• 17 جولائی, 2025

ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر، نسلی مساوات کا عظیم علمبردار

مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے انتقال کو نصف صدی سے زائد یعنی ترپن(53) سال بیت چکے ہیں لیکن اس کا نام تاریخ میں آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا، وہ صرف 39 سال زندہ رہے تھے، اگر تعلیم کا عرصہ بھی نکال دیا جائے تو باقی محدود وقت ہی بچتا ہے جس میں انہوں نے امریکہ کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ ان کی وجہ شہرت انسانی حقوق، شہری حقوق اور نسلی مساوات کے میدان میں غیرمعمولی جدوجہد ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ نے جس امریکی معاشرے میں آنکھ کھولی تھی وہاں ان دنوں نسلی امتیاز اور تعصب عروج پر تھا اور سفید فام امریکیوں کی اجارہ داری تھی اور سیاہ فام امریکیوں کو معاشرے میں نفرت کا سامنا تھا۔ سکولوں، تعلیمی اداروں میں سیا فاموں کے خلاف نفرت موجود تھی، کارخانوں، فیکٹریوں میں بدترین تعصب اور ظلم کا دور دورہ تھا۔ سفر کے دوران بسوں میں ان کے بیٹھنے پر یا تو پابندی تھی یا پھر پچھلی نشستوں پر بیٹھنا پڑتا تھا اور سیٹ نہ ہونے کی صورت میں ان کو اپنی سیٹ سفید فام مسافر کے لئے خالی کرنا ہوتی تھی۔ ایک بس کے سفر کے دوران سیٹ پر بیٹھی سیاہ فام خاتون نے سفید فام شہری کے لئے سیٹ خالی نہیں کی، جس پر اس کو گرفتار کر لیا گیا، اس واقعہ نے لوتھر کنگ کو میدان میں نکلنے اور تحریک چلانے پر مجبور کیا جو بعد میں ایک بڑی تحریک اور جنون میں تبدیل ہوتی گئی۔ وہ ایک امریکی پادری تھے جو 15 جنوری 1929 کو اٹلانٹا میں پیدا ہوئے تھے اور 4اپریل 1968 کو قتل کردیئے گئے تھے اس وقت ان کی عمر صرف39 سال کی تھی۔ مارٹن لوتھر جونیئر کنگ نے پی ایچ ڈی کر رکھی تھی اور وہ بیک وقت ایک واعظ دان، مصنف، پاسٹر، انسان دوست، دانشور، امن اور انسانی حقوق کے علمبردار اور مثبت سیاست دان تھے 1955 اور 1968 میں اپنے قتل ہونے تک وہ اپنی سوچ، کام اور تقاریر سے امریکی معاشرے میں مساوی برابری اور مساوی شہری حقوق کے راہنما کے طور پر شہرت پا چکے تھے۔ انہوں نے زندگی بھر جو جدوجہد کی اس کے نتیجہ میں دنیا کے بہترین اعزازات کے مستحق ٹھہرے تھے اور بعد از مرگ بھی ان کو اعزازات ملتے رہے، جو اعزازت ان کو ملے تھے ان میں ’’انسانیت پسندی‘‘، انسانی حقوق کا اقوام متحدہ کا ایوارڈ، صدارتی تمغہ آزادی، جواہر لعل نہرو ایوارڈ، گاندھی امن انعام، نوبل انعام(1964)، ٹائم سال کی شخصیت (1963)، اینسفیلڈ وولف بک ایوارڈز اور فیلو آف امریکن اکیڈمی آف آرٹ اینڈ سائینسز شامل ہیں۔ مارٹن لوتھر جونیئر کنگ نے تعصب سے بھرے امریکی معاشرے میں سیاہ فام امریکی شہریوں کے امریکہ میں یکساں حقوق اور نسلی مساوات کی حمایت میں جو لازوال جدوجہد کی تھی۔ اسی جدوجہد کے نتیجہ میں آج سیاہ فام نسل کے افراد امریکی صدر کے عہدہ سمیت دیگر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے لگے ہیں جس کی ایک مثال بارک اوباما ہیں۔ آج امریکہ میں یکساں شہری حقوق کی موجودگی کا کریڈٹ مارٹن لوتھر کو جاتا ہے۔ 1963میں انہوں نے واشنگٹن کی جانب ایک تاریخی عوامی مارچ کیا تھا جہاں انہوں نے لنکن میموریل کے سامنے ڈھائی لاکھ کے جم غفیر کے سامنے ایک لازوال اور تاریخی تقریر کی تھی جس کا عنوان (I have a dream) ’’میرا ایک خواب ہے‘‘ کی جس نے ان کو ہمیشہ کیلئے زندہ و جاوید کردیا اس تقریر میں انہوں نے شہری و اقتصادی حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے تعلیمی اداروں اور دیگر اداروں میں ہر قسم کے تعصب کے خاتمہ اور کم سے کم اجرت 2ڈالر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ جس کے نتیجہ میں ریاستی اور حکومتی پالیسیوں میں انقلابی اور مثبت تبدیلیاں رونما شروع ہوئیں اور اکتوبر1964 میں ان کو نوبل پرائز دیا گیا تھا اسی سال امریکی صدرنے سیاہ فاموں کے خلاف ہر قسم کے امتیازات کے خلاف قوانین کے خاتمہ کا اعلان کرنے کی دستاویزات پر دستخط کئے۔ یہ مارٹن لوتھر کی فتح کا دن تھا۔

انہوں نے زندگی بھر امریکہ میں انسانی حقوق کی بالادستی اور یکساں شہری حقوق کے لئے آواز آٹھائی اور کامیاب مہم چلائی۔

مارٹن لوتھر کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے یوم پیدائش پر ہر سال جنوری کے تیسرے سوموار کو امریکہ میں قومی تعطیل ہوتی ہے اور جوش و خروش سے یہ دن منایا جاتا ہے۔ مارٹن لوتھر کے اقوال زریں مختلف زبانوں میں اقوام کی نئی نسل کی ذہنی آبپاری کر رہے ہیں ان کے مشہور اقوال میں کچھ درج ذیل ہیں ’’جھوٹ زندہ نہیں رہ سکتا‘‘۔ ’’محبت ہی وہ واحد قوت ہے جو دشمن کو دوست میں تبدیل کرسکتی ہے‘‘۔ ’’کہیں بھی نا انصافی ہر جگہ انصاف کے لئے خطرہ ہے‘‘۔ ’’صرف تاریکی ہی میں آپ تارے دیکھ سکتے ہیں‘‘۔ ’’عدم تشدد کا مطلب نہ صرف بیرونی جسمانی تشدد بلکہ روحانی اندرونی تشدد سے بھی گریز کرنا ہے‘‘۔ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں انہوں نے ویت نام جنگ اور غربت کے خلاف جدوجہد بھی شروع کر رکھی تھی۔ مارٹن لوتھر کے احترام کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج امریکہ کی سینکڑوں سڑکیں اس کے نام سے منسوب ہیں، بڑے بڑے ادارے، عمارتوں کو اس کے نام سے لکھا، پکارا جاتا ہے اور اس کی یاد میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، ریلیاں نکالی جاتی ہیں جن میں اس کی جدوجہد کو سلام پیش کیا جاتا ہے۔ اقوام عالم اس کو ’’نسلی مساوات‘‘ کے حوالے سے ایک عالمی لیڈر اور دانشور کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔

(منور علی شاہد۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 جنوری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ