• 15 مئی, 2024

رسول اللہ ﷺ کی عائلی زندگی کے حسین پہلو

آنحضرتؐ خانگی امور خودبجالاتے، بیویوں سےعدل کرتے، دلجوئی کرتے اورکمال محبت وشفقت سے پیش آتے

حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ایسا پاک وجود ہیں جن کے لئے زمین و آسمان پیدا کئے گئے اور آپؐ ایسا وجود ہیں جو خداوندکریم کا کلمہ ہے اور جس کی اہمیت خدائی پر دلیل اور جس کی ذات و صفات تفسیر قرآن ہیں۔

آپؐ کے اخلاق کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔

’’یقیناً آپ عظیم الشان اخلاق پر فائز ہیں‘‘۔

(القلم:6)

نیز فرمایا۔

یقیناً اللہ کے رسول میں تمہارے لئے نیک نمونہ ہے۔

(الاحزاب:22)

حضرت عائشہؓ سے جب یزید بن بابنوس نے اخلاق رسول کے بارہ میں پوچھا آپ نے فرمایا۔

’’آپؐ کے اخلاق عین قرآن تھے‘‘۔

یعنی آپؐ کی ذات قرآن کریم کے احکام کی تفسیر کا درجہ رکھتی تھی۔

رسول اللہ ﷺ کی عائلی زندگی قرآن کے احکامات کی تفسیر اور جنت نظیر معاشرہ کی بنیاد تھی۔

خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

’’اپنی بیویوں سے حسن سلوک سے پیش آؤ‘‘

(النساء:20)

خدا تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے اہل کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے اور نبی کریمؐ نے اپنی زندگی کے اقوال و افعال سے اس تعلیم پر عمل کرکے ہمیں اس کی تفسیر سمجھا دی۔ چنانچہ نبی کریمؐ اس اہمیت کے حامل حصہ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل کے ساتھ حسن سلوک میں بہتر ہے اور میں تم سب سے بڑھ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں‘‘۔

(ترمذی کتاب المناقب)

آنحضرتؐ نے اپنی تمام ازواج سے حسن سلوک کرکے ثابت کر دیا کہ آپؐ ہی انسان کامل اور اپنے متعلق دعویٰ کو سچ ثابت کر دیا اور یہ نہیں کہ صرف ایک بیوی کے حقوق پورے فرمائے بلکہ حضور نے بیک وقت اپنی بیویوں کے حقوق اعتدال سے پورے فرمائے۔ جو آنے والی نسلوں کے لئے بھی مشعلراہ ہیں ذیل میں نبی کریمؐ کی زندگی مبارکہ سے چند واقعات درج ہیں جن سے رسول کریمؐ کی عائلی زندگی میں طرز عمل کا خوب اندازہ ہوتا ہے۔

خانگی امور کی بجاآوری

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جتنا وقت آپؐ گھر پر ہوتے تھے گھر والوں کی مدد اور خدمت میں مصروف رہتے تھے یہاں تک کہ آپؐ کو نماز کا بلاوا آتا اور آپؐ مسجد میں تشریف لے جاتے۔

(بخاری کتاب الادب باب کیف یکون الرجل فی اہلہ)

پھر حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں۔

’’نبی کریمؐ اپنے کپڑے خود سی لیتے تھے۔ جوتے ٹانک لیا کرتے تھے اور گھر کا ڈول وغیرہ خود مرمت کرلیتے تھے‘‘۔

(مسند احمد بن حنبل)

اس سلسلہ میں حضرت عائشہؓ نے فرمایا نبی کریمؐ اپنے اہل خانہ کی تکلیف کا احساس رکھتے تھے۔

’’رات کو دیر سے گھر لوٹتے تو کسی کو زحمت دیئے یا جگائے بغیر کھانا یا دودھ خود تناول فرماتے تھے‘‘۔

(مسلم کتاب لاشربہ باب اکرم الضیف)

کسی نے حضرت عائشہؓ سے سوال کیا رسول اللہؐ گھر میں کیا کیا کرتے تھے تو آپؓ نے فرمایا:

’’آپؐ تمام انسانوں کی طرح انسان تھے کپڑے کو خود پیوند لگاتے، بکری کا دودھ خود دوہتے اور ذاتی کام خود کرتے‘‘۔

(مسند احمد بن حنبل)

نرم خُو، نرم زبان

حضرت عائشہؓ نبی کریم ﷺ کی اس اس خوبی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں۔

نبی کریم ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ نرم خُو تھے اور سب سے زیادہ کریم عام آدمیوں کی طرح بلاتکلف گھر میں رہنے والے آپؐ نے کبھی تیوری نہیں چڑھائی ہمیشہ مسکراتے رہتے اور آپؐ نے اپنی ساری زندگی میں کسی بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔

(شمائل ترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہ ﷺ)

حدیث میں آتا ہے کہ

’’ایک حبشی عورت نے نذر مانی کہ اگر رسول اللہؐ غزوہ سے بخیریت واپس تشریف لائے تو میں آپؐ کے سامنے دف بجاؤں گی اور گاؤں گی۔ اس نے رسولؐ اللہ سے اجازت طلب کی۔ رسول اللہؐ کے دوش مبارک پر حضرت عائشہ اپنی ٹھوڑی رکھ کر دیکھنے لگیں۔ رسولؐ اللہ بار بار حضرت عائشہ سے پوچھتے اَمَّا شَبِعتِ یعنی کیا تم سیر نہیں ہوئیں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے کہا نہیں اور میں اسی طرح نفی میں جواب دیتی تا کہ دیکھ سکوں رسولؐ اللہ میری کتنی دلداری کرتےہیں۔‘‘

(ترمذی ابواب المناقب مناقب عمرؓ)

بیویوں میں عدل

آنحضرتؐ ہمیشہ اپنی بیویوں کے درمیان عدل و انصاف رکھتے اور کسی کی طرف زیادہ جھکاؤ نہ دکھاتے تاکہ دوسرے کی دل شکنی نہ ہو۔

’’ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے کھیر یا حلوہ بنایا جو حضرت سودہؓ کو پسند نہ آیا حضرت عائشہؓ نے کھانے کے لئے اصرار کیا لیکن وہ نہ مانیں۔ حضرت عائشہ کو کیا سوجھی وہ مالیدہ حضرت سودؓہ کے منہ پر لیپ کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ محظوظ ہوئے مگر یہ عادلانہ فیصلہ فرمایا کہ حضرت سودؓہ کو بدلہ لینے کا پورا حق ہے کہ وہ بھی ایسے ہی کرے پھر حضرت سودؓہ نے مالیدہ حضرت عائشہؓ کے منہ پر مل دیا اور رسولؐ اللہ دیکھ کرمسکراتے رہے۔‘‘

(مجمع الزوائد جلد4 ص316 بیروت)

نبی کریمؐ کو عدل و انصاف کا اتنا خیال تھا کہ جب جنگ میں جاتے تو بیویوں میں سے کسی کو ساتھ لے جانے کے لئے قرعہ اندازی فرمالیتے اور جس کا قرعہ نکلتا اس کو ہمراہ لے جاتے۔

(بخاری کتاب الجہاد)

بیویوں کی دلجوئی کا انداز

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ

وہ ایک سفر میں رسولؐ اللہ کے ساتھ تھیں۔ آپؐ نے حضرت عائشہ سے دوڑ کامقابلہ فرمایا۔ اس مقابلہ میں حضرت عائشہؓ آگے نکل گئیں لیکن ایک اور موقعہ پر جبکہ وہ کچھ فربہ ہوگئی تھیں۔ پھر دوڑ کا مقابلہ ہوا۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں اس میں رسولؐ اللہ آگے بڑھ گئے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا اے عائشہؓ! اس مقابلہ کا بدلہ اتر گیا۔

(ابوداؤد کتاب الجہاد فی السبق علی الرجل)

بیویوں میں سے جب کوئی بیمار پڑ جاتی تو آپؐ بذات خود اس کی تیمارداری فرماتے اور تیمارداری کا سلوک کس قدر نمایاں اور ناقابل فراموش ہوتا تھا اس کا اندازہ حضرت عائشہ کی اس روایت سے ہوتا ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ

’’واقعہ افک میں الزام لگنے کے زمانہ میں، اتفاق سے میں بیمار پڑ گئی۔ تو اس وقت تک مجھے اپنے خلاف لگنے والے الزامات کی کوئی خبر نہ تھی۔ البتہ ایک بات مجھے ضرور کھٹکتی تھی کہ ان دنوں میں میں آنحضرتؐ کی طرف سے محبت اور شفقت بھرا تیمارداری کا وہ کریمانہ سلوک محسوس نہیں کرتی تھی۔ جو اس سے پہلے کبھی بیماری میں آپؐ فرمایا کرتے تھے۔ واقعہ افک کے زمانہ میں تو بس اتنا تھا کہ آپؐ میرے پاس آتے سلام کرتے اور یہ کہہ کر کہ کیسی ہو؟ واپس تشریف لے جاتے۔ اس سے مجھے سخت تکلیف ہوتی تھی کہ پہلے تو بیماری میں بڑے ناز اٹھاتے تھے اب ان کو کیا ہو گیا ہے۔‘‘

(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ بنی المصطلق)

تحمل و ایثار

جہاں زیادہ بیویاں ہوں تو وہاں پر جذبہ غیرت کا پیدا ہونا طبعی عمل ہے مگر اکثر آپ خود تکلیف اٹھا کر اس کا حل تلاش کر لیتے تھے۔

’’ایک دفعہ آپؐ کی باری حضرت عائشہ کے ہاں تھی۔ کسی اور بیوی نے کھانا تحفۃً بھجوایا۔ حضرت عائشہ ؓنے رسول خدا کی محبت کی وجہ کہ آپ کی خدمت کا شرف کوئی کیوں پائے جبکہ باری میری ہے۔ حضرت عائشؓہ نے اس پیالے کو زمین پر دے مارا وہ پیالہ گرا اور ٹوٹ گیا۔ کھانا لانے والا خادم حیران تھا اور پاس کھڑا تھا اور آپؐ یہ تماشا کمال تحمل سے دیکھ رہے تھے۔ مگر حضرت عائشؓہ پر کوئی سختی نہ فرماتے تھے اور چپکے سے اپنی جگہ سے اٹھے اور اپنے ہاتھوں سے زمین پر گرا کھانا اُٹھانے لگے۔ حضرت عائشہؓ کو سخت ندامت ہوئی۔ چنانچہ جب رسولؐ اللہ نے ان سے فرمایا کہ اے عائشہ! اب جو پیالہ توڑا ہے اسے بدلہ میں اپنا کوئی پیالہ دے دو اور حضرت عائشہ نے فوراً اسے اپنا پیالہ دے دیا۔‘‘

(سنن نسائی کتاب عشرۃ النساء باب الغیرۃ)

حضرت میمونہؓ بیان فرماتی ہیں کہ ایک رات رسول کریمؐ کی میرے ہاں باری تھی۔ آپؐ باہر تشریف لے گئے میں نے دروازہ بند کردیا۔ آپؐ نے واپس آکر دروازہ کھٹکھٹایا میں نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا۔ آپؐ نے فرمایا تمہیں قسم ہے تم ضرور دروازہ کھولو گی میں نے کہا میری باری میں آپؐ کسی اور کے پاس کیوں گئے تو آپؐ نے فرمایا نہیں! مجھے شدید پیشاب کی حاجت تھی اس لئے باہر گیا تھا۔

(الطبقات الکبریٰ ابن سعد جلد1 ص365 مطبوعہ بیروت)

کمال عفو

ایک دن حضرت عائشہؓ گھر میں آنحضرت ﷺ سے کچھ تیز تیز بول رہی تھیں کہ اوپر سے ان کے ابا حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے۔ یہ حالت دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا اور اپنی بیٹی کو مارنے کے لئے آگے بڑھے کہ خدا کے رسول کے آگے اس طرح بولتی ہے۔ آپؐ یہ دیکھتے ہی باپ اور بیٹی کے درمیان حائل ہو گئے اور حضرت ابوبکر کی متوقع سزا سے حضرت عائشہؓ کو بچالیا۔ کچھ دنوں بعد ابوبکرؓ آئے۔ رسولؐ اللہ اور حضرت عائشہؓ ہنستے ہوئے باتیں کررہے تھے تو ابوبکرؓ نے عرض کیا لڑائی میں تو شریک کیا اب خوشی میں بھی شریک کرو۔

(ابوداؤد کتاب الادب باب ماجاء فی المزاح)

محبت و الفت کی ادائیں

اس سے قبل عورت کی ذلت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اس کو اپنے ایام مخصوصہ میں تمام گھر والوں سے جدا رہنا پڑتا تھا خاندان کے ساتھ میل جول بھی نہ رہتے تھے۔

قرآن نے صرف ان ایام میں ازدواجی تعلقات سے منع فرمایا عام معاشرت سے ہرگز منع نہیں کیا۔ چنانچہ خدا فرماتا ہے۔

حیض کے دنوں میں عورتوں سے الگ رہو اور ان سے ازدواجی تعلقات قائم نہ کرو جب وہ پاک ہو جائیں ان کے پاس اللہ کے حکم کے مطابق جاؤ۔

(البقرہ:223)

اس کی تفسیر حضرت نبی کریمؐ کے اسوہ سے یوں ملتی ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں۔

ایام مخصوصہ کے دوران بھی بسا اوقات ایسا ہوتا کہ میرے ساتھ کھانا تناول کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ گوشت کی ہڈی یا بوٹی میرے ہاتھ سے لے لیتے اور بڑی محبت سے اس جگہ منہ رکھ کر کھا لیتے جہاں سے میں نے اسے کھایا ہوتا تھا۔ میں کئی دفعہ پانی پی کر رسولؐ اللہ کو پکڑا دیتی تھی۔ رسولؐاللہ وہ جگہ ڈھونڈھ کر جہاں سے میں نے پانی پیا ہوتا وہیں منہ رکھ کر پانی پی لیتے۔

(ابو داؤد کتاب الطہارت باب فی مواکلۃ الحائض)

اہل خانہ کی دینی تربیت

رسول کریمؐ کے گھر میں عبادت کی طرف خاص توجہ تھی۔

چنانچہ آپؐ فرماتے تھے۔

بہت ہی خوش قسمت وہ میاں بیوی ہیں جو ایک دوسرے کو نماز اور عبادت کے لئے بیدار کرتے ہوں اور اگر ایک نہ جاگے تو دوسرا اس پر پانی کے چھینٹے پھینک کر اسے جگائے۔

(ابن ماجہ اقامۃ الصلوٰۃ باب ماجاء فی من ایقظ اہلہ من اللیل)

اہل خانہ کے ساتھ بھی آپ کا یہی سلوک تھا جیسا کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں۔

رسولؐ اللہ رات کو نماز تہجد کے لئے اٹھتے اور عبادت کرتے تھے جب طلوع فجر میں تھوڑا سا وقت باقی رہ جاتا تو مجھے بھی جگاتے اور فرماتے تم بھی دو رکعت ادا کرلو۔

(بخاری کتاب الصلوٰۃ باب الصلوٰۃ خلف القائم)

تمام شفقتوں کے باوجود جب بات عدل سے ہٹتی تو سرزنش بھی کرتے تھے۔

ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے حضرت صفیہؓ کے چھوٹے قد کی طرف اشارہ اپنی چھنگلی دکھا کر طعنہ دیا۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا یہ ایسا سخت کلمہ ہے اگر سمندر میں ملایا جائے تو پانی کڑوا ہو جائے۔

(ابوداؤد کتاب الادب)

آخری بیماری میں جب رسولؐ اللہ نے حضرت ابوبکرؓ کو امامت نماز کا اشارہ فرمایا تو عائشہؓ نے اس سے یہ سمجھا کہ رسولؐ اللہ کی وفات کے بعد ابوبکر مصلے پر نہ آئیں اس بدشگونی کی وجہ سے یہ مشورہ رسول خدا کو دیا کہ عمر کو نماز پڑھانے کے بارے میں کہیں حضرت عائشہ و حفصہ نے اصرار کیا تو رسولؐ اللہ نے سختی سے یہ فیصلہ نافذ کروایا اور فرمایا:

تم یوسف کو راہ راست سے بہکانے والی عورتوں کی طرح مجھے کیوں راہ حق سے ہٹانا چاہتی ہو۔

(بخاری کتاب الاذان باب اہل العلم و الفضل احق بالامۃ)

یہ آنحضرتؐ کا اپنے اہل خانہ سے حسن سلوک ہی تھا جس کی آپ کی ازواج نے گواہی دی۔

حضرت خدیجہؓ نے رسول اللہ کے ساتھ 15 برس گزارے اور پہلی وحی کے موقع پر رسولؐ اللہ کے حسن معاشرت کی گواہی دی کہ

خداتعالیٰ کبھی آپ کو ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں رشتہ داروں سے حسن سلوک فرماتے ہیں۔ بوجھ اٹھاتے ہیں اور جو نیکیاں معدوم ہوچکی ہیں انہیں زندہ کرتے ہیں اور مہمانوں کی خدمت اور ضروریات حقہ میں مدد کرتے ہیں۔

(بخاری بدء الوحی)

حضرت عائشہؓ نے فرمایا:

نبی کریمؐ سے زیادہ نرم خُو کوئی نہیں تھا اور آپ سب سے زیادہ کریم۔ عام آدمیوں کی طرح بلاتکلف گھر میں رہتے آپ نے کبھی تیوری نہیں چڑھائی۔ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ نیز آپؓ نے فرمایا کہ آپؐ نے کبھی کسی بیوی کو پوری زندگی میں نہ مارا اور نہ کبھی کسی خادم پر ہاتھ اٹھایا۔

(شمائل ترمذی باب ماجاء فی خلق رسولؐ اللّٰہ)

حضرت صفیہؓ کا بیان ہے کہ

جنگ خیبر میں رسولؐ اللہ کے ہاتھوں میرے باپ اور شوہر مارے گئے تھے اس لئے میرے دل میں انتہائی نفرت تھی لیکن آپ کے حسن سلوک کی وجہ سے سب کدورت دور ہوگئی۔

(مجمع الزوائد جلد9 ص15)

ہمارے آقا و مولیٰ کے حسن و احسان کے ان جلووں نے بلاشبہ آپؐ کی زندگی کو جنت نظیر بنا دیا تبھی تو آپ کی بیویاں دوسرے جہاں میں بھی آپ سے ملنے کے لئے اتنی بےقرارتھیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اپنی اہلی زندگی کو اسوۂ رسول کے رنگ میں رنگین بنا کر جنت نظیر معاشرہ استوار کریں جس کے قیام کے لئے آنحضرتؐ دنیا میں تشریف لائے۔

(ندیم احمد فرخ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مارچ 2020