تعارف صحابہ ؓ
حضرت شیخ جان محمد صاحب رضی اللہ عنہ۔ راہوں ضلع جالندھر
حضرت شیخ جان محمد صاحب رضی اللہ عنہ راہوں ضلع جالندھر کے رہنے والے تھے اور محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔ آپ کے والد حضرت شیخ برکت علی صاحب رضی اللہ عنہ (وفات: 30؍مئی 1933ء) اور والدہ حضرت عظیم بی بی صاحبہؓ (وفات: 23؍اگست 1932ء) دونوں اصحاب احمدؑ میں سے تھے اور دونوں بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہیں۔ آپ حضرت حکیم دین محمد صاحبؓ اور حضرت ملک نیاز محمد صاحبؓ (والد محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے) کے بڑے بھائی تھے۔ آپ بیان کرتے ہیں:
’’میں نے 1903ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پہلے بذریعہ خط بیعت کی۔ پھر 1904ء میں بمقام گورداسپور دوران مقدمہ مولوی کرم دین بھینی والے میں حاضر ہو کر اصالتاً دستی بیعت سے مشرف ہوا۔ میں منٹگمری سے اور والد صاحب مرحوم اور چوہدری غلام احمد خان صاحب مرحوم آف کاٹھ گڑھ ضلع ہوشیار پور سے بمقام گورداسپور حاضر ہوئے تھے ….. کچہری میں باہر میدان میں د ری بچھی ہوئی ہوتی تھی۔ حضورؑ مع احباب اس دری پر بیٹھا کرتے تھے۔ بعض اوقات لیٹ جاتے تھے اور ہم خدّام دباتے رہتے تھے۔ حضورؑ کی پنڈلیاں اور رانیں بہت سخت اور گول تھیں۔ میں حیران ہوتا تھا کہ اتنے بوڑھے انسان کا ایسا مضبوط جسم ہے۔ لیٹے لیٹے حضورؑ کے ہونٹ قدرے متحرک رہتے تھے اور گنگنانے کی آواز آتی رہتی تھی۔ خواہ آنکھیں بند ہی ہوں اور معلوم ہوتا تھا کہ کچھ پڑھ رہے ہیں۔ مجھے حضورؑ کے پاؤں دبانے اور جسم کو چھونے سے ایک لذت محسوس ہوتی تھی جو مجھے اپنے جسم میں سرایت کرتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ میرا طریق تھا کہ جب کوئی عزیز بیعت کرتا میں فوراً اپنا ہاتھ بیعت کرنے والے کے ہاتھ میں رکھ دیتا، اس کا اثر بھی میرے جسم میں دیر تک رہتا۔ ایسا ہی میں مصافحہ کرتے وقت بھی محسوس کرتا اس لئے میں بار بار مصافحہ کرتا تھا اور بیعت کرتا تھا۔ اس روز مولوی فیروزالدین صاحب ڈسکوی بھی وہاں شہادت کے لئے آئے ہوئے تھے۔ الفاظ لئیم و کذّاب کے متعلق غالباً اُن کی شہادت تھی جن کے معانی بڑی بڑی لغات کی کتابوں سے انہوں نے بتلائے تھے۔ گورداسپور جانے سے پہلے اَحقر قادیان بھی گیا تھا۔ حضرت صاحب کے ہمراہ سیر کو جانے کا موقعہ بھی ملتا تھا ….
1905ء میں حضورؑ جب لدھیانہ دہلی سے واپسی پر تشریف لائے تو ان دنوں مَیں قلعہ پھلور میں تعلیم قانون کے لئے گیا ہوا تھا۔ وہاں اطلاع ملنے پر مع بھائی شہاب الدین صاحب قریشی ساکن ماہل پور ضلع ہوشیارپور لدھیانہ پہنچا۔ حضورؑ جہاں نہال اینڈ سنز کی دکان ہے اس کے بالمقابل غالباً خواجہ علی صاحب مرحوم کے مکان پر فروکش تھےجو کہ برلب سڑک واقع تھا۔ حضورؑ برآمدے میں ایک کرسی پر تشریف رکھتے تھے۔ میں بھائی شہاب الدین صاحب کو جنہوں نے دستی بیعت نہ کی تھی، اپنے ساتھ لے کر حاضر خدمت ہوا۔ بعد مصافحہ کے عرض کیا کہ حضور! بھائی شہاب الدین صاحب بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ حضورؑ نے فرمایا کہ شام کو کریں۔ اس پر احقر نے عرض کیا کہ حضور ہم قلعہ پھلور میں تعلیم کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ جمعرات کو صبح سے شام تک ہمیں رخصت ہوتی ہے۔ شام سے پہلے ہمارا پہنچنا ضروری ہے۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا کہ اچھا ابھی کر لیں۔ چنانچہ اُسی وقت ان کی بیعت لی گئی اور دعا کی گئی۔ مولوی محمد احسن صاحب سے بھی ہم نے ملاقات کی جو اُس وقت قرآن شریف کھولے بیٹھے تھے۔ ہمیں فرمانے لگے کہ دیکھو! قرآن شریف کی ہر آیت سے وفات مسیح ثابت ہوتی ہے۔ اس روز ایک اشتہار جو سعداللہ لدھیانوی کی طرف سے شائع ہو کر تقسیم ہو رہا تھا۔ اس کا علم ہونے پر اخویم شیخ یعقوب علی صاحب نے فوراً جوابی اشتہار لکھ کر اسے تقسیم کروایا۔حضورؑ جب لدھیانہ سے قادیان تشریف لے جا رہے تھے تو ہم پھلور سٹیشن پر پھر حاضر ہوئے اور مصافحہ کے بعد عرض معروض کر رہے تھے کہ ایک معزز سکھ سردار جو پھلور کے قرب و جوار کے رئیس اور جاگیردار تھے، جو بتلاتے تھے کہ 10 میل سے صرف درشن کرنے کے لئے آیا ہوں، ایک بڑا تھال مٹھائی کا لے کر حاضر ہوئے۔ حضورؑ نے تھال خود لے کر اندر بال بچوں کو جو کہ ساتھ تھے،پکڑا دیا اور خود پلیٹ فارم پر ٹہلتے رہے۔ چونکہ گاڑی وہاں بہت دیر تک کھڑی رہتی تھی اس لئے حضورؑ پلیٹ فارم پر ٹہلتے رہے اور اُس سکھ رئیس سے اس موضوع پر گفتگو فرماتے کہ سکھ صاحبان ہم سے بہت قریب ہیں اور بہت اچھے ہوتے ہیں کیونکہ شرک نہیں کرتے۔ پھلور سٹیشن پر اُن دنوں یورپین ریلوے سٹاف کافی ہوتا تھاچنانچہ انگریز مرد اور عورتیں اس وقت جبکہ حضورؑ ٹہل رہے تھے دیوارکے ساتھ اپنی ٹوپیاں اتار کر اپنے ہاتھوں سے پکڑے ہوئے متحیر کھڑے تھے۔‘‘
(الفضل 18؍اکتوبر 1942ء صفحہ 3)
حضرت حکیم دین محمد صاحب رضی اللہ عنہ (وفات: 25؍مئی 1983ء) بیان کرتے ہیں:
’’برادرم شیخ جان محمد صاحب تھانہ ہڑپہ ضلع منٹگمری میں محرر تھانہ تھے مگر ابھی تک کنسٹیبل ہی تھے۔ لکھے پڑھے کنسٹیبلوں کو اس زمانہ میں محرری کے ذمہ دار عہدہ پر لگا دیتے تھے …. برادرم مذکور میرے زیر تبلیغ تھے۔کتب حضرت اقدسؑ پڑھ کر وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ بر حق ہے اور بیعت کرنے کے ارادہ سے حضور علیہ السلام کی خدمت میں بمقام گورداسپور عین اس وقت حاضر ہوئے جبکہ کرم دین والے مقدمہ کی پیشی کے سلسلہ میں حضور علیہ السلام احاطہ کچہری میں قیام فرما تھے۔ برادرم موصوف اپنے ساتھ حضور علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے کچھ تازہ سیب لائے تھے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے حضرت کے حضور انہیں یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ منشی جان محمد صاحب ملازم پولیس منٹگمری ہیں اور حضور کی بیعت کرنے کے ارادہ سے آئے ہیں۔ برادرم شیخ جان محمد صاحب وجیہ نوجوان اور خوش پوش تھے۔ معزز لباس پہنے ہوئے تھے۔ انہیں دیکھ کر حضور علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ کیا آپ تھانیدار ہیں؟ برادرم نے عرض کیا کہ نہیں حضور! میں تو محرر تھانہ ہڑپہ ہوں۔ پھر حضور علیہ السلام نے دریافت کیا کہ کیا آپ سارجنٹ ہیں؟ برادرم نے عرض کیا کہ نہیں حضور! میں تو ابھی کانسٹیبل ہوں اور محرری پر لگایا گیا ہوں۔ اس پر حضور علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا نہیں! اچھا ان شاء اللہ۔ اس وقت سے برادرم نے ترقی کے درجات طے کرنے شروع کیے اور سخت مخالف حالات کے ہوتے ہوئے بھی تھانیداری پر ترقی پاگئے۔‘‘
(الفضل 10؍جولائی 1943ء صفحہ 3)
آپ نے محکمہ پولیس میں جہاں ترقی پائی وہاں نیکی اور تقویٰ کو کبھی نہیں چھوڑا۔ نہایت دیانتداری اور خدا خوفی سے اپنے فرائض سر انجام دیے اور جہاں رہے اپنی لیاقت اور دیانتداری کی وجہ سے اپنوں اور غیروں میں مقبول رہے۔ ایک مرتبہ آپ کی تبدیلی ننکانہ صاحب سے ہوئی تو وہاں سیکرٹری تبلیغ مکرم محمد ابراہیم صاحب نے اخبار الفضل میں خبر دیتے ہوئے لکھا:
’’جناب شیخ جان محمد صاحب سب انسپکٹر پولیس 21؍ستمبر کو تبدیل ہوکر شرق پور تشریف لے گئے ہیں۔ آپ ایک لائق اور دیانتدار افسر تھے۔ آپ کے اخلاق اور تقویٰ کے نہ صرف مسلمان ہی گواہ ہیں بلکہ ہندو اور دیگر اقوام کے بہترین لوگ بھی شاہد ناطق ہیں۔ آپ جماعت احمدیہ کے پریزیڈنٹ تھے اور بڑھ چڑھ کر چندے دیتے اور دوسرے احمدی دوستوں سے چندہ خود وصول کرتے اور تبلیغی کاموں میں کافی مدد دیتے تھے۔‘‘
(الفضل 5؍اکتوبر 1926ء صفحہ2)
ریٹائرمنٹ کے بعد آپ چک 95/60 Rضلع ساہیوال میں مقیم ہوگئے اور وہیں اکتوبر 1942ء میں وفات پائی۔ حضرت چوہدری غلام حسین صاحب پی ای ایس پنشنر (چچا محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب) نے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا:
’’یہ خبر افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ اخویم شیخ جان محمد صاحب ریٹائرڈ سب انسپکٹر پولیس بعارضہ کاربنکل17۔18ماہ اخا کی درمیانی شب کو اپنے چک 95/60 R منٹگمری میں وفات پاگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ شیخ صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابی تھے۔ یتیم پروری اور مسکین نوازی ان کی طبیعت کا خاص جوہر تھا۔ ان کے پسماندگان میں ان کی ایک بیوہ (جو حکیم فضل الرحمٰن صاحب مبلغ افریقہ کی ہمشیرہ ہیں) دو بیٹوں اور چار بیٹیوں کے علاوہ ایک کثیر تعداد بھتیجوں بھانجوں اور بستی کے مساکین کی بھی ہے جنہیں وہ اپنے بیٹوں سے کم نہیں سمجھتے تھے….‘‘
(الفضل 25؍اکتوبر 1942ء صفحہ 2)
آپ کی شادی حضرت حافظ نبی بخش صاحب رضی اللہ عنہ آف فیض اللہ چک ضلع گورداسپور کی بیٹی حضرت زینب بی بی صاحبہؓ (صحابیہ) کے ساتھ ہوئی تھی۔ انہوں نے 22؍اگست 1944ء کو وفات پائی اور بوجہ موصیہ (وصیت نمبر 4784) ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔
آپ کی اولاد کےنام درجہ ذیل ہیں :
محترمہ صفیہ بیگم صاحبہ زوجہ مکرم چوہدری نور الدین جہانگیر صاحب آف ساہیوال
محترمہ رضیہ بیگم صاحبہ زوجہ مکرم ملک صدیق احمد خان صاحب
مکرم نور محمد خان صاحب سٹیشن ماسٹر
محترمہ امۃ الکریم صاحبہ
مکرم میجر ریٹائرڈ منظور احمد صاحب
محترمہ ثریا بیگم صاحبہ زوجہ مکرم منور احمد صاحب
نوٹ: آپ کی تصویر محترم ملک صفی اللہ صاحب آف ٹورانٹو (نواسہ حضرت حکیم دین محمد صاحب رضی اللہ عنہ) نے مہیا کی ہے۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔
(از غلام مصباح بلوچ)