• 1 مئی, 2024

حضرت نواب سید محمد رضویؓ

تعارف صحابہ کرامؓ 
حضرت نواب سید محمد رضویؓ۔ حیدرآباد دکن

حضرت نواب سید محمد رضوی رضی اللہ عنہ ولد سید ابو طالب صاحب 1862ء میں مدراس کے علاقہ میں بمقام ایلور پیدا ہوئے۔ آپ اپنے بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے اور سب سے زیادہ ہوشیار اور لائق تھے۔ بچپن کی تعلیم کے بعد مزید تعلیم کے لیے حیدرآباد دکن آگئے جہاں مولانا حسن زمان صاحب سے عربی و حدیث وغیرہ کے اسباق سیکھے۔ بعد ازاں قانون پڑھنا شروع کیا اور بفضلہ تعالیٰ 1884ء میں وکالت میں کامیابی حاصل کی اور اسی سال وکالت کی پریکٹس شروع کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ذہنی و علمی وسعت سے نوازا تھا، وکالت کے میدان میں بھی بہت کامیابی بخشی اور حیدرآباد دکن کے مشہور وکلاء میں شمار ہونے لگے۔

حیدرآباد دکن میں سب سے پہلے حضرت میر مردان علی رضی اللہ عنہ کو قبول احمدیت (بیعت: 23؍ستمبر 1891ء) کی توفیق ملی، بعد ازاں حضرت سید محمد رضوی صاحب رضی اللہ عنہ نے بھی حضور علیہ السلام سے کتب منگوائیں اور خود بھی ان کا مطالعہ کرتے رہے اور دوسروں کو بھی حضرت اقدسؑ کی کتب مہیا کرنے کا باعث بنے۔ چنانچہ حضرت سید عبدالرحیم صاحب کٹکی رضی اللہ عنہ نے بھی قبول احمدیت سے پہلے آپ ہی سے کتب مستعار لے کر دلائل احمدیت کا مطالعہ کیا۔

(الحکم 28؍جون 1939ء صفحہ8)

آپ کی بیعت کا قطعی علم نہیں کہ کس سال میں کی لیکن حضرت اقدس علیہ السلام نے آپ کا نام اپنے 313کبار صحابہ میں شامل فرمایا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ 1897ء سے پہلے احمدیت سے وابستہ ہوچکے تھے کیونکہ یہ فہرست اسی سال تیار کی گئی اور آپ کا نام اس فہرست میں 244 نمبر پر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلسلہ احمدیہ کے لیے بہت ہی مخلص اور فدایانہ دل سے نوازا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح آپ کو دنیاوی فضائل سے نوازاتھا آپ نے بھی اُس کا شکر بجا لاتے ہوئے بڑھ چڑھ کر مالی قربانی میں حصہ لیا، شاید ہی کوئی ایسا جماعتی چندہ ہو جس میں آپ باوجود علم ہونے کے نہ شریک ہوئے ہوں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب چندہ منارۃ المسیح کی تحریک فرمائی تو آپ بھی ان سابق فی الخیرات احباب میں شامل ہوئے جنہوں نے ایک سو روپیہ چندہ ادا کیا۔ 1914ء میں اخبار الحکم کی ضروریات کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی طرف سے چھ ہزار روپے کی اپیل کی گئی، اس اپیل کا فوری عملی جواب دینے والوں کی فہرست میں دوسرا نام آپ کا تھا جس کے ساتھ ہی حضرت عرفانی صاحبؓ نے تحریر فرمایا:
’’ہمیشہ نواب صاحب الحکم کے احیاء و بقا میں بہت بڑا حصہ لیتے رہے ہیں اور سرًّا انہوں نے الحکم کو ہمیشہ قیمتی مدد دی ہے …. مجھے بارہا نواب صاحب نے پوچھا میں کیا مدد دوں مگر میں ان کی قیمتی امداد کو ابھی کسی دوسرے وقت پر ملتوی کرتا ہوں ….. نواب صاحب نے نہ صرف الحکم کی بلکہ سلسلہ کی ہمیشہ بے نظیر قیمتی خدمات کی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ضروریات سلسلہ کے موقعے پر ہمیشہ آپ کو خطاب کیا جاتا تھا۔ 1901ء میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے آپ کو ایک پبلک خط میں لکھا تھا کہ مدرسہ کے منتظم آپ کے وجود کو خدا کا فضل اور غنیمت سمجھتے ہیں اور آپ کو ایک آدمی دیکھتے ہیں جو اپنے وعدہ کا پورا پاس کرتا ہے۔ موعودہ چندہ کو جس پابندی اور خوبی کے ساتھ آپ پہنچا رہے ہیں بھائیوں کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے۔ آخر آپ ہی کی ہمت اور جوانمردی امید گاہ نظر آئی۔ غرض نہایت عالی ہمتی سے آپ نے مدد دی ہے اور سلسلہ کی تمام مدات آپ کی فیاضیوں کو یادگار رکھتی ہیں۔ آپ نے اکائیوں اور دہائیوں سے لے کر سینکڑوں اور ہزاروں تک اس راہ میں دے دیے ہیں جن کی تفصیل کا یہ وقت نہیں …..‘‘

(الحکم 14؍مئی 1914ء صفحہ 1-2)

مالی قربانیوں میں مرکزی تحریکات کے علاوہ جماعت حیدرآباد میں جماعتی نظام کو بہت منظم کیا ہوا تھا اور مقامی جماعت کے اخراجات کا کافی حصہ آپ نے اپنے ذمہ لے رکھا تھا، آپ کے بیٹے سید عبدالمومن رضوی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ چنتہ کنٹہ گاؤں جو حیدرآباد دکن کے قریب ہے، کے سالانہ جلسہ کے موقعے پر (1942ء میں) مجھے حضرت سید بشارت احمد صاحب نے بتایا کہ ایک زمانہ تھا کہ ہم لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں جلسہ سالانہ کیا کرتے تھے، کوئی دوست 4 آنے دیتے، کوئی دوست 8 آنے دیتے مگر حضرت نواب رضوی صاحب چھ روپیہ دیتے تو ہم بہت خوش ہو جاتے اور جلسہ سالانہ آٹھ آٹھ دن تک مناتے کیونکہ اس زمانے میں 6روپے بہت ہو جاتے۔ کتب سلسلہ کی اشاعت وغیرہ میں بھی آپ پیچھے نہ رہتے، صدر انجمن کی سالانہ رپورٹ میں لکھا ہے: ’’حیدرآباد دکن ….. اجلاس ہوتے ہیں جن میں مولوی غلام اکبر خان صاحب معتمد وکلاء اور رجسٹرار صاحب اور جناب سید محمد رضوی صاحب ….. بڑی دلچسپی لیتے ہیں اور اشاعت کتب سلسلہ میں ان کی سعی قابل شکریہ ہے۔‘‘

(سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ قادیان، اکتوبر 1910ء تاستمبر 1911ء صفحہ 75-76)

آپ جب قادیان حاضر ہوتے تو تحفۃً کچھ چیزیں بھی حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرتے، مثلًا الحکم 17؍مئی 1901ء صفحہ 16 پر آپ کے قادیان حاضر ہونے اور مسجد کے لیے عمدہ دریاں لانے کا ذکر ہے۔ ایک مرتبہ حضرت سید سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ پہلے زمانے میں مسجد مبارک کی صفیں کیسی ہوا کرتی تھیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ سیالکوٹ میں دب کی صفیں بنا کرتی تھیں جو مضبوط ہوتی تھیں، وہ منگوائی جاتی تھیں۔ پھر حیدر آباد دکن سے نواب رضوی صاحب جو اُن دنوں وکیل تھے، کچھ صفیں لائے تھے جو مسجد اور ساتھ والے کمرہ میں بچھائی گئیں۔ (رجسٹر روایات صحابہ نمبر 12 صفحہ 5-6) اس کے علاوہ ملفوظات میں آپؑ کی خدمت میں کیوڑہ بھجوانے کا ذکر بھی محفوظ ہے، حضرت اقدسؑ نے ایک موقع پر فرمایا ’’کیوڑہ تو میرے پاس بہت اعلیٰ درجہ کا ہے جو سید رضوی صاحب نے حیدرآباد دکن سے بھیجا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 527)

جماعتی چندوں اور مالی تحریکات میں شمولیت کے علاوہ آپ کی مالی قربانی اور ایثار کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ آپ نے قرآنی تعلیم اِیۡتَآیِٴ ذِی الۡقُرۡبٰییا رشتہ داروں کی خبر گیری سے بھی کبھی لاپرواہی نہیں برتی۔ قریبی رشتہ داروں کے علاوہ قریبی دوستوں اور دیگر افراد کو ذرائع معاش ڈھونڈنے میں بہت مدد دی۔

1912ء میں آپ ہجرت کر کے حیدرآباد دکن سے بمبئی آگئے۔ آپ کے چلے جانے سے حیدرآباد دکن کو ایک مخلص وجود سے محروم ہونا پڑا لیکن جماعت احمدیہ بمبئی کی قسمت جاگ اٹھی کہ آپ جیسے عظیم وجود کی خدمات اب بمبئی جماعت کے حوالے سے سامنے آنے لگیں۔ بمبئی میں آپ کا مسکن جماعتی مہمانوں کے لیے ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ ایک جگہ لکھا ہے:
’’سید محمد رضوی صاحب ساکن حیدرآباد دکن حال وارد بمبئی نے خواجہ صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، مولوی غلام رسول صاحب راجیکی…جو بغرض تبلیغ تشریف لائے اور ایسا ہی صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جو مصر جا رہے تھے ان کے دو ہمراہی اور میر ناصر نواب صاحب جو حج بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے۔ ان جملہ احباب کے قیام بمبئی کا خرچ مکان و خوراک وغیرہ اپنے ذمہ لیا۔‘‘

(سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ قادیان 1911-1912ء صفحہ 100)

1919ء میں حضرت مولوی عبدالرحیم نیر صاحب رضی اللہ عنہ تبلیغ اسلام کے لیے انگلستان بھجوائے گئے جو بمبئی بندرگاہ سے روانہ ہوئے، بمبئی میں قیام کے دوران حضرت نواب صاحب کے مخلصانہ برتاؤ کے متعلق حضرت نیر صاحبؓ لکھتے ہیں: ’’18؍جولائی 1919ء ….. نواب سید رضوی صاحب سے ملاقات ہوئی اور صاحب موصوف محبت و تپاک سے پیش آئے، اپنی موٹر میں بٹھا کر ہمیں اپالو بندر اور سیٹھ اسماعیل آدم کی دوکان پر لے گئے ‘‘

(الفضل 30؍ستمبر 1919ء صفحہ 11)

1924ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ جب پہلی مرتبہ اپنے بارہ رفقاء کے ساتھ انگلستان تشریف لے گئے تو واپسی پر بمبئی بندرگاہ پر اُترے اور حضرت نواب صاحبؓ کے گھر ہی قیام فرمایا، اخبار الفضل حضور انورؓ کی واپسی کی رپورٹ کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’ ساحل سمندر پر احمدی جماعت کے نمائندوں نے پُر جوش و اخلاص استقبال کیا …. اور وہاں سے لیاقت منزل میں پہنچے۔ جناب نواب سید محمد رضوی صاحب کے مہمان ہوئے جنہوں نے نہایت فراخ دلی سے انتظام کیا ہوا تھا اور آپ مہمانوں کے آرام کے لیے ہر طرح مصروف تھے۔‘‘ (الفضل 6؍دسمبر 1924ء صفحہ 2) حضور انورؓ کے اسی قیام کے دوران 20؍نومبر 1924ء کو آپ ہی کے مکان ’’لیاقت منزل‘‘ پر گاندھی جی نے علی برادرز (مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی) اور مولانا آزاد کی موجودگی میں حضورؓ سے ملاقات کی۔ 21؍نومبر کو حضورؓ بمبئی سے روانہ ہوئے غرضیکہ تین دن تک آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح اور ان کے رفقاء کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔
1913ء میں حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کچھ عرصہ کے لیے شملہ تشریف لے گئے۔ ان کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ اور حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحبؓ بھی کسی کام سے شملہ پہنچے اور اسی دوران حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ بھی آگئے۔ جماعت احمدیہ شملہ نے ان بزرگوں کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جلسہ کا پروگرام ترتیب دیا لیکن اتنی کم فرصتی میں جلسہ کا خرچہ آڑے آگیا۔ اتفاق سے حضرت سید محمد رضوی صاحبؓ بھی شملہ تشریف لے آئے اور آپ نے جلسہ کے سب اخراجات اپنے ذمہ لے لیے، اس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ مشکل حل کر دی اور جماعت احمدیہ کو کامیاب جلسہ منعقدکرنے کی توفیق ملی۔ جماعت احمدیہ شملہ کے سیکرٹری حضرت برکت علی صاحب شملویؓ نے لکھا: ’’ہم جناب مولوی سید محمد رضوی صاحب کے تہ دل سے مشکور ہیں کہ انہوں نے فی سبیل اللہ جلسہ کا خرچ برداشت کیا اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بہتر سے بہتر جزائے خیر دے اور دین و دنیا میں کامیاب کرے۔‘‘

(الفضل یکم اکتوبر 1913ء صفحہ 16)

آپ زندگی بھر خلافت سے وابستہ رہے۔ 1917ء میں جماعت احمدیہ بمبئی کے دو افراد نے اخبار پیغام صلح میں یہ اعلان کرایا کہ جماعت احمدیہ بمبئی اپنے تعلقات قادیان کی خلافت سے قطع کرتی ہے۔ اس پر جماعت احمدیہ بمبئی کی طرف سے فوری طور پر ایک مراسلہ بھیجا گیا جس میں وضاحت کی گئی کہ یہ دو افراد پہلے دن سے ہی غیر مبائعین میں ہیں جہاں تک تمام جماعت بمبئی کا تعلق ہے تو بفضلہ تعالیٰ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی بیعت میں داخل ہے جس کے تحت جماعت احمدیہ بمبئی کے نام درج کیے گئے تھے اور سب سے اول نمبر پر حضرت نواب سید محمد رضوی صاحب اور آپ کے ملازمین کا ذکر تھا۔

(الفضل 17؍فروری 1917ء صفحہ 2)

آپ نے اپنی زندگی میں پانچ شادیاں کیں، ایک شادی نظام آف حیدرآباددکن کے خاندان میں محترمہ لیاقت النساء بیگم صاحبہ جو پہلے ہی بیوہ تھیں، سے کی۔ حضرت سید محمد رضوی صاحب رضی اللہ عنہ نے اگست 1932ء میں بمبئی میں وفات پائی اور بمبئی کے قبرستان ناریل واڑی میں دفن ہوئے۔ آپ کی اولاد بفضلہ تعالیٰ مختلف ممالک میں پھیلی ہوئی ہے اور جماعت احمدیہ سے مخلصانہ طور پر وابستہ ہے۔ آپ کے بیٹے محترم سید عبدالموٴ من رضوی صاحب کراچی (وفات: 1963ء) نے آپ کے حالات زندگی (غیر مطبوعہ) تحریر کیے تھے، اس مضمون میں وہاں سے بھی مدد لی گئی ہے۔ حضرت سید رضوی صاحبؓ کی نسل میں سے عطاء الواحد رضوی صاحب مربی سلسلہ آج کل رشیا میں خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔

(حضرت سید محمد رضوی صاحبؓ کی تصویر ان کے پڑ نواسے مکرم رفیع رضا قریشی صاحب نے مہیا فرمائی ہے جو مکرمہ ساجدہ رضوی اہلیہ قریشی عزیز احمد صاحب بھاگپوری کے بیٹے ہیں۔ فجزاہ اللّٰہ احسن الجزاء۔)

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈ)

پچھلا پڑھیں

غَلَط العام الفاظ کی درستی

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 نومبر 2022