• 15 مئی, 2024

بد رسوم۔ گلے کا طوق

شادی بیاہ کی تقاریب میں بے پردگی کا رجحان

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒفرماتے ہیں کہ

جو قباحتیں راہ پکڑ رہی ہیں ان میں سے ایک بے پردگی کا عام رجحان بھی ہے جو یقیناً احکام شریعت کی حدود پھلانگنے کے قریب ہوچکا ہے اور شادی والوں کی اس معاملہ میں بے حسی کو بھی ظاہرکرتا ہے۔ کیونکہ معزز مہمانوں میں بہت سی حیادار پردہ دار بیبیاں ہوتی ہیں۔ بے دھڑک اَنٹسَنٹ فوٹو گرافروں یا غیر ذمہ دار اور غیرمحرم مردوں کو بلا کر تصویریں کھنچوانا اور یہ پرواہ نہ کرنا کہ یہ معاملہ صرف خاندان کے قریبی حلقے تک ہی محدود ہے۔ اس بارہ میں واضح طور پر بار بار نصیحت ہونی چاہئے کہ آپ نے اگر اندرون خانہ کوئی ویڈیو وغیرہ بنانی ہے تو پہلے مہمانوں کو متنبہ کر دیا جائے اور صرف محدود خاندانی دائرے میں ہی شوق پورے کئے جائیں۔

(الفضل 26 جون 2002ء)

دودھ پلائی

ہمارے معاشرے میں ایک رسم دودھ پلائی کی بھی جاری ہے۔اس موقع پر دلہا کو دلہن کی بہنیں یا قریبی رشتہ دار لڑکیاں دودھ پیش کرتی ہیں یا بعض اوقات دیگر مشروب بھی پیش کئے جاتے ہیں اور پھر دودھ پلائی کے طور پر بھاری رقوم کامطالبہ کیاجاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس موقع پر دلہا کے ساتھ اس کے دیگر عزیز یادوست لڑکے بھی دلہن کی طرف ساتھ جاتے ہیں۔ اس طرح سے خواتین کی طرف غیر مردوں کے ساتھ جانے سے بےپردگی ہوتی ہے ۔ ایسے کاموں سے پرہیز لازم ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس رسم سے متعلق فرمایا ہے۔

بعض دوسری بدرسوم جیسے دودھ پلانا اور جوتی چھپانا وغیرہ جوہیں یہ سب ختم کروائیں اور ہرفرد جماعت کو اس بارہ میں متنبہ کردیں کہ آئندہ اگر مجھے کسی کی بھی ان رسموں کے بارے میں کوئی شکایت آئی تو اس کے خلاف تعزیری کارروائی ہوگی۔

(مکتوب بنام صدر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان 22جنوری 2010ء)

شادی اور موت کے عالم میں فرق

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بیان فرماتے ہیں:۔

ہمارا کردار عظیم ہے۔ سادگی اور متوازن خرچ کے دائرے میں رہتے ہوئے خوشیاں منانی چاہئیں یہ تو نہیں کہ موت کا بھی وہی عالم ہو اور خوشی کا بھی وہی عالم ہو۔شادی ہورہی ہو۔موت ہورہی ہو ۔ کسی کو پتہ ہی نہیں کہ کس وجہ سے سائبان لگے ہوئے ہیں۔خوشی بولتی ہے۔ خوشی میں ایک ترنم پیدا ہوتاہے۔ اس کی آواز لوگ سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں۔ اس میں رنگ ہوتا ہے، خوشبو ہوتی ہے، یہی چیزیں غم میں اور کیفیت اختیار کرتی ہیں تو نوحے بن جایا کرتے ہیں۔ تو یہ فرق تو رکھنا ہوگا سوسائٹی میں۔

(روزنامہ الفضل 19 جولائی 2002ء)

حضرت مصلح موعود ؓنے فرمایا کہ

شادی کے موقع پر کوئی گیت گالیں تو گناہ نہیں بشرطیکہ اس میں فحش اور لغو بکواسیں نہ ہوں اوربے حیائی سے نہ گایا جائے ۔

(الفضل 20 جولائی 1915ء)

مزید فرمایا کہ
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بیاہ شادی کے موقع پر شریعت کی رُو سے گانا جائز ہے ۔مگر وہ گانا ایسا ہی ہوناچاہئے جو یا تو مذہبی ہو اور یا پھر بالکل بے ضرر ہو مثلاً شادی کے موقع پر عام گانے جو مذاق کے رنگ میں گائے جاتے ہیں اور بالکل بے ضرر ہوتے ہیں ان میں کوئی حرج نہیں ہوتا کیونکہ وہ محض دل کو خوش کرنے کے لئے گائے جاتے ہیں ان کا اخلاق پر کوئی برا اثر نہیں ہوتا۔

(الفضل 20 جنوری 1945ء )

مجلس مشاورت 2009ء کی متفرق سفارشات

  • شادی بیاہ کے موقع پر وقت کی پابندی نہ کرنا عام ہوگیاہے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا ۔ ہمیں اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔ ہم اُس کے ماننے والے ہیں جس کو کہاگیاتھاکہ تیرا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا۔
  • دلہن کابیوٹی پارلر پرتیارہونا اور اس پر بہت بڑی رقم خرچ کرنا درست نہیں۔اس رواج کو بھی کم کیاجائے۔ نیز بیوٹی پارلر پرجانے کی وجہ سے دلہن کاوقت پرنہ پہنچنا بھی درست نہیں ۔دلہن کو ہرصورت وقت پر تیار ہونا چاہئے۔
  • شادی کارڈزپراسراف نہ کیاجائے۔ افشاں والے اورمہنگے کارڈ سے اجتناب کیاجائے۔
  • دلہن کے کپڑوں پر بہت زیادہ خرچ کرنا بھی مناسب نہیں۔کیونکہ ایسے جوڑے عموماً دوبارہ پہنے بھی نہیں جاتے۔ ایسے کپڑے اگر لجنہ اکٹھے کرے اور انہیں ایسی بچیوں کوتقسیم کردیاجائے جواستطاعت نہیں رکھتیں تو مناسب ہے۔
  • مہندی پر لڑکے اور لڑکی کی طرف سے تمام مردوں کا پیلے کپڑے بنوانا بھی رسم ہے۔اس سے بھی اجتناب کرنا چاہئے۔

٭ بڑے شہروں میں رات کو بارات کارواج ہے۔ رات گئے تک تقریبات چلتی ہیں۔اتنی تاخیر ہوجاتی ہے کہ پھر فجر کی نمازضائع ہونے کاخدشہ ہوتاہے۔ بہت زیادہ تاخیر مناسب نہیں۔

  • بِد، مایوں بٹھانا، لڑکے کو گانہ باندھنا، بارات پر پیسے پھینکنا، سربالا بنانا، جہیز یا بَری کی نمائش، ہیجڑوں کا نچانا، نوٹوں کے ہار ڈالناوغیرہ سب رسومات ہیں۔
  • ہوائی فائرنگ بھی اسراف اور دکھاوے کے ساتھ ساتھ انتہائی خطرناک بھی ہے۔ اس پر خاص توجہ اور نصیحت کی ضرورت ہے۔
  • لائٹنگ پر بے جاخرچ کرنادرست نہیں۔ آج کل تو توانائی کے بحران کی وجہ سے حکومتی سطح پر بھی لائٹنگ نہ کرنے کی تحریک ہورہی ہے۔
  • شادی کے موقع پر زیورات وغیرہ پر طاقت سے زیادہ روپیہ خرچ کرنا

ہر اُس چیز سے بچنا ہو گا جو دین میں بُرائی اور بدعت پیدا کرنے والی ہے بعض لوگ بعض شادی والے گھر جہاں شادیاں ہورہی ہوں دوسروں کی باتوں میں آکر یا ضد کی وجہ سے یادکھاوے کی وجہ سے کہ فلاں نے بھی اس طرح گانے گائے تھے،فلاں نے بھی یہی کیاتھا، توہم بھی کریں گے اپنی نیکیوں کو برباد کر رہے ہوتے ہیں ۔اس سے بھی ہر احمدی کو بچنا چاہئے۔فلاں نے اگر کیا تھا تو اس نے اپنا حساب دینا ہے اور تم نے اپنا حساب دینا ہے۔اگر دوسرے نے یہ حرکت کی تھی اورپتہ نہیں لگااورنظام کی پکڑ سے بھی بچ گیا تو ضروری نہیں کہ تم بھی بچ جاؤ۔تو سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ سب کام کرنے ہیں یا نیکیاں کرنی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی خاطر کرنی ہیں۔وہ تو دیکھ رہاہے۔اس لئے حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت میں شامل ہونے کے لئے ہر اس چیز سے بچنا ہوگا جو دین میں برائی اور بدعت پیدا کرنے والی ہے۔

(ماہنامہ مصباح جولائی ،اگست 2009 ء صفحہ66)

سہرا بندی

حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:

سہرے کا طریق بدعت ہے۔ انسان کو گھوڑا بنانے والی بات ہے۔

(ارشادحضرت مصلح موعودؓ از الفضل 4جنوری 1946ء)

تنبول (سلامی نیوندرا)

میں نے عرض کیا کہ تنبول کی نسبت حضور کا کیا ارشاد ہے؟

حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: اپنے بھائی کی ایک طرح کی امداد ہے۔

عرض کیا گیا جو تنبول ڈالتے ہیں وہ تو اس نیت سے ڈالتے ہیں کہ ہمیں پانچ کے چھ روپے ملیں۔ اور پھر اس روپیہ کو کنجروں پرخرچ کرتے ہیں۔

فرمایا۔ ہمارا جواب تو اصل رسم کی نسبت ہے کہ نفسِ رسم پر کوئی اعتراض نہیں ۔باقی رہی نیت ۔ سو آپ ہر ایک کی نیت سے کیوںکر آگاہ ہوسکتے ہیں۔ یہ تو کمینہ لوگوں کی باتیں ہیں کہ زیادہ لینے کے ارادے سے دیں۔یا چھوٹی چھوٹی باتوں کاحساب کریں۔ ایسے شریف آدمی بھی ہیں جو محض بہ تعمیل حکم تعاون وتعلقات محبت تنبول ڈالتے ہیںاور بعض تو واپس لینابھی نہیں چاہتے ۔بلکہ کسی غریب کی امدا د کرتے ہیں ۔ غرض سب کا جواب ہے اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔

(البدر 17 جنوری 1907 ء صفحہ4)

بد رسوم اختیار کرنے کابُرا نتیجہ

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں۔

اب جولوگ خدااور رسول کے احکام کی اطاعت سے نکل کر طرح طرح کی رسوم میں پھنس گئے ہیں وہ کس قدر بُرا نتیجہ دیکھ رہے ہیں۔ بیاہ شادیوں میں اس قدر فضول خرچی کرتے ہیں کہ نہ صرف خود بلکہ جن کی شادی کی جاتی ہے وہ تمام عمر کے لئے قرض کے نیچے دب جاتے ہیں اور اکثر لڑکے لڑکی میں نااتفاقی ہوتی ہے۔ ہماری جماعت کو چاہئے کہ اس معاملہ میں خاص طور پرا حکام شرعی کی پابندی کرے کہ ان کی شادیاں اعلیٰ اور اچھے نتائج پیدا کرنے کا موجب ہوں اور وہ قباحتیں جن سے دوسرے لوگوں کو تکالیف اُٹھانی پڑتی ہیں ان سے بچیں۔

(خطبہ نکاح 11نومبر 1920ء)

ایسی رسمیں جولغو میں داخل ہوتی ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے سورۃ الاعراف کی آیت 158 کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ

کوشش یہ کریں کہ اسراف سے کام نہ لیا کریں۔ جائز چیزوں میں بھی حد کے اندررہیں تو بہت سی رسمیں ہیں۔ بہت سے ایسے افعال ہیں جو اسراف کے نتیجہ میں منع کرنے پڑتے ہیں۔ کچھ ایسے افعال ہیں جن کے متعلق فرمایا کہ وہ اَغْلال ہیں۔ گردنوں کے طوق ہیں۔ وہ ایسی رسمیں ہیں جو خصوصیت کے ساتھ لغو میں داخل ہوتی ہیں۔ کسی حالت میںبھی پسندیدہ نہیں ہیں۔ عام زندگی کی حالت میں بھی ان سے بچنا چاہئے۔

مثلاً شادی کے وقت ڈھول ڈھمکے، کنچنیوں کو نچانا، ڈھوم مراثیوں کو بلوانا، آتش بازیاں چھوڑنا،ایسی نمائش کرنا کہ جس کے نتیجہ میں قوم پر بہت بوجھ پڑتے ہیں۔ ان چیزوں کی نہ کوئی سند ہے نہ حضور اکرم ﷺ کے زمانہ میں مروّج تھیں اور نہ ہی حضرت مسیح موعودؑنے ان کی اجازت فرمائی بلکہ کھلم کھلا منع فرمایا۔ لہٰذا ان چیزوں سے بھی پرہیز لازمی ہے ورنہ یہ گردنوں کا طوق بن جائیں گی۔ مراد یہ ہے کہ یہ رسمیں رفتہ رفتہ قوم پر قابض ہوجاتی ہیں اور ان کی آزادیاں مسخ کردیتی ہیں۔ وہ رسموں کی غلام ہوجاتی ہیں اور ان سے باہر نہیں آسکتیں۔

(خطبہ جمعہ 16دسمبر1983ء)

شادی بیاہ کاعمل دین کا ایک حصہ ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔

آنحضرت ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہر ایک، ہر قبیلہ ضرور دَف بجایا کرے اور یہ ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اپنے رواج کے مطابق ایسے رواج جو دین میں خرابیاں پیدا کرنے والے نہ ہوں ان کے مطابق خوشی کا اظہار کر لیا کرو یہ ہلکی پھلکی تفریح بھی ہے اور اس کے کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ۔ لیکن ایسی حرکتیں جن سے شرک پھیلنے کا خطرہ ہو، دین میں بگاڑ پیدا ہونے کا خطرہ ہو اس کی بہرحال اجازت نہیں دی جاسکتی۔ شادی بیاہ کی رسم جو ہے یہ بھی ایک دین ہی ہے جبھی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب تم شادی کرنے کی سوچو تو ہر چیز پر فوقیت اس لڑکی کو دو ، اس رشتے کو دو جس میں دین زیادہ ہو۔ اس لئے یہ کہنا کہ شادی بیاہ صرف خوشی کا اظہار ہے ، خوشی ہے اور اپنا ذاتی ہمارا فعل ہے یہ غلط ہے۔ اگر شادی بیاہ صرف شوروغل اور رونق اور گانا بجانا ہوتا تو آنحضرت ﷺ نے نکاح کے خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ شروع ہوکر اور پھر تقویٰ اختیار کرنے کی طرف اتنی توجہ دلائی ہے کہ توجہ نہ دلاتے بلکہ شادی کی ہر نصیحت اور ہر ہدایت کی بنیاد ہی تقویٰ پر ہے۔ پس اسلام نے اعتدال کے اندر رہتے ہوئے جن جائز باتوں کی اجازت دی ہے ان کے اندر ہی رہنا چاہئے اور اس اجازت سے ناجائز فائدہ نہیں اُٹھانا چاہئے۔ حدسے تجاوز نہیں کرناچاہئے کہ دین میں بگاڑ پیدا ہوجائے۔

(الفضل 26فروری 2006ء)

(وحید احمد رفیق)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مارچ 2020