• 4 مئی, 2024

ممبرات لجنہ کی گراں قدر خدمات اور اُن کا ذکر خی (قسط 2)

ممبرات لجنہ کی گراں قدر خدمات اور اُن کا ذکر خی
صالحہ صفی محمود مرحومہ اہلیہ خلیفہ صفی الدین محمود مرحوم

قسط 2

جماعت احمدیہ لندن کی ایک نہایت مخلص دیر ینہ خاتون صالحہ صفی محمود صاحبہ 18؍ اگست 2022ء کو 80 سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پاگئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

مرحومہ مولوی محمد اسماعیل صاحب ؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتی اور مکرم عبد الکریم صاحب سابق مبلغ سیرا لیون کی بیٹی تھیں۔ اُن کی تین بیٹیوں ( صادقہ خالد، صالحہ صفی اور آ منہ مبشر) میں سے آپ دوسرے نمبر پر تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں کو صحت و سلامتی والی لمبی عمر عطا فر مائے اور اُن کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق بخشے۔

جب میں لندن آئی تو میرے شوہر سیّد مطیع اللہ صاحب مرحوم کے علاوہ میری نند شمسہ سفیر صاحبہ مرحومہ، میرے نندوئی سیّد سفیر الدین بشیر احمد صاحب مرحوم اور صالحہ صفی صاحبہ کے والد مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم بھی مجھے ایئرپورٹ پہ لینے آئے تھے۔ اِن دنوں لندن میں بہت کم احمدی رہتے تھے۔ مولوی صاحب کا گھر ہمارے گھر سے کچھ دور بھی نہ تھا۔ اکثر ہفتہ میں دو تین بار کا آنا جانا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ مولوی صاحب کے ساتھ ہماری فیملی کے کافی گہرے تعلقات ہیں۔ پھر جب وہ اپنی فیملی کو پاکستان سے لندن لے کر آئے تو تب ہماری ملاقات خالہ جی امینہ صاحبہ اور اُن کی بیٹیوں سے ہوئی۔

غالباً 1973ء یا 1974ء کا واقعہ ہے کہ میں اور صالحہ صفی کی چھوٹی بہن آ منہ کو ایک ہی فرم میں Job مل گئی۔ ایک دن انہوں نے مجھے بتایا کہ اُن کی آپا بہت بیمار ہیں۔ چنانچہ اُسی دن جاب سے چھٹی کے بعد میں آمنہ کے ساتھ ان کے گھر صالحہ کی عیادت کو چلی گئی۔ وہ کمر درد کی وجہ سے بہت بیمار اور کمزور تھیں۔

اُ ٹھنا بیٹھنا بھی محال تھا۔ اپنی لمبی بیماری کی وجہ سے وہ خود بھی اور گھر وا لے بھی بہت پریشان تھے۔ میں نے انہیں بستر سے اُٹھایا Exercise کی طرف توجہ دلائی اور سب کو بہت تسلی دی اور صالحہ کے لئے خاص طور پر دعاؤں کی طرف توجہ دلائی اور وعدہ کیا کہ میں خود بھی ان کے لئے خاص دعا کروں گی۔ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور دعاؤں کی برکت سے اُ نہیں جلد شفا عطا ہو گئی۔

صالحہ صفی محمود صاحبہ 30؍ جولائی 1942ء میں قادیان میں پیدا ہوئیں۔ 1947ء میں ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے وقت آپ اپنی فیملی کےہمراہ قافلے کے ساتھ ربوہ شفٹ ہوئیں۔ 1962ء میں 20 سال کی عمر میں آپ نے ربوہ سے لندن کا سفر گاڑی میں اپنے والد صاحب، والدہ صاحبہ اور بہنوں کے ساتھ چھ ہفتہ کے عرصہ میں طے کیا۔ اس کٹھن سفر کے دوران آپ سب کو اکثر بار اپنی گاڑی ( وین ) میں ہی سونا پڑتا تھا۔

بہر حال صالحہ صفی صاحبہ مرحومہ جنہوں نے ربوہ میں صرف F.A تک تعلیم حاصل کی تھی۔ جب لندن آئیں تو انہیں معلوم ہوا کہ یہاں بغیر انگریزی کے تعلیم حاصل کرنا کس قدر مشکل ہے۔ جب Acadmic Ability کے لئے آ پ کا ٹیسٹ لیا گیا تو آپ کو پتہ چلا کہ پڑھائی کی شروعات پانچ مضامین میں O.Level پاس کرنے کے بعد ہو گی۔ چنانچہ آپ نے پورے اعتماد کے ساتھ دعاؤں کا سہارا لیتے ہوئے O.Levels کے امتحانات اچھے نمبروں میں پاس کر لئے۔ آپ کا خیال تھا کہ آپ کو ٹیچنگ میں داخلہ مل جائے گا جس کے لئے آپ نے دعائیں بھی بہت کی تھیں۔ لیکن آپ کا یہ خواب پورا نہ ہو سکا۔ لیکن دعاؤں کی قبولیت کا یہ نتیجہ ہوا کہ آپ کی تینوں بیٹیوں ( صوفیہ، عطیہ، شاہانہ ) کو اللہ تعالیٰ نے ٹیچنگ کی ڈگری حاصل کرنے کی توفیق دی۔

( انمول لمحے، صالحہ صفی محمود صفحہ 203)

تب اپنی ایک دوست کے مشورے اور بے شمار دعاؤں کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو یو نیورسٹی آف لندن سے Bachelor Of Science in Librarin Science کی ڈگری عطا کی اور South Thames College. Wandsworth کی لائبریری میں سائنس میں اسلامک اور Senior Chartership Lecturerکا کام کرنے کی توفیق دی اور رہنمائی فر مائی۔ آپ نے اس لائبریری میں 22 سال تک کام کیا۔

پڑھائی کی تگ و دو میں اور مناسب رشتہ نہ ملنے کے باعث آپ کی شادی مزید 8 سال تک نہ ہو سکی۔ 19؍ دسمبر 1970ء کو سیّدنا حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے آپ کا نکاح خلیفہ صفی الدین محمود کے ساتھ پڑھایا۔ جن کے والد صاحب کا نام خلیفہ علیم الدین تھا۔ جب کہ آپ کے دادا جان حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ؓ تھے جو کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے 313 صحابہ میں شامل تھے۔ آپ ؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے سمدھی بھی تھے یعنی آپ کی بیٹی حضرت سیّدہ محمودہ بیگم صاحبہ ( حضرت اُمِ ناصر) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ سے بیاہی ہوئی تھیں۔ شادی سے قبل محمودہ بیگم کا نام رشیدہ بیگم تھا۔ شادی کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ ؓ کی زوجہ محترمہ حضرت اماں جان نے آپ کا نام بدل کر محمودہ بیگم رکھ دیا۔ آپ خلیفہ صفی الدین محمود کی پھوپھی تھیں۔ آپ کے دادا جان کا نام خلیفہ حمید الدین تھا۔

( میرا جیون ساتھی صفحہ 19)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ 1982ء میں جب انگلستان تشریف لائے تو انہوں نے آپ کے سپرد ریسرچ کا ایک ایسا کام دیا جو اس پڑھائی کے بغیر شاید آپ نہ کر پاتیں۔ آپ کہتی ہیں کہ خلیفۂ وقت کی نگرانی میں سال ہاسال تک یہ کام کرنا آپ کے لئے ایک سنہری دور تھا۔ اس کام پر آپ حضورؒ کی وفات تک قائم رہیں۔

آپ فر ماتی ہیں کہ ہوا یوں کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ 1982ء میں پہلی مرتبہ لندن تشریف لائے تو شاید ستمبر کا مہینہ تھا حضور اقدس نے خطبہ جمعہ میں حوالہ جات کو تلاش کرنے کے بارہ میں تحریک فر مائی۔ پورا خطبہ ہی اسی بارہ میں تھا۔ میرے میاں ( خلیفہ صفی الدین محمود) کو خطبہ جمعہ سنتے ہوئے فوری طور پر یہ خیال آیا کہ میری بیوی صالحہ صفی یہ کام بہت اچھی طرح سے کر سکتی ہے۔ جمعہ سننے کے دوران ہی ان کو خیال آیا کہ آج گھر جا نے سے قبل میں کیوں نہ حضور اقدس ؒ کی خدمت میں اس کا نام پیش کرتا جاؤں۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ میں Full Time ایک کالج میں کام کر رہی تھی اور میرے تینوں بچے ابھی چھوٹے ہی تھے۔ گو میں نے لجنہ اماء اللہ کے تحت تھوڑا بہت کام تو کیا ہوا تھا مگر حضرت خلیفۃ المسیح ؒکے ماتحت یوں کام کرنے کے بارہ میں تو میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ بہر حال وہ گھر آنے سے پہلے ہی میرا نام پیش کر آئے۔ حضور اقدس نے اگلے دن ہی مجھے بلا لیا۔ پھر اس کام کا سلسلہ ایسا چلا کہ مجھے خود بھی یقین نہ آتا تھا کہ میں حضور اقدس کا کام اتنی جلدی کس طرح کر لیتی ہوں۔ شروع میں زیادہ تر حوالہ جات میَں ہی حضور ؒ کی خدمت میں پیش کیا کرتی تھی۔ پہلے دو سال تو حوالہ جات پاکستان بھجوانے کا کام جماعتی طور پر کیا جاتا۔ ایک بار میں نے حوالہ جات کاکام اپنی امی جان کے ہاتھ پاکستان بھجوا یا تو حضور اقدس نے فرمایا:
’’اس وقت آپ کی بیٹی صالحہ صفی دس مردوں کےبرابرکام کر رہی ہے۔ ‘‘ الحمد للّٰہ یہ سب کچھ جس ہستی کے باعث ہوا، وہ تھے میرے میاں مرحوم خلیفہ صفی الدین محمود۔

(میرا جیون ساتھی از صالحہ صفی محمودصفحہ 26-27)

جب حضور نے خلافت کے بعد اپنے پہلے جلسہ کی تقاریر کی تصنیف کی تو اس Project میں آپ کو بھی منیر احمد جاوید صاحب (پرائیویٹ سیکرٹری) پیر محمد عالم صاحب مرحوم اور فوزیہ باجوہ کے ساتھ شامل کیا۔ اور اس تصنیف کے اردو سے انگریزی تر جمے کا کام بھی آپ نے ہمارے سپرد کیا۔ جب یہ کتابی صورت میں شائع ہوئی تو حضور ؒ نے اس کا نام Absolute Justice, Kindness and Kinship رکھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا preface تیار کرنے کی توفیق عطا کی۔ اور اس پراجیکٹ میں آپ کے ساتھ فوزیہ باجوہ، آپ کی بیٹی صوفیہ محمود بھی تھیں۔ آپ دونوں نے بھی مشکل سے مشکل حوالہ جات تلاش کرنے میں آپ کی بھر پور مدد کی۔ انہی دنوں حضور ؒ نے اپنے آفس کی لائبریری کے کام کی کیٹا لوگنگ Cataloging کا کام بھی آپ کے سپرد کیا۔ جو آپ نے چند ماہ میں مکمل کر دیا۔

آپ کہتی ہیں کہ’’ ایک دن حضورؒ نے مجھے اور اپنی بیٹی مونا رحمٰن کو اپنے آفس میں بلایا اور خطوط کا ایک بڑا بیگ مجھے دکھاتے ہوئے فر مایا کہ یہ سب خطوط حضرت مسیح موعود ؑ کے خاندان کی طرف سے حضور ؒ کے نام ہیں۔ حضور ؒنے اس بیگ کی طرف اشارہ کر کے فر مایا کہ یہ میرے لئے ایک خزانے کی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض اوقات اگر میں کسی ایک خط کو دوبارہ پڑھنا چاہوں تو مجھے بہت مشکل پیش آتی ہے۔ بلکہ نا ممکن ہی ہو جاتا ہے۔ مزید فر مایا کہ ان کی Cataloging اس طرح کرنی ہے کہ اگر میں کوئی خط دوبارہ پڑھنا چاہوں تو مجھے ڈھونڈنے میں آسانی پیدا ہو جائے۔ مجھے فر مایا کہ مونا کو کام کی نوعیت اچھی طرح سے سمجھا دیں اور پھر آپ دونوں مل کر یہ کام کریں۔ مجھے مزید تاکید فر مائی کہ ان میں سے کسی ایک خط کی عبارت بھی میَں نے نہیں پڑھنی۔ کیونکہ یہ سب کے سب ہمارے خاندان کے ہیں۔ اور سبھی پرائیویٹ خطوط ہیں۔ میں گھبرا گئی میں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ میں اس کا طریق کار اچھی طرح مونا کو سمجھا دوں گی اور وہی یہ کام کرے تو بہتر ہے کیونکہ لکھنے والے کا نام دیکھنے کے لئے خط کھولنا پڑتا ہے یوں دوسرے الفاط پر نظر پڑنے کا اندیشہ ہے۔ حضورؒ نے خوش ہو کر فر مایا۔ یہ بات ٹھیک ہے۔ آپ ایسے ہی کریں۔ بعد ازاں میں نے مونا کو سب کام سمجھا دیا اور اس کام کرنے کی سعادت مونا رحمٰن (حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی صاحبزادی) نے پائی۔ ‘‘

آپ کو چونکہ ریسرچ اور تصنیف کا بہت شوق تھا۔ اس لئے اپنی فیملی کے بعض افراد کی سیرت و سوانح پر آپ نے متعدد کتب بھی تصنیف کیں۔ جن میں سے مندرجہ ذیل شائع ہو چکی ہیں۔

1۔روشنی کے مینار۔ 2۔میرا جیون ساتھی۔ 3 روشن چاند۔ 4۔ عکس زندگی۔5۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ۔ 5۔ واجب القتل کون۔6 کلارک کی کہانی۔ 7۔ انمول لمحے۔

جب حضورؒ نے اپنی کتاب Revelation Rationality Knowledge and Truth لکھی تو اس کے آغاز میں یہ بھی لکھا کہ:

‘‘In London, it was Mrs Saleha Safi who perfomed the major role of reference hunting assisted by her daugher, Sophia Safi Mahmood, she perfomed amazing feats of retracting various books which contained the desired references.’’

(Acknowledgement from Revelation Rationality Knowledge and Truth Page X by Hazrat Khalifatul Masih iv)

اور پھر جب اس کتاب کی اردو میں تصنیف ہوئی تو حضور ؒ نے اپنی کتاب کے شروع میں اظہار تشکر کے حوالہ سے صالحہ صفی مرحومہ کا ذکر بھی فر مایا کہ ’’لندن کی صالحہ صفی نے حوالہ جات کی تلاش میں بنیادی کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنی بیٹی صوفیہ صفی محمود کی مدد سے مطلوبہ حوالہ جات پر مشتمل کتب تلاش کرنے کا حیرت انگیز کارنامہ سر انجام دیا۔‘‘

( الہام، عقل، علم اور سچائی صفحہ 14 حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

آپ بہت اچھی مقرر تھیں۔ آپ کی تقاریر زیادہ تر اسلام کے دفاع اور اسلام کی سچائی ثابت کرنے پر مشتمل ہوتیں۔ آپ کی بھر پور کوشش ہوتی کہ لجنہ کی ممبرات میں بھی اثر انگیز تقاریر کرنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ خود اردو اور انگریزی میں اُن کو تقاریر لکھ کر دیتیں اور پھر گھنٹوں اس کی مشق کرواتیں تا وہ بھی عوام اور اجتماعات میں پورے اعتماد سے تقاریر کر سکیں۔

آپ قرآن کریم سے گہرا لگاؤ رکھنے والی مخلص خاتون تھیں۔ جہاں بھی رہیں وہاں بچوں، مستورات کو قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ پڑھاتی رہیں۔ آپ کی کوشش ہوتی کہ کہیں ناغہ نہ ہو جائے۔ آپ ہر دل عزیز اور با اخلاق خاتون تھیں۔ اگرچہ لجنہ اماء اللہ کے ریکارڈ کے مطابق آپ کے نام کا اندراج اعزازی ممبر نہیں تھا بلکہ مجلس عاملہ کی لسٹ میں Tracking and Monitoring اور عالمی تبلیغی منصوبہ کے تحت درج تھا۔ اور چونکہ یہ دونوں شعبہ جات حضرت خلیفۃ المسیحؒ کی ڈائریکٹ نگرانی میں کام کر رہے تھے۔ اس لئے مکرم شیخ مبارک احمد صاحب مرحوم امام مسجد فضل لندن و مشنری انچارج برطانیہ اور مکرمہ امتہ الحفیظ سلام صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ یو کے نے آپ کو یہی اطلاع دی کہ آپ اعزازی ممبر ہیں۔

( انمول لمحےاز صالحہ صفی محمود صفحہ 120)

1997ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ کی منظوری سے مکرمہ قانتہ راشد صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ نے آپ کے سپرد لندن A ریجن کی صدارت کا کام سونپا جس پر آپ 2012ء تک قائم رہیں۔ حضور ؒ نے یہ بھی ہدایت کی کہ گو کہ آپ مرکزی عاملہ کی ممبر تو نہیں مگر آپ کو مرکزیہ عاملہ کی میٹنگ میں مدعو کیا جائے گا۔

( انمول لمحے صفحہ 165-166 صالحہ صفی محمود )

آپ لجنہ اماء اللہ یوکے کے رسالہ النصرت کے ایڈیٹوریل بورڈ کی بھی کچھ عرصہ ممبر رہیں۔ آپ نے امتہ الحئ لا ئبریری کو از سر نو ترتیب دینے کی بھی توفیق پائی۔ آپ سیکرٹری اشاعت کے طور پر بھی خدمات بجا لاتی رہیں۔ حضور ؒ نے ازراہ شفقت آپ کو آفس کی لائبریری کو بھی Dewey Decimal System کی طرز پر ترتیب دینے پر مقرر فرمایا۔ یہ سسٹم دنیا بھر کی لائبریریوں میں اس طرز پر ترتیب دیا گیا ہے کہ نئی کتابوں اور پرانی کتابوں کو مضامین کے لحاظ سے اُن کی مناسب جگہ اس طریق پر رکھا جائے تا اس کی Location آسانی سے تلاش کی جا سکے۔

آپ کے رشتہ داروں نے اس بات کی گواہی دی ہے کہ آپ بے شمار خوبیوں کی مالک تھیں۔ آپ نے اپنی بہنوں، اُن کے بچوں، رشتہ داروں نیز غیروں سے بھی ہمیشہ پیار کا سلوک روا رکھا۔ سب سے خندہ پیشانی سے ملتیں۔ چہرہ ہر وقت دل لبھانے والی مسکراہٹ سے سجا رہتا۔ آپ کی بیٹیوں نے آپ کے بارے میں اپنے تاثرات لکھے ہیں جو قارئین کے لئے درج کئے جا رہے ہیں۔

آپ کی بڑی بیٹی صوفیہ محمود لکھتی ہیں کہ:
’’ میرے لئے یہ انتہائی فخر کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صالحہ صفی محمود کو میری ماں بنایا۔ وہ میری ہیرو تھیں، میری گائیڈ تھیں، میرے لئے وہ روشنی کا ایسا مینار تھیں جس سے مجھے ہر موقع پر صحیح رہنمائی ملی۔ انہوں نے ایک لنگر(Anchor) کی طرح ہمارے خاندان کو مضبوطی سے تھامے رکھا، ہم سب کے لئے ہر وقت آ سرا بنی رہیں۔ ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور نطام خلافت کی اطاعت کو جا گزین کیا۔ ہمیشہ یہی کہتیں تھیں کہ اُ نہیں اپنے بچوں سے بے پناہ محبت ہے لیکن اللہ تعالیٰ اور خلافت سے محبت بچوں کی محبت سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔ اور اگر اُ نہیں کبھی خلیفۂ وقت اور بچوں کے درمیان انتخاب کرنا پڑے تو وہ خلیفہٴ وقت کو ترجیح دیں گی۔

امی اور ابو کے کچھ واضع اصول تھے جن کے خلاف وہ کبھی بھی کسی سے سمجھوتہ نہ کرتے اور ان میں سے ایک یہ تھا کہ بچوں کے سامنے جماعت، نظامِ یا کسی بھی عہدہ دار کے بارے میں کسی قسم کے تنقید ی الفاظ استعمال نہ کرتے اور اگر کوئی ایسا موقع ملتا جبکہ فیملی کے بڑے اور بچے سب اکٹھے ہوتے اور اگر کوئی اس محفل میں نظام جماعت یا عہدیداروں کے خلاف کسی بھی قسم کے تنقیدی الفاظ استعمال کرتاتو میری امی کا ردِ عمل اس کے دفاع میں یہ ہوتا کہ گرجتے شیر کی طرح اس پر ٹوٹ پڑتیں۔

ہماری اُمی کے خیال میں ہماری تمام تر قوتیں اور صلاحیتیں اسلام کی خدمت کے لئے وقف ہونی چائیں۔ انہوں نے ہمارے دلوں میں یہ نقش کیا کہ زندگی گزار نے کے صرف دو اصول ہیں، با مقصد یا بے مقصد۔ اور خوشحال زندگی گزارنے کے لئے با مقصد ہونا ضروری ہے۔ بغیر کسی مقصد کے ہماری زندگی ناکارہ رہ جاتی ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کے بندوں کی خدمت میں گزارنا ہی زندگی کا اصل مقصد ہے۔

میری امی کی شخصیت نہایت ہی متوازن تھی۔ ایک ماں کی حیثیت سے انہوں نے ہمیشہ اس توازن کو قائم رکھا اور ہماری تعلیم و تربیت میں ہماری رہنمائی فر مائی۔ اُن کے مزاج میں مزاح بھی تھا جس سے ہمارا خاندان ہمیشہ محبت کا گہوارہ بنا رہتا۔

درود شریف سے اُن کی محبت انہیں اپنے والد محترم مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم، اپنی والدہ محترمہ امینہ بیگم صاحبہ مرحومہ اور اپنے دادا محترم محمد اسما عیل ہلال پوری صاحب مرحوم سے وراثت میں ملی تھی۔ ہماری اُ می نے ہمیں بھی اسی بات کی تاکید کی کہ زندگی کے ہر موقعہ اور ہر لمحہ درود شریف کو اپنی زندگی کا لازم جز بنائے رکھنا۔ جب ہم سوئیں تو درود ہمارے لبوں پر جاری ہو اور جب جاگیں تو درود ہی ہمارے لبوں سے نکلے۔ اُ می نے ہی مجھے صحیح تلفظ کے ساتھ قرآن کریم ناظرہ پڑھنا سکھایا اور اسی طرح کچھ حصے کا ترجمہ بھی اور قرأت بھی۔ قرآن کریم کی تلاوت میں معمولی غلطی کو بھی برداشت نہ کرتیں۔ انہوں نے مجھے سورة البقرہ کے آخری رکوع کی تفسیر بھی سکھائی۔ میری تلاوت کو بار بار اس لئے سنتیں کہ میں کہیں تلفظ کی غلطی تو نہیں کر رہی۔

اپنی امی کی وفات کے عظیم صدمے کے خلاء کو میں اللہ تعالیٰ کی حمد اور درود شریف کے مبارک ورد سے بھرنے کی کوشش کروں گی۔ آج میں جو بھی ہوں اپنے نیک والدین کی بدولت ہوں۔

آپ کی منجھلی بیٹی عطیہ ہما صاحبہ لکھتی ہیں:
یہ میری خو ش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسی ماں سے نوازا جو ہر پہلو سے کشادہ دل تھیں۔ ان کا نہ ختم ہونے والا پیار اپنے بچوں، نواسے، نواسیوں، اپنی بہنوں اور اُن کی اولادوں کے لئے لا محدود تھا۔ خلافت کے لئے ان کی محبت اٹل تھی۔ انہوں نے ہی ان تمام اقدار سے مجھے اور میری دونوں بہنوں کو آ شنا کیا۔

میری اُ می ہر ایک سے محبت کرتی تھیں۔ اور سب کے لئے ان کے خیالات اور تمنائیں بھی نیک ہوتیں۔ کسی کی برائی نہ کرتیں اور نہ سنتیں، ہر قسم کی بد گمانی سے پر ہیز کرتیں، جو بھی کرتیں ہمیشہ میزان قائم رکھتیں۔ نہایت متوازن نظریہ کی مالک تھیں۔ انہوں نے ہی مجھے دین کی خدمت کی اہمیت کے علاوہ دنیا میں کس طرح زندگی بسر کرنی ہے کے طریق سکھائے۔ خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مالی قر بانیوں کو زندگی کا ایک حصہ بنا لینا سکھایا۔

آپ نے مختلف وقتوں میں مختلف عہدوں پر خدمت دین کی توفیق پائی۔ ہر دل عزیز تھیں اور سب لوگ آپ کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ میری زندگی میں گزرے ہوئے وہ لمحات جو میں نے اپنی امی کے ساتھ گزارے بہت یاد آتے ہیں۔ ان کا خوش مزاج ہونا، کسی بات پر لا متناہی ہنسی جو ہم دونوں شیئر کرتے تھے یاد آتے ہیں۔ اپنی حکمت اور دانائی سے ہر وقت میری رہنمائی کرنا، میرے لئے ہر وقت دعاؤں میں مصروف رہنا یاد آتاہے۔ اللہ تعالیٰ میری پیاری امی کی مغفرت فر مائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آ مین

آپ کی چھوٹی بیٹی شاہانہ ناصر صاحبہ لکھتی ہیں:
میری اُ می کی وسیع شخصیت کو اتنے کم وقت اور لفظوں میں بیان کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ کہکشاں کی بے پناہ وسعت کو اُس کے تمام ستاروں سمیت تصویر واحد میں اتار لینے کی کوشش کرنا۔ امی جان کی شخصیت بذات خود سینکڑوں منور ستاروں کی ایک کہکشاں تھی جو گزرتے وقت کے ساتھ مزید پروان چڑ ھتی گئی۔ اُ ن کی مکمل شخصیت تو ان کی زندگی کے بے شمار پہلوؤں سے خود بخود نمایاں ہوتی رہتی تھی جس میں ان کی ذہانت اور دنیا داری کے پُر پیچ مسائل کو سمجھنے میں اُن کا اسلامی اصولوں اور اسلامی قوانین شریعت کا وسیع علم چار چاند لگاتا تھا۔ بے حد انکساری اور عاجزی کے ساتھ انہیں اس بات کا غیر معمولی احساس تھا کہ اُن کی تمام تر ذہانت اور علم صرف اور صرف محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے جس نے انہیں اپنی ذہانت سے سمجھنے اور معاملات حل کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔

آپ کی تصنیفات اور وہ تقاریر جو آپ نے اپنے لئے لکھیں یا دوسروں کو لکھ کر دیں ان سے اُن کی ایمانداری اور اسلام کےدفاع کا عکس نمایاں ہوتا ہے۔ آپ نے لجنہ اور ناصرات کی بے شمار ممبرات کو قرآن کریم ناظرہ، اُس کا لفظی ترجمہ اور تفسیر پڑھائی۔ جس سے کئی نسلوں کو اللہ تعالیٰ نے اس سے فائدہ حاصل کرنے کی توفیق عطا کی۔

بحیثیت ایک ماں کے بھی میری امی بے مثال تھیں۔ اپنے بچوں بلکہ خاندان کے دیگر افراد کے لئے بھی ایک محافظ اور ہر قسم کے بد اثرات کے خلاف ایک ڈھال تھیں۔ انہوں نے ہمیں خلافت کے ساتھ مستقل وفاداری، پابندئ نماز اور بلندئی کردار کی اہمیت کی بیش قیمت تر بیت دی۔ میری امی اسلامی اصولوں کی پابند تھیں۔ جنہوں نے اپنے بچوں اور سب پیاروں کو نیک اصولوں پر کار بند ہونا سکھایا۔ ہر وقت اسلام اور احمدیت کے دفاع کے لئے خود بھی تیار رہتیں اور دوسروں کی بھی رہنمائی کرتیں۔

میرے لئے میری امی ایک انمول ہیرا تھیں۔ میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی خدمات کو قبول کرے اور میری امی کی ہر قسم کی کوتاہیوں کو معاف کرتے ہوئے ان سے رحم کا سلوک کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آ مین ثم آ مین

آپ کی سب سے بڑی نواسی امبر خان لکھتی ہیں:
ہماری نانی جان ہماری فیملی کی جڑ تھیں اور اُن کی وفات کے بعد بھی اُن کی آواز ہم سب کے دل ودماغ میں ہر وقت گونجتی رہتی ہے۔ میری نانی اور میرے نانا دونوں نے میری بہترین پرورش کی اور تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے میری بھر پور مدد کرتے رہے۔ اسلام کے بارے میں مجھے سمجھ بوجھ عطا کی۔ خلافت سے محبت اور نظام جماعت سے لگن اُ نہوں نے میرے دل میں پیدا کی۔ میرے نانا اور نانی نے مجھے اپنی بیٹیوں جیسا پیار دیا۔ اکثر کہتے تھے میں ان کی سب سے چھوٹی بیٹی ہوں۔ میری تمام مشکلات میں میری نانی ایک چٹان کی طرح کھڑی رہتیں اور مجھے سہارا دیتیں۔ ہمیشہ مجھے دُعا پر یقین اور اس کی اہمیت اور طاقت کی طرف رہنمائی کرتیں۔ ا نہوں نے مجھ میں یہ بیداری پیدا کی کہ تاریک ترین وقت میں اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے۔ میری نانی جان نا قابل یقین حد تک ایک متوازن شخصیت تھیں۔ آزمائشوں کو محض خدا کی رضا کی خاطر برداشت کرتیں۔

اپنی پیاری نانی کی وفات کے بعد جو کمی محسوس ہو رہی ہے وہ نا قابل بیان ہے۔ وہ میری آنکھوں کی روشنی تھیں۔ میں اُن کی حکمت، اُن کی رہنمائی اور مزاحیہ باتوں کو بہت یاد کر تی ہوں۔ اللہ تعالیٰ میری نانی کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آ مین

صالحہ صفی صاحبہ کی بڑی بہن صادقہ خالد صاحبہ لکھتی ہیں:
میری چھوٹی بہن صالحہ صفی جسے مرحومہ کہنے سے دل گھٹتا ہے گو کہ صالحہ مجھ سے چھوٹی تھی لیکن ہماری فیملی میں مرد بن کر رہی۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے ہمارے والدین کی طاقت بنا دیا تھا۔ خدا کے کام بھی نرالے ہوتے ہیں۔ میری تو یہاں آتے ہی شادی ہو گئی۔ صالی کے لئے امی بہت فکر مند تھیں کیونکہ کافی سال تک اُس کا کوئی مناسب رشتہ نہ آیا۔ وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ وہ بہتر جانتا ہے کس بندے سے کون سا کام کس طرح لینا ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے وقت کے ساتھ ساتھ صالی کی شادی کا بندو بست بھی کر دیا اور اُس کو اپنی پڑھائی مکمل کرنے کی بھی ایسی توفیق ملی جو خدمتِ دین کے کام آئے۔ اصل میں خدا تعالیٰ نے صالی کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار کرنا تھا۔

صالی نے لائبریری کا کورس کیا اور یو نیورسٹی آف لندن سے bachelor of Science in Library Science میں ڈگری کے امتحان پاس کئے۔ جس سے آپ کو ساؤتھ تھیمز کالج وانڈز ورتھ کی لائبریری میں Senior Charter Ship Lecturer کا کام کرنے کی تو فیق ملی۔ اور یوں صالی کو حضور اقدس کی تصنیف ’’ الہام، عقل، علم اور سچائی ‘‘ کے لئے نئے حوا لہ جات تلاش کرنے کی توفیق ملتی رہی۔ الحمد للّٰہ

صالی کو اللہ تعالیٰ نے ہر کام بہترین طریق پر کرنے کی صلاحیت عطا کی تھی۔ آپ کو لندن ریجن A کی ریجنل صدر کی خدمت کی توفیق بھی ایک عرصہ تک اللہ تعالیٰ نے عطا کی۔ آپ ہر دلعزیز تھیں۔ آپ بہترین لکھنے والی تھیں۔ 10 کتابیں لکھیں جس میں سے 8 شائع ہو چکی ہیں۔ پڑھنے والوں نے آپ کی تحریر کو بہت پسند کیا۔ اکثر لوگ مجھے کہتے ہیں کہ آپ کیوں نہیں لکھتیں۔ میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ آپ کو کیا معلوم کہ صالی ہمارے خاندان کا ڈا کٹر سلام ہے۔ میں کہاں اور وہ کہاں میری اوقات کیا۔ وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو غریق رحمت کرے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آ مین

آپ کی چھوٹی بہن آ منہ اہلیہ ڈاکٹر مبشر احمد صاحب لکھتی ہیں:
صالی آپا کا دل آئینہ کی طرح شفاف تھا۔ کسی سے بھی کوئی شکوہ یا شکایت نہ کرتیں۔ عفو و درگزر کا ایک نمونہ تھیں۔ نہایت با اخلاق سیرت کی مالک تھیں۔ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے صالی آپا جیسی بہن ملی۔ وہ نہ صرف میری بہن بلکہ میری دوست بھی تھیں۔ ہم دونوں ایسے تھے جیسے Twins ہوں۔ بے حد بے تکلفی اور خوش گفتگی تھی۔ ایک دوسرے کے خیر خواہ، آپس میں بے حد پیار، دلی ہمدردی، رازداری، ایک دوسرے پر دل وجان سے قربان۔ ہماری محبت میں ایک دوسرے کی عزت کا لحاظ ہمیشہ قائم رہا۔ جب ملتے خوب Enjoy کرتے، دلوں کو سکون ملتا۔ صالی آپا نے ہر مشکل میں میرا ساتھ دیا اور ہر خوشی میں شامل ہوئیں۔

جماعتی کاموں میں جب کبھی بھی اور جب کہیں بھی موقع ملتا، اکٹھے بیٹھتے، خوب باتیں کرتے، اپنی اور اپنے بچوں کی تعلیم و تر بیت کی، خلیفۂ وقت سے وفا داری کی، سیر پر بھی اکٹھے جاتے۔ بیت اللہ کا حج بھی اکٹھے کیا۔ صالی آپا کے ساتھ گزرا ہوا ایک ایک لمحہ بہت یاد آتا ہے۔ یہ سب میری زندگی کے انمول لمحات ہیں۔ آپ کو دُعا کی قبولیت پر اس قدر یقین تھاکہ دعا کرنے کے بعد با لکل پُر سکون ہو جاتیں۔ اور نتائج کو بکلی خدا پرچھوڑ دیتیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فر مائے، آپ سے رحم کا سلوک کرے اور آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا فر مائے۔ آ مین ثم آ مین

فوزیہ بشریٰ شاہ صاحبہ جو صالحہ صفی مرحومہ کے ساتھ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے حوالہ جات اکھٹے کرنے کی ٹیم میں شامل تھیں اپنے تاثرات یوں بیان کرتی ہیں:
آ نٹی صالحہ صفی صاحبہ نہایت شریف اور پُر خلوص خاتون تھیں جنہیں حضورؒ کے ساتھ متعدد مواقع پر ایک لمبا عرصہ کام کرنے کی توفیق ملی۔ آپ چونکہ ساؤتھ تھیمز کالج کی ؒلائبریری میں کام کرتی تھیں۔ حضور ؒ انہیں مختلف قسم کے حوالہ جات تلاش کرنے کو کہتے اور وہ بڑی تندہی سے انہیں تلاش کرتیں اور حضور اُن کے کام سے بہت خوش ہوتے۔

ایک بار حضور ؒ نے انہیں یہودیوں کے بارے میں ایک حوالہ تلاش کرنے کو کہا جس میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ تقریباً 70 عیسوی میں عیسائی لوگ یہودیت کے پنجے سے آزاد ہو چکے ہیں ( با لکل ویسے ہی جیسے 1974ء میں غیر احمدی مسلمانوں نے احمدیوں کے ساتھ سلوک کیا تھا)۔ صالحہ آنٹی نے مختلف یہودی کالجوں اور سو سائٹیوں کو تقریباً چھ عدد خطوط لکھ کر اس بارہ میں وضاحت چاہی، جوا باًسب نے اس بارہ میں انکار کیا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا، کیونکہ وہ اس حقیقت کو چھپانا چاہتے تھے کہ یہودیوں نے عیسائیوں کے ساتھ ظلم روا رکھے تھے۔ حضورؒنے تمام خطوط کا گچھا مجھے دیا اور حوالہ جات تلاش کرنے کو کہا۔ میں نے مختلف لائبریریوں میں تلاش کرنے کی کو شش کی پر نہ ملا۔ آخر کار ہمیں یہ حوالہ جات پٹنی لائبریری سے مل گئے۔ الحمد للّٰہ

ایک اور واقعہ مجھے یاد ہے جب حضورؒ نے لجنہ سے خطاب کرتے ہوئے فر مایا کہ کس طرح لجنہ کی ممبرات اُن کی مدد کر رہی ہیں جیسے کہ حضرت اُمِّ امّارہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تھی۔ حضور ؒ نے آ نٹی صالحہ کا ذکر بھی ایسی خاتون کی مشابہت سے کیا۔ میرے پاس ابھی بھی حضورؒ کی اپنی ہینڈ رائٹنگ میں ایک کاغذ ہے جو جلسہ کے لئے اُن کے نوٹس کا حصہ تھا۔ اس میں آ نٹی صالحہ کے نام کے ساتھ ان تمام کے نام بھی درج ہیں جو حضور ؒ کی مدد کر رہی تھیں۔ الحمد للّٰہ اس فہرست میں میرا نام بھی شامل ہے۔

اللہ تعالیٰ صالحہ آنٹی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فر مائے۔ آمین ثم آ مین

میں سمجھتی ہوں کہ یہ تحریر صالحہ صفی مرحومہ کی خوبیوں اور صفات کی ایک چھوٹی سی جھلک پیش کرتی ہے۔ صالحہ صفی کے پسماندگان میں اُن کی تین بیٹیاں اور 8 نواسے نواسیاں شامل ہیں۔

مرحومہ صوم و صلوٰة، قرآن کریم کی تلاوت کی پابند، تہجد گزار، ملنسار اور مہمان نواز خاتون تھیں۔ خلافت کے ساتھ وفا کا گہرا تعلق تھا۔ جماعتی عہدیداران کا احترام کرنے والی، مالی قر بانیوں میں پیش پیش، باشرح چندہ ادا کرنے والی اور دعا گو نیک خاتون تھیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ پر کامل یقین تھا۔ آپ موصیہ تھیں۔ حج بیت اللہ کی سعادت بھی آپ کو نصیب ہوئی۔

اللہ تعالیٰ آپ کو غریق رحمت کرے اور جنت الفردوس میں اپنے پیاروں کے پاس جگہ دے اور آپ کے پسماندگان کا خود حافظ و ناصر ہو۔ آ مین ثم آ مین

(سیّدہ ثریا صادق۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

کونوا مع الصادقین

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 فروری 2023