• 28 اپریل, 2024

اندھیری رات میں نور

آج جب میں نے لکھنا شروع کیا تو کالی سیاہی کو سفید کاغذ پر پھیلتے ہوئے دیکھ کر میری سوچوں کا دھارا ایک عجیب سمت چل پڑا۔ ایک خیال یہ کہ کالی سیاہی آہستہ ٓاہستہ کاغذ کی سفیدی کو ختم کرتی جارہی ہے تو دوسری سمت مثبت سوچ یہ کہہ رہی تھی کہ یہ سیاہی علم کا نور اس سفید کاغذ پر پھیلا رہی ہے جو آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ بن سکتا ہے۔ انہی سوچوں کے ساتھ میں اندھیری رات کی سیاہی میں گم ہو گیا۔ سوچنے لگا کہ کیا یہ اندھیری رات بھی کالی سیاہی کی طرح اپنے اندر کسی نور کو سمیٹے ہوئے ہے؟۔ کیا یہ ننھے ننھے چراغ جو دور کسی کٹیا میں جل رہے ہیں کسی کے لئے مشعل راہ ہو سکتے ہیں۔؟ انہی تانو ں بانوں میں سوچا کہ کیا سیاہ رات سے مراد غروب آفتاب سے طلوح آفتاب تک رہنے والی رات ہے؟ جس میں مادی آنکھیں کچھ دیکھ نہیں پاتیں یا پھر اس سے مراد ایسی رات ہے جس کا تعلق روحانیت سے ہے۔ جس میں آسمانی سورج تو موجود ہوتا ہے لیکن روحانی آفتاب کی یا تو کمی ہوتی ہے یا پھر اس کی روشنی ان مادی آنکھوں کو نظر نہیں آتی۔ انسان اپنی ہوس اور لالچ میں اپنی روحانی آنکھ کو کھو دیتا ہے اور پھر وہ ایک اندھے کی طرح کسی نور کو پہچان نہیں سکتا۔ وہ صُمٌّۢ بُکۡمٌ عُمۡیٌ فَہُمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ کی مانند ہر سچائی کو ٹھکرا کر ظلم کا بازار گرم کر دیتا ہے۔کہیں یہ اندھے عیسائی پادریوں کا چولہ پہن کر ہزاروں عورتوں کو جادوگرنیوں کا الزام دے کر جلا رہےہوتے ہیں تو کہیں وہ اندھے اسلامی جبا پہن کر عثمان (رضی اللہ عنہ) کو شہید کر رہے ہوتے ہیں۔ کہیں فرقہ بندی کے نام پر مساجد گرائی جارہی ہیں تو کہیں مومن اور کافر کی جنگ میں نمازیوں کو مساجد میں گولیوں سے شہید کیا جا رہا ہوتا ہے۔

ابھی آفتاب رسالت کو تیس سال بھی نہیں گزرے تھے کہ سیاہ چادر نے اس روشنی کو ڈھا نپنا شروع کر دیا۔ ایک ایک کر کے ہر ننھی شمع کو پابند سلاسل کر کے کہیں اندھیری کوٹھڑیوں میں گل کر دیا گیا۔ یہ سیاہی پورے عا لم اسلام پر کچھ اس طرح سے چھا گئی کہ روشنی کی کوئی کرن باقی نہ رہی۔لیکن جیسا ہم دیکھتے ہیں کہ قلم کی سیاہی جہاں ایک طرف تاریخ رقم کررہی ہوتی ہے تو وہیں اسکی سیاہی کاغذ کی سفیدی کو مکمل طور پر چھپا نہیں سکتی۔ انہی سیاہ راتوں میں اللہ کے بندے کالی چادروں میں لپٹے اپنی غاروں میں اللہ کے نور کو سمیٹتے رہے۔ اس نور کو پھیلانے کے لئے نہ تو آہنی سلاخیں ان کے لئے رکاوٹ بن سکیں اور نہ ہی گولیوں کی بوچھاڑ ان کا راستہ روک سکی۔ وہ تن تنہا نور الہی کو پھیلاتےرہے۔ چاہے اس کار خیر میں انہیں اپنی جانوں کا نذرانہ ہی کیوں نہ دینا پڑا۔ وہ نور جو دنیا داروں کی آنکھوں سے تو پنہاں تھا لیکن سعید روحیں ہر زمانے میں انہی ننھی شمعوں کے گرد جمع ہوتی رہیں۔ اور اس نور کو آگے اپنی قوم کے لوگوں میں پھیلاتی رہیں۔

ان بیقرار سعید روحوں کی درد مندانہ دعاؤں کی قبولیت کا آخر وقت آ گیا اور چودھویں صدی کے سر پر موافق وعدہ نور کا وہ چاند ابھرا جس کے نور کو دنیا باوجود مخالفت کے پھیلنے نہ روک سکی۔ جس کو پھیلانے کا وعدہ خود اللہ تعالیٰ نے کیا تھا کہ میں تیری تبلیغ (اس نور کو) دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔یہ نور قادیان کے چھوٹے سے گاؤں سے ابھرا اور کفر ضلالت کے اندھیروں کو مٹاتا ہوا دنیا کے دو سو سے زیادہ ممالک میں پھیل گیا۔ اب ہرسعید روح اس نور سے مستفید ہو رہی ہے۔

اس نور کو ایک قلم سے پھیلایا گیا جو بظاہر سیاہ رنگ کی تحریر سفید کاغذ پر کر رہا تھا لیکن وہ تحریر نورانی شعائیں بن کرسعید روحوں کے دلوں میں پیغام حق دیتی چلی گئیں۔ دنیاوی مخالفت آہستہ آہستہ اندھیری رات میں سمٹ کر ختم ہو گئی اور نورانی شعائیں دنیا کے سب ممالک میں پھیلتی چلی گئیں۔

آؤ! لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے
لو تمہیں طور تسلی کا دکھایا ہم نے

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کر کے ان میں درج نور کو پھیلانے کا عزم صمیم کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نور کو تحریروں کی شکل میں پھیلا کر الفضل آن لائن کا حصہ بنائیں تا یہ مبارک تحریریں الفضل کے ذریعہ دنیا کے کونے کونے میں پہنچیں۔

(مبارک خاں۔ نیوزی لینڈ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ