• 20 اپریل, 2024

سچا اور دیانتدار تاجر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کی معیت کا حقدار ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت مصلح موعودؓ نے اپنا بھی ایک واقعہ لکھا ہے کہ جب وہ 19۔ 20 سال کے تھے تو سیر کے لئے کشمیر گئے۔ وہاں ایک قسم کے اونی قالین بنائے جاتے ہیں جو خاص طور پر بڑے مشہور ہیں۔ وہ اُنہیں پسند آئے۔ کچھ عرصہ انہوں نے ٹھہرنا تھا، سیر کرنی تھی۔ اس لئے سیر کے لئے چلے گئے۔ انہوں نے جس شہر میں قالین دیکھے تھے وہاں قالین بنانے والے ایک شخص نے کہا کہ میں بہت اعلیٰ بناتا ہوں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے مجھے تحفہ لے جانے کے لئے تین چار ایسے قالین بنا دو اور اُس کا سائز بتایا۔ کہتے ہیں جب میں واپس آیا تو جو سائز بتائے تھے اُن سے ہر قالین ہر طرف سے، چوڑائی میں بھی، لمبائی میں بھی چھوٹا تھا اور کافی فرق تھا۔ چھ چھ انچ، فُٹ فُٹ چھوٹا تھا۔ تو انہوں نے کہا کہ تمہیں میں نے یہ سائز بتایا تھا، یہ سامنے گواہ ہیں، ان کے سامنے بتایا تھا، اُس کے باوجود تم نے اس کے مطابق نہیں بنایا اور قیمت تم اتنی مانگ رہے ہو۔ تو بجائے اس کے کہ شرمندہ ہوتا، یہ کہتا کہ ٹھیک ہے قیمت کم کر دیں۔ کہنے لگا میں مسلمان ہوں اور بار بار یہی رَٹ لگائے جائے کہ میں مسلمان ہوں اور آپ مجھے کہہ رہے ہیں کہ تم نے ایسا بنایا ہے اور ویسا بنایا ہے۔

(ماخوذ از تقریر سیالکوٹ انوارالعلوم جلد 5صفحہ 108-109)

تو اب جب بھی غلط کام ہو، مسلمان کہہ کر اُس کو جائز کرنا، یہ عام ہو گیا ہے اور پھر یہ پرانی بات نہیں ہے۔ مجھے بھی ایک شخص جو چاول کے کاروبار میں تھے، بتانے لگے کہ ہم پاکستانی اچھا باسمتی چاول جب باہر بھیجتے ہیں تو اُس میں دوسرا کم درجے کا لمبا چاول کس طرح شامل کرتے ہیں اور وہ طریقِ کار یہ ہے کہ ایک لوہے کا آٹھ نو انچ کا ٹین کا پائپ ہوتا ہے، اُس کو بیگ کے درمیان میں رکھتے ہیں اور اُس پائپ کے اندر کم درجے کا چاول بھرتے ہیں اور اس کے ارد گرد اعلیٰ کوالٹی کا چاول بھیجتے ہیں اور باہر سے جب وہ دیکھتے ہیں تو اعلیٰ کوالٹی ہوتی ہے، باسمتی چاول ہوتاہے، اور کسی کو پتہ نہیں لگتا۔ جب پائپ اُس کے بعدنکال لیتے ہیں وہ مکس (Mix) ہو جاتا ہے، یہ بھی نہیں خیال ہوتا کہ اندر کوئی چیز پڑی ہے۔ چاول بہر حال چاول ہے۔ تو کاروباروں کی یہ حالت ہے۔ اسی وجہ سے ایک عرصہ پہلے سے ہندوستانی مارکیٹ نے چاول کی مارکیٹ پر قبضہ کر لیا ہے، حالانکہ ہندوستان کا چاول پاکستان سے کم کوالٹی کا ہے اور اب شاید کچھ ایکسپورٹر، کیونکہ احمدی بھی ایکسپورٹ کرتے ہیں، خود بہتر کوالٹی کا لے کر آتے ہوں تو لاتے ہوں۔ نہیں تو اس چور بازاری کی وجہ سے باہر کی مارکیٹ نے پاکستانی ایکسپورٹر سے چاول لینا ہی بند کر دیاہے۔ ان کو اب پتہ لگ گیا ہے کہ اس طرح یہ دھوکہ دہی ہوتی ہے۔ اس لئے اب ہندوستانی ایکسپورٹر جو ہے وہی چاول خریدتا ہے، اُس کی گریڈنگ (grading) کرتا ہے اور پھر آگے بھیجتا ہے اور یہ سوچتے ہی نہیں کہ کاروبار میں اس سے برکت بھی نہیں رہتی اور کاروبار بھی ختم ہو گیا۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر خرید و فروخت کرنے والے سچ بولیں اور مال میں اگر کوئی عیب یا نقص ہے اُسے بیان کر دیں تو اللہ تعالیٰ اُن کے سودے میں برکت دے گا اور اگر وہ دونوں جھوٹ سے کام لیں، خریدنے والا بھی اور بیچنے والا بھی اور کسی عیب کو چھپائیں گے یا ہیرا پھیری سے کام لیں گے تو اس سودے میں سے برکت نکل جائے گی۔

(صحیح البخاری کتاب البیوع باب اذا بین البیعان ولم یکتما ونصحا حدیث 2079)

پس اگر برکت حاصل کرنی ہے تو پھر امانت اور دیانت کے تقاضے پورے کرنے ہوں گے اور یہ تقاضے پورے کرتے ہوئے کاروبار کرنا یہی ایک اچھے مسلمان کا شیوہ ہونا چاہئے۔ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کسی کو دینے کے لئے کچھ تولو تو جھکتا ہوا تولو۔ یعنی کہ اگر کچھ زیادہ بھی چلا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب التجارات باب الرجحان فی الوزن حدیث 2222)

پس یہ تجارتی امانت کا معیار ہے جو ایک مسلمان کا ہونا چاہئے۔ اگر تاجر امانت دار ہو، صحیح طرح کاروبار کرنے والا ہو تو پھر جو اُس کا مقام ہے وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ کتنا بڑا مقام ہے۔ آپؐ نے فرمایاکہ سچا اور دیانتدار تاجر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کی معیت کا حقدار ہے۔

(سنن الترمذی کتاب البیوع باب ما جاء فی التجار وتسمیۃ النبیﷺ ایاھم حدیث نمبر 1209)
(خطبہ جمعہ 2؍ اگست 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ