• 12 مئی, 2025

محسنِ انسانیتﷺ کے اخلاقِ فاضلہ کا دلنشیں تذکرہ

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
قُلْ اِنْ كُنْتُـمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِىْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُـوْبَكُمْ ۗ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ

(اٰل عمران:32)

ہمارے پیارے آقا حضرت محمدﷺ ایک کامل اور بااخلاق انسان تھے۔ آپﷺ کی زندگی تمام انسانوں کے لئے اور تمام انبیاء اور مرسلین کے لئے ایک کامل نمونہ کے طور پر ہے۔ حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰن آپﷺ کے تمام اقوال و افعال اور اعمال قرآن کریم کے مطابق ہیں۔

آپؐ بحیثیت عادل و منصف

رسول کریم ﷺ کی ذات میں ہر خوبی اپنے کمال کو پہنچی ہوئی تھی اور ان خوبیوں میں ایک خوبی عدل و انصاف بھی تھی۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ قبیلہ بنو مخزم کی فاطمہ نامی عورت نے چوری کی لوگوں نے آنحضرتﷺ کے پاس حضرت اسامہ بن زیدؓکو اس عورت کی سفارش کرنے کے لئے بھیجا ۔ آپﷺ یہ سن کر ناراض ہوئے اور فرمایا:
’’خداکی قسم! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتیں تو میں اس کے ہاتھ کاٹ دیتا اور فرمایا تم میں سے پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ وہ طاقتور اور امیر کو چھوڑ دیتے تھے۔‘‘

آپؐ کارحم اور شفقت

حضورﷺ بہت رحم دل اور شفقت گزار تھے۔ آپ ﷺ کی یہ خوبی نہ صرف انسانوں کے لئے تھی بلکہ جانوروں اور پرندوں کے لئے بھی تھی جیسا کہ روایت سے پتہ چلتا ہے کہ ایک دفعہ آپؐ کے پاس سےگزرے اونٹ نے اپنے مالک کی شکایت کی کہ ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالتا ہے چارہ کم دیتا ہے ۔ آپ ﷺ نے اس مالک کو بلوایا اورکہا کہ اس کا خیال رکھو یہ بے زبان جانور ہے۔
علامہ اقبال اپنے ایک شعر میں بیان کرتے ہیں: ؎

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بَر لانے والا

صادق و امین

آپﷺ کو تمام عرب والے صادق اور امین کہہ کر پکار ا کرتے تھے کیونکہ آپؐ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور امین اس لئے کہ آپ ؐ نے کبھی کسی کی امانت میں خیانت نہیں کی۔ لوگ آپؐ کے پاس امانتیں رکھوایا کرتے تھے اور آپؐ کی صحبت سے فیض یاب ہو کر جایا کرتے تھے۔

بچوں سے شفقت

آپ ﷺ بچوں سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ اگر آپﷺ سواری پر ہوتے تھے تو بچوں کو اپنے ساتھ سوار کر لیا کرتے تھے۔ اگر محفل میں کوئی پھل لے کر آتا تو سب سے پہلے بچوں کو دیا کرتے تھے۔
ہجرت کے پہلے سال حضرت عبدا للہ بن زبیرؓ کو جو ابھی بچے ہی تھے آنحضور ﷺ کے پاس لایا گیا تو آپؐ نے ایک کھجور کو نرم کر کے اس کا لعاب عبد اللہ کے منہ پر لگایا اور ان کے لئے دعائے خیر فرمائی اور انہوں نے اپنے علم و عقل سے بلند مرتبہ حاصل کیا۔

آپؐ کا رہن سہن

مجالس میں آپ ﷺ ہمیشہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے۔ سلوک کرتے تھے۔اپنا کام کرتے۔ سلام کرنے میں پہل کرتے۔ کوئی بات کرتے تو توجہ کے ساتھ کرتے تھے۔ جس بات پر زور دینا ہوتا تو اسے تین دفعہ دہراتےتھے۔ آپﷺ عفو و درگزر کے پیکر تھے۔ آپ ﷺ نے اپنے بد ترین دشمنوں سے بھی حسن سلوک کیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی آنحضورﷺ کے اسوہ حسنہ پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

آپؐ کی تعلیم

آپﷺ ابھی مکہ میں ہی مقیم تھے کہ آپؐ پر وحی نازل ہوئی:
وَمَآ اَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ ۔ فَكُّ رَقَبَةٍ

(البلد:14-13)

یعنی اے رسول ! کیا تم جانتے ہو کہ دین کے راستے میں ایک بڑی گھاٹی والی چڑھائی کون سی ہےجس پر چڑھ کر انسان قرب الٰہی کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے؟ اگر تم نہیں جانتے تو ہم بتلاتے ہیں کہ وہ غلام کو آزاد کرنا ہے۔
حدیث میں آتا ہے:حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ’’جو کوئی مسلمان غلام آزاد کرے گا اللہ تعالیٰ دوزخ سے کُلّی نجات عطا کرے گا۔‘‘

(بخاری کتاب الایمان والنذر)

ایک اور جگہ براء بن عازب روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی آنحضرتﷺ کے خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں کہ بس میں سیدھا جنت میں چلا جاؤں۔ آپؐ نے فرمایا: تم نے لفظ تو مختصر کہے ہیں مگر بات بہت بڑی پوچھی ہے۔ تم ایساکرو کہ غلام کو آزاد کرو اگر خود اکیلے آزاد نہ کر سکو تو دوسروں کے ساتھ مل کر آزاد کرو۔

(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 387)

چنانچہ ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضور ﷺ غلاموں کے حقوق کا بھی خیال رکھتے تھے اسی وجہ سے اسلامی تعلیم میں بعض غلطیوں اور گناہوں کے کفارہ میں غلام کے آزاد کرنے کا قاعدہ مقرر کیا گیا ہے اور روایات سے ملتاکہ ہے آنحضور ﷺ نے اپنے زندگی میں تریسٹھ (63) غلام آزاد کئے۔

(سبل السلام شرح بلوغ السمرام کتاب القق)

حربی دشمنوں کی امداد

چنانچہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب 5 ہجری میں مکہ میں قحط پڑا تو آپ ﷺ نے اپنے پاس سے مکہ والوں کی امداد کے لئے کچھ چاندی بھجوائی حالانکہ قریش مکہ اسلام کے خلاف برسر پیکار تھے۔

احساسات کا احترام

جذبات واحساسات کا رشتہ نہایت نازک ہوتا ہے اور فاتح اور غالب اقوام عموماً اس معاملہ میں بہت بے اعتنائی دکھاتی ہیں کیونکہ اس کا دارومدار کسی قانون پر نہیں ہوتا بلکہ صرف اس روح پر ہوتا ہے جو قلوب میں مخفی ہوتی ہے اور جس پر کوئی مادی قانون حکومت نہیں کر سکتا مگر آنحضرتﷺ اور آپؐ کے صحابہ اپنے غلبہ اور حکومت کے زمانہ میں بھی غیرمسلموں کے احساسات کا بہت خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ مدینہ میں ایک یہودی نوجوان بیمار ہو گیا۔ آنحضرت ﷺ کو علم ہوا تو آپؐ اس کی عیادت کو تشریف لے گئے اور اس کی حالت نازک پا کر آپؐ نے اسے اسلام کی تبلیغ فرمائی۔ وہ آپؐ کی تبلیغ سے متاثر ہوا مگر چونکہ اس کا باپ زندہ تھا اور اس وقت پاس ہی کھڑا تھا۔ وہ ایک سوالی کی ہیئت بنا کر باپ کی طرف دیکھنے لگ گیا۔ باپ نے کہا بیٹے! اگر تمہیں تسلی ہو تو بے شک ابو القاسم کی بات مان لو۔ لڑکے نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گیا جس پر آنحضرتﷺ بہت خوش ہوئے اور فرمایا ’’خداکا شکر ہے کہ ایک روح آگ کے عذاب سے نجات پا گئی۔‘‘

(بخاری ابواب الجنائز)

مذہبی بزرگوں کا احترام

دنیا میں عام طور پر یہ جذبہ کام کرتا ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کے مذہبی پیشواؤں کا احترام نہیں کرتی اور اپنے بزرگوں کےسوا باقی سب کو جھوٹا اور مفتری اور مفسد فی الارض قرار دیتی ہے مگر آنحضرت ﷺ کی تعلیم اس کے بالکل برعکس ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ جب ایک صحابی نے کسی یہودی کے سامنے آنحضرتﷺ کی حضرت موسیٰؑ پر ایسے رنگ میں فضیلت بیان کی جس سے اس یہودی کے دل کو صدمہ پہنچا تو آپؐ نے اس صحابی کوملامت فرمائی اور فرمایاکہ تمہارا یہ کام نہیں کہ خدا کے نبیوں میں اس طرح بعض کو بعض سے افضل بیان کرتے پھرو اور پھرآپؐ نے حضرت موسیٰؑ کی ایک جزوی فضیلت بیان کر کے اس یہودی کی دلداری فرمائی۔

(بخاری کتاب بداء الخلق باب قول اللہ تعالیٰ)

پس یہ اس ضابطہ اخلاق کا ایک مختصر نقشہ ہے جو غیر قوموں کے ساتھ تعلقات رکھنے کے متعلق مقدس بانئ اسلامؐ نے پیش کیا۔

(ہشام احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جنوری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 جنوری 2020