• 4 مئی, 2024

زندگی اور صحت کا ستون خدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے (حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مومن کی زندگی اور صحت کو کمال درجہ حقیقت کے ساتھ دنیاوی عمارت سے تشبیہ دے کر زندگی اور صحت کو جہاں خدا تعالیٰ کا فضل قرار دیا ہے وہاں اس خدائے عز و جلّ کا فضل چاہنے کی طرف در پردہ توجہ بھی دلائی ہے۔

ہم پرانے وقتوں میں دیکھتے آئے ہیں کہ عمارتوں کی تعمیر میں ستون کا بہت بڑا کام ہوتا تھا۔ جن پر عمارت کی چھت کا بوجھ ہوتا تھا۔ مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن ڈنمارک کے پانچ ستون اسلام کے پانچ بنیادی ارکان کی وجہ سے رکھے گئے تھے۔ فنِ تعمیر میں جب بہتری آنے لگی اور ستونوں کو ذرا اوپرا اوپرا جاننے لگے تو ستونوں کو کمروں یا ہال کے اندر لانے کی بجائے طریق کار بدل گیا۔ دیواروں کے درمیان کنکریٹ کے PILLARSبنانے کا رواج آ گیا۔ ہمارے خلفائے کرام کو فنِ تعمیرات سے خاص مہارت اور شغف رہا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے دور میں ربوہ میں مسجد اقصیٰ کے لئے نقشہ جات کی تیاری پر کام ہو رہا تھا تو حضورؒ نے آرکیٹکٹس کو یہ ہدایت فرمائی کہ ہال میں کوئی ستون نہ ہو، تا سامعین، امام کو براہ راست انہیں مادی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ تب ہم نے سنا تھا کہ دیواروں میں بڑے بڑے ستونوں کے علاوہ چھت کے اوپر والے حصہ پر ستون نما کنکریٹ کے بلاک بنائے گئے ہیں۔ ہم بچپن میں تعمیر ہوتے وقت چھت پر جا کر دیکھا بھی کرتے تھے۔ مگر خاکسار جب نائب ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ مقرر ہوا تو ربوہ کی دو مرکزی مساجد مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک کی دیکھ بھال خاکسار کے سپرد ہوئیں تو مسجد اقصیٰ کی RENOVATIONکا جائزہ لینے کے لئے ایک وفد مسجد اقصیٰ گیا جس میں خاکسار بھی شامل تھا۔ اس دوران جب ہم مسجد اقصیٰ کی چھت پر چڑھے تو کنکریٹ کے بڑے بڑے ڈبوں کی صورت ستون دیکھے اور یہ معلوم کر کے حیرت ہوئی کہ یہ تمام بلاکس چھت کا بوجھ اوپر اٹھائے ہوئے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کا یہی حُسن ہے کہ اتنے بڑے ہال میں کوئی ستون نہیں اور تمام نمازی اور سامعین امام کو براہ راست دیکھ سکتے ہیں۔

الغرض تمام مادی عمارتوں کی چھتیں ستونوں پر کھڑی ہیں۔ خواہ وہ ستون ہال کے اندر نظر آئیں یا دیواروں کے اندر جڑے ہوں یا چھتوں کے اوپر ہوں۔ اس طرح انسان بھی ایک عمارت کی طرح ہے اور اس کی زندگی اور صحت کا ستون خدا تعالیٰ کا فضل ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’ہر چیز کا ستون ہوتا ہے۔ زندگی اور صحت کا ستون خدا تعالیٰ کا فضل ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 83 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ کے اس دو جملوں پر مشتمل فقرے میں درج ذیل دو بڑی نصائح موجود ہیں:

  1. زندگی اور صحت کو ایک نعمت عظمیٰ سمجھو اور اس کی قدر کرو۔
  2. زندگی اور صحت برقرار رکھنے اور قویٰ کو تندرست و توانا رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ہر دم متمنی رہو۔

جہاں تک اول الذکر کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت طالوت کی بادشاہی کو علم اور جسم یعنی ان کی صحت کے ساتھ باندھ دیا ہے (البقرہ: 248) حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ صحت اور فارغ البالی دو ایسی نعمتیں ہیں جن کی بہت سے لوگ نا قدری کرتے ہیں۔

ایک دفعہ آنحضورﷺ نے ایک شخص کو پانچ ایسی باتوں کی نصیحت فرمائی جن کے ختم ہونے سے پہلے پہلے ان سے فائدہ اٹھانے کا ذکر ہے۔ ان پانچ باتوں میں سے دوسری صحت تھی۔ کہ صحت خراب ہونے سے قبل فائدہ اٹھا لو۔ ہم روزانہ ہی اپنی زندگیوں میں دیکھتے ہیں کہ جو کام خواہ دنیاوی ہو یا دینی جوانی میں باحسن طریق ہو جاتے ہیں وہ بڑھاپے میں یا معذوری میں ہر گز اس طرح نہیں ہوتے جس طرح جوانی میں۔ جیسے نماز شرائط کے ساتھ جو جوانی میں ادا ہوتی ہے وہ کم ہی لوگوں کو بڑھاپے میں میسّر ہوتی ہے۔ کسی کو کمر کی درد، کسی کے گھٹنے خراب، کسی کو سر درد کی تکلیف، کسی کو کوئی اور بیماری۔ ان حالات میں کبھی سجدہ کے حقوق ادا نہیں ہوتے، کبھی التحیات کے لئے شرائط کے ساتھ بیٹھا نہیں جاتا اور کبھی کھڑے ہونے کی معذوری۔ کرسی کا سہارا ڈھونڈتے اکثر دیکھا گیا ہے۔ کرسی نہ ملے تو بعض اوقات نماز ادا نہیں ہوتی۔ آج کل تو مساجد میں کرسیاں میسّر ہوتی ہیں پرانے وقتوں میں ہم نے بزرگوں کو فولڈنگ اسٹول ساتھ لاتے دیکھا ہے۔ یہی کیفیت دنیاوی امور میں ہے۔ کھانے پینے کو ہی لے لیں جو پھل اور دیگر نعمتوں سے نو جوان فائدہ اٹھاتا ہے وہ بڑھاپے میں کہاں میسّر۔ ڈاکٹرز اور حکما کی پابندیاں ہی انسان کو مار دیتی ہیں۔ میرے برادر نسبتی مکرم ڈاکٹر محمد جلال شمس انچارج ٹرکش ڈیسک لندن نے ایک دن اس مضمون کو یوں ادا کیا کہ جب صحتیں تھیں، جوانی تھی تو ان نعمتوں سے فائدہ اُٹھانے اور خریدنے کی سکت نہ تھی۔ اب جب اللہ تعالیٰ نے خریدنے کی طاقت دی ہے تو اب صحت اور معذوری آڑے آ رہی ہے۔

چونکہ الفضل آن لائن daily ہے۔ اس کے لئے ٹیم کے ہر ممبر کو بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ ایسے قارئین جن کو اس محنت کا احساس رہتا ہے وہ اکثر پیغامات کے ذریعہ یا فون کر کے صحت کا خیال رکھنے کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ ایک کرم فرما مکرم عامر احمد طارق نے فون کر کے کہا کہ اپنے آپ کو entertain کرنے کے لئے وقت نکالا کریں۔ جبکہ انسان جب اپنے کام کے ساتھ مخلص ہو تو یہی اس کی entertainment ہوجایا کرتی ہے۔ تاہم آرام بھی ضروری ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بعض کارکنان و افسران کو جبراً رخصت پر بھجوایا کرتے تھے۔

جہاں تک ثانی الذکرامر اللہ تعالیٰ کا فضل چاہنے کا تعلق ہے۔ یہی انسان کی زندگی کا اصل اور گر ہے اگر اس کی زندگی میں فضل الٰہی شامل حال ہے تو اس کی زندگی کامیاب زندگی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دو بیٹوں کے درمیان اس بات پر جھگڑنے پر کہ علم اچھا ہے یا دولت فرمایا کہ نہ علم اچھا ہے نہ دولت ہاں اللہ تعالیٰ کا فضل اچھا ہے۔

ایک موقعہ پر فرمایا:
اللہ تعالیٰ کا کسی سے رشتہ ناطہ نہیں۔ اس کے ہاں اس کی بھی کچھ پروا نہیں کہ کوئی سیّد ہے یا کون ہے۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم نے خود فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ یہ خیال مت کرنا کہ میرا باپ پیغمبر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر کوئی بھی بچ نہیں سکتا۔ کسی نے پوچھا کہ کیا آپ بھی؟ فرمایا ہاں۔ میں بھی۔

مختصر یہ کہ نجات نہ قوم پر منحصر ہے نہ مال پر بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے اور اس کو اعمال صالحہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل اتباع اور دعائیں جذب کرتی ہیں۔

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 111 ایڈیشن 1984ء)

پھر اس مضمون کو مزید اُجاگر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
جسمانی ترقیات کے واسطے بھی اللہ تعالیٰ ہی کے فضل و کرم اور انعام کے گیت گانے چاہئیں کہ اس نے قویٰ رکھے اور پھر ان میں ترقی کرنے کی طاقت بھی فطرتًا رکھ دی۔

(ملفوظات جلد 10 صفحہ 385 ایڈیشن 1984ء)

ایک شخص کو شرف بیعت حاصل کرنے کے بعد آپؑ نے نصیحت فرمائی کہ:
مسنون طور سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو تلاش کرو۔

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 230 ایڈیشن 2016ء)

پس ہر روز ہی اللہ کے فضل کی جستجو اور تلاش کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لینا ہی کامیابی کا گر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

کونوا مع الصادقین

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 فروری 2023