہو جاتا ہے۔ باوجود کوشش کے مہنگائی کا مقابلہ مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک مربی کا ایک واقفِ زندگی کا وقار اسی میں ہے کہ کسی کے سامنے اپنی مشکلات کا ذکر نہ کرے۔ جو رونا ہے خدا تعالیٰ کے آگے روئیں، اس سے مانگیں۔ ‘‘

(خطبات مسرور جلد8 صفحہ551)

واقفین نو کی بنیادی اینٹ ہی تقویٰ ہے

• ’’ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس ضرورت کو بھانپتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی پا کر واقفینِ نو کی سکیم شروع فرمائی تھی۔ اور اس کی بنیادی اینٹ ہی تقویٰ پر رکھتے ہوئے والدین کو یہ تحریک فرمائی تھی کہ بجائے اس کے کہ بچے بڑے ہو کر اپنی زندگیاں وقف کریں اور اپنے آپ کو پیش کریں، والدین دین کا درد رکھتے ہوئے اور تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے اپنے بچوں کو ان کی پیدائش سے پہلے دین کی راہ میں وقف کرنے کے لئے پیش کریں۔ اور حضرت مریم کی والدہ کی طرح یہ اعلان کریں کہ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ (آل عمران: 36) کہ اے میرے ربّ! جو کچھ میرے پیٹ میں ہے اسے مَیں نے تیری نذر کرتے ہوئے آزاد کر دیا۔ یعنی دین کے کام کے لئے پیش کر دیا اور دنیاوی دھندوں سے آزاد کر دیا، پس مجھ سے یہ قبول کر لے۔ پس جب خاص طور پر مائیں اس دعا کے ساتھ اپنے بچے جماعت کوپیش کرتی ہیں، خلیفہٴ وقت کے سامنے پیش کرتی ہیں اور کریں گی، تو ان کی بہت بڑی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ پھر ان بچوں کی تربیت اس طرح کریں کہ وہ اپنی زندگیاں خدا کی راہ میں اس وقف کا حق ادا کرتے ہوئے گزارنے کے لئے پیش کریں۔ پورا عرصہ حمل ان کے لئے یہ دعا ہو کہ اللہ تعالیٰ اس بچے کو دین کا خادم بنائے۔ دنیاوی آلائشوں سے پاک رکھے۔ دنیا کی طرف رغبت نہ ہو بلکہ یہ لوگ دین کے لئے خالص ہو جائیں۔ پھر پیدائش کے بعد بچے کی تعلیم و تربیت اس نہج پر ہو کہ اس بچے کو ہر وقت یہ پیشِ نظر رہے اور اس کو یہ باور بھی کروایا جائے کہ مَیں واقفِ زندگی ہوں اور میں نے دنیاوی جھمیلوں میں پڑنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت میں زندگی گزارنی ہے۔ جب اس طرح ابتدا سے ہی تربیت ہو گی تو نوجوانی میں قدم رکھ کر بچہ خود اپنے آپ کو پیش کرے گا اور خالص ہو کر دین کی خدمت کے لئے پیش کرنے کی کوشش کرے گا۔ پس والدین کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ بچے کو وقف کے لئے تیار کرنا، اس کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینا والدین کا کام ہے تا کہ ایک خوبصورت اور ثمر آور پودا بنا کر جماعت اور خلیفہٴ وقت کو خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے پیش کیا جائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍اکتوبر 2010ء)

آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہی الفاظ میں ایک اعلانِ عام ہے:
’’اے عزیزو!یہ دین کے لئے اور دین کی اغراض کےلئے خدمت کا وقت ہے۔ اِس وقت کو غنیمت سمجھو کہ پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ7)

اللہ تعالیٰ ہمیں وفا اور اخلاص کے ساتھ اپنی زندگیاں خدا کے دین کی اشاعت کے لئے وقف کرنے والا بنائے دونوں جہانوں میں ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے اور وقف کے تقاضوں پر کماحقہٗ عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین

(ابن المصطفیٰ کاہلوں)

پچھلا پڑھیں

غَلَط العام الفاظ کی درستی

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 نومبر 2022