• 4 مئی, 2024

حدیث ’’من سبّ نبیّا فاقتلوہ‘‘ پر ایک علمی نظر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حدیث ’’من سبّ نبیّا فاقتلوہ‘‘ پر ایک علمی نظر

علم اسماء الرجال، علم جرح و تعدیل اور علم درایت کی روشنی میں

ابتدائیہ

کچھ عرصہ سے وطن عزیز میں ایک خاص مکتبہ فکر کی حامل جماعت کا ایک طبقہ توہین رسالت ﷺ کے موضوع کو لے کر آئے روز جلسہ جلوس اور اشتعال انگیز تقاریر  وغیرہ کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ ایک خاص سوچی سمجھی سکیم کے تحت ایک حدیث (من سبّ نبیّا قاقتلوہ۔۔۔) بچہ بچہ کو زبانی یاد کروائی جا رہی ہے، سوشل میڈیا پر ان معصوم بچوں کی ویڈیوز کو اپلوڈ کیا جاتا ہے اور ان کے کچھ ذہنوں کو خاص قسم کی مذہبی انتہاء پسندی کی تعلیم دی جا رہی ہے۔

ایسا ہی معاشرہ کے اس طبقہ کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے جو نہ ہی دینی علم رکھتے ہیں اور نہ ہی اسلامیات کے علم کی باریکیوں سے واقف ہیں۔ بس آنحضرت ﷺ کی محبت کو ایک غلط رنگ دے کر لوگوں کو مشتعل کیا جاتا ہے اور اس مشتعل جتھہ کے سامنے جو بھی آتا ہے وہ مشکل سے ہی اپنی جان بچاتا ہے۔ حال ہی میں سری لنکا کے ایک شہری کو اسی معاملہ میں بے دردی کے ساتھ قتل کر کے اس کی نعش کو پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی۔ جب ان مشتعل قاتلوں سے انٹرویو کیا گیا تو انہوں نے نعرہ کی صورت میں اسی حدیث کو بآواز بلند پڑھا ۔۔۔(من سبّ نبیّا قاقتلوہ۔۔۔)

 اس مضمون میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ اس حدیث کی کیا سند ہے اور کیا یہ ایسی حدیث ہے جس پر تکیہ کر کے لوگوں کو بغیر ثبوت و دلیل کے  قتل کیا جائے۔۔۔

(الف) روایت (من سبّ نبیّا قاقتلوہ۔۔۔) اسلامی لٹریچر میں

تفصیلی بحث میں جانے سے قبل یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ یہ روایت صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے یعنی اس روایت کو کسی اور صحابی نے بیان نہیں کیا۔ اور یہ روایت صحیحین اور باقی کتب اربعہ میں کہیں بھی موجود نہیں۔ یہ روایت پہلی بار حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے قریباً  270 سال کے بعد کسی ذخیرہ احادیث میں نمودار ہوئی۔

  1. یہ حدیث ہمیں اسلامی لٹریچر میں سب سے پہلے معجم الصغیر للطبرانی میں ملتی ہے۔ امام الطبرانی (260ھ تا 360ھ) اس حدیث کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں:

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعُمَرِيُّ الْقَاضِي بِمَدِينَةِ طَبَرِيَّةَ سَنَةَ سَبْعٍ وَسَبْعِينَ وَمِائَتَيْنِ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ , حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ , عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ , عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ:  «مَنْ سَبَّ الْأَنْبِيَاءَ قُتِلَ , وَمَنْ سَبَّ أَصْحَابِي جُلِدَ»  لَا يُرْوَى عَنْ عَلِيٍّ إِلَّا بِهَذَا الْإِسْنَادِ تَفَرَّدَ بِهِ ابْنُ أَبِي أُوَيْسٍ[1]

ترجمہ: عبیداللہ بن محمد العمری (جو طبری شہر  میں 277ھ میں قاضی رہے) بیان کرتے ہیں کہ اسماعیل بن ابی اویس نے ان سے بیان کیا ، ان سے موسیٰ بن جعفر بن محمدنے اپنے والد سے روایت کی اور انہوں نے  اپنے دادا علی بن حسین سے روایت کرتے ہیں کہ حسین بن علی نے بیان کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا، جو انبیاء کو گالی دے اس کو قتل کر دیا جائے اور جو میرے صحابہ کو گالی دے اس کو کوڑے مارے جائیں۔ یہ روایت حضرت علی سے اسی سند سے ملتی ہے اور اس روایت کو بیان کرنے میں ابن ابی اویس کو تفرّد حاصل ہے۔

2. علامہ الدیلمی(445ھ تا 509ھ)  اس روایت کو اپنی کتاب الفردوس لماثور الخطاب میں لائے ہیں۔[2]

3. قاضی عیاض مالکی (476ھ تا 544ھ) کی سیرت نبوی ﷺ پر مشتمل کتاب ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفی‘‘ میں  اس حدیث کا ایک اور طریق ملتا ہے۔ ایک جو اوپر بیان ہو چکا اور دوسرا طریق مندرجہ ذیل ہے۔:

’’حَدَّثَنَا الشَّيْخُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ غَلْبُونَ عَنْ الشَّيْخِ أَبِي ذَرٍّ الْهَرَوِيِّ إِجَازَةً قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ الدَّارَقُطْنِيُّ وَأَبُو عُمَرَ بْنُ حَيَّوَيْهِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نُوحٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ زَبَالَةَ حدثناعبد الله بن مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ محمد بن علي بت الْحُسَيْنِ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ سَبَّ نَبِيًّا فَاقْتُلُوهُ وَمَن سَبَّ أَصْحَابِي فَاضْرِبُوهُ‘‘[3]

4. امام  ابن تیمیہ (661ھ تا 728ھ) کی کتاب الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول میں بھی یہ حدیث آئی ہے۔[4]

5. امام نورالدین الھیثمی (735ھ تا 807ھ)اس روایت کو مجمع الزوائد  و منبع الفوائد میں  لائے ہیں۔[5]

6. علامہ علاء الدین علی المتقی الھندی (888ھ تا 975ھ) نے اپنی معروف تصنیف کنزالعمال میں اس روایت کو  نقل کیا ہے۔[6]

7. امام السیوطی (849ھ تا 911ھ) اس روایت کو  اپنی کتاب الجامع الصغیر میں  لائے ہیں۔ [7]

8. علامہ عبدالرؤف مناوی (952ھ تا 1031ھ) صاحب فیض القدیر جو کہ امام السیوطی کی کتاب الجامع الصغیرکی شرح ہے، اس حدیث کو قدرے تفصیل کے ساتھ  بیان کیا ہے۔ [8]

9. سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ میں موجودہ دور کے معروف عالم  علامہ ناصر الدین البانی نے اس روایت کوبیان کیا ہے۔ [9]

10. الروض البسام  میں موجودہ دور کے عالم جاسم بن فُھید الدوسری  اس روایت کا ایک اور طریق بیان کرتے ہیں  تاہم آپ نے اس طریق کا حوالہ امھات کتب احادیث سے نہیں دیا۔ [10]

(ب) ان دو روایات سے متعلق محدثین کی آراء

  • امام ابن تیمیہ  جو نبی ﷺ پر سبّ و شتم کرنے والے کی سزا ئے موت کے شائد سب سے بڑے علم بردار ہیں وہ اس حدیث کو  بوجوہ ضعیف سمجھتے ہیں۔ [11]
  • امام  جلال الدین السیوطی اپنی کتاب الجامع الصغیر میں اس روایت  کے بارہ میں فرماتے ہیں،  ’’حدیث ضعیف‘‘ یعنی یہ حدیث ضعیف ہے۔اور آپ نے الشفا لقاضی عیاض کی کتاب کی احادیث کی تخریج کی جس کا نام ’’مناھل الصفا فی تخریج احادیث الشفا‘‘ رکھا ۔ آپ نے اس روایت کو اس کتاب میں بھی "ضعیف” قرار دیا۔  [12]
  • امام احمد بن علی الحجر عسقلانی نے لسان المیزان میں اس روایت کو ’’منکر‘‘ روایت قرار دیا ہے۔[13]
  • علامہ ناصر الدین البانی نے اس روایت کو ضعیف نہیں بلکہ موضوع قرار دیا ہے۔ [14]
  • عبدہ علی کوشک نے قاضی عیاض کی کتاب الشفاء (جس میں اس روایت کا ایک طریق بیان ہوا ہے) پر تعلیقات اور حاشیہ لکھا ہے جس میں وہ اس روایت کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ، ’’و عدّ العلماء هذا الخبر من مناكيره‘‘ کہ علماء نے اس روایت کو از قبیل مناکیر گردانا ہے۔[15]

یہ تو ہوا محدثین کی نظر میں اس روایت کا مقام، اب ہم اس روایت کے دونوں طرق میں موجود رواۃ پر بحث کریں گے۔

(ج) ان  دو روایات میں موجودرجال پر ایک نظر

روایت نمبر 1

عبید اللہ بن محمد العمری

جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ امام  الطبرانی نے اپنے شیخ عبید اللہ بن محمد العمری سے لی۔ لسان المیزان میں ابن حجر عسقلانی نے عبیداللہ بن محمد العمری کو ’’من شیوخ الطبرانی‘‘ کہا ہے۔ ان کے بارہ میں

  • مجمع الزاوئد میں امام نور الدین الھیثمی ان صاحب کے بارہ میں لکھتے ہیں، ’’رماہ النسائی بالکذب‘‘ یعنی امام نسائی نے ان کو جھوٹا قرار دیا ہے۔۔[16]
  • امام حافظ  ذہبی  نے اپنی تصنیف تاریخ الاسلام میں لکھا، ’’قال النسائی: کذّاب‘‘، یعنی امام نسائی کے نزدیک یہ کذّاب ہیں۔[17]
  • امام ابن حجر عسقلانی نے لسان المیزان میں ان کو غیر ثقہ قرار دیا۔[18]
  • امام دار قطنی کے نزدیک یہ راوی ’’ضعیف‘‘ ہیں۔[19]
  • علامہ ناصر الدین البانی کے اس راوی کے بارہ میں کہا کہ، ’’والعمري متهم بالكذب والوضع‘‘ یعنی عبیداللہ العمری پر جھوٹی اور موضوع احادیث بیان کرنے سے متھم ہیں۔[20]

إسماعيل بن أبي أويس

اس روایت میں عبیداللہ العمری کے بعد اسماعیل بن ابی اویس قابل ذکر ہے۔ اس راوی پر بھی صاحبان علم رجال اور محدثین نے کلام کیا ہے۔

  • یحیٰ بن معین اس راوی کے بارہ میں کہتے ہیں، ’’مخلط یکذب لیس بشیئ‘‘ یعنی یہ احادیث کو خلط ملط کرتے تھے، غلط بیانی کرتے تھے اور ان کی حدیث حجت نہیں۔[21]
  • یحیٰ بن معین کا ایک اور قول اس راوی کے بارہ میں نقل کرتے ہوئے علامہ حافظ عقیلی لکھتے ہیں، ’’ابو اویس و ابنہ ضعیفان‘‘ یعنی  ابو اویس اور ان کا بیٹا دونوں ضعیف ہیں۔[22]
  • یحیٰ بن معین کا ایک اور قول اس راوی کے بارہ میں نقل کرتے ہوئے علامہ ابن حجر عسقلانی  لکھتے ہیں، ’’کان یسرق الحدیث‘‘ یعنی یہ احادیث چوری کیا کرتےتھے۔[23]
  • ابو حاتم رازی ان کے بارہ میں فرماتے ہیں، ’’كان مُغَفَّلاً‘‘ یعنی آپ  بے خبر سے آدمی تھے۔[24]
  • امام النسائی نے اس راوی کے بارہ میں کہا، ’’ضَعِيْفٌ، وَقَالَ مَرَّةً فَبَالَغ لَيْسَ بِثِقَةٍ‘‘ کہ یہ راوی ضعیف تھے۔ ایک بار آپ نے ان کو غیر ثقہ بھی قرار دیا۔[25]
  • حافظ ذھبی،صاحب سیر اعلام النبلاء اس راوی کے بارہ میں لکھتے ہیں:

’’وكان عالم أهل المدينة ومحدثهم في زمانه على نقص في حفظه وإتقانه ، ولولا أن الشيخين احتجا به ، لزحزح حديثه عن درجة الصحيح إلى درجة الحسن.‘‘[26]

اور آپ اہل مدینہ کے ہاں باوجود اپنے حافظہ کی کمزوری کے باوجود ایک عالم اور محدث کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اور اگر شیخین (امام بخاری و مسلم) نے آپ سے احادیث نہ لی ہوتیں تو آپ کی احادیث کا درجہ صحیح سے حسن پر آ ٹہرتا۔ ’’ یعنی آپ کے حفظ و اتقان حدیث میں کمی تھی۔

 مندرجہ بالا اقوال محدثین سے ثابت ہوتا ہے کہ اسماعیل بن ابی اویس اپنے سوئے حفظ کی وجہ سے کوئی اتنے مضبوط راوی نہیں ہیں۔ اس روایت میں آپ کے بارہ میں امام طبرانی لکھتے ہیں، ’’تفرّد بہ ابن ابی اویس‘‘ [27] یعنی اس روایت کو صرف ابن ابی اویس ہی نے عبیداللہ بن محمد العمری سے روایت کیا ہے۔ اب یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک تو اسماعیل بن ابی اویس کو اس حدیث کی روایت میں تفرّد حاصل ہے اور دوسرا یہ راوی سوء الحفظ کے مسئلہ سے بھی دوچار ہیں۔

سوء الحفظ عام طور پر دو قسم کا ہوتا ہے، ایک سوء حفظ لازم جس کا مطلب یہ ہوا کہ راوی کو سوئے حفظ ہمیشہ لاحق رہا۔ ایسے راوی کی روایات کو بعض محدثین ’’شاذ‘‘ کہتے ہیں۔ دوسری قسم سوئے حفظ طاری کہلاتی ہے۔ یعنی ایسا سوئے حفظ جو بڑھاپے ، بیماری یا کتب کے تلف ہو جانے کی وجہ سے ہو۔ایسی صورت  میں سوئے حفظی سے ما قبل روایات کو مقبول جبکہ بعد والی کو مردود کہا جاتا ہے۔ اسماعیل بن ابی اویس کے معاملہ میں محدثین نے کسی سوئے حفظ طاری کا ذکر نہیں کیا، معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوئے حفظ لازم سے دوچار تھے۔

  • ابو الفتح الازدی کہتے ہیں کہ سیف بن محمد نے مجھ سے بیان کیا کہ ابن ابی اویس احادیث گھڑا کرتے تھے۔[28]

یہاں اس راوی سے متعلق  بعض لوگ سوال کرتے ہیں  کہ اگر یہ راوی اتنے مضبوط نہیں اور ان پر بعض محدثین نے جرح بھی کی تو پھر حضرات شیخین نے ان کی روایات کیوں لیں؟ اس کا جواب امام ابن حجر عسقلانی نے دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں،

’’احتج به الشيخان، إلا أنهما لم يكثرا من تخريج حديثه ، ولا أخرج له البخاري مما تفرد به سوى حديثين ، وأما مسلم فأخرج له أقل مما أخرج له البخاري، وروى له الباقون سوى النسائي فإنه أطلق القول بضعفه ، وروى عن سلمة بن شبيب ما يوجب طرح روايته ۔۔۔ ما أخرجه البخاري عنه هو من صحيح حديثه لأنه كتب من أصوله، وعلى هذا : لا يحتج بشيء من حديثه غير ما في الصحيح۔‘‘ [29]

یعنی شیخین نے اس سے روایات لیں  اور ان کو دلیل بنایا، مگر اس راوی سے زیادہ روایات نہیں لیں۔ بخاری نے اس سے صرف دو ایسی احادیث لیں جن کو اس راوی نے متفرداً (اکیلے) بیان کیا۔ امام مسلم نے اس سے بخاری سے بھی کم روایات لیں۔ اور باقی محدثین (کتب اربعہ) نے سوائے امام نسائی کے ان سے روایات لیں، نسائی نے اس راوی کو ضعیف قرار دیا سلمۃ بن شبیب نے اس تضعیف کی وجہ بھی بتائی۔۔۔جو کچھ بھی امام بخاری نے ان سے لیا وہ اپنے اصول پر پرکھ لر لیا۔اور ان کی روایات میں سے صحیح کو اختیار کیا۔

نتیجہ

ان دو رایوں کے بارہ میں محدثین متفق ہیں کہ یہ دونوں راوی بوجوہ ضعیف ہیں اور اس روایت سے نہ ہی کوئی استنباط، استشہاد یا کوئی استفتاء کیا جا سکتا ہے۔ اور اس روایت پر تکیہ کر کے اتنے بڑے مسئلہ (توہین رسالت مآبﷺ) میں گستاخی کرنے والے کو موت کی سزا دینا ہر گز منشائے نبوی نہیں ہو سکتا!!

روایت نمبر 2

عبدالعزیز بن محمد بن الحسن الزبالۃ

  • ابن حبان اس راوی کے بارہ میں فرماتے ہیں، ’’یاتی عن المدنیین بالاشیاء المعضلات، فبطل الاحتجاج بہ‘‘ یہ راوی اہل مدینہ سے معضل احادیث روایت کرتے ہیں سو ان کی روایا ت کا اعتبار نہیں کی جا سکتا اور نہ ہی ان سے دلیل پکڑی جا سکتی ہے۔ [30]
  • امام ذہبی فرماتے ہیں، ’’لا اعرف ھٰذا‘‘ یعنی میں اس کو جانتا ہی نہیں ۔[31]
  • امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ یہ روای مجہول ہے۔[32]

نتیجہ

اس روایت میں بھی عبدالعزیز بن محمد بن الحسن الزبالۃ نامی راوی کو علم اسماء الرجال و جرح و تعدیل کے  بڑے علماء و محدثین مجہول قرار دیتے ہیں۔ اب ایک مجہول راوی کی روایت کو لے کر اگر کوئی لوگوں کے گلے کاٹتا پھرے تو اس کی عقل و خرد پر کف افسوس ہی ملا جا سکتا ہے!!

(د) روایت ’’من سبّ نبیّا فاقتلوہ‘‘ علم درایت کی روشنی میں

محدثین و علمائے حدیث نے درایت کے بعض اصول بیان کئے ہیں۔ جن میں حدیث کا خلافِ عقل ہونا، قرآن کے خلاف ہونا، سنتِ مشہورہ کے خلاف ہونا، اجماع کے خلاف ہونا،حدیث کا شاذ ہونا اور حدیث کا کسی ایسے مسئلہ سے متعلق ہونا جو تواتر کا متقاضی ہو وغیرہ شامل ہیں۔ ان اصولوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ حدیث آنحضرت ﷺ کی حیات با برکات کے ثابت شدہ واقعات کے خلاف نہ ہو۔ زیر بحث حدیث میں ہمیں کچھ ایسی ہی صورت حال نظر آتی ہے۔

انسان کی بیوی اس کی سب سے بڑی ہم راز ہوتی ہے۔ حضرت رسول کریم ﷺ کی ایک عظیم الشان خصوصیت کے بارہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔

 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّهَا قَالَتْ مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلاَّ أَخَذَ أَيْسَرَهُمَا، مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا، فَإِنْ كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ، وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِنَفْسِهِ، إِلاَّ أَنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةُ اللَّهِ فَيَنْتَقِمَ لِلَّهِ بِهَا‏.‏[33]

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ، انہیں ابن شہاب نے ، انہیں عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی دو چیزوں میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کے لیے کہا گیا تو آپ نے ہمیشہ اسی کو اختیار فرمایا جس میں آپ کو زیادہ آسانی معلوم ہوئی بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو ۔ کیونکہ اگر اس میں گناہ کا کوئی شائبہ بھی ہوتا تو آپ اس سے سب سے زیادہ دور رہتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے بد لہ نہیں لیا۔ لیکن اگر اللہ کی حرمت کو کوئی توڑ تا تو آپ اس سے ضرور بدلہ لیتے تھے۔

1۔مندرجہ بالا حدیث کے ہوتے ہوئے جس کو ثقہ ترین  رواۃ نے روایت کیا  ہم کیسے ایک ایسی روایت پر اعتبار کر سکتے ہیں جو نہ صرف رواۃ کے سوء الحفظ، جھوٹ اور دوسری کئی اور قسم کی وجوہ سے مخدوش ہے۔

2۔ اس میں آنحضرت ﷺ کی سنت مبارکہ کا ذکر ام المومنین کر رہی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے کبھی اپنی ذت کے لئے بدلہ نہیں لیا۔ اگر ہم روایت من سب کو لیں تو  یہ روایت آپﷺ کی  مبارک سنت کے سراسر خلاف ہے۔ ایک اور روایت میں ہے ، وَلَا انْتَصَرَ لِنَفْسِهِ مِنْ مَظْلَمَةٍ [34] یعنی آپ کسی معاملہ میں، کسی ظلم و ستم کی وجہ سے پنے لئے انتقام ہر گز نہ لیتے۔ ایک بار ایک اعرابی نے بہت گستاخی کی، آپ ﷺ کی گردن مبارک پر نشان تک ڈال دیئے مگر آپ نے اس کے جواب میں صرف ایک مسکراہٹ سے دیکھا اور اس کی مراد پوری کرنے کا حکم دیا۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے۔

 عن أَنَس رضي الله عنه قال: كنت أَمْشِي مع رسولِ الله صلى الله عليه وسلم وَعَلَيْهِ بُرْدٌ نَجْرَانِيٌّ غَلِيظُ الْحَاشِيَةِ فَأَدْرَكَهُ أَعْرَابِيٌّ فَجَبَذَهُ بِرِدَائِهِ جَبْذَةً شَدِيدَةً حتى نَظَرْتُ إلى صَفْحَةِ عَاتِقِ رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أَثَّرَتْ بها حَاشِيَةُ الْبُرْدِ من شِدَّةِ جَبْذَتِهِ ثُمَّ قال: يا محمد مُرْ لي من مَالِ الله الذي عِنْدَكَ فَالْتَفَتَ إليه رسولُ الله صلى الله عليه وسلم ثُمَّ ضَحِكَ ثُمَّ أَمَرَ له بِعَطَاءٍ. [35] (متفق علیہ)

یعنی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا۔ آپ کے جسم پر ایک نجرانی چادر تھی، جس کا حاشیہ موٹا تھا۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور اس نے آپ کی چادر بڑے زور سے کھینچی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شانے کو دیکھا کہ زور سے کھینچنے کی وجہ سے، اس پر نشان پڑ گئے۔ پھر اس نے کہا اے محمد! اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے اس میں سے مجھے دیئے جانے کا حکم فرما یئے۔ اس وقت میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مڑ کر دیکھا تو آپ مسکرادیئے پھر آپ نے اسے دیئے جانے کا حکم فرمایا۔

3۔ قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ کی بابرکت ذات پر کی جانے والی ایک بہت بڑی گستاخی کا ذکر فرمایا ہے۔ یہ گستاخی  اور ناموس رسالت پر صریح حملہ منافقین کی جانب سے کیا گیا ، قرآن کریم فرماتا ہے،

يَقُولُونَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ۔۔۔الخ [36]

ترجمہ: وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹیں گے تو ضرور وہ جو سب سے زیادہ معزز ہے اسے جو سب سے زیادہ ذلیل ہے اس میں سے نکال باہر کرے گا حالانکہ عزت تمام تر اللہ اور اس کے رسول کی ہے۔

یہاں قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ پر سبّ و شتم کرنے والے کی گردن اڑانے کا کہیں ذکر نہیں فرمایا۔ اس کے برعکس جب عبداللہ بن ابی بن سلول فوت ہوا تو آپﷺ نے اس کی تکفین کے لئے اپنا کرتہ عطا فرمایا [37] اور اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر نے عرض کی یا رسول اللہ! کیا آپ ابن ابیّ کی نماز جنازہ ادا کریں گے جس نے آپ کے بارہ بہت کچھ (نامناسب) کہا۔ اس پر آپﷺ مسکرائے اور فرمایا ، عمر پیچھے ہٹو، اور آپﷺ اس کی نماز جنازہ ادا فرمائی۔[38]

قارئیں کرام! اس حدیث میں بھی سبّ وشتم کرنے والے پر احسان کرنے کے ساتھ ساتھ آپ ﷺکے مسکرانے کا ذکر ہے!

4۔ وادی طائف کا  دن بقول آنحضرت ﷺ کے آپ ﷺ کی زندگی کا ایک مشکل ترین دن تھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ نے پوچھا ۔ یا رسول اللہ کیا آپ کی زندگی میں  احد کے علاوہ بھی کوئی اور  دن مشکل دن آیا؟ آپ نے فرمایا، عائشہ! تہماری قوم نے جو اذیتیں اور تکالیف مجھے پہنچائیں سو پہنچائیں مگر میری زندگی کا سب سے  زیادہ سخت دن یوم عقبہ کا دن تھا کہ جب میں ابن عبد یالیل کے پاس (وادی طائف میں) تبلیغ کی غرض سے گیا۔ جب طائف کے اوباش لونڈوں نے وجہ تخلیق کائنات ﷺ کو گالیاں دیں، استہزاء کیا، مذاق اڑایا اور آپ پر پتھر برسائے۔۔۔آپ نے فرشتہ کی عرض کو یکسر مسترد کر کے دعا کی کہ شائد اللہ ان کی نسلوں کو ہدایت قبول کرنے کی توفیق دے دے![39]

 کیا ایسا عظیم ترین  نبی اپنی ذات کے لئے ’’فاقتلوا‘‘ کا حکم دے سکتا ہے!

5۔ کعب بن زھیر السلّمی آپ ﷺ کا ہجو گو تھا۔ یہ کفار کے لشکروں کو اپنی تیز و تند زبان اور اس سے نکلنے والی دل آزار اشعار سنا سنا کر گرماتا۔ جس سے وہ مسلمانوں پر شدید حملے کرتے۔ آنحضرت ﷺ اور آپ کے اہل بیت اس کی ہجو سے محفوظ نہیں تھے۔ اپنی ان سخت بدگوئیوں اور بد زبانیوں کے بعد جب مکہ فتح ہوا تو ایک روز اس کی بیوی جو پہلے سے ہی مسلمان ہو چکی تھے اپنے شوہر کعب (جس نے ایک چادر سے اپنی منہ چھپایا ہوا تھا) کے ساتھ آپﷺ کے حضور حاضر ہوئی۔ کعب بولا! یا رسول اللہ! اگر کعب آپ کے سامنے آ جائے تو کیا آپ اس کی معافی کی درخواست قبول فرمائیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا، ہاں کیوں نہیں! اس پر وہ کلمہ پڑھ کر  مسلمان ہو گیا اور آپ کی شان میں فی البدیہہ قصیدہ پڑھا۔ آپ نے یہ قصیدہ سنا اور اپنا بردہ (چادر) جو آپ ﷺ اوڑھے ہوئے تھے اس کو عطا کی۔ اس قصیدہ کو اس نسبت سے قصیدہ بردہ شریف کہتے ہیں! ایسا ہی ھبار بن الاسود جس نے آپﷺ کے جگر گوشہ رسول رضی اللہ عنھا کو جب کہ آپ حاملہ تھیں، نیزہ مار کر اونٹ سے گرایا جس سے آپ کا حمل ضائع ہوا اور آپ وفات پا گئیں۔ [40] یوم فتح مکہ پر آپ نے اس کو معاف فرما دیا!

فتح مکہ کے روز آپ نے ’’اذھبوا ! انتم الطلقاء!لا تثریب علیکم الیوم‘‘ [41]  کا اعلان فرمایا  نہ کہ ’’اقتلوا‘‘ کا۔۔۔

قارئین کرام! یہ روایت ہر اعتبار سے خواہ وہ علم روایت ہو یا علم درایت، دونوں ہی سے قابل استشہاد یا قابل عمل نہیں ہے۔ اس کے بجائے اگر ہم نبی رحمت  ﷺ کی پاکیزہ سیرت کو بیان کریں تو یقین جانیں لوگوں کے لئے اسلام ہی کو ایک آخری امید سمجھیں گے!!!

آں ترحم ہا کہ خلق از وے بدید
کس نہ دیدے در جہاں از مادرے


حوالہ جات

[1] معجم صغیر للطبرانی ، کتاب الحدود۔ صفحہ 547۔ حدیث نمبر 928۔ انصار السنۃ پبلیکیشنز ۔ لاہور

[2] الفردوس لماثور الخطاب۔ الجزء الثالث، صفحہ541۔ حدیث نمبر 5688۔دار الکتب العلمیۃ ۔ بیروت۔1986

[3] الشفاء بتعریف حقوق المصطفی، فصل في الحجة في ايجاب قتل من سبه أو عابه عليه السلام۔ صفحہ773۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ 2013۔ وحدۃ البحوث والدراسات۔المملکۃ المتحدۃ العربیۃ

[4]  الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول صفحہ 92، 93

[5] مجمع الزوائد و منبع الفوائد، باب فیمن سبّ نبیّا او غیرہ۔ جلد13 صفحہ۔ حدیث نمبر 10620 دار المنھاج المملکۃ السعودیۃ 2015

[6]  کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال ۔ الجزء الحادی عشر۔ صفحہ 531۔ حدیث نمبر 32477۔ مؤسسۃ الرسالۃ ۔ بیروت 1989

[7] الجامع الصغیر فی احادیث البشیر النذیر۔ الجزء الثانی صفحہ608۔ حدیث نمبر 8735۔ مطبوعہ دارالفکر ۔ بیروت ۔2008

[8] فیض القدیرشرح الجامع الصغیر۔ الجزء السادس۔ صفحہ147۔ دار المعرفۃ۔ 1972

[9] سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ  والموضوعۃ و اثرھا السیّ فی الامۃ۔ جلد اوّل صفحہ 372۔حدیث نمبر 206۔  مکتبۃ المعارف ۔الریاض۔ 1992

[10] الروض البسام۔ الجزء الثالث۔ صفحہ41۔ مطبوعہ دار البشائر الاسلامیۃ۔بیروت۔1992

[11] ’’شیخ الاسلام ابن تیمیۃ محدثا‘‘۔ صفحہ414۔ دار النفائس ۔ الاردن الطبعۃ الاولیٰ۔ 2005ء

[12]  الجامع الصغیر فی احادیث البشیر النذیر۔ الجزء الثانی صفحہ608۔ حدیث نمبر8735۔ مطبوعہ دارالفکر ۔ بیروت ۔2008 و مناھل الصفا  فی تخریج احادیث الشفا صفحہ241 ۔ حدیث نمبر 1320 ۔ دارالجنان۔بیروت۔ الطبعۃ الاولیٰ ۔ 1988

[13] لسان المیزان جلد5 صفحہ341۔ترجمۃ نمبر 5037۔ دار البشائر الاسلامیۃ، بیروت۔ 2002ء

[14] سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ  والموضوعۃ و اثرھا السیّ فی الامۃ۔ جلد اوّل صفحہ 372، 373۔حدیث نمبر 206۔  مکتبۃ المعارف ۔الریاض۔ 1992

[15] الشفاء بتعریف حقوق المصطفی، فصل في الحجة في ايجاب قتل من سبه أو عابه عليه السلام۔ صفحہ773 حاشیہ۔الطبعۃ الاولیٰ۔ 2013۔ وحدۃ البحوث والدراسات۔المملکۃ المتحدۃ العربیۃ

[16] مجمع الزوائد و منبع الفوائد، باب فیمن سبّ نبیّا او غیرہ۔ جلد10 صفحہ392 حاشیہ حدیث نمبر 7758۔ دار المنھاج المملکۃ السعودیۃ 2015

[17] تاریخ الاسلام و وفیات المشاھیر والاعلام ، جلد 22 صفحہ 202۔مطبوعہ  دار الکتاب العربی۔بیروت۔ 1991

[18]  لسان المیزان جلد 5 صفحہ 341۔ترجمۃ نمبر 5037۔ دار البشائر الاسلامیۃ، بیروت۔ 2002ء

[19]  لسان المیزان جلد 5 صفحہ 341۔ترجمۃ نمبر 5037۔ دار البشائر الاسلامیۃ، بیروت۔ 2002ء

[20]  سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ  والموضوعۃ و اثرھا السیّ فی الامۃ۔ جلد اوّل صفحہ 372، 373۔حدیث نمبر 206۔  مکتبۃ المعارف ۔الریاض۔ 1992

[21] منھج الامام البخاری فی ٹصحیح الاحادیث و تعلیلھا۔ از ابو بکر کافی۔صفحہ83۔ دار ابن حزم۔ بیروت۔2000

[22] کتاب الضعفاء الکبی، السفر الوّل۔ صفحہ 87۔ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ۔ بیروت۔ الطبعۃ الاولیٰ

[23] ھدی الساری، مقدمہ فتح الباری۔ الجزء الثانی صفحہ 357 ۔ دار الرسالۃ العالمیۃ۔ 2013

[24] سیر اعلام النبلاء زیر اسماعیل بن ابی اویس۔بیت الافکار الدولیۃ ۔ لبنان۔ 2004

[25] سیر اعلام النبلاء زیر اسماعیل بن ابی اویس۔بیت الافکار الدولیۃ ۔ لبنان۔ 2004

[26] سیر اعلام النبلاء زیر اسماعیل بن ابی اویس۔بیت الافکار الدولیۃ ۔ لبنان۔ 2004

[27] لسان المیزان جلد 5 صفحہ 341۔ترجمۃ نمبر 5037۔ دار البشائر الاسلامیۃ، بیروت۔ 2002ء

 تھذیب التھذیب جلد اوّل صفحہ 311، 312 مطبوعہ حیدرآباد دکن۔ 1325 ھ[28]  

[29] ھدی الساری، مقدمہ فتح الباری۔ الجزء الثانی صفحہ 357 ۔ دار الرسالۃ العالمیۃ۔ 2013

[30] لسان المیزان جلد 5 صفحہ 201، 202۔ترجمۃ نمبر 4805۔ دار البشائر الاسلامیۃ، بیروت۔ 2002ء

[31] لسان المیزان جلد 5 صفحہ 218 حاشیہ۔ترجمۃ نمبر 4805۔ دار البشائر الاسلامیۃ، بیروت۔ 2002ء

[32] لسان المیزان جلد 5 صفحہ 218 حاشیہ۔ترجمۃ نمبر 4805۔ دار البشائر الاسلامیۃ، بیروت۔ 2002ء

[33] صحیح بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب صفۃ النبی ﷺ حدیث نمبر 3560

[34] مسند اسحٰق بن راہویہ۔ مسند ام المومنین عائشہ۔الجزء الثانی۔ صفحہ 294۔ مکتبۃ توزیع الایمان۔ المدینۃ المنورۃ ۔ 1990 

[35] صحیح بخاری۔ کتاب الادب۔ باب التبسّم والضحک۔حدیث نمبر 6088

[36] سورت ا؛لمنافقون آیت 9

[37] صحیح بخاری۔ کتاب تفسیر القرآن۔سورۃ البراء ۃ ۔ باب "لا تصلّ علیٰ۔۔۔حدیث نمبر4672

[38] صحیح بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب ما یکرہ من الصلوٰۃ علیٰ المنافقین۔۔۔حدیث نمبر 1366

[39] صحیح بخاری۔ کتاب بدء الخلق۔باب لاذاقال احدکم : آمین۔۔۔حدیث نمبر 3231

[40] حیاۃ نسآء اھل البیت۔ از محمد راجی کناس۔ صفحہ 576۔ دار المعرفۃ ۔ بیروت 2008

[41] مروج الذھب و معادن الجوھر از المسعودی۔ الجزء الثالث۔ صفحہ142۔ شرکۃ القدس لتصدیر۔ القاھرۃ۔ 2009

(خواجہ عبدالعظیم احمد، فاضل عربی، ریسرچ سکالر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 دسمبر 2021

اگلا پڑھیں

دین سے دور لے جانے والی مجالس