تبرکات حضرت میر محمد اسحاق
(قسط 1)
(جناب میر محمد اسحاق صاحب کی وہ تقریر جو آپ نے 30ستمبر 1917ء کوجماعت احمدیہ شملہ کے سالانہ جلسہ پر بمقام میسانک ہال فرمائی۔ ایڈیٹر الفضل)
حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ
حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے چودھویں صدی ہجری میں دعویٰ کیا کہ حدیثوں میں جو یہ لکھا ہے کہ مسیح آئے گا۔ اس کا مصداق میں ہوں اور اس مسیح کو چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی کہا ہے اس لئے میں نبی ہوں۔ اور ان تمام الفاظ کا مصداق ہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح کے متعلق فرمائے ہیں۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ الفاظ میں سے بعض کے حضرت مرزا صاحب مصداق ہوں اور بعض کے نہ ہوں۔ بلکہ تمام ہی کے مصداق ہوں گے۔ اس لئے حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ مرکب ہے مسیحیت اور نبوت سے۔ نہ یہ کہ فقط ان میں سے صرف ایک آ پ کا دعویٰ ہے۔
حضرت مرزا صاحب کے دعوے پر اعتراض
جب آپ نے یہ دعویٰ کیا تو دنیا نے آپ پر اعتراض کئے اور ان دونوں باتوں پر اعتراض کئے۔ دنیا نے کہا کہ تم مسیح موعود تو اس لئے نہیں ہو سکتے کہ وہ مسیح آسمان پر ہے اور جب تک کوئی آسمان سے نہ اُترے اُس وقت تک مسیح موعود نہیں ہو سکتا۔ اور نبی تم اس لئے نہیں ہو سکتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آ نہیں سکتا۔ یہ اعتراض اس زور شور سے کئے گئے کہ اگر دعویٰ کرنے والا کوئی دنیادار انسان ہوتا تو گھبرا جاتا اور اپنے دعوے کو ترک کر دیتا۔ مگر چونکہ حضرت مرزا صاحب صادق تھے اس لئے آپ نے کوئی پرواہ نہ کی اور ایک کثیر التعداد ایسی جماعت تیار کر دی جس نے آپ کے ان دونوں دعوؤں کو شرح صدر سے تسلیم کر لیا۔
اس وقت میرے مضمون کا تعلق حضرت مرزا صاحب کے دعوےٰ کے اس حصہ سے ہے جو نبوت کے متعلق ہے۔ مگر چونکہ آپ کا دعویٰ مسیحیت کا بھی ہے اس لئے اس کے متعلق بھی کسی قدر بیان کروں گا۔ دنیا نے آپ کو کہا کہ تم مسیح موعود کیسے ہو سکتے ہو۔ اس نے تو آسمان سے آنا ہے اور نبی بھی نہیں ہو سکتے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ اس اعتراض کے متعلق ہم جب قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اعتراض بالکل غلط ہے۔
سچے اور جھوٹے نبی کے پرکھنے کا معیار
قرآن کریم نے سچے اور جھوٹے نبی کے پرکھنے کے لئے ایک معیار پیش کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ مَا یُقَالُ لَکَ اِلَّا مَا قَدْ قِیْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِکَ (حٰم السجدہ:44) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جو اعتراض تجھ پر کئے جاتے ہیں یہ کوئی نئے نہیں ہیں۔ تم سے پہلے جو رسول ہوئے ہیں ان پر بھی یہی اعتراض کئے گئے۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ ایسے اعتراضات جو پہلے انبیاء پر ہو چکے ہوں وہی اگر کسی اور مدعی نبوت پر کئے جائیں تو وہ جھوٹے ہوتے ہیں اور جس پر کئے جائیں وہ سچا ہوتا ہے۔ دیکھو کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا کہ مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَ یَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ ط (الفرقان:8) یہ کس طرح کا رسول ہے جو کھانا کھاتا اور گلیوں میں چلتا پھرتا ہے۔ اس کا جواب خداتعالیٰ نے یہ نہیں دیا کہ کھانا کھانے اور گلیوں میں چلنے سے نبوت میں کوئی نقص نہیں آتا۔ بلکہ یہ دیا ہے کہ وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّھُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ یَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ (الفرقان:21) کہ ہم نے تجھ سے پہلے کوئی ایسا رسول نہیں بھیجا جو کھانا نہ کھاتا ہو یا گلیوں میں نہ پھرتا ہو۔ بلکہ ایسےہی بھیجے ہیں جو کھانا بھی کھاتے اور گلیوں میں بھی چلتے تھے۔ یعنی یہ اعتراض ایسا ہے کہ اگر اس نبی پر پڑتا ہے تو اس سے پہلے نبیوں پر بھی پڑتا ہے اس لئے غلط ہے۔
اس سے معلوم ہو گیا کہ کوئی ایسا اعتراض جو کسی پہلے نبی پر پڑتا ہو وہ غلط ہوتا ہے اور نبوت کا دعویٰ کرنے والا سچا۔
حضرت مرزا صاحب کو اس معیار پر پرکھو
اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب پر جو یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ آنے والے مسیح نے چونکہ آسمان سے اُترنا ہے اس لئے مسیح موعود نہیں ہو سکتے۔ پھر یہ کہ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے اس لئے آپ نبی نہیں ہو سکتے۔ یہ اعتراض کسی پہلے نبی پر بھی کئے گئے ہیں یا نہیں۔ اگر کئے گئے ہیں تو حضرت مرزا صاحب کے دونوں دعوے سچے۔
مسلمانوں کی یہود اور نصاریٰ سے مشابہت
لیکن یہ بات صاف طور پر ثابت ہے کہ یہی اعتراض آپ سے پہلے انبیاء پر بھی کئے گئے ہیں۔ مگر دیکھئے کیسا اتفاق ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مِنْ قَبْلِکُمْ شِبْرًا شِبْرًا وَ ذِرَاعًا ذِرَاعًا (بخاری کتاب الاعتصام والسنۃ) (حوالہ چیک کریں) ایک زمانہ میں مسلمان پہلی قوموں کے ایسے مشابہ ہو جائیں گے جس طرح ایک بالشت دوسری بالشت کے ساتھ مشابہت رکھتی ہے۔ صحابہ نے پوچھا۔ یا رسول اللہ! کیا یہود اور نصاریٰ کی طرح؟آپؐ نے فرمایا اور کون۔ تو رسول کریمؐ نے فرما دیا کہ جو چال ان سے پہلی قوم چلی ہے۔ وہی مسلمان چلیں گے۔ اب ہم جب یہ دیکھتے ہیں کہ پہلی قوم کون ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل ہے۔ اور اس نے یہی دونوں اعتراض کئے ہیں جو آج مسلمان حضرت مرزا صاحب پر کرتے ہیں۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے تو انہوں نے کہہ دیا کہ یوسف (علیہ السلام) کے مرنے کے بعد اب کوئی رسول نہیں آ سکتا۔ پھر جب حضرت مسیح آئے تو یہود نے کہا کہ جب تک ایلیا آسمان سے نہ اُترے ہم تجھے کس طرح قبول کر سکتے ہیں۔ اب یہی دونوں باتیں مسلمان کہتے ہیں۔ پس میرے لئے اتنا ہی بتا دینا کافی ہے کہ چونکہ یہی دونوں اعتراض جو حضرت مرزا صاحب پر کئے جاتے ہیں۔ آپ سے پہلے دو سچے نبیوں پر ہو چکے ہیں۔ اس لئے قرآن کے معیار کے مطابق دونوں غلط ہیں اور جب یہ غلط ہو گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ بند نہیں ہوا بلکہ کھلا ہے اور حضرت مرزا صاحب خدا کے سچے نبی اور رسول ہیں۔ لیکن چونکہ یہ مسئلہ بہت اہم ہے اس لئے میں اسی پر بس نہیں کرتا بلکہ اور دلائل بھی بیان کروں گا۔ لیکن کیا ایک عقلمند اور دانا انسان کے لئے ضروری نہیں ہے کہ قرآن کریم کے اس معیار کو جو میں نے بیان کیا ہے اپنے سامنے رکھے اور اس پر حضرت مرزا صاحب کو پرکھ کر دیکھے؟ ضرور ہے اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ آپ صاحبان ضرور اس پر غور کریں گے۔
نبی کے آنے پر اعتراض اور ان کا جواب
اب میں ان شکوک کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں جو کسی نبی کے آنے کے متعلق پیش کئے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی نبی اس لئے نہیں آ سکتا کہ قرآن کریم نبوت کے دروازے کو بندکرتا ہے۔ احادیث بند کرتی ہیں اور اجماع اُمت بند کرتا ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا ان کی یہ بات درست اور صحیح ہے۔
قرآن کریم سے نبوت کا دروازہ بند ہونے کے ثبوت میں جو آیات پیش کی جاتی ہیں وہ جہاں تک مجھے معلوم ہے دو ہیں۔ آیت خاتم النبیین اور (دوم) اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدہ:4)۔ پہلے میں پہلی آیت کو لیتا ہوں۔ خداتعالی فرماتا ہے مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ (الاحزاب:41)۔ اس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ محمدؐ تمہارے میں سے کسی کا باپ نہیں ہے۔ لیکن اللہ کا رسول اور خاتم النبیین ہے۔ اب اگر واقعہ میں خاتم النبیین کے معنی نبوت کے دروازے کو بند کرنے والا ہیں تو ہم ماننے کے لئے تیار ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا لیکن ان معنوں کے درست یا غلط ہونے کے متعلق ہمیں قرآن کریم ہی کے بتائے ہوئے اصل کے ماتحت فیصلہ کرنا چاہئے۔
٭…٭…٭