• 15 مئی, 2024

قرآن مجید انصاف پسند مستشرقین کی نظر میں

قرآن کا لفظ قرات سے نکلا ہے۔ جس کے معنی ہیں پڑھنا تلاوت کرنا ۔قرآن مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں بکثرت پڑھی جانے والی کتاب ۔اس کتاب الہٰی کا یہ نام قرآن کسی انسان کا رکھا ہوا نہیں بلکہ یہ نام خود اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے۔

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَنزِيلًا

(الدہر:24)

بے شک ہم نے تجھ پر قرآن کریم آہستہ آہستہ نازل کیا ہے۔

اس صحیفہ الہٰی کا قرآن کریم نام رکھنے میں دراصل ایک زبردست پیشگوئی تھی۔ جو نہایت تسلسل اور تواتر سے پوری ہو رہی ہے اور قرآن مجید کی صداقت پر ایک زبردست شہادت ہے اور قیامت تک یہ شہادت رہے گی۔جس کا اعتراف اسلام کے مخالفین کو بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں صرف قرآن مجید ہی ایک ایسی کتاب ہے جو سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے۔

(انسائیکلوپیڈیا برٹینکا نولڈکے کا مقالہ قرآن)

قرآن مجید اپنا تعارف الکتاب سے کراتا ہے کہ وہ ضبط تحریر میں آیا ہوا کتابی صحیفہ آسمانی ہے۔حالانکہ اس کے نزول کے وقت کتب کی اشاعت کا رواج نہیں تھا ۔متفرق طور پر تحریریں چمڑے کی کھالوں، ہڈیوں وغیرہ پر لکھی جاتی تھیں۔ اس کتاب قرآن کریم کو کئی اور ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے لیکن سب سے زیادہ مشہور نام قرآن ہی ہے علامہ سیوطی اور بعض دوسرے محققین نے 55 نام ایسے شمار کئے ہیں جو قرآن مجید کی آیات مبارکہ میں استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً 1۔ المجید 2۔ الحکیم 3۔ مبارک 4۔ بشریٰ 5۔ العظیم الکتاب 6۔ فرقان 7۔ ذکریٰ 8۔ ذکر 9۔ تذکرہ 10۔ رحمت۔

حفاظت قرآن

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ اپنے پر لیا ہے۔

إِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُون

(الحجرات: 10)

ترجمہ: ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

سر ولیم میور اپنی کتاب لائف آف محمدؐ کے صفحہ 38 پر تحریر کرتے ہیں گویا یہ ممکن ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن خود ہی بنایا تھا مگر جو قرآن ہمارے پاس آج موجود ہے یہ وہی ہے جو محمد نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ ہم نہایت مضبوط قیاسات کی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ ہر ایک آیت جو قرآن میں ہے وہ اصلی ہے۔

قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت

قرآن مجید اپنی فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے ایک معجزہ ہے اس کا اعتراف غیرمسلموں کو بھی ہے چنانچہ پاپولر انسائیکلوپیڈیا میں لکھا ہے قرآن کی زبان بلحاظ لفظ عرب نہایت فصیح ہے اس کی انتہائی خوبیوں نے اسے اب تک بے مثل اور بے نظیر ثابت کیا ہے۔

یہ کتاب عالم انسانی کی بہترین رہبرہے

روس کا مشہور و معروف فلاسفر کاؤنٹ لیوٹالسٹائی اپنی بلند پایہ تصنیف (The Light of Religion) میں قرآن مجید کے بارے میں لکھتا ہے ۔قرآن مسلمانوں کی ایک مذہبی کتاب ہے جس کی نسبت ان کا خیال ہے کہ اس کو خدا نے نازل کیا ہے یہ کتاب علم انسانی کی رہنمائی کے لئے ایک بہترین رہبر ہے۔ اس میں تہذیب ہے، شائستگی ہے،تمدن ہے،معاشرت ہےاور اخلاق کی اصلاح کے لئے ہدایت ہے اگر صرف یہ کتاب دنیا کے سامنے ہوتی اور کوئی ریفارمر (مصلح) پیدا نہ ہوتا تو یہ عالم انسانی کی رہنمائی کے لئے کافی تھی۔

ان فائدوں کے ساتھ ہی ہم جب اس بات پر غور کرتے ہیں کہ یہ کتاب ایسے وقت میں دنیا کے سامنے پیش کی گئی تھی جب کہ ہر طرف آتش فساد کےشرارے بلند تھے۔ خونخواری اور ڈاکہ زنی کی تحریک شباب پر تھی۔ فحش باتوں سے بالکل پرہیز نہ کیا جاتا تھا اور اس کتاب نے ان گمراہیوں کا خاتمہ کیا تو ہماری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔

(The Light of Religion, page148)

قرآن کریم کی تعلیمات سے کسی شخص کو تجاوز کرنے کی طاقت نہیں

جرمن قوم کے قومی شاعر گوئٹے (Goethe) جس کو علمی اور ادبی دنیا میں بہت بڑی اہمیت حاصل ہے نے مسٹر ایکرمن (Ekerman) کو انٹرویو دیتے ہوئے قرآن کریم کی تعلیمی قوت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔

تم دیکھتے ہو کہ اس قرآن کی تعلیم کو کبھی ناکامی کا منہ دیکھنا نہیں پڑا اپنے تمام نظام ہائے تعلیم سمیت اگر ہم کوشش کریں تو اس تعلیم سے آگے نہیں بڑھ سکتے اور عمومی نظر سے دیکھا جائے تو اس تعلیم سے تجاوز کرنے کی کسی شخص کو طاقت نہیں۔

(بحوالہ پیام امن مولفہ عبداللہ منہاس)

حضرت محمد ﷺ کی شریعت تمام انسانی مسائل کا احاطہ کرتی ہے

یورپ کے نامور اور معروف مؤرخ مسٹر گبن اپنی مشہور تصنیف سلطنت رومہ کا انحطاط و زوال کی جلد نمبر5 کے 50ویں باب میں لکھتا ہے ۔قرآن کی نسبت عزت بحر اٹلانٹک سے لے کر دریائے گنگا تک نے مان لیا ہے کہ یہ دستور اساسی ہے صرف اصول مذہب ہی کےلئے نہیں بلکہ دیوانی اور فوجداری نظام کے لئے بھی اور جن قوانین پر نظامی عمرانی کا مدار ہے۔ جن سے نو ع انسانی کی زندگی وابستہ ہے۔ جن کا حیات اجتماعی کی ترتیب وتضیق سے تعلق ہے۔ ان کو خدا کی مرضی کے ماتحت نقائص و عیوب سے بالکل منزہ کہا جاتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سب پر حاوی ہے اور وہ اپنے تمام احکام میں بڑے بڑے شہنشاؤں سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے گدا تک کے لئے مسائل و معانی رکھتی ہے ۔یہ وہ شریعت ہے جو ایسے دانشمندانہ اصول اور اس قسم کے عظیم الشان قانونی انداز پر مرتب ہوئی ہے کہ سارے جہان میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔

قرآن ہی ایسا صحیفہ ہے جو ردوبدل سے محفوظ ہے

جرمنی کی فصیح البیان مقررہ جس نے تمام مذاہب کا بغور مطالعہ کیا ہے براؤنز مارگریٹ وانسٹن 18 مئی 1934ء کو مذاہب کے مشترکہ اصول کے موضوع پر مسجد برلن میں تقریر کرتے ہوئے کہا اپنی اس رائے کا اظہار کیا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ادلہ بدلہ کی تعلیم دی اور حضرت مسیح علیہ السلام نے درگزر کرو اور معافی کی۔ لیکن حضرت محمد ﷺ نے اپنی تعلیم میں دونوں کو ملا دیا۔ اس طرح اگرچہ تمام مذہبی صحائف خدا کی طرف سے نازل ہوئے تاہم صرف قرآن ہی ایک ایسا آسمانی صحیفہ ہے جس میں ذرا بھی ردوبدل نہیں ہوا اور وہ اپنی اصل شکل میں محفوظ ہے۔

(الفضل 16 جنوری 1950ء صفحہ 5)

قرآن میں کوئی غیر یقینی حصہ موجود نہیں

پروفیسر فلپ حتّی اپنی کتاب (The Arabs a Short History) کا ترجمہ تاریخ عرب کے نام سے طبع ہوا ہے۔

اس کتاب میں پروفیسر موصوف قرآن مجید کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں۔اگرچہ دنیا بھر میں عیسائیوں کی تعداد مسلمانوں سے دُ گنی ہے لیکن اس کے باوجود کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں کوئی ایسی کتاب نہیں جس کا قر آن سے زیادہ مطالعہ کیا جاتا ہو ۔عبادت میں استعمال کے علاوہ یہ ایک درسی کتاب کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ کیونکہ عملی طور پر مسلمان بچہ عربی پڑھنے کے لئے قرآن کا مطالعہ کرتا ہے۔ بغیر کسی سرکاری اجازت کے اس کتاب کو تقریبًا 40 زبانوں میں منتقل کیا جا چکا ہے۔

اگر انجیل کے متن سے مقابلہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن کے متن میں کوئی غیر یقینی حصہ موجود نہیں قرآن کا پہلا، آخری اور واحد مسلمہ نسخہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے 19 سال بعد اس وقت تیار ہوا جب دیکھا گیا کہ پے درپے جنگوں میں شہادت کا جام نوش کرنے کی وجہ سے قرآن کریم کےحفاظ روزبروز ناپید ہورہے ہیں۔ کھجور، پتوں اور سفید پتھر کی تختیوں پر لکھی ہوئی اور انسانوں کے سینوں میں محفوظ آیات سے ایک ابتدائی لیکن غیر سرکاری متن تیار ہو چکا تھا اس کے بعد باقی ساری نقول تباہ کردی گئیں۔

یہ کتاب صرف ایک مذہبی کتاب اور آسمانی بادشاہت کی رہنما ہی نہیں بلکہ سائنس کی معلومات کا ذخیرہ بھی ہے۔ ایک سیاسی دستاویز کی حیثیت بھی رکھتی ہے جس میں زمین پر اللہ کی حکومت کے قوانین کا ضابطہ شامل ہے۔

(تاریخ عرب صفحہ 44-45 ترجمہ از پروفیسر مبارز الدین)

لفظ قرآن کا مطلب ہے قراءت اور وعظ یہ کتاب ایک زندہ اور متحرک آواز ہے اس کی زبانی تلاوت کی جاتی ہے اور تاثیر کا اندازہ اصل متن سننے سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس کی قوت زیادہ تر موزونیت، ترنم، بلاغت، زیروبم اور ٹھاٹھ میں بلاشبہ یہ کتاب اسلام کی بنیاد ہے اور روحانی و اخلاقی امور میں اس کا حکم آخری وقطعی ہے۔ اس کی برکات کا صرف ایک شمہ ہے۔ دینیات، اصول فقہ اور سائنس کو مسلمان ایک ہی چیز کے مختلف پہلو جانتے ہیں اس لئے قرآن سائنس کی کتاب بھی ہے اور اچھی تعلیم کا نصاب درسی بھی ہے۔ دنیا کی عظیم ترین اسلامی یونیورسٹی الازہر میں یہ کتاب سارے نصاب کی بنیاد ہے۔ اس کے ادبی اثر کا اندازہ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ صرف قرآن کی بدولت عربی بولنے والوں کی مختلف بولیوں نے الگ الگ زبانوں کی حیثیت اختیار نہیں کی۔ قرآن کی پیش کردہ کلاسیکی زبان کا نمونہ سمجھا جاتا ہے اس لئے قرآن سب سے پہلا اور معیاری نشر کا نمونہ ہے اس کی زبان میں ترنم اور بلاغت موجود ہے لیکن شاعری نہیں ہے۔ اس کی مقفیٰ نثر نے ایک ایسا معیار قائم کردیا ہے جس کی تقریباً ہر قدامت پسند عرب ادیب شعوری طور پر تقلید کی کوشش کرتا ہے۔

(تاریخ عرب صفحہ48-47)

قرآن کے کسی بیان پر سائنس حرف گیری نہیں کرسکتی

موریس بو کائلے پیشہ کے لحاظ سے گائنی سرجن ہے۔ موصوف نے بائبل قرآن اور سائنس کے موازنہ کے لئے عربی زبان سیکھی اور اس میں بھی مہارت حاصل کی پھر جامعہ الازہر اور پھر مصر اور سعودی عرب کے علماء سے بھی تبادلہ خیال کیا چنانچہ وہ اپنی کتاب بائبل قرآن اور سائنس میں تحریر کرتے ہیں۔

ہمارا موجودہ جائزہ ان باتوں سے متعلق ہے جوصحف سماوی مختلف انواع مظاہر کے بارے میں بتاتے ہیں اور جن کی کسی نہ کسی حد تک وضاحت کی جاسکتی ہے یہ بات ذہن میں رکھ کر ہمیں اس اختلاف کو دیکھنا چاہئے جو ایک ہی موضوع سے متعلق قرآن میں کثیر تعداد میں اور باقی دو صحیفوں میں محدود تعداد میں معلومات کے بارے میں ہے۔جب میں نے پہلے پہل قرآنی وحی و تنزیل کاجائزہ لیا تو میرا نقطہ نظر کلیتًہ معروضی تھا پہلے سے کوئی سوچا سمجھا منصوبہ نہ تھا میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ قرآنی متن اور جدید سائنس کی معلومات کی مابین کس درجہ مطابقت ہے تراجم سےمجھے پتہ چلا کہ قرآن ہر طرح کے قدرتی حوادث کا اکثر اشارہ کرتا ہے لیکن اس مطالعہ سے مجھے مختصر سی معلومات حاصل ہوئیں۔

جب میں نے گہری نظر سے عربی زبان میں اس کے متن کا مطالعہ کیا اور ایک فہرست تیار کی ہے تو مجھے اس کام کو مکمل کرنے کے بعد اسی شہادت کا اعتراف کرنا جو میرے سامنے تھی۔ قرآن میں ایک بھی ایسا بیان نہیں ملاجس پر جدید سائنس کے نقطہ نظر سے حرف گیری کی جاسکے۔

(صفحہ 23)

قرآن مجید میں سائنسی موضوعات کاکثرت بیان

جو بات اس نوعیت کے متن میں پہلے پہل سامنے آئی اور قاری کو چونکا دیتی ہے وہ ان موضوعات زیر بحث کی کثرت ہیں۔یہ موضوعات ہیں تخلیق فلکیات ، زمین سے متعلق بعض مادوں کی تشریح، عالم حیوانات و نباتات، انسان کی تولید جبکہ بائبل میں فاش غلطیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ قرآن میں، میں ایک غلطی کا بھی پتہ نہیں چلا سکا ہوں ۔میں نے اس موضوع پر توقف کر کے خود سے استفسار کیا اگر کوئی بشر قرآن کا مصنف ہوتا تو وہ وہ ساتویں صدی عیسوی میں ایسے حقائق کس طرح بیان کر دیتا جو آج جدید سائنسی معلومات سے پوری طرح مطابقت کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں؟

اس بارے میں کوئی قطعاً کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ قرآن کا جو متن آج ہمارے پاس ہے وہ اگر مجھے ان الفاظ میں گفتگو کرنے کی اجازت دی جائے تو قطعی طور پر اس زمانہ کا متن ہے ۔۔۔اس مشاہدے کے لئے انسان کے پاس کیا تاویل و توجیہہ ہوسکتی ہے؟ میری رائے میں اس کے سامنے کوئی تاویل ممکن نہیں۔کوئی خاص دلیل اس سلسلہ میں نہیں ہوسکتی کہ جس زمانہ میں شادا گوت (639-629) فرانس میں حکومت کر رہا تھا ۔اس وقت جزیرہ العرب کا ایک باشندہ بعض موضوعات پر ایسی سائنسی معلومات رکھتا ہو جو ہمارے زمانے سے بھی، دس صدی بعد کے دور سے تعلق رکھتی ہو۔

(بائبل قرآن اور سائنس صفحہ195-194)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نوع انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے۔ جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے تو وہ آسمان پرعزت پائیں گے۔ جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا ۔نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی ﷺ۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں ہے جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اورتمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئےزندہ ہے۔

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ14-13)

(مرزا خلیل احمد قمر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مارچ 2020