• 19 مئی, 2024

ایڈیٹر کے نام خط

ہم ہمیشہ مقروض رہیں گے!

•مکرمہ سیّدہ شمیم۔جرمنی سے لکھتی ہیں کہ
اب جب کہ میں خود بھی زندگی کے آ خری پڑاؤ میں ہوں۔ آپ کا مضمون ’’بعض قرض اُتارے نہیں جا سکتے‘‘ پڑھا۔ اِن الفاظ نے میرے بچپن کے تمام زخم ہرے کر دئیے ،میری ماں نے میرے لئے کیا کچھ نہ کیا ہوگا جب میں چار سال کی بچی تھی گھر کی پہلی منزل سے باہر گلی میں سر کے بَل گر گئی۔ ہسپتال لے گئے بعض ہسپتال والوں نے مجھ شدید زخمی بچی کو لینےسے انکار کر دیا پھر ایک انگریزوں کا ہسپتال تھا جنہوں نے اللہ کے فضل سے میری جان بچائی۔ دو ماہ مَیں نے زندگی اور موت کی کشمکش میں گزارے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے میری ماں کی صبح شام محنت، محبت اور دعاؤں سے میری زندگی بچا دی۔ بچپن میں ہی میرا ایک پاؤں جل گیا جانے میری ماں نے کیسے مجھے سنبھالا ہوگا۔اب اپنی ماں کی ممتاکا ذ کرچھڑ ہی گیا ہے تو کیوں نہ لگے ہاتھوں اپنی امی جان کی بہادری، قناعت اور مہمانوازی کا ذکر کر دوں۔

پارٹیشن کے وقت فیروزپور سے میرے اباجان نے بُرقعہ میں لپٹی ہوئی میری امی جان کو ہم تین بیٹیوں کے ساتھ قادیان کے لئے ٹرین میں سوار کروا دیا۔ وہ خود اپنے کام کی وجہ سے ساتھ سفر نہیں کر سکتے تھے۔ شروع میں تو ٹرین خالی تھی پھر کوئی اسٹیشن آیا جہاں سے سکھ بڑی تعداد میں چڑھے ٹرین بھر گئی وہ سب بڑی بڑی کرپانوں کے ساتھ ہمارے پاس آ کر بیٹھ گئے میری عمر اُس وقت تقریباً آٹھ یا نَو سال کی ہوگی ساتھ دو چھوٹی بہنیں ایک چار سال اور دوسری شائد سال بھر کی یا اُس سے بھی چھوٹی تھی۔ مَیں اُس وقت کے خوف کو اور اپنی امی جان کی کیفیت کو بہت اچھی طرح سے جان سکتی ہوں۔ امید نہیں تھی کہ ہم آج بچ کر گھر پہنچ سکیں گے مگر میری فرشتہ سیرت ماں کی دعائیں ابھی بھی مجھے یاد ہیں امی جان نے مجھے بھی دعا کے لئے کہا جو میں زیر لب دہرا رہی تھی اللہ تعالیٰ نے قبول فر مائیں اور ہم خیریت سے قادیان پہنچ گئے۔ قادیان میں بھی خطروں کے دنوں میں امی جان ہم بچوں کو سُلا کر خود سر پر دوپٹہ کی پگڑی بنا کر رات بھر چھت پر ڈیوٹی دیتیں تا یہ لگے کہ کوئی مرد ہے۔

چلیں! اب پارٹیشن کے بعد کی بات کرتی ہوں بہت مشکل حالات تھے اباجان کے پاس کوئی کام نہیں تھا سارا سارا دن کام ڈھونڈنے میں گزر جاتا مگر کوئی بات نہ بنتی تو پھر گھر کھانے کو کہاں سے ملتامشکل سے ہی گزارا ہوتا۔ اِنہی حالات میں ایک دن ہمارے گھر دو مہمان آ گئے ابا جان گھر نہیں تھے اور کچھ کھانے کو بھی نہیں تھا۔ ہماری امی جان بہت پریشان تھیں کہ کیا کروں؟ رات بھی کافی ہو گئی گھر کی کھڑکی میں کھڑے ہو کر ابا جان کا انتظار کر رہے تھے دور سے اباجان ہاتھ میں کچھ اُٹھائے ہوئے نظر آئے دل خوش ہو گیا اباجان نے بتایا کہ کسی سے کچھ پیسے لینے تھے شکر ہے وہ مل گئے اور تھوڑی سی روٹیاں اور ساتھ مفت کی دال مل گئی ، میری امی جان نے پہلے کھانا مہمانوں کو دیا باقی بعد میں چار بچیوں کو کھانا کھلایا پیچھے ایک روٹی بچی اب میری امی اور اباجان کی پیاری میٹھی سی لڑائی ہو رہی تھی کہ روٹی تم کھا لو کہ چھوٹے بچے کو دودھ پلانا ہوتا ہے اور امی کہہ رہی تھیں کہ آپ کھالیں سارا دن مارے مارے پھرتے ہیں، کھائے بغیر کیسے کام ہو گا۔ پھر دیکھا کہ دونوں نے آدھی آدھی روٹی کھا کر محبت بھری لڑائی کا خاتمہ کیا۔

یہ ہیں ہمارے والدین جن کا قرض ہم کبھی نہیں اُتار سکتے۔ کیسے کیسے مشکل حالات میں وہ اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمارے اور ان تمام کےوالدین کے درجات بلند فر مائے جو اس دار فانی سے کوچ کر گئے ہیں اور اُن کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ ملے۔ آمین

ڈھونڈو گے ہمیں گلیوں گلیوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

•مکرمہ صدف علیم صدیقی۔ریجائنا، کینیڈاسے لکھتی ہیں :
واقعی حضرت مسیح موعود علیہ السلام رحمان خدا کی باڑ ہی تو ہیں۔ پوری جماعت کو ہر فتنے، ہر آزمائش، ہر برائی سے بچانے والی باڑ بے شک اسی حصار میں ہماری فلاح ہے۔ یہی ہمیں باہر کی بد نظری، برائی، آفت سے بچا کر رکھتی ہے۔ آپ نے اس الہام کی بے حد خوبصورت تشریح کی ہے۔ خاکسار کے ذہن میں اکثر یہ خیال آتا ہے کہ تذکرہ میں مذکور الہامات پر تفصیلی مضامین لکھے جائیں کیونکہ اس میں درج تمام الہامات بے حد وسیع اور گہرے مضامین اپنے اندر رکھتے ہیں جن تک ہر خاص و عام کی رسائی ہونی چاہئے اس لیے بھی آج ایک الہام پر آپ کا اداریہ دیکھ کر دلی خوشی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس تحریر سے فائدہ اٹھانے والا بنائے۔ آمین اللّٰھم آمین۔

•مکرمہ درثمین احمد۔جرمنی سے لکھتی ہیں :
گزشتہ دو روز کی مصروفیت کے بعد آج اخبارات کا تفصیلی مطالعہ کرنے کا موقع ملا تو آ پ کے دونوں اداریوں نے پوری توجہ اپنی جانب مبذول کرلی۔ دونوں ہی عنوانات ’’میں خدا کی باڑ ہوں‘‘ اور ’’اللہ تعالیٰ کی عافیت کے حصار میں رہنے والے خوش نصیب‘‘ بہت ہی عمدہ اور نئے نئے نکات سیکھانے کا موجب بنے۔ اکثر مضامین ایسے ہوتے ہیں جو دل میں اتر جاتے ہیں چاہنے کے باوجود بھی مصروفیت کے باعث ان کے بارے میں اظہار خیال کرنے سے قاصر رہ جاتی ہوں۔لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ بسا اوقات آرٹیکلز نہ صرف علم میں اضافے کا موجب ہوتے ہیں بلکہ عرفان کے کئی نکات بھی سمجھا دیتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر الفضل ہماری علمی روحانی ترقی کا باعث ہے۔ خاص کر موجودہ حالات کے تناظر میں جہاں ہر طرف سے خوف و ہراس اور بے چینی کی خبریں پڑھنے کو مل رہی ہوں وہاں اس طرح کی ایمان کو مضبوط کرنے والی تحریرات ہمیں جینے کی نئی امنگ دیتی ہیں۔ حضور انور کی جانب سے ملنے والی تازہ ترین رہنمائی ازیاد ایمان کا اور اپنی حالتوں کا از سر نو جائزہ لینے کا باعث بنتی ہیں۔خدا تعالیٰ ہمارے ایمان سلامت رکھے اور دنیا کو تباہی و بربادی سے محفوظ رکھے آمین۔اور خدا کرے کہ ساری دنیا جلد اس عافیت کے حصار میں آجائے آمین۔

•مکرم رفیع رضا قریشی لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ تمام کارکنان اور لکھنے والے لکھاری بھائیوں اور بہنوں کو جزائے خیر عطا فرمائے ،آمین۔ تمام لکھاری بہت بہترین اور ایمان افروز باتوں سے الفضل کو چار چاند لگادیتے ہیں۔ اور مضامین نہایت قابل رشک اور ایمانوں کو بڑھانے والے اور بھولی بسری باتوں کی یاد دہانی کروانے والے ہوتے ہیں۔ عاجز تو اخبار الفضل پڑھتے پڑھتے ربوہ کی بستی کو انکھوں میں بسا لیتا ہے۔اخبار کا پہلا صفحہ خود پڑھنے کے بعد اس کا پرنٹ بنا کر عزیز رشتہ دارو ں اور دوستوں کو بھجوانےکا بہت عمدہ نتیجہ آرہا ہے۔ ان کو اب انتظار رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہےکہ روز نامہ ان لائن اخبار کو دن دوگنی رات چوگنی ترقیات عطا کرتا چلا جائے۔ اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ہمیشہ معاون اور مد گار بنتا چلا جائے ،آمین۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ