• 5 مئی, 2024

عورتوں کے حقوق و فرائض از رُوئے قرآن و حدیث (قسط اول)

عورتوں کے حقوق و فرائض از رُوئے قرآن و حدیث
قسط اول

یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَیَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَلَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَلۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ

(النور:32)

ترجمہ: وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے کہ جو اس میں سے ازخود ظاہر ہو۔اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں۔

تاکہ اخلاقیات کے تمام پہلو محفوظ رہیں اور کامیابی حاصل کریں۔

نکاح کا مقصد

1. الله تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اُس نے تمہاری جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کیں تاکہ تم اُن سے سکون اور راحت حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی پیدا کردی۔

(الروم:22)

2. وہ خدا ہی ہے جس نے تمہیں ایک جیسی طبیعت سے پیدا کیا ہے اور اسی طبیعت سے اس کا جوڑا تاکہ اس سے سکون حاصل ہو۔

(الاعراف:190)

ان آیات کریمہ میں نکاح و شادی کا مقصد سکون، راحت اور رحمت قرار دیا۔ پھر نکاح کو پاکدامنی اور ستر کا ذریعہ قرار دیا۔ جیسا کہ فرمایا: ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَاَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ (البقرہ:188) ترجمہ: وہ تمہارا لباس ہیں اور تم اُن کا لباس ہو۔

گویا جس طرح لباس انسانی جسم کو ڈھانپتاہے اور اس کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ اور ہر طرح اس کی حفاظت بھی کرتا ہے اسی طرح عورت مرد کی اور مرد عورت کا محافظ اور پردہ پوش ہے گو یا شادی اور نکاح کےمقاصد مندرجہ ذیل ہیں:

  1. ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے عیب چھپائیں کمزوریاں ڈھانپیں۔
  2. ایک دوسرے کے لئے خوبصورتی اور سجاوٹ یعنی زینت بنیں۔
  3. جس طرح لباس گرمی سردی کے اثر سے انسانی جسم کی حفاظت کرتا ہے۔ میاں بیوی دُکھ سکھ کی گھڑیوں میں ساتھ رہیں اور پریشانی کے وقت ایک دوسرے کی دلجمعی اور سکون کا باعث بنیں۔

قرآن کریم میں سورۃ النسا میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو نمایاں خوبیاں عطا کی ہیں۔

فرمایا:

فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَیۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ

(النساء:35)

پس نیک عورتیں فرمانبردار اور غیب میں بھی اُن چیزوں کی حفاظت کرنیوالی جن کی تاکید اللہ نے کی ہے۔

سب سے پہلی بات جو عورت کے لیے فرض قرار دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ صالحہ ہو۔ اپنے رویہ کو خاوند کے ساتھ درست رکھے یعنی صالحہ وہی ہے جو اپنے خاندان کے استحکام کے لیے، بچوں کی تربیت اور گھریلو زندگی کے جملہ امور کا مناسب رنگ میں خیال رکھے۔ اس کا رویہ سب کے ساتھ درست رہے۔ وقت، حالت، ضرورت اور خاوند کے مزاج کو مدنظر رکھ کر گھر کے امور کو انجام دے۔ اگر بیوی خدا کا حکم سمجھ کر اپنے رویہ کو درست رکھے گی تو اس کا ہر کام خدا کی نظر میں عبادت ہوگا۔ اور آخرت میں وہ بڑا مقام حاصل کر ے گی یعنی بہت نیک بدلہ حاصل کرے گی۔

دوسرا فرض عورت کا یہ ہے کہ وہ قانتہ ہو۔ یعنی خاوند کی فرمانبردار ہو اللہ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے تمام احکام کے تحت خاوند کی حیثیت اور اس کے مقام کو سمجھنے والی ہو کیونکہ اگر بیوی خاوند کے ساتھ فرمانبرداری سے پیش آئے گی تو خاوند بھی اُس کا احترام کرے گا۔

حضرت اُمِّ سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی عورت ایسی حالت میں فوت ہو کہ اُس کا خاوند اُس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہو گئی۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو حکم دے سکتا کہ وہ کسی دوسرے کو سجدہ کرے تو عورت کو کہتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔

(حديقة الصالحين صفحہ 342)

ایک اور حدیث سے خاوند کی اطاعت ومحبت کا درس ملتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سی عورت بطور رفیقہ حیات بہتر ہے آپؐ نے فرمایا وہ جس کی طرف دیکھنے سے طبیعت خوش ہو۔ مرد جس کام کے لیے کہے بجا لائے اور جس بات کو اُس کا خاوند نا پسند کرے اُس سے بچے۔

( حدیقہ الصالحین صفحہ 329)

حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَیۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ:غیب میں اُن چیزوں کی حفاظت کرنے والی جن کی حفاظت کی اللہ نے تاکید کی ہے۔

(النساء:35)

یہ بھی عورتوں کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ مندرجہ بالا خصوصیت کی حامل ہوں۔ اس آیت کی مصداق ہوں یعنی خاوند کی غیر موجودگی میں خاوند کے حقوق کی حفاظت کر نیوالی ہوں گویا اُس کی غیر حاضری میں اُس کے مال، نسب، عصمت، عزت و آبرو اور اس کے رازوں کی حفاظت کر نیوالی ہوں۔

عورتوں پر اولاد کی تربیت بھی فرض ہے جس کو نبھانا بہت ضروری ہے اگر اپنے بچوں کی صحیح تربیت نہ ہوگی تو نسل در نسل غیر تربیت یافتہ لوگ آتے چلے جائیں گے اور نسل بگڑ جائے گی۔ الغرض ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہے۔

ایک دفعہ حضرت اسما بنت یزید انصاری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عورتوں کی نمائندہ بن کر حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ ہم عورتیں گھر میں بند ہو کر رہ گئی ہیں۔جبکہ ہمارے مردوں کو یہ فضیلت اور موقع حاصل ہے کہ وہ نماز باجماعت، جمعہ اور دوسرے اجتماعات وغیرہ میں شامل ہوتے ہیں۔ نماز جنازہ پڑھتے ہیں، حج کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر جہاد کے لیے جاتے ہیں تو ہم ان کی اولاد اور اموال کی حفاظت کرتی میں بچوں کی دیکھ بھال کے کام سنبھالے ہوئے ہیں کیا ہم بھی مردوں کے ساتھ ثواب میں برابر کی شریک ہو سکتی ہیں۔ مرد اپنا فرض ادا کرتے ہیں اور ہم اپنی ذمہ داریاں نبھاتی ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے خاتون محترم! اچھی طرح سمجھ لو اور جن کی تم نمائندہ بن کر آئی ہو اُن کو جا کر بتا دو کہ خاوند کے گھر کی عمدگی کے ساتھ دیکھ بھال کرنے والی اور اُس کو اچھی طرح سے سنبھالنے والی عورت کووہی اجر اور ثواب ملے گا جو اُس کے خاوند کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے ملتا ہے۔

(حديقة الصالحين صفحہ 341)

حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی اولاد کی عزت کرو اور اُن کی اچھی تربیت کرو۔

( حديقة الصالحين صفحہ 352)

عورتوں کے حقوق و فرائض کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے ایک خطبہ جمعہ موٴرخہ 7؍ اگست 2022ء میں فرماتے ہیں کہ اسلام کہتا ہے کہ جو عورت اپنے خاوند اور اس کے گھر اور اس کے بچوں کے حق ادا نہیں کرتی اور صرف اپنے حقوق کے لیے شورمچاتی ہے ایسی عورتیں پھر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والی بنتی ہیں۔۔۔ پس یہ سوچ ہونی چاہئے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے حق ادا کرنے ہیں اور اس کے لیے کسی دوسرے کے پاس نہیں جانا بلکہ ہم نے اگر جاناہے تو پھر اللہ اور اس کے رسول کے پاس جانا ہے۔‘‘

( از الفضل4 تا 13؍ اکتوبر 2022ء خصوصی اشاعت سیرۃ النبی ؐ صفحہ 20)

الغرض عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے اُس کی مثال نہیں ملتی۔ اسلام کی یہ خوبصورت تعلیم نہ صرف عورتوں کے لیےہے بلکہ مردوں کے لیے بھی یکساںہے اور اسلام نے دونوں کو تلقین فرمائی ہے کہ ایک دوسرے کا حق ادا کیا کرو اور اسلامی تعلیم کے مطابق واضح ہو جاتاہے کہ کس طرح اسلام نے عورت اور مرد کو برابری کا مقام دیا ہے۔ ہر عمل، ہر نیکی کا اجر اگر مرد کو ملے گا تو عورت کو بھی ملے گا۔

ضروری امر یہ ہے کہ ہم ان باتوں کواحسن رنگ میں سمجھ کر اپنے اپنے فرائض ادا کر سکیں تا کہ گھر جنت نظیربنے اور معاشرہ بھی حسین بن سکے۔ کیونکہ معاشرہ میں جہاں مرد عورت ایک دوسرے کے فرائض و حقوق کا خیال نہیں رکھتے وہاں بچوں کی تربیت بھی متاثر ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان باتوں کو سمجھنے اور عمل کی توفیق دے۔ آمین

(زہ ولی سنوری۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 فروری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی