• 24 اپریل, 2024

اسلام کی پیش کردہ توحید کامل

تبرکات حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کے نزدیک ہی مسجد بنا لی تھی۔ فَکَانَ یُصَلِّیْ فِیْہِ وَ یَقْرَأُالْقُرْآنَ فَیَقِفُ عَلَیْہِ نِسَاءُ الْمُشْرِکِیْنَ وَ اَبْنَاؤُھُمْ یَعْجَبُوْنَ مِنْہُ وَ یَنْظرُوْنَ اِلَیْہِ وَ کَانَ اَبُوْبَکْرٍ رَجُلًا بَکَّاءً لَا یَمْلِکُ عَیْنَیْہِ اِذَا قَرَأَالْقُرْآنَ فَاَفْزَعَ ذَالِکَ اَشْرَافَ قُرَیْشٍ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔

(بخاری)

ترجمہ:۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی میں نماز ادا کرتے تھے اور آپ نہایت رقیق القلب تھے۔ قرآن مجید کی تلاوت کے وقت ان کی آنکھیں پُرنم ہو جاتی تھیں۔ آپ کی اس حالت کو دیکھ کر مشرکین کی عورتیں اور بچے ٹھہر جاتے اور ان کی طرف تعجب انگیز نظر کے ساتھ دیکھتے۔ یہ ماجرا دیکھ کر قریش کے عمائد گھبرا گئے۔

تشریح:۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ قرآن مجید کی تلاوت نہایت رقت و الحاح اور اثر انگیز پیرایہ میں کیا کرتے تھے۔ ایک تو آپ کی طرزِ تلاوت اور دوسرے قرآن مجید میں جابجا خدا کی واحدانیت کا اعلان ہے اور یہ تعلیم کفار کے لئے نئی تھی۔ اس لئے مشرکین کی عورتیں اور ان کے بچے حیرت و استعجاب کے رنگ میں کھڑے ہو کر سنتے اور گھر جا کر بچے اپنے والدین سے کہتے کہ قرآن کا خداتو ایسا خدا ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ ہم اتنے بُتوں کو کیوں پوجتے ہیں۔ اسی طرح عورتیں اپنے خاوندوں سے اس امر کی گفتگو کرتیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تلاوت کا اتنا اثر ہوا کہ مشرکین میں ہلچل مچ گئی۔

خداتعالیٰ کے ایک ہونے کا ثبوت تو آسانی سے مشاہدہ میں آ سکتا ہے۔ مثلاً مختلف بیماریوں کو دور کرنے کے لئے مختلف ادویہ اسی لئے استعمال کرتے ہیں کہ تمام بیماریوں کے ازالہ کے لئے اب تک اکسیر دوا دریافت نہیں ہو سکی۔ مگر بفرضِ محال اگر کوئی ایسی دواایجاد ہو جائے جو تمام بیماریوں میں نافع ہو تو وہ کون بے وقوف ہو گا جو اسے چھوڑ کر اسی پُرانی روش پر چل کر مختلف دوائیں استعمال کرتا پھرے۔

پھر ایک سے زیادہ خدا عقلاً بھی ممکن نہیں ہو سکتے۔ خدا کے معنے ہیں فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیۡدُ (ھود:108) یعنی اس کا جو جی چاہے کرے۔ اسے کسی کے حکم کی ضرورت نہیں۔ وہ کسی امر میں دوسرے کا محتاج نہیں۔ جب ایک خدا اس قسم کا غیر محدود اختیارات رکھنے والا ہو اور مشرکین کے اعتقاد کے بموجب کوئی دوسرا خدا بھی ہو۔ تو بتاؤ یہ زمین و آسمان برقرار رہ سکتے ہیں؟ قرآن مجید فرماتا ہے۔ لَوْ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا (الانبیاء:23) اگر زمین و آسمان میں اس ایک خدائے برحق کے سوا کوئی اور خدا بھی ہوتا تو زمین و آسمان برباد ہو جاتے۔ اور دوسری جگہ فرمایا۔ وَّ مَا کَانَ مَعَہٗ مِنۡ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَہَبَ کُلُّ اِلٰہٍۭ بِمَا خَلَقَ وَ لَعَلَا بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ (المومنون:92)۔ اس خدائے برحق کے ساتھ کوئی اور خدا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوق کو لے جاتا اور ایک دوسرے پر چڑھ آتے۔

مجوسی اجرام سماویہ کی پرستش کرتے ہیں۔ ان کی تردید میں فرمایا۔ لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ (حٰمٓ السّجدہ:38) یعنی اے لوگو! تم ان روشن چراغوں کی پرستش نہ کرو بلکہ اسی خدا کی پرستش کرو جس نے ان کو پیدا کیا۔اور کہو کہ اے خدا! تو نے ان کو تو روشن کیا ہے لیکن ہمارے دل ابھی تک سیاہ ہیں اور اندھیرے میں بھٹک رہے ہیں۔ تو ان کو بھی روشن کر۔ انسان نے اپنے مرتبہ کو نہیں جانا اور ان کی پرستش میں لگ گیا جو کہ خود مخلوق ہیں۔ گویا عروج سے زوال کی طرف آ گرا۔

غرضکہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے وہ عورتیں اور بچے قرآن مجید کی ان تعلیمات کو رقت انگیز پیرایہ میں سنتے تو ان کے دلوں میں ایک انقلابی سپرٹ بھر جاتی اور وہ جا کر گھر والوں سے بحث کرتے۔

یہ امر بالبداہت روشن ترین حقائق سے ثابت ہے کہ اسلام نے جس خدا کو پیش کیا ہے۔ دوسرے مذاہب ایسے خدا کو پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ اہلِ عرب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہونے کی وجہ سے اباً عن جدٍ ایک حقیقی قوت کے نام سے صرف واقف تھے۔ لیکن انہوں نے اس کی قدرت کے کارخانہ کو بدل دیا تھا اور درمیان میں بتوں کو رکھ دیا۔ ہندوؤں کا خدا 33کروڑ دیوتاؤں کے بھیس میں ہے۔ عیسائی اقانیم کے جال اور اس کے گورکھ دھندے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مجوسی اہرمن اور یزدان ان دونوں کو نور و ظلمت کے خدا مانتے ہیں۔ لیکن محمد رسول اللہ (ﷺ) نے اس خدا کا جلوہ نمایاں کیا جو آسمان سے لے کر زمین کے نیچے تک تنہا مالک ہے۔ اس کے کاروبار میں کوئی شریک نہیں۔ اس کے کارخانہ قدرت میں کوئی دوسرا دخیل نہیں۔ کائنات کا کوئی ذرہ اس کے حکم سے باہر نہیں۔ دنیا کی کوئی چیز اس کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں۔ شجر، حجر، جنگل، دریا، پہاڑ، صحرا، سورج، چاند، زمین و آسمان، انسان، حیوان، زبان والے اور بے زبان سب اس کے آگے سربسجود ہیں اور اسی کی تسبیح و تحمید میں مصروف ہیں۔ سب کمزور ہیں۔ وہی ایک قوت والا ہے۔ سب جاہل ہیں اُسی ایک کو علم ہے۔ سب فانی ہیں اسی ایک کو بقا ہے۔ سب محتاج ہیں وہ ایک صمد ہے۔ سب اسی کے بندے ہیں وہی ایک شاہنشاہ ہے۔

غرض عرش سے فرش تک جو کچھ ہے وہ اس کا ہے۔ وہ مبرۃ عن العیوب والخطایا ہے۔ ہر بُرائی اور ہر الزام سے بَری ہے۔ وہ ہر قسم کے صفات عالیہ اور اوصافِ کمالیہ اور محامد جمیلہ اور جامع جمیع صفاتِ … سے متصف ہے۔ اس کے مانند کوئی نہیں۔ اس کی تشبیہہ کی مثال کوئی نہیں۔ وہ تشبیہہ اور تمثیل سے بالا تر اور انسانی رشتہ ناطے سے پاک ہے۔

غرضیکہ اسلام کے خدا کو ہم ببانگ دہل باقی ہر مذہب کے خدا کے سامنے لا کر انشاء اللہ فتحیاب ہوتے ہیں اور آخرکار ہمارے مدمقابل توحید کامل کو ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ بَارِکْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْد۔

(ادارہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 فروری 2021