• 2 مئی, 2024

نظم

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ

وہ جو تنہا تھا ’’گمنام‘‘ اور ’’بےہنر‘‘
یہ جہاں اُس کے مسکن سے تھا بے خبر
ساتھ اُس کے تھی تائید رب الورٰی
وہ تھا مولیٰ کی ہستی کا تازہ نشاں
وہ رہا اپنے پیارے کا بن کر معیں
کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں
وہ قلم کا شہنشاہ لکھتا رہا
درسِ توحید دنیا کو دیتا رہا
با دلائل بیانِ حقائق ہوا
رفتہ رفتہ ہجومِ خلائق ہوا
سب نئے بن گئے آسمان و زمیں
کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں
شیر نَر کی طرح اُس کی للکار تھی
برق سے تیز تَر اُس کی چمکار تھی
جیت کے دل نئی دنیا تعمیر کی
خُلق کے حسن سے ساری تسخیر کی
صد تبسم بہ لب اور بہ خندہ جبیں
کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں
ہیں کہاں لیکھرام اور آتھم گئے
کتنے اٹھے تھے طوفان جو تھم گئے
بھیں کا لوگو کہاں اب کرم دین ہے
اب کہاں ہے مداری کہاں بین ہے
ہاں خدا نے کسی کو بھی چھوڑا نہیں
کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں
جو بٹالے کا تھا اک محمد حسین
جس کے لب پر رہا عمر بھر شورشین
سارے ہی تیغ برّاں سے کٹتے گئے
اک زمانہ ہوا سارے مر کھپ گئے
کیسا قادر ہے وہ مالک العالمیں
کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں
عمر بھر تیز تیروں کی زد پر رہے
جس سے پھٹ جائے دل وہ مظالم سہے
بول کر بولیاں اپنی سب اُڑ گئے
حادثے ان کی جانب ہی سب مڑ گئے
میرے آقا کا کچھ بھی بگاڑا نہیں
کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں
وہ جسے نان کے ٹکڑے ملتے نہ تھے
پیٹ بھر کر کبھی بھی جو کھاتے نہ تھے
اُن کو اتنا دیا اُن کا گھر بھر دیا
اُن کو جسمانی روحانی لنگر دیا
کیسے اُٹھ جائے سجدے سے میری جبیں

کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں
اک صدی میں ہوئے ایک سے اک کروڑ
اب صدی اگلی دیکھے گی صدہا کروڑ
یہ حقائق نہیں اب بعید از قیاس
یہ تو قادر خدا نے دلائی ہے آس
جس کے آگے کوئی بات مشکل نہیں
کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں
ہم ہیں اُس کی جماعت کے جس کے لئے
تا ابد سرفرازی کے وعدے ہوئے
اے خدا تو ہمیں اس کے قابل بنا
تُو تو سنتا ہے سب عاجزوں کی دعا
تیرے وعدوں پہ ہے ہم کو حق الیقین
کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں

(امۃ الباری ناصر۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جنوری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 جنوری 2020