حضرت سید حسن شاہ رضی اللہ عنہ ولد مکرم سید فضل شاہ موضع مدینہ سیداں ضلع گجرات کے رہنے والے تھے۔ آپ نے 20 سال کی عمر میں مردان صوبہ خیبر پختونخواہ سے جنوری 1907ء میں بذریعہ خط بیعت کی جس کے فوراً بعد قادیان حاضر ہوکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا شرف پایا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضری کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ایک دوست نے عرض کی کہ حضور! اب عیسائی عموما ًیہ کہتے پھرتے ہیں کہ دیکھو ہمارا مسیح سب نبیوں سے درجہ میں بڑا ہے اس لیے ہم اس کو خدا کہتے ہیں کیونکہ مسلمانوں کی حدیث کی کتاب میں یہ درج ہے کہ ہر ایک انسان کو اس کی پیدائش کے وقت شیطان مس کرتا ہے لیکن حضرت مسیحؑ کو مس شیطان سے خدا نے محفوظ رکھا، اس لیے ثابت ہوا کہ مسلمانوں کا رسول بھی مس شیطان سے نہ بچا۔ یہ بات سن کر حضورؑ کا چہرہ لال ہوگیا اور بڑے زور سے فرمایا کہ حدیث میں مسیح ناصری کے متعلق اس لیے آیا ہے کہ یہود نے الزام لگایا تھا کہ معاذ اللہ مسیح ناجائز طریقے سے پیدا ہوا ہے۔ ان کے اس اعتراض کو دور کرنے کے لیے حضرت رسول کریمؐ نے یہ حدیث بیان فرمائی تھی، کیونکہ دوسرے انبیاء پر یہ اعتراض نہیں ہوا۔ پھر فرمایا کہ مولوی سید محمد احسن یہاں ہیں؟ اس پر مولوی صاحب حاضر ہوئے اور حضورؑ نے فرمایا کہ مولوی صاحب اس حدیث کے متعلق ایک رسالہ لکھو …..
’’ایک روز کا ذکر ہے کہ حضورؑ صبح سیر کے لیے نکلے اور لوگ بھی کثرت سے ساتھ تھے۔ خاکسار بھی ان میں شامل تھا۔ ہر ایک شخص یہی چاہتا تھا کہ میں ہی حضور کے ساتھ رہوں۔ میں بھی اس خیال سے دوڑ کر حضورؑ کے قریب پہنچا لیکن اتفاق سے میرا پاؤں حضورؑ کی چھڑی پر لگ گیا اور چھڑی حضور کے ہاتھ سے گر گئی۔ خاکسار کو ڈر پیدا ہوا کہ کہیں حضورؑ ناراض نہ ہوں لیکن قربان جاؤں حضور ؑکے اخلاق پر کہ حضور ؑنے واپس پھر کر بھی نہ دیکھا۔ میں نے جلدی سے وہ چھڑی اٹھا کر حضور کے ہاتھ سے لگائی۔ حضور نے اس وقت بھی بغیر پیچھے دیکھے چھڑی ہاتھ میں لے لی۔‘‘
(رجسٹر روایات صحابہ ؓ نمبر 6 صفحہ 287)
اغلباً خلافت ثانیہ کی ابتدا میں آپؓ ہجرت کر کے قادیان آگئے جہاں آپؓ کی رہائش محلہ ناصر آباد میں تھی۔ مارچ 1915ء میں آپ کا نکاح حضرت سید سرور شاہ رضی اللہ عنہ نے حضرت امۃ اللہ بیگم بنت حضرت منشی عبدالرحمٰن کپورتھلوی رضی اللہ عنہ یکے از 313 صحابہؓ کے ساتھ پڑھایا۔
(الفضل 21 مارچ 1915ء)
تقسیم ملک کے بعد آپؓ جھنگ شہر میں مقیم ہوئے جہاں 26 اپریل 1976ء کو وفات پائی اور بوجہ موصی (وصیت نمبر 991) ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ آپؓ کی اہلیہ محترمہ حضرت امۃ اللہ بیگم صاحبہ نے 7 اکتوبر 1961ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔ دونوں میاں بیوی بفضلہٖ تعالیٰ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل ہیں، دونوں کے نام جھنگ شہر کے تحت درج ہیں۔ آپ کی اولاد میں چار بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔
(غلام مصباح بلوچ۔کینیڈا)