• 13 مئی, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 31)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں (قسط 31)

تسلسل کے لئے دیکھیں الفضل آن لائن قسط30/7 جولائی 2021ء

انڈیا پوسٹ نے 2 فروری 2007ء صفحہ 25 پر ہماری یہ خبر

Ahmadiyya delegates meet new Police Chief.

احمدیہ وفد نئے چیف پولیس سے ملتا ہے

اخبار نے ایک تصویرکے ساتھ یہ خبر شائع کی ہے۔ پہلے تصویر ہے پھر خبر۔ تصویر کے نیچے لکھا ہے بائیں سے دائیں۔ جمیل محمد، ڈاکٹر طاہر خان، سٹین سٹیوارٹ (چیف پولیس) امام شمشاد اور مونس چوہدری۔

اخبار لکھتا ہے۔ چینو (کیلیفورنیا) کہ جماعت احمدیہ وفد نے جو کہ مسجد بیت الحمید آف چینو سے تعلق رکھتا ہے۔ چینو کے نئے چیف پولیس سے ان کے دفتر میں خیرسگالی کا وزٹ کیا جس کی قیادت امام سید شمشاد ناصر کر رہے تھے اور وفد میں ڈاکٹر طاہر خان، جمیل محمد اور مونس چوہدری شامل تھے۔ وفد نے مسٹر سٹیوارٹ کو چیف پولیس کے عہدہ کی تعیناتی پر انہیں مبارک باد دی اور انہیں جماعت احمدیہ کا تعارف کرایا۔ امام شمشاد نے چیف پولیس کو دو کتب بھی تحفہ دیں۔ ا یک تو ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ دوسرے ’’اسلام عصر حاضر کے مسائل کا حل‘‘۔

امام شمشاد نے چیف پولیس کو یقین دہانی کرائی کہ انہیں ہماری جماعت کی طرف سے ہر قسم کا تعاون میسر رہے گا نیز یہ کہ ہماری خدمات بھی پولیس کے محکمہ کےلئے ہر وقت انہیں حاصل رہیں گی۔ پولیس چیف نے وفد کا استقبال بھی کیا اور انہیں لٹریچر پیش کئے جانےپر وفد کا شکریہ بھی ادا کیا۔ جس سے انہیں اسلام کے بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔

الاخبار نے اپنی انگریزی سیکشن کی 31 جنوری 2007ء کی اشاعت میں ہمارے احمدیہ وفد کی نئے چیف آف پولیس سے ملاقات کی خبر دی ہے۔ خبر کےساتھ تصویر بھی ہے۔ جس میں سب کے نام بھی لکھے ہوئے ہیں۔ (مسٹر جمیل محمد، ڈاکٹر طاہر خاں، مسٹر سٹین سٹیورٹ، امام شمشاد ناصر اور مونس چوہدری)

اخبار نے لکھا کہ گزشتہ ہفتہ جماعت احمدیہ کے وفد نے چینو میں متعین نئے پولیس چیف سے ملاقات کی اور انہیں دو کتب (اسلامی اصول کی فلاسفی، اسلام عصر حاضر کا مسائل) پیش کیں۔ نیز وفد نے انہیں ہر قسم کےتعاون اور سروسز کا یقین دلایا۔ جس چیف نے وفد کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور کتب کے بارے میں کہا کہ انہیں ان کے پڑھنے سے جماعت احمدیہ اور اسلام کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

چینو ویلی نیوز نے اپنی 3 فروری 2007ء صفحہ B-3 پر ’’مذہب کے تحت‘‘ ہماری یہ خبر دی

Ahmadiyya Muslim Community health Fair

جماعت احمدیہ کا صحت کے بارے میں معلوماتی سیمینار

اخبار نے لکھا کہ لوکل علاقہ کے لئے مسجد بیت الحمید جو کہ 11941 رامونا ایونیو پر واقع ہے میں ایک صحت سے متعلق سیمینار ہو رہا ہے جہاں پر مختلف بیماریوں کے بارے میں معلوماتی اور تحقیقاتی امور بیان کئے جائیں گے جیسے کہ شوگر کی بیماری ہے۔ موٹاپے کی بیماری، کولیسٹرول اور صفائی وغیرہ کے بارہ میں۔ اس کے علاوہ بلڈ شوگر، بلڈ پریشر اور عمومی صحت کے بارے میں ڈاکٹرز کی ٹیم چیک اپ بھی کرے گی۔ یہ سیمنیار سب کے لئے بلاامتیاز ہے۔ رابطہ کے لئے فون نمبر بھی دیا گیا ہے۔

یہی خبر علاقہ کے ایک اور اخبار چینو ہلز چیمپئن نے بھی اپنی اشاعت 3-9 فروری 2007ء صفحہ B-3 دی ہے۔

ہفت روزہ پاکستان ٹائمز نے اپنی اشاعت 8 فروری 2007ء صفحہ 13 پر 3 تصاویر کے ساتھ ایک خبر دی ہے۔ خبر کا عنوان ہے۔

’’سچا مذہب وحدت قائم کرتا ہے۔‘‘ کے موضوع پر سانڈیاگو میں بین المذاہب میٹنگ کا انعقاد، مسجد بیت الحمید کے امام سید شمشاد احمد ناصر نےا سلام کا موقف پیش کیا۔

اخبار لکھتا ہے گزشتہ دنوں سانڈیاگو کیلیفورنیا میں ایک بین المذاہب میٹنگ کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں دو سو سے زائد افراد نے شرکت کی۔ اس تقریب میں شرکت کے لئے کئی لوگ سینکڑوں میل کا سفر کر کے آئے تھے۔ اس تقریب میں اتحاد کے لئے دعائیں کی گئیں اور بچے قطار در قطار عالمی مذاہب کے آسمانی صحائف اٹھائے سامعین کے سامنے پیش ہوئے اور یوں ان صحائف کی عزت افزائی کا مظاہرہ کیا۔ مختلف مذاہب کے مقررین نے اپنے اپنے مذہب کی نمائندگی میں تقاریر کیِں۔ اس موقعہ پر اسلام کی نمائندگی مسجد بیت الحمید کے امام سید شمشاد احمد ناصر نے کی۔

مختلف مقررین جو کہ ہندو، سکھ، یہودیت، بدھ مت، نئی سوچ، عیسائیت، بہائی اور اسلام کی نمائندگی میں آئے تھے کو بولنے کے لئے پانچ پانچ منٹ دیئے گئے تھے۔ سب کے بولنے کے لئے ایک ہی موضوع تھا۔ ’’سچا مذہب ہی وحدت قائم کرتا ہے۔‘‘

اخبار نے لکھا کہ کئی مقررین کے لئے وقت اور موضوع دونوں ہی ایک امتحان ثابت ہوئے اور دوگنے تگنے وقت کے استعمال کے باوجود علمی رنگ نہ پیدا ہو سکا جو سامعین کے لئے مفید ہوتا۔ لہٰذا زیادہ زور حوصولہ افزائی پر ہی رہا۔ تمام مقررین کی طرف سے وحدت، باہم مفاہمت اور امن کے لئے دلوں کو پگھلانے والی اپیلیں کی گئیں۔ مگر صرف چند مقررین نے اس موضوع پر الہامی نصائح پیش کیں۔ سب سے بہتر صاف گوئی اور سیدھی بات کرنے کا مظاہرہ عیسائیت کے مقرر جناب گلین لارسن نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ بطور پادری اور عالمی ادیان کے استاد ہونے کے، تمام عیسائیت کی نمائندگی میں بولنا ایک ناممکن بات ہے اور تاریخ کی روشنی میں عیسائیت کی تنگ نظری اور تعصب کی مثالیں بھی خوب واضح ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ عیسائیوں کی جانب سے عیسائیت کی تمام زیادتیوں کی معافی چاہتے ہیں اور اس بات کے شکرگزار ہیں کہ انہیں اس تقریب میں آکر سب عالمی مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا۔

یہودیت کی راہبہ محترمہ نمارہ مالینو نے جن کا تعلق Temple Adat Shalom سے ہے، یہودیت کی کتاب طالمود سے دو کہانیاں بیان کیں۔ انہوں نے تورات سے تو کچھ نہ پیش کیا مگر طالمود کی کہانیوں کا انتخاب اس لئے کیا کہ مفسر کاتخلص تقریب کے موضوع سے ملتا جلتا تھا۔ اسی طرح ہندو، سکھ، بدھ مت اور دوسرے مقررین نے بھی مذہب میں امن اور بھائی چارے کی نصائح کیں اور بتایا کہ ہر مذہب کی شروعات میں یہ بات شامل تھی کہ خدا ایک ہی ہے جو پاک تعلیمات کا منبع ہے اور تمام راستے انسان کو خدا کی طرف ہی لے جاتے ہیں۔ امام سید شمشاد احمد ناصر نے جو اسلام کی نمائندگی میں شرکت کر رہے تھے، نے تاریخی حوالوں سے واضح کیا کہ اس وقت واحدانیت اور امن کی تمام تعلیمات کے تمام چشمے گدلے ہو چکے ہیں لیکن تمام سچے مذاہب وحدت کی تعلیم کی توثیق کرتے ہیں۔

جن 3 تصاویر کا اوپر ذکر کیا گیا۔ ایک تصویر میں سات مقررین دکھائے گئے ہیں جو مختلف مذاہب کی نمائندگی کر رہے تھے۔ ایک تصویر میں خاکسار سید شمشاد احمد ناصر تقریر کر رہا ہے اور سامعین ہیں۔ تیسری تصویر میں عیسائی پادری تقریر کر رہے ہیں اور سامعین دکھائے دے رہے ہیں۔

ہفت روزہ اردو لنک کی اشاعت 2تا8 فروری 2007ء صفحہ 6 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’اسلام میں عورت کی عظمت و احترام اور مغربی معاشرہ‘‘ کی اگلی قسط دو تصاویر کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ ایک تصویر خاکسار کی ہے جبکہ دوسری تصویر میں ایک ماں کو اپنے ننھے بچے کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔

اس مضمون میں خاکسار نے ’’ماں کا احترام‘‘ کے تحت اصحاب احمد سے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ایک اقتباس لکھا ہے جو کہ یہ ہے:
’’مجھ کو یہ بات سن کر بہت رنج ہوا اور دل کو سخت صدمہ پہنچا کہ تم اپنی والدہ کی کچھ خدمت نہیں کرتے اور سختی سے پیش آتے ہو اور دھکے بھی دیتے ہو۔ تمہیں یاد رہے کہ یہ طریق اسلام کا نہیں ہے خدا اور اس کے رسول کے بعد والدہ کا وہ حق ہے جو اس کے برابر کوئی حق نہیں۔ خدا کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ جو والدہ کو بدزبانی سے پیش آتا ہے اور اس کی خدمت نہیں کرتا اور نہ ہی اطاعت کرتا ہے وہ قطعی دوزخی ہے۔ پس تم خدا سے ڈرو موت کا اعتبار نہیں ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بے ایمان ہو کر مرو۔ حدیثوں میں آتا ہے کہ بہشت ماں باپ کے قدموں کے نیچے ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص کی والدہ کو رات کے وقت پیاس لگی تھی اس کا بیٹا اس کے لئے پانی لے کر آیا اور وہ سو گئی۔ بیٹے نے مناسب نہ سمجھا کہ اپنی والدہ کو جگائے۔ تمام رات پانی لے کر اس کے پاس کھڑا رہا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ کسی وقت جاگے اور پانی مانگے اور اس کو تکلیف ہو۔ خدا نے اس خدمت کے لئے اس کو بخش دیا۔ سو سمجھ جاؤ کہ یہ طریق تمہارا اچھا نہیں ہے اور انجام کار ایک عذاب میں گرفتار ہو جاؤ گے اور اپنی عورت کو بھی کہو کہ تمہاری والدہ کی خدمت کرے اور بدزبانی نہ کرے اور اگر باز نہ آوے تو اس کو طلاق دے دو۔ اگر تم میری ان نصیحتوں پر عمل نہ کرو تو میں خوف کرتا ہوں کہ عنقریب تمہاری موت کی خبر نہ سنوں۔ تم نہیں دیکھتے کہ خداتعالیٰ کا قہر زمین پر نازل ہے اور طاعون دنیا کو کھائے جاتی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ انہی بدعملی کی وجہ سے طاعون کا شکار ہو جاؤ اور اگر تم اپنے مال سے اپنی والدہ کی خدمت کرو گے تو خدا تمہیں برکت دے گا۔ یہ وہی والدہ ہے کہ جس نے دعاؤں کے ساتھ تمہیں ایک مصیبت کے ساتھ پالا تھا اور ساری دنیا سے زیادہ تم سے محبت کی۔

پس خدا اس گناہ سے درگذر نہیں کرے گا۔ جلد توبہ کرو جلد توبہ کرو۔ ورنہ عذاب نزدیک ہے اس دن پچھتاؤ گے۔ دنیا بھی جائے گی اور ایمان بھی۔ میں نے باوجود سخت کم فرصتی کے یہ خط لکھا ہے خدا تمہیں اس لعنت سے بچاوے جو نافرمانوں پر پڑتی ہے۔ اگر تمہاری والدہ بدزبان خراب ہے اور کیسا ہی بدخلقی کرتی ہے۔ خواہ کیسا ہی تمہارے نزدیک بری ہے۔ وہ سب باتیں اس کو معاف ہیں۔ کیونکہ اسکے حق ان تمام باتوں سےبڑھ کر ہیں۔‘‘

اسی مضمون میں دوسرا عنوان یہ ہے۔ ماں باپ کی خدمت سے قبولیت دعا۔ اس عنوان کے تحت خاکسار نے آنحضرت ؐ کی یہ حدیث مبارکہ لکھی۔ کہ آپ ؐ نے یہ واقعہ بیان فرمایا:
بنی اسرائیل کے 3 شخص سفر پر جارہے تھے۔ دوران سفر مینہ برسنا شروع ہو گیا وہ تینوں ایک غار کے اندر پناہ لینے کے لئے گئے۔ اتفاقاً پہاڑ کا ایک پتھر غار کے منہ پر آکر گرا جس سے غار کا منہ بند ہو گیا اور یہ تینوں اندر پھنس گئے، چنانچہ ان تینوں نے آپس میں صلاح کی کہ بھائی ایسا کرو تم لوگوں نے جو نیک اعمال خالصۃً للہ کئے ہوں ان کا واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو شاید اس سے اللہ تعالیٰ یہ مشکل آسان کر دے۔ چنانچہ تینوں میں سے ایک نے اس طرح بیان کیا کہ اے اللہ! تو جانتا ہے میرے ماں باپ دونوں بوڑھے اور ضعیف تھے اور میرے بچے بھی چھوٹے چھوٹے تھے، میں ان کی پرورش کے لئے جانوروں کو چرایا کرتا تھا، جب شام کو گھر آتا اور دودھ دوہتا تو پہلے اپنے ماں باپ کو پلاتا پھر اپنے بچوں کو۔

ایک دن ایسا ہوا کہ جانور چرانے بہت دور چلا گیا اور مجھے واپسی میں دیر ہو گئی اور شام تک واپس نہ آیا جب گھر پہنچا تو دیکھا کہ میرے والدین سو چکے تھے، میں نے عادت کے موافق دودھ دوہا اور صبح تک دودھ لئے ان کے سرہانے کھڑا رہا کیونکہ مجھے یہ اچھا معلوم نہ ہوا کہ ان کو نیند سے جگاؤں اور نہ میں نے یہ پسند کیا کہ پہلے اپنے بچوں کو دودھ پلاؤں گو رات بھر میرے بچے میرے پاؤں کے پاس بیٹھے چلاتے رہے اور دودھ مانگتے رہے مگر میں نے نہ دینا تھا نہ دیا۔ اور صبح تک یہی حال رہا۔

خاکسار نے حضرت سید عبدالقادر جیلانیؒ کا واقعہ بھی بیان کیا ہے کہ مائیں اپنے بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت کریں۔ حضرت امام بخاریؒ نے والدین کی نافرمانی کے سلسلہ میں یہ حدیث بھی درج کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی (ان کو ستانا) حرام کیا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب اسوہ حسنہ سے یہ اقتباس بھی مضمون کی زینت ہے۔ آپؓ نے فرمایا:
’’پس بہترین مصور دنیا میں عورتیں ہو سکتی ہیں جن کی گود میں ان کے بچے پلتے ہیں اور جو چھوٹی عمر میں ہی ان کے قلوب پر جو تصویر اتارنا چاہیں اتار سکتی ہیں۔ پس تم محمد رسول اللہ ؐ کی تصویر اپنی اولاد کے دلوں پر کھینچو تاکہ جب وہ بڑے ہوں تو انہیں کسی نئی تصویر کی ضرورت محسوس نہ ہو بلکہ ان کے بڑے ہونے کے ساتھ ہی محمد ؐ کی وہ تصویر بھی بڑی ہو جائے جو ان کی ماؤں نے ان کے دل پر کھینچی تھی۔‘‘

اسی طرح ایک اور اقتباس ’’حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ‘‘ سے بھی لکھا گیا ہے۔ مضمون کے آخر میں مسجد بیت الحمید کا نام، پتہ اور جماعت کی الاسلام کی ویب سائٹ درج ہے۔

نوٹ: یہ بات درست ہے کہ اس وقت بھی معاشرہ میں خواہ وہ مغربی معاشرہ ہو یا اسلامی معاشرہ کسی جگہ بھی عورت کو اس کا صحیح مقام، عزت اور احترام نہیں دیا گیا۔ مغربی معاشرہ تو بعد کی بات ہے لیکن مسلمان کہلانے والے ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ انہیں اسلام کی صحیح تعلیم سے بالکل آگاہی نہیں ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ مغربی معاشرہ میں جب اسلام کی پرامن تعلیم پیش کی جاتی ہے۔ اسلام نے جو حقوق عورت کے مقرر کئے ہیں ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ تو فوراً سوال اٹھتا ہے کہ کس اسلامی ملک میں اس پر عمل ہو رہا ہے۔ اگر آپ مسلمان کہہ کر اس پر عمل نہیں کر سکتے یا عمل نہیں کر رہے تو ہمیں کس طرح آپ اسلام کی تعلیمات کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ ایسا کہنے میں یہ لوگ حق بجانب ہیں۔

ابھی 19 اکتوبر 2020ء کی بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر اسی نوعیت کی ایک تحریر (محجوبہ نوروزی) کی شائع ہوئی جس میں انہوں نے ایک افغان بچی کے حوالہ سے خواتین کے بارے میں خصوصاً جنسی استحصال کے حوالہ سے بہت سے سوالات اٹھائے ہیں اور مسلمانوں کی طرف سے کچھ وضاحتیں بھی ہیں۔ لیکن افغان بچی نے جو بیان کیا ہے وہ آخر میں خلاصۃً اسلامی ممالک کی منہ بولتی تصویر ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’اسلام کی حقیقی روح کے مطابق خواتین انتہائی قابل احترام ہیں۔ انہیں ملکہ جیسا درجہ حاصل ہے لیکن افغان معاشرے میں خواتین تعلیم اور انتخاب کے حق سے محروم ہیں۔ انہیں جسمانی طور پر سزا دی جاتی ہے اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کیا جاتا ہے۔ اسلام بالکل بھی ایسا نہیں ہے یہ سب افغانستان میں رائج ثقافت اور روایات کے باعث ہے۔‘‘

وہ مزید بیان کرتی ہیں کہ ’’وہ چاہتی ہے کہ ان کے خواب اور خواہشات حقیقت کا روپ دھاریں اور وہ اپنی تعلیم مکمل کریں۔ ڈاکٹر بنیں اور اپنے شوہر کا انتخاب خود کریں۔ ا نہوں نے کہا کہ مردوں کی خواہشات کا پابند رہنا قبائلی روایات کی ایک مکروہ ثقافت ہے جو آج کے ہمارے حالات کے مطابق نہیں ہے۔ یہ روایات جنسی طور پر خواتین کو بدنام کرتی ہیں اور مردوں کو یہ حق دیتی ہیں کہ وہ جب چاہیں خواتین کا جنسی استحصال کریں۔‘‘

اب ایک مسلمان بچی کو اس حد تک جانے کی کیوں ضرورت پیش آئی۔ ثقافت، تہذیب اور معاشرہ سے بغاوت کا یہ پہلو اس لئے سامنےآیا ہے کہ مسلمان خود قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ انہیں خود قرآن کے معانی سمجھنے میں دقت ہے وہ خود نہ سمجھتے ہیں اور نہ دوسروں کو سمجھا سکتے ہیں۔ پھر بھی کہتے ہیں کہ ہمیں کسی مصلح کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے پاس قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید کا صرف ہونا ہی تو کافی نہیں۔ اسی وجہ سے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ہے۔ آپ نے حکم و عدل بن کر قران کریم کی صحیح تشریح فرمائی ہے جو قرآن کا عین منشاء ہے اور آنحضرت ؐ کا اسوہ حسنہ ہے۔

انڈیا ویسٹ نے اپنی اشاعت 9 فروری 2007ء صفحہ C-34 پر ایک تصویر کے ساتھ ہماری خبر دی ہے۔ جس کا عنوان ہے۔ ’’احمدیہ مسلم کمیونٹی کا وفد نئے چیف پولیس سے ملتا ہے۔‘‘ اور اس کی تفصیل بھی اخبار نے وہی دی ہے جو اس سے قبل دوسرے اخبارات میں گذر چکی ہے۔

پاکستان ایکسپریس اور پاکستان پوسٹ نے اپنی اشاعت 14 فروری 2007ء اور 16 فروری 2007ء میں اس عنوان سے خبر لگائی کہ سان ڈیاگو کیلیفورنیا میں

’’اسلام سمیت مختلف مذاہب کے درمیان خصوصی میٹنگ‘‘

مسلم کمیونٹی کی نمائندگی مسجد بیت الحمید کے امام سید شمشاد احمد ناصر نے کی، تمام مذاہب کے نمائندگان نے ایک دوسرے کے ادب و احترام پر زور دیا۔ بچے قطار در قطار مختلف مذاہب کے آسمانی صحائف اٹھائے حاضرین کے سامنے پیش ہوئے۔ 200 سے زائد افراد خصوصی تقریب میں شریک ہوئے۔

عیسائیت کی تنگ نظری اور تعصب کی مثالیں واضح ہیں، عیسائیوں کی جانب سے عیسائیت کی زیادتیوں کو معافی چاہتے ہیں۔ (پادری گلین لارسن)

اسلام وحدت کا سب سے اعلیٰ نمونہ پیش کرتا ہے، مسلمانوں کی طرح دیگر مذاہب کے لوگوں کا دفاع بھی ان کا فرض ہے۔

دونوں اخبارات نے 3-3 تصاویر بھی دی ہیں اور تفصیل قدرے وہی ہے جو پہلے گزر چکی ہے۔ لیکن دونوں اخبارات نے خاکسار کے حوالہ سے خاکسار کی تقریر کے درج ذیل نکات زیادہ پیش کئے۔ دونوں اخبارات نے لکھا۔

امام سید شمشاد احمد ناصر جو مسلمانوں کی نمائندگی کر رہے تھے نے تاریخی حوالوں سے واضح کیا کہ دیگر مذاہب کی وحدانیت اور امن کی تعلیمات کے چشمے کس قدر گدلے ہو گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تمام سچے مذاہب وحدت کی تعلیم کی توثیق کرتے ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ کہاں اور کس حد تک؟

اکثر مذاہب خود کو یا تو نسلی کہلاتے ہیں یا علاقائی۔ ان کا مطلب صرف اس بات تک ہے کہ کس طرح وہ اپنے ممبران کے درمیان اتحاد اور وحدانیت کو مضبوط سے مضبوط تر بنائیں اور ان کی ترقی اور حفاظت کا سامان کرتے رہیں۔ عالمی مذاہب کی تاریخ میں اکثر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ مذاہب کے لوگوں کا دوسرے مذہب کے لوگوں سے زیادہ آمنا سامنا نہیں ہوتا تھا سوائے کاروبار یا جنگ کے زمانوں کے لہٰذا وحدت کا سوال اٹھنا بالکل بے وجہ تھا۔ امام شمشاد نے تاریخی حوالے سے بات کرنے کے بعد وحدت کے موضوع کو موجودہ زمانے کے حوالے سے بھی بیان کیا۔ انہوں نے کہا آجکل جبکہ مذاہب عالم کے ممبران دنیا کے ہر کونے میں جا بسے ہیں اس ضرورت کو جاننا، سمجھنا اور مختلف مذاہب کے ممبران کے درمیان وحدت کی فضا کو قائم کرنا نہ صرف خوش آئند ہے بلکہ اب تو یہ زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ انہوں نے سمجھایا کہ یہ تو کوئی ایسی راز کی بات نہیں کہ اکثر مذاہب میں وحدت کی تعلیم کیوں فروغ نہ پائی۔ بات دراصل یہ ہے کہ ان مذاہب کا مطمح نظر صرف ان کے اپنے ہی ماننے والوں کی بھلائی تھی اور کسی سے مطلب نہ تھا لہٰذا ان مذاہب نے اس موضوع پر کچھ زیادہ زور نہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے مقابلہ میں قرآن نے یہ تعلیم دی ہے کہ اگر مسلمانوں کو اپنے دفاع میں جنگ بھی کرنا پڑے تو ایسے مواقع پر دوسرے مذاہب کے لوگوں کا دفاع کرنا بھی ان پر فرض کر دیا۔ امام شمشاد ناصر نے بیان کیا کہ مسلمانوں کے گھروں میں جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو وہ ان کے نام دیگر نبیوں کے نام پر رکھتے ہیں۔ مثلاً موسیٰ، عیسیٰ، داؤد، ابراہیم، یعقوب، اسحاق وغیرہ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سب ان نبیوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں لیکن کوئی دوسرے مذہب والا یہ نہیں دکھا سکتا کہ انہوں نے محمد ؐ کا نام اپنے بچوں کو دیا ہو۔ اس لئے اسلام ہی وہ سچا مذہب ہے جو سب کو اتحاد سکھاتا ہے۔ اپنی تقریر ختم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام تو وحدت کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے اچھی وحدت قائم کرنے کی تعلیم اور کیا ہو سکتی ہے کہ قرآن کریم کی سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 285 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

ترجمہ: یہ ہمارا نبی (محمدؐ) تو ہر اس بات پر ایمان رکھتا ہے جو اس پر نازل کی گئی اور مومن بھی (ایسا ہی کرتے ہیں) یہ سارے کے سارے اللہ پر (بھی) ایمان لاتے اور فرشتوں پر (بھی) اور (آسمانی) کتابوں پر (بھی) اور رسولوں پر (بھی) یہ ان میں سے کسی ایک رسول (سے دوسرے رسول کے) درمیان فرق نہیں کرتے۔ اور (یہ تو بس یہی) کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔ اے ہمارے رب تو ہمیں بخش دے اور (ہم نے) تیری طرف ہی لوٹنا ہے۔

تقریب کے اختتام پر امام شمشاد نے کہا بین المذاہب وحدت صرف ایک دوسرے کو برداشت کرنے سے پیدا نہیں ہوتی، کسی کو برداشت کر لینے کا مقصد اس کی عزت کرنا نہیں ہوتا، بین المذاہب وحدت پیدا کرنے کے لئے ایک دوسرے کی خالص عزت کرنا ضروری ہے۔ آئیے ایک دوسرے کو اس باہمی کمی بیشی سے ہٹ کر دیکھیں جسے دوسرے ہمارے درمیان اختلاف پیدا کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ آئیے ذرا گہرائی میں دیکھیں تاکہ ہمیں خدا کی وحدانیت نظر آئے جو کہ ہر مذہب کی بنیاد ہے اور یہی وحدانیت ایک ’’انسانیت‘‘ کی طرف لے جاتی ہے۔

اردو لنک نے اپنی اشاعت 9 سے 15فروری 2007ء صفحہ 6دین کی باتوں کے تحت خاکسار کے مضمون بعنوان۔ ’’اسلام میں عورت کی عظمت و احترام اور مغربی معاشرہ‘‘ کی اگلی قسط۔ خاکسار کی تصویر اور کچھ خواتین کی تصاویر کےساتھ جو دعائیں مانگ رہی ہیں شائع کی ہے۔ اس قسط میں خاکسار نے درج ذیل عناوین کو کور (سمیٹا) ہے۔

بیٹی اور بہن اس عنوان میں خاکسار نے بتایا کہ اسلام سے قبل عربوں میں بیٹی کی پیدائش کو ایک نحوست خیال کیا جاتا تھا۔ آنحضرتؐ جو رحمت للعالمین تھے آپ نے فرمایا: جس شخص کے ہاں کوئی لڑکی پیدا ہو پھر وہ اس کو زندہ درگور نہ کرے اور نہ ہی اپنے لڑکوں کو اس پر ترجیح دے تو اللہ اس کو جنت میں داخل کرے گا۔

خاکسار نے ایک اور حدیث بھی لکھی کہ بچی کی پیدائش پر فرشتے کہتے ہیں اے گھر والو تم پر سلامتی ہو وہ اسے اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو اس بچی کی پرورش کرے گا قیامت تک خدا کی مدد اسکے شامل حال رہے گی۔ اور آنحضرت ؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ بچیاں جہنم سے ڈھال بن جائیں گی۔

بچیوں کی تربیت کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ دینی چاہئے۔ آنحضرت ؐ نے بیٹی والوں کو تسلی بھی دی کہ یہ لڑکیاں برکت ہیں۔ یہ لڑکیاں نعمت کے وقت شکر کرنے والی ہوتی ہیں۔ آنحضرت ؐ اپنی بیٹی کے احترام میں اٹھ کر استقبال فرماتے تھے اور پیشانی پر بوسہ دیتے تھے۔ خاکسار نے ایک یہ نصیحت لکھی کہ جب اسلام نے بیٹی اور عورت کو اس قدر عزت دی ہے اور عظمت سے اس کا سربلند کر دیا ہے تو اسے بھی چاہئے کہ وہ اس مقام کی حفاظت کرے اور اپنی ذمہ داریاں نبھائے۔

وہ رحمت عالم آتا ہے ترا حامی ہو جاتا ہے
تو بھی انساں کہلاتی ہے، سب حق تیرے دلواتا ہے
بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار
پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سرادر

آخر میں مسجد کا ایڈریس اور فون نمبر درج ہے۔

ان لینڈ ڈیلی بلٹن نے 16 فروری 2007ء صفحہ 11 کی اشاعت میں ہماری نصف سے زائد صفحہ پر خبر دی ہے۔ جس میں 3 تصاویر بھی ہیں۔ اس کا عنوان ہے کہ
مسلم نوجوانوں نے صحت کے بارے میں معلوماتی میٹنگ کا اہتمام کیا۔

اخبار لکھتا ہے کہ صحت عامہ مثلاً صفائی، ذیابیطس، کولیسٹرول اور موٹاپے کے بارے میں مسلم نوجوانوں کے زیر اہتمام ایک معلوماتی پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ امام شمشاد نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ہم لوگوں کو ان امور کے بارے میں واقفیت بہم پہنچانا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی صحت کی حفاظت کے لئے کیا کچھ بہتر رنگ میں کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا یہ بہتر ہے کہ ہم اپنی صحت کا خیال رکھیں تا کہ بیماریوں سے محفوظ رہا جاسکے۔ اس موقع پر ڈاکٹروں کی ٹیم نے لیکچر بھی دیئے اور لوگوں کے سوالات کے جوابات کے ساتھ ان کا بلڈ پریشر اور آنکھوں کے ٹیسٹ بھی کئے۔ امام شمشاد نے کہا کہ جنرل پبلک اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے کیونکہ بعض اوقات کسی کے پاس ہیلتھ انشورنس بھی نہیں ہوتی۔ خبر کے آخر میں مسجد بیت الحمید کا نام، پتہ اور فون نمبر معلومات کے لئے درج کیا گیا ہے۔

اس خبر کے ساتھ 3 تصاویر بھی ہیں۔ ایک تصویر میں مکرم فلاح الدین صاحب اپنے خون کا عطیہ بھی دے رہے ہیں۔ ایک تصویر میں مکرم جمیل متین صاحب ہیلتھ کا پوسٹر اٹھائے ہوئے نظر آرہے ہیں اور تیسری تصویر میں مکرم محمد عبدالغفار صاحب کا معائنہ ہو رہا ہے۔

ہفت روزہ اردو لنک نے اپنی اشاعت 16 تا 22 فروری 2007ء صفحہ 2 اور صفحہ 8 پر 3 تصاویر کے ساتھ، بین المذاہب میٹنگ کی خبر تفصیل کے ساتھ دی ہے۔ یہ خبر دیگر اخبارات نے بھی دی ہے جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ 3 تصاویر کے نیچے اخبار نے یہ سرخی لکھی کہ سان ڈیاگو کیلیفورنیا میں ایک بین المذاہب میٹنگ کا انعقاد 21 جنوری کو کیا گیا جس میں دو سو (200)سے زائد افراد نے شرکت کی۔ اس موقع پر لی گئی چند تصاویر۔ ایک تصویر میں امام شمشاد ناصر تقریر کر رہے ہیں اور ایک میں دیگر مقررین تمام مذاہب سے اور ایک تصویر میں سامعین ہیں۔

الاخبار نے اپنی اشاعت 23 فروری 2007ء صفحہ 15 پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ 9 فروری 2007ء کا خلاصہ شائع کیا ہے۔ اخبار نے حضور انور کے خطبہ جمعہ کی تلاوت کی ہوئی آیت کریمہ (النحل: 19) کو لکھا ہے۔

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحیم جس کا سورہ فاتحہ میں بیان ہے یہ اللہ تعالیٰ کی تیسری صفت ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے۔ ’’تیسری خوبی خداتعالیٰ کی جو تیسرے درجہ کا احسان ہے رحیمیت ہے، جس کو سورۃ فاتحہ میں الرحیم کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے اور قرآن شریف کی اصطلاح کی رو سے خداتعالیٰ رحیم اس حالت میں کہلاتا ہے جبکہ لوگوں کی دعا اور تضرع اور اعمال صالحہ کو قبول فرما کر آفات و بلاؤں اور تضیع اعمال سے ان کو محفوظ رکھتا ہے۔‘‘

صفت رحیم نام کے اعتبار سے عام ہے اور اپنے اظہار کے لحاظ سے خاص ہے اور رحیم کی صفت مومنوں کے حوالہ سے ہی آتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا وَ کَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا۔

(الاحزاب: 44)

حضور نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔ اس صفت سے یعنی ’’رحیم‘‘ اگر فیض اٹھانا ہے تو ہر انسان جو عقل اور شعور رکھتا ہے اپنی عاجزی و انکساری کو بڑھائے اور دعا اور تضرع کی طرف توجہ کرے۔ تکبر اور غرور اپنے اندر سے نکالو گے تبھی صفت رحیمیت سے فیض پاؤ گے۔ پھر حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ’’الرحیم‘‘ یعنی وہ خدا نیک عملوں کی نیک تر جزا دیتا ہے اور کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا اور اس کام کے لحاظ سے رحیم کہلاتا ہے اور یہ صفت رحیمیت کے نام سے موسوم ہے۔

اخبار نے لکھا کہ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ میں صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ اور وَمَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیۡقِیۡنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیۡنَ بیان کرنے کے بعد فرمایا جو لوگ بھی اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین۔

حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات حاصل کرنے کے لئے ہمیں استغفار اور اپنے اعمال کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رحیمیت سے فائدہ اٹھائیں اور خداتعالیٰ کے صالحین بندوں میں شامل ہوں جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ یہ نہیں کہ عمل کوئی نہ ہو اور توقع اللہ تعالیٰ سے پردہ پوشی کی۔ اور پھر بدیوں پر اصرار نہیں ہونا چاہئے۔ توبہ کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔

فرمایا: اس زمانے میں ایک احمدی کو اس رحیم خدا کی رحیمیت سے حصہ لینے کے لئے اس طرح بھی سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمانیت کے صدقے احمدی گھرانوں میں پیدا کیا ہے یا نئے شامل ہونے والے جو لوگ ہیں ان کو، ان کی دعائیں قبول کرتے ہوئے اپنی رحیمیت کے صدقے احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ حضرت مسیح موعودؑ کو ماننے کی توفیق دی۔ تو ان فضلوں اور نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ ہم شکرگزاری کریں۔ اللہ اور اس کے رسول کی کامل اور مکمل اطاعت کریں۔ اعمال صالحہ بجا لائیں۔ اس کی بخشش کے ہر وقت طلبگار رہیں۔ تمام دینی اور دنیوی نعمتوں کو اپنے سامنے رکھیں اور دیکھیں کہ کون سا فضل ہے جو اس نے ہم پر نہیں کیا۔ ہر طرح کے انعامات سے ہمیں نوازا ہے۔

اور پھر ہمیں یہ بھی راستہ دکھا دیا کہ میری بخشش مانگتے رہو۔ کیونکہ اس کے لئے استغفار بھی بہت ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
رحیمیت میں ایک پردہ پوشی بھی ہے مگر اس پر دہ پوشی سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی عمل ہو اور اس عمل کے متعلق کوئی کمی یا نقص رہ جائے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمیت سے اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے، رحمانیت اور رحیمیت میں یہ فرق ہے کہ رحمانیت میں فعل اور عمل کو کوئی دخل نہیں ہوتا مگر رحیمیت میں فعل اور عمل کو دخل ہے لیکن کمزوری بھی ساتھ ہی ہے۔ خدا کا رحم چاہتا ہے کہ وہ پردہ پوشی کرے۔

آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کا یہ حوالہ بھی بیان فرمایا کہ
’’ایک بچہ جب بھوک سے بے تاب ہو کر دودھ کے لئے چلاتا اور چیختا ہے تو ماں کے پستان میں دودھ جوش مار کر آجاتا ہے۔ بچہ دعا کا نام بھی نہیں جانتا لیکن اس کی چیخیں دودھ کو کیونکر کھینچ کر لاتی ہیں۔ اس کا ہر ایک تجربہ ہے۔ تو کیا ہماری چیخیں جب اللہ تعالیٰ کے حضور ہوں تو کچھ بھی نہیں کھینچ کر لا سکتیں؟‘‘

پس مانگنا انسان کا خاصہ ہے اور استجابت اللہ تعالیٰ کا۔ جو نہیں سمجھتا اور نہیں مانتا وہ جھوٹا ہے۔ بچہ کی مثال جو میں نے بیان کی ہے وہ دعا کی فلاسفی خوب حال کر کے دکھاتی ہے، رحمانیت اور رحیمیت دو نہیں ہیں۔ پس جو ایک کو چھوڑ کر دوسری کو چاہتا ہے اسے مل نہیں سکتا۔ رحمانیت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ہم میں رحیمیت کےفیض اٹھانے کی سکت پیدا کرے جو ایسا نہیں کرتا وہ کافر نعمت ہے۔

حضور نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی صفت رحیمیت کا صحیح مفہوم اور ادراک عطا فرمائے اور اس کے فضل سے ہم اسے اپنی زندگیوں میں لاگو کرتے ہوئے اس پر مکمل عمل کرنے والے بنیں۔ خطبہ کے آخر میں مسجد بیت الحمید کی تصویر اور ویب سائٹ درج ہے۔

اردو لنک نے اپنی اشاعت 16 تا 22 فروری 2007ء صفحہ 6 پر خاکسار کے مضمون بعنوان ’’اسلام میں عورت کی عظمت و احترام اور مغربی معاشرہ‘‘ کی قسط نمبر 8 مع تصویر کے شائع کی۔

خاکسار نے اس قسط میں یہ بتایا کہ ’’اسلام میں شادی‘‘ کی کیا اہمیت ہے کیونکہ میاں بیوی معاشرہ کا ایک اہم ستون اور بنیادی حصہ ہیں۔ اس ضمن میں سورۃ النساء کی پہلی آیت مع ترجمہ بھی لکھی گئی اور بتایا کہ یہ آیت ان آیات میں سے ہے جن کی تلاوت بوقت اعلان نکاح کیا جاتا ہے اور اس آیت میں تقویٰ کے بارے میں تعلیم دی گئی ہے اور ان آیات میں تقویٰ کا ذکر پانچ مرتبہ آیا ہے جو اعلان نکاح کے وقت پڑھی جاتی ہیں۔ پھر تقویٰ کی تشریح اور اہمیت کو بیان کیا گیا ہے اور یہ شعر بھی لکھا گیا ہے کہ

ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے
اگریہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے

حضرت نبی کریم ؐ کی یہ حدیث بھی درج کی گئی ہے کہ ’’عورتوں کی بھلائی اور خیرخواہی کا خیال/لحاظ رکھو‘‘۔ خاکسا رنے اس مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ نصیحت بھی درج کی ہے:
’’تم ماتحتوں اور اپنی بیویوں پر اور اپنے غریب بھائیوں پر رحم کرو تا آسمان پر تم پر بھی رحم ہو۔ تم سچ مچ اسی کے ہو جاؤ تا وہ بھی تمہارا ہو جائے۔‘‘ اس کے بعد خاکسار نے چند آیات قرآنی مع ترجمہ لکھیں جن میں اللہ تعالیٰ نے بیویوں سے حسن سلوک، مروت اور احسان کے طور پر ان سے سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔ مثلاً سورۃ النساء آیت 20 اور اس آیت کریمہ سے 5 اہم نقاط کی تشریح بھی بیان کی گئی ہے۔ مضمون کے آخر میں مسجد بیت الحمید کا ایڈریس اور فون نمبر درج ہے۔

(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللہ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 جنوری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ