اولاد کو دین سکھانے اور دین سے منسلک رکھنے کے لئے، ان کی دینی تربیت کی طرف کم از کم اتنی کوشش تو انسان کی ہو جتنی دنیاوی کوششیں ہوتی ہیں۔ دنیا کی طرف زیادہ کوشش ہوتی ہے اور دین کی طرف بہت کم کوشش۔ اسی وجہ سے پھر بعض لوگوں کو ابتلاء بھی آتے ہیں۔ مشکلات میں بھی پڑتے ہیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو اولاد کی خواہش ہوتی ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ ’’بعض اوقات صاحب جائیداد لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ کوئی اولاد ہو جاوے جو اس جائیداد کی وارث ہو‘‘۔ گویا کہ اولاد کی خواہش صرف جائیداد کے لئے ہے ’’تا کہ جائیداد غیروں کے ہاتھ میں نہ چلی جاوے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں ’’مگر وہ نہیں جانتے کہ جب مر گئے تو شرکاء کون اور اولاد کون؟‘‘ سبھی غیر بن جاتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ’’اولاد کے لئے اگر خواہش ہو تو اس غرض سے ہو کہ وہ خادمِ دین ہو۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں یہ بھی دعا سکھائی کہ وَاَصۡلِحۡ لِیۡ فِیۡ ذُرِّیَّتِیۡ ۚؕ اِنِّیۡ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَاِنِّیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۱۶﴾ (الاحقاف:16) کہ میرے لئے میری ذریّت کی بھی اصلاح کر دے۔ یقیناً مَیں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور بلا شبہ مَیں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ یہاں اولاد کی اصلاح کرنے کی دعا کی ہے تو ساتھ اس بات کا بھی اقرار کیا ہے کہ میں تیری طرف رجوع کرنے والوں اور فرمانبرداروں میں سے بنوں یا ہوں۔ پس اولاد کے لئے جب دعا ہو تو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل اور اللہ تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری ضروری ہے تبھی دعا قبول ہوتی ہے۔ پس ماں کی بھی اور باپ کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ بچوں کی اصلاح کے لئے، ان کی تربیت کے لئے مستقل اللہ تعالیٰ سے اپنی اولاد کی بہتری کے لئے دعا مانگتے رہیں اور اپنے نمونے اولاد کے لئے قائم کریں۔ اگر اپنے نمونے اس تعلیم کے خلاف ہیں جو اللہ تعالیٰ نے دی ہے، اگر اپنے نمونے اس نصیحت کے خلاف ہیں جو ماں باپ بچوں کو کرتے ہیں تو پھر اصلاح کی دعا میں نیک نیتی بھی نہیں ہوتی اور جب اس طرح کا عمل نہ ہو تو پھر یہ شکوہ بھی غلط ہے کہ ہم نے اپنی اولاد کے لئے بہت دعا کی تھی لیکن پھر بھی وہ بگڑ گئی یا ہمیں ابتلاء میں ڈال دیا۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍ جولائی 2017ءبحوالہ الاسلام ویب سائٹ)