روحانی دنیا میں سب سے اعلیٰ و ارفع مقام ایک نبی اور رسول کا ہوتا ہے۔ خلیفۂ وقت چونکہ نبی کا جانشین اور اس کا قائمقام ہوتا ہے اس لیے نبی کے انوار و برکات خلیفہ میں منعکس ہوتے ہیں۔ خلیفۂ وقت نبی کے جاری کردہ مشن کو آگے بڑھاتا اور جماعت مومنین میں اتحادو یگانگت پیدا کرکے امور دینیہ میں ان کی مدد اور رہنمائی کرتا ہے۔ خلیفۂ وقت چونکہ وجودِ نبوت کا نائب ہوتا ہے اور وہ نبوت کے احکامات کو جاری کرتا ہے اس لئے اُس کی اطاعت رسول کی اطاعت قرار دی گئی ہے۔ ذیل میں علمائے امت کے چند اقتباسات درج کئے جارہے ہیں جن سے خلافت کی اہمیت وبرکات اور خلیفۂ راشد کے بلند مقام ومرتبہ کا علم ہوتا ہے۔ حضرت سید شاہ اسمٰعیل شہید علیہ الرحمۃ نے اپنی مشہور کتاب ’’منصب خلافت‘‘ میں خلیفۂ راشد اور باقی صلحاء میں نسبت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
امام، رسول کے سعادت مند فرزند کی مانند ہے۔ باقی تمام اکابرامت وبزرگان ملت ملازموں اور خدمتگاروں اور جاں نثار غلاموں کی مانند ہیں۔ پس جس طرح تمام اکابرِ سلطنت و ارکانِ مملکت کے لیے شہزادۂ والا قدر کی تعظیم ضروری اور اس سے توسّل موجبِ سعادت ہے اِسی طرح اس سے مقابلہ کرنا شقاوت کی علامت اور اس پر مفاخرت کا اظہار بدانجامی پر دلالت کرتا ہے۔ ایسا ہی ہر صاحب کمال کے حضور میں تواضع اور تذلل سعادت دارین کا باعث ہے اور اس کے حضور میں اپنے علم وکمال کو کچھ سمجھ بیٹھنا دونوں جہان کی شقاوت ہے۔ اس کے ساتھ یگانگی رکھنا رسول سے یگانگی ہے اَور اس سے بیگانگی رسول سے بیگانگی کے مترادف ہے۔‘‘
(منصب امامت صفحہ110۔ مطبع حاجی حنیف اینڈ سنز لاہور۔ سن اشاعت 2008ء)
خلیفۂ وقت قرب خداوندی کا ذریعہ
’’امام وقت سے سرکشی اور روگردانی گستاخی کا باعث ہے۔ امام کے ساتھ بلکہ خود رسول کے ساتھ ہمسری ہے۔ اور خفیہ طور پر خود ربّ العزت پر اعتراض ہے کہ ایسے ناقص شخص کو کامل شخص کی نیابت کا منصب عطا ہوا۔ الغرض اس کے توسّل کے بغیر تقرب ِالٰہی محض وہم وخیال ہے جو سراسر باطل اور محال ہے۔‘‘
(منصب امامت صفحہ111)
خلافت راشدہ نعمت ربانی ہے
’’امامتِ تامہ کو خلافت راشدہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ اور خلافتِ رحمت بھی کہتے ہیں۔ واضح ہو کہ جب امامت کا چراغ شیشۂ خلافت میں جلوہ گر ہوا تو نعمت ربانی بنی نوع انسان کی پرورش کے لیے کمال تک پہنچی اور کمالِ روحانی اسی رحمت ِرحمانی کے کمال کے ساتھ نورٌ علٰی نُور آفتاب کی مانند چمکا۔‘‘
(منصب امامت صفحہ112 از شاہ اسماعیلؒ)
مولانا ابوالکلام آزاد خلیفۂ راشد کا مقام بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
’’نبوت کا مقام، تعلیم و تربیت امت کی مختلف قوتوں سے مرکب تھا۔ قرآن کریم نے ان کو تین اصولی قسموں میں بانٹ دیا ہے۔ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتہٖ۔ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ (سورۃالجمعہ:3) تلاوت آیات، تزکیہ نفوس، تعلیم کتاب و حکمت، خلفائےراشدین ؓان تینوں منصبوں میں وجود نبوت کے نائب تھے۔ وہ منصب اجتہاد و قضاء شرح کے ساتھ قوت ارشاد و تزکیہ و تربیت بھی رکھتے تھے۔ وہ ایک صاحب وحی کی طرح خدا کے کلام کی منادی کرتے، ایک نبیؐ کی طرح دلوں اور روحوں کو پاکی بخشتے اور ایک رسولؐ کی طرح تعلیم کتاب اور حکمت و سنت سے امت کی تربیت و پرورش کرنے والے تھے۔ وہ ایک ہی وجود میں ابو حنیفہؒ و شافعیؒ بھی تھے اور جنیدؒ اور شبلیؒ بھی، لخمیؒ و حمادؒ بھی تھے اور ابن معینؒ و ابن راہویہؒ بھی۔ جسموں کا نظام بھی انہی کے ہاتھوں میں تھااور دلوں کی حکمرانی بھی انہی کے قبضہ میں تھی۔ یہی حقیقی اور کامل معنیٰ منصب نبوت کی نیابت کے ہیں اور اسی لئے ان کا وجود اور ان کے اعمال بھی اعمال نبوت کا ایک آخری جزء تھے کہ عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَآءِ الرَّاشِدِیْنَ اور اسی لئے وَعَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ کے حکم میں نہ صرف سنت عہد نبوت بلکہ خلافت راشدہ خاصہ کی سنت بھی داخل ہوئی اور شرح اس سرّ الٰہی کی بہت طولانی ہے یہاں محض اشارات
(مسئلہ خلافت صفحہ 34۔ناشر مکتبہ جمال لاہور۔سن اشاعت2006ء)
مولانا ابوالکلام آزاد نظام خلافت کی ضرورت و اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اسلام کا قانون شرعی یہ ہے کہ ہر زمانے میں مسلمانوں کا ایک خلیفۂ وامام ہونا چاہئے۔ ’’خلیفہ‘‘ سے مقصود ایسا خود مختار مسلمان بادشاہ اور صاحب حکومت و مملکت ہے جو مسلمانوں اور ان کی آبادیوں کی حفاظت اور شریعت کے اجراء و نفاذ کی پوری قدرت رکھتا ہو اور دشمنوں کے مقابلہ کے لئے پوری طرح طاقتور ہو۔
اس کی اطاعت اور اعانت ہر مسلمان پر فرض ہے اور مثل اطاعت خدا ورسول ﷺ کے لئے ہے تاوقتیکہ اس سے کفر بواح (صریح) ظاہر نہ ہو۔جو مسلمان اس کی اطاعت سے باہر ہوا، وہ اسلامی جماعت سے باہر ہو گیا۔جس مسلمان نے اس کے مقابلے میں لڑائی کی یا لڑنے والوں کی مدد کی اس نے اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں تلوار اٹھائی۔ وہ اسلام سے باہر ہو گیا اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو، روزہ رکھتا ہو اور اپنے تئیں مسلمان سمجھتا ہو۔ ایک خلیفہ کی حکومت اگر جم چکی ہے اور پھر کوئی مسلمان اس کی اطاعت سے باہر ہوا اور اپنی حکومت کا دعویٰ کیا تو و ہ باغی ہے اس کو قتل کر دینا چاہئے۔‘‘
(مسئلہ خلافت۔صفحہ187 ۔ناشر:مکتبہ جمال لاہور۔ سن اشاعت2006ء)
علّامہ الشیخ الطنطاری الجواہری اپنی کتاب ’’القراٰن والعلوم العصریہ‘‘ صفحہ 21 پر آیت استخلاف کو درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ھذہ الایۃ ذکرنا ھا مرۃ اخری فی الکتاب و اعدنا ھا ھھنا بعد ان بینا طریق الاتحاد بین المسلمین تلک الطریق التی ھدانا اللہ لاستخراجھا من الکتاب العزیز لا سبیل الی اسعاد المسلین بغیریا ولا سبیل لاراحتھم وتمکینھم فی الارض واستخلافھم فیھا و تبدیل خوفھم امناالا بھذہ السبیل وحدھا (الخلافۃ)‘‘
یعنی اس آیت کو ہم نے اس کتاب میں دوبارہ ذکر کیا ہے اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا طریق بیان کرنے کے بعد ہم نے پھر اس آیت کو دُہرایا ہے کیونکہ اس طریق کا علم ہمیں کتاب عزیز سے ہوتا ہے اور اس کے بغیر مسلمانوں کی کامیابی کا اَور کوئی طریق نہیں۔ نہ ہی انہیں زمین میں خوشحالی اور طاقت حاصل ہوسکتی ہے اور نہ ہی حکومت میسر آسکتی ہے اور نہ ہی ان کا خوف امن میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ مگر صرف اور صرف اس (خلافت) کے ذریعہ۔
(ماہنامہ الفرقان مئی 1967ء صفحہ25)
اے کاش! مسلمان اس نعمت عظمیٰ کی قدر کریں اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ سے وابستہ ہوکر امن اور سلامتی کے حصار میں پناہ گزیں ہوجائیں۔
(مرسلہ: ظہیر احمد طاہر۔ نائب صدر مجلس انصاراللہ جرمنی)