• 23 جون, 2025

پیاری پھوپھو امة اللطیف خورشید کی کچھ حسین یادیں

اک یاد ہے جو دل میں رہے گی تمام عمر
پیاری پھوپھو امة اللطیف خورشید کی کچھ حسین یادیں

1984ءمیں حیدرآباد میں جب میری والدہ کا انتقال ہوا تو ربوہ سے ہماری فیملی کی کچھ خواتین رشتہ دار، کچھ کچھ عرصہ کے لئے ہمارے پاس آ کر رہتی رہیں تاکہ وقتی طور پہ گھر سنبھالا جا سکے۔

پھو پھولطیف سے میرا پہلا تفصیلی تعارف اسی دوران ہوا جب وہ تقریباً ایک ماہ کے لئے پھو پھاخورشید (شیخ خورشید احمد صاحب مرحوم – سابق ایڈیٹر الفضل) کے ساتھ ہمارے ہاں آ ئیں۔ اُس سے پہلے، بہت ہی چھوٹی عمر میں ربوہ میں دارالرحمت وسطی میں واقع پھو پھوکے گھر میں کئے جانے والے ناشتے آج بھی یاد ہیں۔ نہایت سلیقہ مندی اور صفائی کے ساتھ آراستہ اس گھر میں سادگی کے علاوہ آج اگر کچھ یاد آ رہا ہے تو وہ پھو پھو کا پیار اور اپنے بھتیجے کو کچن میں صبح سویرے اپنے قریب بٹھا کر گرما گرم پراٹھے اور ملائی کھلانا ہے۔

حیدرآباد قیام کے دوران پھو پھو کی یادوں میں سے ایک نہایت قیمتی یاد بلکہ احسان، اُن کا مجھے یہ احساس دلانا تھا کہ اب مجھ پہ پانچ نمازیں فرض ہیں اور یہ کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے نماز ضرور پڑھنی ہے۔ ان کا انداز تربیت دیکھئے کہ باوجود اس کے کہ اذان کی آواز گھر میں آتی تھی، میری یہ ذمہ داری ہے کہ میں اُنھیں بھی بتایا کروں گا کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے۔

بعد میں وہ کینیڈا چلی گئیں اور کبھی کبھار پاکستان آتیں تو مختصر سی ملاقات ہو جاتی۔ ہر بچہ کو اُس کی عمر کے مطابق تحائف دینا اور باتیں کرنا اُن کا خاصہ تھا، جس کی وجہ سے اُن کے اگلے وزٹ کا انتظار رہتا۔

پھو پھو کی نفاست، معاملہ فہمی، سلیقہ مندی اور صائب الرائےہونے کی خوبیوں کی وجہ سے ہر کوئی ان کا مداح ہو جاتا تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ صلہ رحمی کی ادائیگی میں پھو پھوکا کردار مثالی تھا۔ ایک بار ایک احمدی خاتون انہیں ملنے آئیں اور اپنی بیٹی کے رشتہ کے سلسلہ میں بات کی اور ساتھ ہی شرط بھی لگا دی کہ رشتہ ہماری برادری میں سے ہی ہو۔ پھوپھو کا رد عمل مجھے آج بھی یاد ہے، نہایت دینی غیرت کے ساتھ آپ نے جواب دیا کہ جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیت کر لی ہے تو اب ہماری عالمگیر جماعت ایک ہی برادری ہے اور یہ کہ اسلام رشتہ کرتے ہوئے اس طرح کی درجہ بندیوں کی تعلیم نہیں دیتا۔

میرے کینیڈا آنے کے بعد گذشتہ تقریباً دو دہائیوں کے دوران پھوپھوسے تقریباً روزانہ کی بنیاد پہ رابطہ رہا۔ ہم اُنکی اور وہ ہماری فیملی کا کچھ اس طرح حصہ بنے کہ پہلے پھو پھاخورشید اور اب پھو پھو لطیف کے جانے کے بعد کمی کا احساس اُداسی میں بدل رہا ہے۔ پھو پھاجان کا انتقال 2010ء میں ہوا تھا۔ کئی سال الفضل کے ساتھ منسلک رہنے کی وجہ سے انہیں حالاتِ حاضرہ سے بہت دلچسپی تھی۔ کئی بار ایسا ہوتا کہ میں فون پہ دونوں کو الفضل یا دیگر خبریں سناتا اور وہ دونوں فون کے اسپیکر پہ سنتے۔ ان دونوں نہایت شفیق بزرگوں کی شفقت سے بہت سوں نے حصہ پایا لیکن میں خود کو اور اپنی فیملی کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ ہمارے ساتھ شائد غیر معمولی سلوک رہا- بعض اوقات تو یوں بھی ہوا کہ فون پہ انہیں بتایا کہ آپ کی بلڈنگ میں پہنچ رہا ہوں، بس آپ دونوں فوراً آ جائیں، بریانی دَم پہ ہے، اکٹھے کھائیں گے۔ کیونکہ ہمارے گھر کافی نزدیک تھے اس لئے پھو پھاجان بھی کبھی سیر کرتے ہوئے ہماری طرف آجاتے اور اور اپنے دھیمے اور شگفتہ طرز گفتگو سے ہمارا دن خوشگوار کر دیتے۔ پھو پھاخورشید کے انتقال کے بعد یہ احساس بھی ہوا کہ ہمارے معاشرے سے مصافحہ اور معانقہ کا رواج کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پھو پھا خورشید میں یہ دونوں اوصاف موجود تھے۔ مصافحہ تو خاص طور پہ بہت طویل کرتے۔ خلافت سے والہانہ محبت کا اظہار آپ سے چند منٹ کی گفتگو کے دوران ہو جاتا تھا۔ معاشروں کے بگاڑ کا ذکر کرتے ہوئے بات کو مکمل ہی تب کرتے تھے جب خلفائےکرام کے بیان فرمودہ حل نہ پیش کر دیں۔

پھو پھو لطیف اور پھو پھاخورشید کا آپس کا تعلق مثالی تھا۔ باہمی احترام، ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا سلیقہ اور شگفتہ مزاجی۔ اور مزید یہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تینوں اوصاف میں اضافہ۔ بلا شبہ ازدواجی زندگی کی کامیابی کا راز ان خوبیوں میں مضمر ہے۔ آپ دونوں کی قبریں بھی بالکل متصل ہیں۔

پھوپھو لطیف کی طویل جماعتی خدمات کا دورانیہ تقریباً اسیّ سال بنتا ہے جو کہ الفضل میں شائع ہو چکا ہے۔ ایک احمدی کے لئے اس سے بڑھ کر اعزاز اور کیا ہوگا کہ ہوش سنبھالتے ہی خدمتِ اسلام کی توفیق مل جائے، طویل اور نہایت فعال عمر نصیب ہو اور آخری سانس تک بھی خدمت کی توفیق حاصل رہے۔ ماشاءاللّٰہ

پھو پھو کو محض خدا تعالیٰ کے فضل سے چار خلفائے کرام کے ادوار میں تین ممالک میں خدمت اسلام کی توفیق حاصل ہوئ، الحمد للّٰہ۔ میرے دل کے نزدیک ترین لیکن قیامِ پاکستان کے بعد لاہور اور ربوہ میں کی جانے والی خدمات ہیں۔ والدِ محترم کا قادیان میں بطور درویش قیام کا فیصلہ، والدہ محترمہ اور چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ پاکستان آمد، نیا وطن، نیا ماحول، دنیاوی وسائل کی شدید قلت اور اس پہ کسمپرسی میں آئی ہوئی خواتین کی دیکھ بھال اور آباد گاری کا انتظام۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولولہ انگیز قیادت اور ہدایات کے تحت اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت چھوٹی آپا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی براہِ راست نگرانی میں تاریخ ساز امور سر انجام دینے کا اعزاز یقیناً کسی بہت ہی خوش قسمت کے حصہ میں آ سکتا ہے۔

پھو پھو سمجھدار اس قدر تھیں کہ اپنی طویل اور ماشاءاللّٰہ کامیاب زندگی کا ہر لمحہ خلافتِ احمدیہ سے کامل وفاداری میں گزارا۔ زیرک اس قدر کہ چھوٹوں کو ہمیشہ خلافت سے چمٹے رہنے کی نصیحت اور عقلمند اتنی کہ وفات سے کچھ ہی پہلے اپنی تمام جمع پونجی جو کہ ایک خطیر رقم بنتی تھی، جامعہ احمدیہ کینیڈا کی نئی لی جانے والی عمارت میں ادا کر دی۔ اور معاملہ فہم اتنی کہ شدید نقاہت اور علالت میں بھی اپنے لئے دعا کا کہنے سے پہلے خلیفۂ وقت کے لئے دعا کا کہتیں۔

پھو پھو لطیف کی وفات 19جنوری 2022ء کو ہوئی۔ وفات سے تقریباً ڈھائی ہفتہ قبل جب یکم جنوری کی صبح آپ کو نئے سال کی مبارکباد دینے کے لئے فون کیا تو جوابی مبارک اور دعاؤں کے بعد مجھ سے قبر کے کتبہ کی قیمت پوچھی، یہ دن اور موقع ایسی بات کا نہیں تھا لہذا میں نے کہا کہ ابھی بہت وقت ہے، آپ نے ابھی میرے بچوں کی ذمہ داریاں بھی ادا کرنی ہیں، اس پہ انہوں نے جواب دیا کہ ان کے حصہ کی دعائیں میں کر چکی ہوں، اللہ تعالیٰ ان پہ بہت فضل کرے گا، اور بات پھر کتبہ کی قیمت پر پہنچا دی۔ آپ کی وفات کے اگلے دن میں آپ کے بچوں کو یہ بات بتا رہا تھا کہ آپ کے بیٹے نے بتایا کہ 2جنوری کو امی نے مجھے بلا کے ایک لفافہ بطور امانت دیا تھا اور اس میں بالکل اتنی ہی رقم موجود تھی جو میں نے انہیں ایک دن پہلے کتبہ کی قیمت بتائی تھی۔

پھو پھو کی وفات کو ابھی تقریباً دس دن ہی ہوئے تھے اور شدید کمی کا احساس دلانے والی اُداسی کی کیفیت بڑھتی ہی جا رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے زبردست فضل فرما دیا۔ خواب دیکھا کہ پھو پھو اپنا دایاں بازو آگے بڑھاتے ہو مجھے کہتی ہیں کہ مجھے آگے میز کے قریب لے جاؤ تا کہ میں حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا خطاب غور سے سُن سکوں۔ میں انہیں میز کے بالکل قریب لے جاتا ہوں اور مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ جیسے حضور انور، پھو پھوکو پہلے سے جانتے ہیں اور خوشی کا اظہار ہوتا ہے۔ میں حضور سے سوال کرتا ہوں کہ پھو پھوکو آپ کیسے جانتے ہیں یہ تو عمر میں آپ سے بڑی ہیں۔ اس پہ حضور قریب موجود ایک کرسی کی طرف اشارہ فرماتے ہیں جس پہ ایک پرانے زمانے کی ہاتھ سے چلنے والی سلائی مشین پڑی ہوئی ہے اور اس پہ ’’سلیقہ‘‘ لکھا ہوا ہے، اور فرماتے ہیں کہ ’’میں انہیں اِس وجہ سے جانتا ہوں‘‘ اور اس بات پہ میں پھو پھو کو ایک بالکل معصوم چھوٹے بچے کی طرح خوش دیکھتا ہوں کہ جسے سب سے پسندیدہ قیمتی ترین تحفہ مل گیا ہو۔ میں اس خواب کے بعد بہت خوش بیدار ہوتا ہوں اور یہ خیال آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پھو پھو کی خاتمہ بالخیر کی دعائیں قبول کر لی ہیں اور وہ اُن سے راضی ہے۔ پھو پھو نے نہایت محنت، جفا کشی اور سلیقہ مندی سے تقریباً ساری عمر جماعت کی خدمت کی اور خلیفۂ وقت کی طرف سے خواب میں اظہارِ خوشنودی کی یہ سند میری اُداسی میں کمی کا سبب بنی، الحمدللّٰہ

پھو پھو لطیف سے اپنائیت اور خلوص کا بہت ہی پیارا تعلق تھا۔ آپ میری مزاحیہ باتوں پہ خوش بھی ہوتی تھیں۔ ایک بار کسی ایسی ہی بات کے جواب میں کہا کہ مجھے لگتا ہے یہ میری قبر پہ آ کے بھی ایسی ہی باتیں کرے گا۔ گزشتہ بیس سالوں میں پہلی بار ہوا ہے فون کی گھنٹی بجنے کا انتظار طویل ہو گیا ہے اور کسی کا یہ کہنا کہ ’’کہاں ہو؟‘‘ نہیں سُنا۔ اللہ تعالیٰ پھو پھوکے درجات بلند کرے، اُن سے راضی ہو اور ہمیں ہمیشہ اُن کی دعاؤں کا وارث بنائے رکھے، آمین

(عطاءالقدوس طاہر۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ