• 30 اپریل, 2024

عفو و درگزر اصلاح کا موجب ہوتا ہے

• ہم دنیامیں دیکھتے ہیں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ان سے ایک دو مرتبہ عفو اور درگذر کیا جائے اور نیک سلوک کیا جائے تو اطاعت میں ترقی کرتے اور اپنے فرائض کو پوری طرح سے ادا کرنے لگ جاتے ہیں۔ اور بعض شرارت میں اور بھی زیادہ ترقی کرتے اور احکام کی پرواہ نہ کرکے ان کو توڑ دینے کی طرف دوڑتے ہیں۔ اب اگر ایک خدمت گار کو جو نہایت شریف الطبع آدمی ہے اور اتفاقاً اس سے ایک غلطی ہو گئی ہے اسے اٹھ کر مارنے اور پیٹنے لگ جائیں تو کیا وہ کام دے سکے گا، نہیں! بلکہ اسے تو عفو اور درگذر کرنا ہی اس کے واسطے مفید اور اس کی اصلاح کا موجب ہے۔ مگر ایک شریر کو جس کا بار ہا تجربہ ہو گیا ہے کہ وہ عفو سے نہیں سمجھا بلکہ اور بھی شرارت میں قدم آگے رکھتا ہے اس کو ضرور سزا دینی پڑے گی اور اس کے واسطے مناسب یہی ہے کہ سزا دی جاوے۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 256)

• اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو سے تقویٰ سرایت کر جاوے، تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو، اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو اور بے جا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو میں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصے کا نقص اب تک موجود ہے۔ تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بغض پیدا ہو جاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا۔ اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے۔ ہر ایک جماعت کی اصلاح اول اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے۔ چاہیے کہ ابتدا میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بد گوئی کرے اس کے لئے درد دل سے دعا کرے۔ کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے اور دل میں کینےکو ہرگز نہ بڑھاوے جیسے دنیا کے قانون ہیں ویسے ہی خدا کا بھی قانون ہے، جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑتی تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے۔ پس جب تک تبدیلی نہیں ہو گی تب تک تمہاری قدر اس کے نزدیک کچھ نہیں، خداتعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو۔ اگر تم ان صفات حسنہ میں ترقی کرو گے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے۔ لیکن افسوس ہے کہ جماعت کا ایک حصہ ابھی تک ان اخلاق میں کمزور ہے ان باتوں سے صرف شماتت اعدا ہی نہیں ہے بلکہ ایسے لوگ خود بھی قرب کے مقام سے گرائے جاتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ سب انسان ایک مزاج کے نہیں ہوتے اسی لئے قرآن شریف میں آیا ہے کُلٌّ یَّعۡمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ (بنی اسرائیل: 85)۔ بعض آدمی کسی قسم کے اخلاق میں اگر عمدہ ہیں تو دوسری قسم میں کمزور، اگر ایک خلق کا رنگ اچھا ہے تو دوسرے کا برا، لیکن تا ہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اصلاح ناممکن ہے۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ 100)

پچھلا پڑھیں

کونوا مع الصادقین

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 فروری 2023