• 11 مئی, 2024

ائمة الکفر کے خلاف رسول اللہؐ کی بعض خاص دعائیں

ائمة الکفر کے خلاف رسول اللہؐ کی بعض خاص دعائیں
وہ بدقسمت جنہوں نے رحمت عالم کی دعاؤں کی بجائے بد دعائیں لیں

آنحضرتﷺ کو غالب آنے کے لئے جو ہتھیار اپنے رب کی طرف سے عطا کئے گئے ان میں سے سب سے قوی اور عظیم ہتھیار دعا کا ہتھیار تھا۔ انہی دعاؤں کے ذریعہ آپ نے دنیا کے دل بدلے۔ ہر مخالف کو مغلوب کیا اور ایک ایسا انقلاب عظیم برپا کیا جس کی نظیر اس خاکدان عالم پر نہیں ملتی۔

آپ نے اپنوں کے لئے بھی دعائیں کیں اور غیروں کے لئے بھی۔ دوستوں کے لئے بھی دعائیں کیں اور دشمنوں کے لئے بھی۔ ظالموں کے لئے بھی دعائیں کیں اور مظلوموں کے لئے بھی اور ان دعاؤں کو انتہا تک پہنچا دیا۔ لیکن بعض لوگ ایسے بھی تھے جو ظلم و سفاکی میں حد سے بڑھ گئے تھے۔ انہوں نے ضمیر انسانی کا گلا گھونٹ دیا۔ بے گناہ اور معصوم انسانوں کو عذاب میں مبتلا کر دیا۔ انہوں نے ہدایت کے سارے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور ہزاروں انسانوں کو ہدایت سے روکنے کا موجب بن گئے۔ تب آنحضرتﷺ نے اللہ کے حکم سے ان کے لئے بددعا کی۔چنانچہ ان ظالموں کی ہلاکت دوسروں کے لئے عبرت کا نشان بن گئی اور ہدایت کے دروازے ان پر کھل گئے۔ تاہم آنحضرتﷺ کی بھرپور زندگی میں سے خدائی حکم کی تعمیل میں گزرنے والے ان چند لمحوں کو چھوڑ کر آنحضورﷺ کی ساری زندگی عفو سے عبارت تھی اور آپ کی رحمت کا پہلو ہی بہت نمایاں اور غالب دکھائی دیتا ہے۔اب میں اس کی چند مثالیں بیان کرتا ہوں۔

مکہ میں حضرت اقدس نبی اکرمﷺ اور آپکے صحابہ کو بے انتہا دکھوں کا نشانہ بنایا گیا۔ کون سا ظلم تھا جو نہ توڑا گیا۔ کون سا درد تھا جس کی چکی سے آپؐ جبراً نہ گزارے گئے۔ کون سی تکلیف تھی جو روا نہ رکھی گئی ہو۔ لیکن آپ کامل صبر کے ساتھ دعاؤں میں لگے رہے اور ان کے لئے اپنے رب سے ہدایت طلب کرتے رہے۔ مگر ائمة التکفیر نے اپنے لئے ہدایت کی راہ اختیار نہ کی۔ وہ وحشت و بربریت میں بڑھتے چلے گئے حتی ٰ کہ وہ وقت آن پہنچا کہ رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے خلاف بددعا کی اجازت دی گئی اور آپ نے نام لے لے کر ان سے نجات پانے کے لئے بددعا کی۔

ائمة الکفر کے نام

چنانچہ صحیح بخاری میں اس واقعہ کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہﷺ کعبہ کے سائے میں نماز پڑھ رہے تھے اور چند رؤسائے مکہ آپ کے گرد کھڑے تھے۔ ابوجہل ان لوگوں کے ساتھ مل کر رسول اللہﷺ کو کوئی نئی اذیت پہنچانے کے لئے مشورہ کرنے لگا۔ چنانچہ طے پایا کہ مکہ کے باہر جو اونٹنی ذبح کی گئی تھی اس کی اوجھڑی لائی جائے اور رسول اللہ پر ڈال دی جائے۔ عقبہ بن ابی معیط کو اس کام کے لئے منتخب کیا گیا۔ چنانچہ وہ اوجھڑی لے کر واپس آیا اور جب رسول اللہﷺ سجدہ میں گئے تو ان ظالموں نے وہ اوجھڑی رسول اللہﷺ کی پشت مبارک پر رکھ دی اس کے بوجھ کی وجہ سے رسول اللہﷺ سجدہ سے سر نہ اٹھا سکتے تھے اور کافی دیر تک اسی تکلیف میں مبتلا رہے۔ اتنی دیر میں حضرت فاطمہؓ کو اس کی اطلاع ملی وہ دوڑی ہوئی آئیں معلوم نہیں کس طرح اور کس کی مدد سے اوجھڑی رسول اللہ کی پشت سے ہٹائی اس وقت بے اختیار ان کی زبان سے ان ظالموں کے لئے بددعائیں نکل رہی تھیں۔یہ وہ ظلم کی انتہا تھی جو جان لیوا تھی اور عبادت الٰہی میں روک اور تکلیف کا موجب تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اذن سےرسول اللہﷺ نے ان رؤسائے قریش کے خلاف بددعا کی۔ آپ نے عرض کیا۔

اَللّٰھُمَّ عَلَيْكَ المَلَأَ مِنْ قُرَيْشٍ( بخاری کتاب الانبیاء باب مالقی النبی واصحابہ من المشرکین بمکة حدیث نمبر 3854)یعنی اے اللہ! قریش کے ان سرداروں پر گرفت فرما اور پھر آپ نے ان کے نام لئے جو یہ تھے۔ ابوجہل، عتبہ بن ربیعة، شیبہ بن ربیعہ، امیہ بن خلف، ولید بن عتبہ، ابی بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط۔

ایک روایت میں ہے کہ آپ نے تین دفعہ یہ الفاظ ادا کئے۔اللّٰھم علیک بقریش۔ اللّٰھم علیک بقریش۔ اللّٰھم علیک بقریش۔( بخاری کتاب الجہاد باب الدعا ٫علی المشرکین حدیث نمبر 2934) اور پھر نام لئے۔یعنی اے اللہ! قریش کے ان رؤسا کو ہلاک کر، ہلاک کر، ہلاک کر۔درد دل سے نکلی ہوئی یہ آہ بدر کے دن قبولیت کا پھل لے کر آئی اور تمام جہان کے لئے عبرت کا نشان بن گئی۔ چنانچہ بدر کی جنگ میں قریش مکہ پر جو عظیم قیامت ٹوٹی اس نے مکہ کے گھر گھر میں ماتم برپا کر دیا قریش کے مقتولین میں یہ لوگ بھی شامل تھے جن کو نام بنام رسول اللہﷺ نے اللہ کی عدالت میں سزا کے لئے پیش کیا تھا اور اللہ نے آپکو اس کی قبولیت کی بشارت بھی دی تھی۔

جب آپ نے بدر کے میدان میں لشکر کفار کو دیکھا تو صحابہ سے فرمایا کہ آج مکہ نے اپنے جگر گوشے تمہارے سامنے نکال کر پھینک دیئے ہیں۔(سیرة ابن ہشام جلد دوم صفحہ 269)پھر آپ دعا کے لئے اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے۔ بڑے درد و الحاح سے دعا کی دعا کے بعد آپ خیمہ سے باہر آئے۔ میدان جنگ کا معائنہ فرمایا۔ مختلف جگہوں پر نشان لگائے اور فرمایا:یہاں پر فلاں کافر سردار مرا پڑا ہوگا اور اس جگہ فلاں کافر سردار کی لاش ہوگی اور اس جگہ فلاں کافر سردار کا جثہ ہوگا۔

صحابہ کہتے ہیں کہ آنحضرت نے مکہ میں جس جس کے لئے بددعا کی تھی اور جنگ سے پہلے جس جس جگہ نشان لگائے تھے خدا کی قسم انہی جگہوں پر ان کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں اور دن چونکہ سخت گرم تھا اس لئے ان کی لاشوں کے حلیے بگڑ گئے تھے امیہ بن خلف تو بھاری بھرکم تھا اس کی لاش ٹوٹ پھوٹ گئی تھی۔

(صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر باب غزوة بدرحدیث نمبر 83 ومسند احمد حدیث نمبر 3962-3775)

ایک اور روایت کے مطابق رسول اللہﷺ نے جنگ سے پہلے یوں دعا کی کہ اے میرے اللہ! یہ قریش تکبر اور غرور کے نشہ میں مست آئے ہیں یہ تیری مخالفت کرتے ہیں۔ اے میرے اللہ! اب میری وہ مدد فرما جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیاہے اور آج کی صبح ان کی ہلاکت کے سامان فرما۔

(سیرة ابن ہشام جلد 2 صفحہ273)

یہی وہ دردمندانہ دعائیں تھیں جنہوں نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا اور وہ جو سب سے آگے بڑھا ہوا تھا یعنی ابو جہل اس کا انجام سب سے عبرتناک ہوا۔ وہ دو نو عمر لڑکوں حضرت معاذؓ اور حضرت معوذؓ کے ہاتھوں قتل ہوا اور اس کی آخری خواہش بھی پوری نہ ہوئی۔ جنگ کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعودؓ میدان جنگ کا جائزہ لے رہے تھے کہ ابوجہل پر نظر پڑی وہ آخری سانس لے رہا تھا۔ انہوں نے پوچھا تیری کوئی آخری خواہش؟ اس نے کہا میری گردن لمبی کرکے کاٹنا۔حضرت ابن مسعودؓ نے اس کی چھاتی پر پاؤں رکھا اور داڑھی پکڑ کر سر کے پاس سے اس کی گردن کاٹ لی۔ اس طرح اس کی آخری خواہش بھی پوری نہ ہوسکی۔

(سیرة ابن ہشام جلد2 صفحہ288)

تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ دوران جنگ رسول اللہﷺ نے ریت اور کنکر کی ایک مٹھی اٹھائی اور اسے کفار کی طرف پھینکا اور جوش کے ساتھ فرمایا۔ شاھت الوجوہ! دشمنوں کے منہ بگڑ جائیں۔(سیرة ابن ہشام جلد2 صفحہ280)یہ مٹھی بھری ریت اور کنکر ایک تند و تیز آندھی میں ڈھل گئے اور کفار کا غرور خاک میں مل گیا اور مکہ میں صف ماتم بچھ گئی اور گھر گھر سے بین کی آوازیں آنے لگیں۔ کتنی سچائی ہے آنحضرتﷺ کے کلام میں کہ وَاتَّقِ دَعْوَةَ المَظْلُومِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ ( بخاری کتاب الزکوۃ اخذ الصدقۃ من الاغنیا٫ حدیث نمبر1496)مظلوم کی بددعا سے بچو۔ کیونکہ اس کے اور خدا کے درمیان کوئی روک حائل نہیں ہے۔

ایک ماہ مسلسل بددعا

ایک اور موقعہ پر آنحضرتﷺ نے بعض قبائل کے خلاف پورا ایک ماہ نماز میں رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد مسلسل بددعا کی۔یہ واقعہ بئرمعونہ کے نام سے مشہور ہے۔ جنگ احد کے بعد مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے جو منصوبے بنائے گئے۔ ان میں یہ واقعہ زبردست اہمیت رکھتا ہے۔ تفصیل یہ ہے کہ قبائل رعل اور ذکوان وغیرہ (جو مشہور قبیلہ بنی سلیم کی شاخ تھے) کے چند لوگ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام کا اظہار کرکے درخواست کی کہ ہماری قوم میں سے جو لوگ اسلام کے دشمن ہیں ان کے خلاف ہماری امداد کے لئے چند آدمی روانہ کئے جائیں۔ مراد غالباً یہ تھی کہ ہمیں دین سکھائیں اور ہمیں منظم کریں۔

آنحضرتﷺ نے صفر 4؍ ہجری میں منذر بن عمروؓ انصاری کی امارت میں صحابہ کی ایک پارٹی روانہ فرمائی یہ لوگ عموماً انصار تھے اور تعداد میں ستر تھے اور قریباً سارے کے سارے قاری یعنی قرآن خوان تھے۔ یہ لوگ دن کے وقت جنگل کی لکڑیاں جمع کرکے ان کی قیمت پر گزارا کرتے اور رات کا بہت سا حصہ عبادت میں گزارتے تھے۔ جب یہ لوگ اس مقام پر پہنچے جو ایک کنویں کی وجہ سے بئر معونہ کے نام سے مشہور تھا تو ظالموں نے دھوکے سے اس قلیل اور بے بس جماعت پر حملہ کر دیا مسلمانوں نے جب ان وحشی درندوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو انہیں بتایا کہ ہم ہرگز تم سے لڑنے کے لئے نہیں آئے مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور ایک ایک کرکے ظالمانہ طور پر سب کو شہید کر دیا۔حفاظ قرآن، نمازی اور تہجد گزار مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ کا نام لینے والے اور پھر غریب مفلس جن کو ان ظالموں نے دین سیکھنے کے بہانے اپنے علاقہ میں بلایا اور جب مہمان کی حیثیت سے ان کے وطن میں پہنچے تو ان کو نہایت بے رحمی کے ساتھ تہہ تیغ کر دیا۔ آنحضرتﷺ کو ان معصوم لوگوں پر ظلم و ستم کا انتہائی دکھ پہنچا۔

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے اس خبر کے آنے کی تاریخ سے برابر تیس دن تک ہر روز صبح کی نماز کے قیام میں یا رکوع کے بعد کھڑے ہو کر نہایت گریہ و زاری کے ساتھ قبائل رعل ذکوان، عصیہ اور بنو لحیان کا نام لے لے کر بددعا کی۔

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوة الرجیع حدیث نمبر 4086-4088)

اس قسم کا واقعہ غالباً رسول اللہﷺ کی زندگی کا منفرد واقعہ ہے۔ ان بے گناہ صحابہ کی المناک شہادت پرآپ کا دل اس درد سے تڑپا ہے کہ بے اختیار درد ناک دعاؤں میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ یہ درد اپنے لئے نہیں تھا ان مبلغین کے لئے تھا جو سب کچھ قربان کرکے آپ کے در پر دھونی رما کر بیٹھ گئے تھے۔ تبلیغ حق کو روکنے کی یہ کوشش اللہ کے غضب کو بھڑکاتی چلی گئی۔

جنگ احزاب میں آنحضرتؐ کی بددعا

آنحضرتﷺ کی بددعا کا تیسرا تاریخی واقعہ جنگ احزاب سے تعلق رکھتا ہے۔ سارا عرب متحدہ قوت کے ساتھ مدینہ پر پل پڑا۔ محاصرہ کی کیفیت طول پکڑ گئی۔ مٹھی بھر مسلمان خندق کی حفاظت کے لئے دیوانہ وار دوڑتے پھر رہے تھے۔ ایک دن محاصرین نے یہ وطیرہ اختیار کیا کہ ایک ہی وقت میں مختلف دستوں میں تقسیم ہو کر مختلف موقعوں پر زور ڈال دیتے اور پھر ایک جگہ سے ہٹ کر یکلخت دوسری جگہ پر جا کودتے اور بالآخر اپنی طاقت کو جمع کرکے کمزور ترین مقام پر حملہ آور ہوتے اور خندق کو عبور کرنے کی کوشش کرتے۔ یہ حالت سارا دن جاری رہی۔ مسلمانوں کی قوت بہت قلیل تھی۔ اس لئے سارا دن مسلسل طور پر مصروف رہنا پڑا۔ اس دن کے مقابلہ کی سختی اور مسلسل مصروفیت کی وجہ سے مسلمان اپنی نمازیں بھی ادا نہ کرسکے۔ چنانچہ جب رات کا ایک حصہ گزر گیا اور دشمن کا بیشتر حصہ آرام کرنے کے لئے اپنے کیمپ کی طرف لوٹ گیا۔ اس وقت صحابہ نے جمع ہو کر رسول اللہﷺ کی اقتداء میں دن کی نمازیں پڑھیں۔ اس وقت رسول اللہﷺ نے کفار پر لعنت بھیجتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے ہمیں نمازوں سے روکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے پیٹوں اور قبروں کو جہنم کی آگ سے بھر دے رسول اللہﷺ کے الفاظ یہ ہیں۔مَلَأَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا، كَمَا شَغَلُونَا عَنْ صَلاَةِ الوُسْطَى حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ الخندق)

بعض روایات میں صرف عصر اور بعض میں ظہر و عصر کے بے وقت ہو جانے کا ذکر ہے لیکن یہ بات بالبداہت ثابت ہوتی ہے کہ عبادت پر حملہ رسول اللہ کسی صورت برداشت نہ کرسکتے تھے۔ آپ نے کفار کے خلاف اس لئے بددعا نہیں کی کہ وہ آپ کو قبول نہیں کرتے یا جنگ کرتے ہیں بلکہ صرف اس لئے کہ شَغَلُونَا عَنْ صَلاَةِ الوُسْطَى انہوں نے ہمیں صلوٰة وسطیٰ کی بروقت ادائیگی سے محروم کیا ہے۔

انہی تکلیف دہ ایام میں آپ نے یہ بددعا بھی کی ہے۔اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الكِتَابِ، سَرِيعَ الحِسَابِ، اَللّٰھُمَّ اهْزِمِ الأَحْزَابَ، اَللّٰھُمَّ اهْزِمْهُمْ وَزَلْزِلْهُمْ…(بخاری کتاب الجہاد باب الدعا ٫علی المشرکین حدیث نمبر 2934)یعنی اے اللہ! جس نے مجھ پر قرآن نازل کیا ہے جو بہت جلدی اپنے بندوں سے حساب لے سکتا ہے۔ یہ گروہ جو جمع ہو کر آئے ہیں ان کو شکست دے اے اللہ! ان کو ناکام و نامراد کر۔ اے اللہ! ان کو اچھی طرح ہلا دے۔

یہ دعا اس طرح بھی آئی ہے۔ اللّٰهُمَّ مُنْزِلَ الكِتَابِ، وَمُجْرِيَ السَّحَابِ، وَهَازِمَ الأَحْزَابِ، اهْزِمْهُمْ وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ (بخاری کتاب الجہاد باب لاتمنوا لقاء العدو حدیث نمبر 3024)یعنی اے اللہ! جس نے قرآن نازل کیا ہے اے وہ ذات جو بادلوں کو چلاتی ہے! اے وہ وجود جو لشکروں کو شکست دیتا ہے !تو کفار کے اس لشکر کو بھی زیروزبر کردے اور ہمیں ان پر فتح و نصرت عطا کر۔

چنانچہ انہی دعاؤں کے نتیجہ میں وہ آندھی اٹھی جو نمونہ قیامت بن کر آئی اور کفار کے لشکر میں کھلبلی مچادی۔ آگ کے الاؤ بجھ گئے جو ان کے نزدیک نخوست کی علامت تھی اور مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرت نمائی کا ایک اور نمونہ دیکھا۔

شدید ظالموں کے خلاف بددعا

وہ کفار جو ظلم کی حد کر دیتے تھے۔ ان کے خلاف آنحضرتﷺ نے بددعا کی حضرت سلمہ بن ہشامؓ ، حضرت ولید بن ولیدؓ ، حضرت عیاش بن ابی ربیعہؓ ایمان لے آئے تو قریش نے انہیں ہجرت کرکے مدینہ جانے کی اجازت نہ دی اور قید کر دیا۔ رسول اللہﷺ نے ان مظلوموں کے حق میں دعا کی اور ظالموں کے خلاف بددعا کی۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نےیہ دعا کی۔ اَللّٰھُمَّ أَنْجِ سَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، اَللّٰھُمَّ أَنْجِ الوَلِيدَ بْنَ الوَلِيدِ، اَللّٰھُمَّ أَنْجِ عَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، اَللّٰھُمَّ أَنْجِ المُسْتَضْعَفِينَ مِنَ المُؤْمِنِينَ، اَللّٰھُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، اَللّٰھُمَّ سِنِينَ كَسِنِيِّ يُوسُفَ

(صحیح بخاری کتاب الجہاد باب الدعاء علی المشرکین حدیث نمبر 2932)

یعنی اے اللہ! سلمہ بن ہشام ولید بن ولید اور عیاش بن ابی ربیعہ کو کفار کی قید سے نجات عطا فرما۔ اے اللہ! بے بس مسلمانوں کو نجات دے۔ اے اللہ! تو مضر قبیلہ پر سخت گرفت کر اے اللہ! تو ان پر ویسا ہی قحط نازل کر جیسا کہ حضرت یوسفؑ کے زمانہ میں قحط پڑا تھا۔یہ بددعا آپ نے کئی روز نماز عشاء کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد کھڑے ہو کر کی۔

احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بددعا آپ نے مختلف مواقع پر کی۔ چنانچہ اس کے نتیجہ میں کفار قریش شدید قحط اور بدحالی کا شکار ہوگئے حتیٰ کہ مردار اور ہڈیاں کھانے کی نوبت آگئی اور لوگ فاقوں سے مرنے لگے تب ابوسفیان رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے محمد !تمہاری قوم ہلاک ہو رہی ہے۔ خدا سے دعا کرو کہ اسے بچالے اس پر اس رحمت مجسم نے فوراً اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور خدائے محمدﷺ نے محمد کی سن لی اور قریش کو اس مصیبت سے نجات دی۔

(صحیح بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة الدخان حدیث نمبر 4824)

یہ تھا آنحضرت محمد مصطفیﷺ کا اسوہ کہ جانی دشمنوں پر بھی اللہ کی غضبناک تقدیر کے نتیجہ میں جب مصیبت نازل ہوئی تو اس پر بھی آپ کا دل تڑپ اٹھا اور دعا کے لئے بے قرار ہوگئے۔پس وہ کیسے بدبخت لوگ تھے جنہوں نے اس محبت کے پیکر کو بددعا کرنے پر مجبور کر دیا۔

جنگ احد کا واقعہ

انہی واقعات میں سے ایک واقعہ احد کا بھی ہے۔ جب آپ کو شہید کر دینے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ آپ کے دندان مبارک بھی شہید ہوئے اس موقعہ پر آپ نے فرمایا:اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى قَوْمٍ فَعَلُوا بِنَبِيِّهِ اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى قَوْمٍ يُشِيرُ إِلَى رَبَاعِيَتِهِ اشْتَدَّ غَضَبُ اللّٰهِ عَلَى قَوْمٍ دَمَّوْا وَجْهَ نَبِيِّ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم


(بخاری کتاب المغازی باب مااصاب النبی من الجراح یوم احد حدیث نمبر 4073-4074)

عنی اس قوم پر اللہ کا غضب بھڑکے جس نے اپنے نبی کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے اور اس کو خون آلود کر دیا ہے آپ اپنے دانتوں کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ اس موقعہ پر آپ نے بعض کا نام لے کر بھی ان پر لعنت کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد کھڑے ہو کر خدا سے عرض کرتے۔اللّٰهُمَّ العَنْ فُلاَنًا وَفُلاَنًا وَفُلاَنًا اے اللہ! فلاں فلاں پر لعنت کر۔

(بخاری کتاب المغازی باب لیس لک من الامر شی٫ حدیث نمبر 4069)

کسریٰ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا

کسریٰ شاہ ایران کو آپ نے تبلیغ کے لئے خط لکھا تو اس نے اسے پھاڑ کر ریزہ ریزہ کر دیا۔ آپ نے دعا کی کہ أَنْ يُمَزَّقُوا كُلَّ مُمَزَّقٍ اے اللہ! اس کی سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔ (صحیح بخاری کتاب العلم باب المناولہ حدیث نمبر 64)تاریخ شاہد ہے دنیا کی عظیم الشان سلطنت کے بارہ میں یہ دعا کس طرح حیرت انگیز طور پر قبول ہوئی کہ چند ہی سالوں میں سلطنت کسریٰ کے ایوان میں ایسا انتشار اور تزلزل برپا ہوا کہ شاہان کسریٰ اندرونی خلفشار کا شکار ہو کر ہلاک ہوئے اور یہ سلطنت رفتہ رفتہ نابود ہو کر رہ گئی۔

مخالفین کا بدانجام

ابو لہب کا بیٹا عتبہ بن ابی لہب جب اپنی فتنہ پردازیوں اور شرانگیزیوں سے باز نہ آیا تو آپ نے دعا کی کہااللّٰهُمَّ سَلِّطْ عَلَيْهِ كَلْبًا مِنْ كِلَابِكَ اے اللہ! اس پر کوئی کتا مسلط کر دے۔ تھوڑے ہی عرصہ میں شام کے ایک سفر میں جنگل میں ایک شیر اس پر حملہ آور ہوا اور اسے ہڑپ کر گیا۔

(سنن الکبریٰ بیہقی جلد5 صفحہ 346 حدیث نمبر 10052)

رسول خداﷺ کی قبولیت دعا کا ایک جلالی نشان بھی قابل ذکر ہے بنو نجار سے ایک عیسائی شخص مسلمان ہوا اور سورة البقرہ اور آل عمران بھی یاد کرلی لکھنا پڑھنا جانتا تھا۔ نبی کریمﷺ کی وحی بھی لکھنے لگا مگر کچھ عرصہ بعد مرتد ہو کر پھر عیسائی ہوگیا اور یہود سے جاملا اور وہ اس سے بہت خوش ہوئے وہاں جا کر یہ شخص دعویٰ کرنے لگا کہ محمد کو تو کچھ نہیں آتا میں ہی تھاجو لکھ کر دیا کرتا تھا۔ اس پر یہود نے اسے اور عزت دی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ عیسائی کسی خاص سازش کے لئے بھیجا گیا تھا اور مقصد یہود کے اس طائفہ کی طرح یہ تھا کہ صبح مسلمان ہو کر شام کو انکار کر دو تاکہ مسلمان بھی بدظن ہو کہ پھر جائیں چونکہ اب وہ شخص وحی الٰہی کو اپنی طرف منسوب کررہا تھا اس لئے رسول کریمﷺ نے حق و باطل کے لئے خداتعالیٰ سے خاص نشان طلب کیا اور دعا کی کہ اے اللہ! اس شخص کو عبرت کا نشان بنا۔ یہ دعا اس طرح قبول ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے جلد ہی اس شخص کو ہلا ک کر دیا۔ چنانچہ اسے دفن کر دیا گیا مگر خداتعالیٰ نے اسے عبرت ناک نشان بنانا تھا۔ صبح ہوئی تو دنیا نے یہ حیرت انگیز نظارہ دیکھا کہ زمین نے اسے قبر سے نکال باہر پھینکا۔ عیسائی کہنے لگے کہ یہ کام محمد اور اس کے ساتھیوں کا ہے کہ اس شخص کے مرتد ہونے کی وجہ سے انہوں نے اس کی قبر کھود کر نعش نکال باہر پھینکی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اسے دوبارہ دفن کر دیا اور اس دفعہ قبر اتنی گہری کھودی جتنا وہ کھود سکتے تھے لیکن اگلی صبح پھر یہ عجیب ماجرا دیکھنے میں آیا کہ اس کی نعش زمین سے باہر پڑی تھی۔ عیسائیوں نے پھر وہی اعتراض دہرایا کہ یہ مسلمانوں کا کام ہے۔ چنانچہ اس دفعہ انہوں نے انتہائی گہرا گڑھا کھودا مگر زمین نے تیسری مرتبہ بھی اسے قبول نہ کیا اب عیسائیوں نے سمجھ لیا کہ یہ انسان کے ہاتھوں کا کام نہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس کی نعش کو دو چٹانوں کے درمیان رکھ کر اوپر پتھر پھینک دیئے۔ (مسلم کتاب المنافقین)

پس بہت ہی بدقسمت تھے وہ لوگ جن پر رسول خدا نے لعنت کی ہو اور ان کے خلاف بددعا کی ہو۔ یہ بات مدنظر رہے کہ رسول اللہﷺ رحمة للعالمین تھے۔ آپ محبت اور رحمت اور شفقت کا عظیم ترین پیکر تھے۔ آپ کی دعائیں تمام بنی نوع انسان کے لئے ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہیں لیکن جیسے آپ نے مجبور ہو کر تلوار اٹھائی اور دنیا کو ظالموں سے بچایا اسی طرح نوع انسانی ہی کے مفاد کے لئے کیں مگر پیار کا چشمہ کبھی سست نہیں پڑا۔ یہ بددعائیں اذن الٰہی سے تھیں ورنہ ایک دفعہ ایک صحابیؓ نے آپ سےمشرکوں پر بددعا کرنے کی درخواست کی تو رسول اللہﷺ نے ناراض ہو کر فرمایا إِني لَم أُبعَث لَعاناً، وَلَكِن بُعِثتُ رَحمَةً میں دنیا میں لعنت کرنے کے لئے نہیں آیا بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔(الادب المفرد باب لعن الکافر حدیث نمبر 321) کئی دفعہ ایسا ہؤ ا کہ صحابہ نے آپ سے کسی مخالف کے لئے بددعا کی درخواست کی تو آپ نے اس کے لئے دعا کی اور وہ ایمان لے آیا جیسا کہ دوس قبیلہ۔

(صحیح البخاری کتاب الجہاد باب الدعا٫ للمشرکین حدیث نمبر 2937)

لیکن جب اللہ کی طرف سے حکم ہوا تو آپ نے بددعا بھی کی۔ فرماتے ہیں:أَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنْ أَلْعَنَ قُرَيْشًا مَرَّتَيْنِ، فَلَعَنْتُهُمْ (مسند ابن حنبل جلد32 صفحہ 190 حدیث نمبر 19446)میرے رب نے مجھے حکم دیا کہ میں قریش پر دو دفعہ لعنت کروں سو میں نے لعنت کی۔

گویا کہ آنحضرت کی بددعا کا فعل بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حکم اور رضا کے تابع تھا جس طرح آنحضور کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک ثانیہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور احکام باری کی اطاعت کا اعلیٰ ترین نمونہ تھا لیکن آپ کی رحمت کا پہلو آپ کے خدا کی طرح آپ کے غضب پر ہمیشہ غالب رہا اور غضب کے چند قطروں کو رحمت کے اس سمندر سے کوئی بھی نسبت نہیں جس پر مزید موسلا دھار بارش آسمان سے پڑ رہی ہو اور زمین سے بےشمار دریاؤں کے دھارے اس میں داخل ہو رہے ہوں۔

لیکن اعتدال اور توازن آپ کی زندگی کا ایک خاص پہلو ہے۔ آپ کی پیش کردہ تعلیم کسی پہلو کی طرف جھکی ہوئی نہیں بلکہ عین فطرت انسانی اور قانون قدرت اور صفات الٰہیہ کے مطابق ہے۔ بہت ہی عظیم ہے اس کائنات کا خدا اور انسانوں میں سب سے اعلیٰ و برتر ہے محمد مصطفیﷺ۔

(عبد السمیع خان۔ استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

شکریہ احباب برائےقرارداد ہائے تعزیت بر شہادت شہدائے مہدی آباد برکینا فاسو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مارچ 2023