• 5 مئی, 2024

تنظیم لجنہ اماء اللہ کی ضرورت

لجنہ اماء اللہ کو قائم ہوئے سو سال ہوگئے اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے قادیان میں حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓ کے زیر سایہ شروع ہونے والی 14 ممبرات کی تنظیم تشکیل پائی جو آج ایک تناور درخت بن چکی ہے جس کی شاخیں تمام دنیا میں پھیل چکی ہیں۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نیک عورتوں کی صفات پیدا کرنے کی دعا اور کوشش کرنے کے بارہ میں فرماتا ہے:

مُسۡلِمٰتٍ مُّؤۡمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ

(التحریم:6)

مسلمان، ایمان والیاں، فرمانبردار، توبہ کرنے والیاں، عبادت کرنے والیاں، روزے رکھنے والیاں۔

آنحضرتﷺ میں عورت کی تعلیم تربیت پر خصوصی توجہ دی اور توجہ دینے کی ہدایت فرمائی۔ حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ آپﷺ نے خواتین کی تعلیم وتربیت کے لیے ایک دن مقرر کیا ہوا تھا۔ حدیث مبارکہ ہے کہ: ’’ایک مرتبہ عورتوں نے آپﷺ سے عرض کیا مرد ہم سے فوقیت لے گئے ہیں ہمارے لیے کوئی خاص دن مقرر فرمائیں آپﷺ نے ان کے لیے ایک دن مقرر کر لیا اور انہیں شروع کے احکام بتاتے اور ان کے سوالوں کے جواب دیتے۔‘‘

(صحیح بخاری کتاب العلم باب 12)

بالعموم عورتوں کو مرد کے مقابل ناقص العقل تصور کیا جاتا تھا۔ آپﷺ کی تعلیم سے یہ تاثر دور ہوا۔

امہات المومنینؓ میں اس تعلیم و تربیت کا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔ اس کی پہلی مثال حضرت عائشہؓ ہیں جو آپﷺ سے براہِ راست علم حاصل کرکے آگے اُمت کی معلمہ بنیں۔ آپﷺ کو ان کی صلاحیتوں پر بڑا بھروسا تھا۔ حضرت عائشہؓ کے علم کی دوسری عورتوں کے علم پر فضیلت کے بارے میں فرمایا:
’’اگر امت کی عورتوں کا علم جمع کیا جائے تو عائشہؓ کا علم ان تمام عورتوں سے بڑھ جائے۔‘‘

حضرت عروہ بن زبیرؓ بیان کرتے ہیں:
’’میں نے حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر علم قرآن رکھنے والا۔ حلال حرام کا عالم۔ علمِ فقہ۔ شعرو ادب۔ طب کا ماہر۔ تاریخِ عرب اور علم الانساب کا عالم کوئی نہیں دیکھا۔

جب ہمارے آقا محمد مصطفیٰﷺ کو اپنی امت کی عورت کی تعلیم و تر بیت کی اس قدر فکر تھی تو کیسے ممکن تھا کہ آپﷺ کو ماننے والے آپﷺ کی ہی تعلیم کو آگے پھیلانے والے اس ہم فرض سے غافل رہیں۔ لجنہ اماء اللہ کا قیام اس بات کا واضح صاف ثبوت ہے کہ آپ اپنی امت کی آنے والی نسلوں کو سنوارنے کے لئے حقیقی اسلامی تعلیمات پر عمل پیراں کرنا چاہتے تھے ان میں اتفاق وحدت، اخلاقی، روحانی تبدیلی، ان کے دلوں میں خدا اور اس کے رسولؐ کی محبت پیدا کرنا چاہتے تھے جس کے لئے بہت ضروری تھا کہ عورتوں کو زیورے تعلیم سے آراستہ کیا جائے ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کیاجائے تاکہ وہ اپنی قوم وطن اور جماعت کا ایک قیمتی اثاثہ بن کر ابھریں اپنی نسلوں کوخدا اور اس کے رسولﷺ کا حقیقی عاشق بنا سکیں۔

قادیان میں تعلیم کے لیے اولیت حضرت اقدس مسیح موعو دعلیہ السلام کے بتائے ہوئے طریقِ تعلیم کو دی گئی۔

آپ ؑنےفرمایا تھا:
’’علم سے مراد منطق یا فلسفہ نہیں بلکہ حقیقی علم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے عطا کرتا ہے یہ علم اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہوتا ہے (اور اس سے… ناقل) خشیتِ الٰہی پیدا ہوتی ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّمَا یخْشَی اللّٰه مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (الفاطر: 29) اگر علم سےاللہ تعالیٰ کی خشیت میں ترقی نہیں ہوتی تو یاد رکھو وہ علم ترقی کا ذریعہ نہیں۔‘‘

(الحکم جلد 7نمبر 21؍ مورخہ 10؍ جون 1903ء)

حضرت مسیح موعودؑکی وفات کے بعدخدا تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق خلافت کا عظیم لشان نظام شروع ہوا۔ اسلام احمدیت کی روشنی کا سفر پوری دنیا میں پھیلنا شروع ہوا۔

جماعت احمدیہ عالمگیر کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفة المسیح الثانیؓ کے دور کا یہ واقعہ آنحضرتﷺ کی تعلیمات پر عمل پیراں ہونے کی ایک عمدہ مثال ہے کہ ازواج مبارکہ کس قدر آنحضرتﷺ کے عشق میں ڈوبی ہوئیں تھیں۔

حضرت ام طاہرؓ کی والدہ بیگم حضرت ڈاکٹر سید عبداللہ ستار شاہ صاحب نے حضرت اقدسؓ کی خدمت میں عرض کیا:
حضور مرد تو آپ کی تقریر بھی سنتے ہیں اور درس بھی مگر ہم مستورات اس فیض سے محروم ہیں ہم پر کچھ رحمت ہونی چاہیے کیونکہ اس غرض کے لیے آتے ہیں کہ فیض حاصل کریں حضور بہت خوش ہوئےاور فرمایا:
’’جو سچے طلبگار ہیں ان کی خدمت کے لیےہم ہمیشہ ہی تیار ہیں۔ ہمارا یہی کام ہےکہ ہم ان کی خدمت کریں۔‘‘

اس سے پہلے حضور نے کبھی عورتوں میں تقریر یا درس نہیں دیا تھا مگر ان کی التجا اور شوق کو پورا کرنے کے لیے عورتوں کو جمع کرکے روزانہ تقریر شروع فرما دی۔

(سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ 882)

25؍ دسمبر 1922ء کامبارک تاریخی دن

حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت کے مطابق 25؍ دسمبر1922ء کو خواتین حضرت اماں جانؓ کے گھر جمع ہوئیں حضرت مصلح موعودؓ نےخطاب فرمایااور ساتھ میں لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کا قیام عمل میں آیا اور خواتین مبارکہ کی مقدس قیادت میں یہ قافلہ اپنی منزل کی طرف بڑی تیزی سے سفر پر روانہ ہوا اورایک منظم تنظیم کی شکل اختیار کرگیا۔ حضور کی ہدایت کی روشنی میں احمدی خواتین نے اپنے اندر روحانی تبدیلی پیدا کرنے اوردینی تعلیم وتربیت میں پرورش پانے کے لئے مساعی شروع کی اور مختلف دینی مہمات میں صفِ اول کی مجاہدات ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔اس کا اظہار اپنوں نے ہی نہیں بلکہ غیروں نے بھی کیا۔احمدی عورتوں کی تنظیم اصلاح معاشرے میں اہم کردار ادا کررہی ہے ابتدا میں اس میں شمولیت اختیاری تھی اور 1939ء میں اس کا فیض عام کرنے کے لیے ہر احمدی عورت کا اس میں شامل ہونا لازمی قرار دے دیا۔

حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 15؍ دسمبر 1922ءکو اپنے قلم سےایک مضمون تحریر فرمایا:
’’ ہماری پیدائش کی جو غرض و غایت ہے اس کو پورا کرنے کے لئے عورتوں کی کوششوں کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح مردوں کی ہے جہاں تک میرا خیال ہے عورتوں میں اب تک اس کا احساس پیدا نہیں ہوا کہ اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے؟ ہماری زندگی کس طرح صرف ہونی چاہیےجس سے ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرکے مرنے کے بعد بلکہ اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہو سکیں۔

اگر غور کیا جائے تو اکثر عورتیں اس امر کو محسوس نہیں کریں گی کہ روز مرہ کے کاموں کے سوا کوئی اور بھی کام کرنے کے قابل ہے یا نہیں۔

دشمنان اسلام میں عورتوں کی کوششوں سے جو روح بچوں میں پیدا کی جاتی ہے اور جو بدگمانی اسلام کی نسبت پھیلائی جاتی ہے اس کا اگر کوئی توڑ ہو سکتا ہے تو وہ عورتوں ہی کے ذریعہ سے ہو سکتا ہے اور بچوں میں اگر قربانی کا مادہ پیدا کیا جا سکتا ہے تو وہ بھی ماں ہی کے ذریعہ سے کیا جا سکتا ہے۔ پس علاوہ اپنی روحانی و علمی ترقی کے آئندہ جماعت کی ترقی کا انحصار بھی زیادہ تر عورتوں ہی کی کوشش پر ہے۔ چونکہ بڑے ہو کر جو اثر بچے قبول کر سکتے ہیں وہ ایسا گہرا نہیں ہوتا جو بچپن میں قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کی اصلاح بھی عورتوں کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے۔

ان امور کو مد نظر رکھ کر ایسی بہنوں کو جو اس خیال کی مؤید ہوں اور مندرجہ ذیل باتوں کی ضرورت کو تسلیم کرتی ہوں دعوت دیتا ہوں کہ ان مقاصد کو پورا کرنے کے لئے مل کر کام شروع کریں۔ اگر آپ بھی مندرجہ ذیل باتوں سے متفق ہوں تو مہربانی کر کے مجھے اطلاع دیں تاکہ اس کام کو جلد شروع کر دیا جائے۔

1۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ عورتیں باہم مل کر اپنے علم کو بڑھانے اور دوسروں تک اپنے حاصل کردہ علم کو پہنچانے کی کوشش کریں۔

2۔اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کے لئے ایک انجمن قائم کی جائے تاکہ اس کام کو باقاعدگی سے جاری رکھا جا سکے۔

3۔اس بات کی ضرورت ہے کہ اس انجمن کو چلانے کے لئے کچھ قواعد ہوں جن کی پابندی ہر رکن پر واجب ہو۔

4۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ قواعد و ضوابط سلسلہ احمدیہ کے پیش کردہ اسلام کے مطابق ہوں اور اس کی ترقی اور اس کے استحکام میں ممد ہوں۔

5۔اس امر کی ضرورت ہے کہ جلسوں میں اسلام کے مختلف مسائل خصوصاً ان پر جو اس وقت کے حالات کے متعلق ہوں مضامین پڑھے جائیں اور وہ خود اراکین انجمن کے لکھے ہوں تاکہ اس طرح علم کے استعمال کرنے کا ملکہ پیدا ہو۔

6۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ علم بڑھانے کے لئے ایسے مضامین پر جنہیں انجمن ضروری سمجھے اسلام کے واقف لوگوں سے لیکچر کروائے جائیں۔

7۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کے لئے جو بھی خلیفہٴ وقت ہو اس کی تیار کردہ اسکیم کے مطابق اور اس کی ترقی کو مدّ نظر رکھ کر تمام کارروائیاں ہوں۔

8۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ تم اتحادِ جماعت کو بڑھانے کے لئے ایسی ہی کوشاں رہو جیسے کہ ہر مسلمان کا فرض قرآن کریم، آنحضرتﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے مقرر فرمایا ہے۔ اور اس کے لئے ہر ایک قربانی کو تیار رہو۔

9۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ اپنے اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کی طرف ہمیشہ متوجہ رہو اور صرف کھانے پینے پہننے تک اپنی توجہ کو محدود نہ رکھو۔ اس کے لئے ایک دوسری کی پوری مدد کرنی چاہئے۔ اور ایسے ذرائع پر غور اور عمل کرنا چاہئے۔

10۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ بچوں کی تربیت میں اپنی ذمہ داری کو خاص طور پر سمجھو اور ان کو دین سے غافل اور بد دل اور سست بنانے کی بجائے چست، ہوشیار، تکلیف برداشت کرنے والے بناؤ۔ اور دین کے مسائل جس قدر معلوم ہوں ان سے ان کو واقف کرو اور خدا، رسولؐ، مسیح موعودؑ اور خلفا کی محبت، اطاعت کا مادہ ان کے اندر پیدا کرو۔ اسلام کی خاطر اور اس کے منشاء کے مطابق اپنی زندگیاں خرچ کرنے کا جوش ان میں پیدا کرو۔اس لئے اس کام کو بجا لانے کے لئے تجاویز سوچو اور ان پر عمل درآمد کرو۔

11۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ جب مل کر کام کیا جائے تو ایک دوسرے کی غلطیوں سے چشم پوشی کی جائے اور صبر اور ہمت سے اصلاح کی کوشش کی جائے۔ نہ کہ ناراضگی اور خفگی سے تفرقہ بڑھایا جائے۔

12۔چونکہ ہر ایک کام جب شروع کیا جائے تو لوگ اس پر ہنستے ہیں اور ٹھٹھا کرتے ہیں اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ لوگوں کی ہنسی اور ٹھٹھے کی پرواہ نہ کی جائے اور بہنوں کو الگ الگ مہنوں یا طعنوں یا مجالس کے ٹھٹھوں کو بہادری و ہمت سے برداشت کا سبق اور اس کی طاقت کا مادہ پیدا کرنے کا مادہ پہلے ہی سے حاصل کیا جائے تاکہ اس نمونہ کو دیکھ کر دوسری بہنوں کو بھی اس کام کی طرف توجہ پیدا ہو۔

13۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ اس خیال کو مضبوط کرنے کے لئے اور ہمیشہ کے جاری رکھنے کے لئے اپنی ہم خیال بنائی جائیں۔ اور یہ کام اس صورت میں چل سکتا ہے کہ ہر ایک بہن جو اس مجلس میں شامل ہو اپنا فرض سمجھے کہ دوسری بہنوں کو بھی اپنا ہم خیال بنائے گی۔

14۔اس امر کی ضرورت ہے کہ اس کام کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے صرف وہی بہنیں انجمن کی کارکن بنائی جائیں جو ان خیالات سے پوری متفق ہوں اور کسی وقت خدانخواستہ کوئی متفق نہ رہے تو وہ بطیب خاطر انجمن سے علیحدہ ہو جائے یا بصورت دیگر علیحدہ کی جائے۔

15۔ چونکہ جماعت کسی خاص گروہ کا نام نہیں، چھوٹے بڑے، غریب امیر سب کا نام جماعت ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس انجمن میں غریب امیر کی کوئی تفریق نہ ہو۔ بلکہ غریب اور امیر دونوں میںمحبت اور مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک دوسرے کی حقارت اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کا مادہ دلوں سے دور کیا جائے کہ باوجود مدارج کے فرق کے اصل میں سب مرد بھائی بھائی اور سب عورتیں بہنیں بہنیں ہیں۔

16۔اس امر کی ضرورت ہے کہ عملی طور پر خدمت اسلام کے لئے اور اپنی غریب بہنوں اور بھائیوں کی مدد کے لئے بعض طریق تجویز کئے جائیں اور ان کے مطابق عمل کیا جائے۔

17۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ چونکہ سب مدد اور سب برکت اور سب کامیابیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں اس لئے دعا کی جائے اور کروائی جائے۔

جماعتِ احمدیہ کی خواتین کی یہ تنظیم اپنے خلیفہ کی قیادت میں دھیرے دھیرے ایک مضبوط عمارت بنتی چلی گئی۔ قادیان سے تنظیم کی شاخیں پھوٹ پھوٹ کر ہندوستان کے دوسرے شہروں میں پھلنے پھولنے لگیں۔ حضورؓ کے ساتھ خواتین مبارکہ خصوصی طور پر حضرت امّاں جانؓ (حضرت اُمّ المومنین)، ان کی دو شعائراللہ صاحبزادیاں، دوسری خواتین مبارکہ اور بہت سی ابتدائی احمدی لجنہ کی ممبرات نے اپنے خلیفہ کا ساتھ دیتے ہوئے ہندوستان کے بیشتر شہروں میں لجنہ اما اِللہ کی تنظیمیں جاری کیں، یعنی ہر شہر میں لجنہ کا ایک دفتر امیر جماعت کی نگرانی میں کھول کر خواتین کی ایک ممبر صدر اور اسکے ساتھ مدد گار خواتین کی عاملہ بنا کر حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایات کے مطابق خواتین کی، تعلیمی، تربیتی اور فکری ترقی کے میدان کھلنا شروع ہو گئے۔ یہاں تک کہ محض تین برس بعد 1925ء میں سیالکوٹ میں حضرت مصلح موعودؓ کی اجازت اور رہنمائی سے چندہ اکٹھا کر کے مدرسۃالبنات کی بنیاد ڈالی گئی۔ سیالکوٹ کی اچھی تعلیم یافتہ ممبرات نے اپنی خدمات مفت پیش کیں۔

(الفضل 31؍مارچ 1925ء)

تقسیم بر صغیر کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے ایک پورا باغ ایک جگہ سے دوسری جگہ لگادیا۔ ربوہ کو حضرت چھوٹی آپا کی صدارت میں لجنہ مرکزیہ کی حیثیت حاصل رہی۔

مردوں کے ساتھ ساتھ ہماری عورتوں نے بھی داعی الی اللہ میں اپنا کردار بہت احسن رنگ میں نبھایا ہے پمفلٹ لٹریچر تقسیم کرنا اپنے ملنے والوں اور ہمسایہ میں جماعت کا تعارف کرانا بک سٹال نمائش لگانا وغیرہ۔

لجنہ کے اس شوق تبلیغ کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بہت اُبھارا۔ آپ کا ایک خواب تھا جس میں آپ کولجنہ کا تیر کہا گیا تھا۔ لجنہ ربوہ کے سالانہ اجتماع 1982ء میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں لجنہ کے ان تیروں میں سے ہوں جو خاص اہم وقت کے لیے بچا کے رکھے جاتے ہیں اور اپنے وقت پر انہوں نے استعمال ہونا ہے لیکن بعض اوقات ایسی ہنگامی ضروریات پیش آجاتی ہیں کہ ان کے بعد کے بچائے ہوئے تیروں کو وقت سے پہلے بھی استعمال کرنا پڑتا ہے آج ایک ایسا ہی وقت ہے…بنیادی طور پر میں سمجھتا ہوں، سب سے اہم مطلب جو اس کا ہے وہ یہی ہے کہ لجنہ کو یعنی احمدی مستورات کو جہاد میں حصہ لینا پڑے گا …ہر احمدی خاتون کو خواہ وہ بڑی ہو یا چھوٹی تبلیغ میں جھونک دیں۔‘‘

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:
’’ایک کھلا چیلنج ہے تمام دنیا کی خواتین کے لیے احمدی خواتین سی کوئی اور خواتین تو لا کر دکھاوٴ کتنی عظمت کی زندگی ہے کتنی اعلیٰ مقاصد کے لیے وقف ہیں ان کی لذتوں کے معیار بدل چکے ہیں ان کے دلوں میں باقی رہنے والی لذات ہیں جو اس زندگی میں بھی اس کا ساتھ دیتی ہیں اور اس دنیا میں بھی احمد ی خواتین اپنے خلفائے کرام کے زیر سایہ صبر و رضائے الٰہی، توکل، زہد اور تقویٰ کی روایت چلتی جارہی ہیں بلکہ اولاد کی تربیت کرکے نئی نسلوں کے ذریعہ جماعت کو ایک اور عظیم قوت فراہم کرتی جا رہی ہیں۔

(الفضل 30؍ جولائی 1999ء)

آج اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم اور پیارے آقا سیدنا حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرالعزیز کی تربیت، رہنمائی اور دعاؤں سے لجنہ اماء اللہ عالمگیر کی کامیابیوں کا سفر جاری ہے۔

پیارے آقا سیدنا حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ تعالیٰ بنصرالعزیز فرماتے ہیں:
’’لجنہ کی تنظیم کے قیام سے آپ کو، احمدی عورت کواللہ تعالیٰ نے وہ مواقع میسر فرما دیے جہاں آپ اپنے علم اور تجربے سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ اور اپنی صلاحیتوں اور اہلیتوں کو مزید چمکا سکتی ہیں پس اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔

(الفضل انٹرنیشنل 19؍ جون 2016ء صفحہ 20)

پیارے آقا سیدنا حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بر موقع اجتماع لجنہ اماء الله بھارت پیغام دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
میرا پیغام یہ ہے کہ آپ احمدی مستورات ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ کے خاص فضل سے زمانے کے امام کو مانا ہے اور آپؐ کے بعد خلافت احمدیہ سے وابستی ہوکراس کی برکات سے متمتع ہورہی ہیں آپ خلیفہٴ وقت کی رہنمائی میں اسلامی تعلقات سے سب دنیا کو روشناس کروانا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے آپ اور آپ کی اولاد ان تعلیمات پر عمل پیدا ہوتا ہے کہ آپ اپنے قول و فعل سے اسلامی تعلیمات کا پرچار کر سکیں۔

(الفضل آن لائن 28؍ جنوری 2020ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے ہم پیارے آقا سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز کے ہر حکم پر دل وجان سےعمل کریں اور اپنی زندگیوں کا مقصد خدا تعالیٰ اور آنحضرتﷺ کی اطاعت اور محبت ہو۔ آمین

(فہمیدہ بٹ۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 فروری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی