• 12 مئی, 2024

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات (حصہ دوم قسط 1)

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات
بیان فرمودہ
حضرت مصلح موعودؓ 
حصہ دوم قسط 1

عاجزی و انکساری

کہتے ہیں کہ ایک بزرگ شہر کے قاضی مقرر کئے گئے تو ان کے دوست ان کو ملنے گئے اور بڑی خوشی ظاہر کی اور مسرت کا اظہار کیا مگر جب اندر بلائے گئے اور ان سے ملاقات ہوئی تو دیکھا کہ بڑے زور سے رورہے ہیں اور کثرت گریہ وزاری سے ہچکیاں بند ھی ہوئی ہیں اور سانس اکھڑا ہوا ہے دوستوں نے کہا حضرت اس وقت یہ رونا کیسا اور اس بے موسم کی برسات کے کیا معنی۔ یہ تو خوشی کا وقت تھا اور دعوتوں کا موقعہ آپ اس قدر گھبراکیوں رہے ہیں اس بزرگ نے جواب دیا کہ احمقو تم نہیں جانتے کہ میں کیسی خطرناک حالت میں ہوں۔ میں ایک نابینا ہوں جو دو بیناؤں کے فیصلہ کے لئے مقرر کیا گیا ہوں اور ایک جاہل ہوں جو دوعالموں کے فیصلہ کے لئے چنا گیا ہوں کیونکہ مدعی اور مدعا علیہ میرے پاس آئیں گے اور وہ دونوں اپنا اپنا حال خوب جانتے ہوں گے کہ ہم جھوٹے ہیں یا سچے ہیں مگر میں بالکل ناواقف اور جاہل ان کافیصلہ کروں گا۔ کیا یہ خوش ہونے اور فرحت ظاہر کرنے کا موقعہ ہے یارنج وغم میں کڑھنے کا۔

(انوار العلوم جلد1 صفحہ 273)

فرعون کی لاش لاکھوں کےازدیاد ایمان کا باعث

مصر کے بادشاہ اور صاحب تخت کو فرعون کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ اس لئے جیسے حضرت یوسف ؑ کے وقت میں فرعون حکمران تھا۔ اسی طرح حضرت موسیٰؑ کے زمانہ میں بھی اسی کی حکومت تھی لیکن یہ فرق ضرور ہے کہ وہ فرعون یوسف تھا اور یہ فرعون موسیٰ اس نے ایک نبی کی عزت و اکرام کر کے اپنے ملک کو قحط کی مصیبت سے بچالیا اور اس نے ایک نبی کی ہتک کر کے اپنا ملک اور دولت دونوں کو ویران اور برباد کروایا ….بنی اسرائیل نے مصر کی سرزمین میں قریباً دو صدیاں گزاردی تھیں اس عرصہ میں بنی اسرائیل نے خوب ترقی کی اور معدودے چند انفاس سے ہزاروں کی تعداد کو پہنچ گئے۔ اس لئے فراعنہ ان سے کسی قدر خائف رہنے لگے جس کا نتیجہ ہوا کہ ان پر طرح طرح کےظلم ہونے شروع ہو گئے۔

فراعنہ (فرعون کی جمع)کے ان سے ڈرنے کی ایک یہ وجہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ خود فراعنہ بھی مصر کے اصلی باشندے نہ تھے۔ (چنانچہ مصری زبان میں فراعنہ کے خاندان کو ہکسوز کہتے ہیں جس کے معنے ہیں اجنبی۔ چونکہ یہ لوگ مشرق سے گئے تھے۔ اس لئے ان کا نام بھی اجنبی پڑ گیا تھا۔بائبل سےبھی اس کا کچھ پتہ چلتاہے اور وہ یہ کہ خروج باب ایک آیت 10،11میں ہے ‘‘ اور اس نے (فرعون نے) اپنے لوگوں سے کہادیکھو کہ بنی اسرائیل کے لوگ ہم سے زیادہ اور قوی تر ہیں۔ آؤ ہم ان سے دانشمندانہ معاملہ کریں تانہ ہووے کہ جب وے اور زیادہ ہوں اور جنگ پڑے تو وہ ہمارے دشمنوں سے مل جاویں اور ہم سے لڑیں اور ملک سے نکل جاویں ’’ اس سے بھی معلوم ہوتاہے کہ فراعنہ اجنبی تھے کیونکہ ڈیڑھ سوسال میں دس بارہ آدمیوں کی نسل اس قدر کب بڑھ سکتی ہے کہ ملک کے اصل باشندوں سے بھی زیادہ ہو جائے پس معلوم ہوتاہے کہ وہ باہر سے آئے ہوئے تھے اور تعداد میں تھوڑے ہی تھے۔ باقی ان دونوں خاندانوں کے سوا اور قومیں بستی ہوں گئی)بلکہ مشرق سے جا کر اس ملک پر قابض ہوگئے تھے اور یہ بنی اسرائیل اہل عرب کی طرح سامی النسل تھے۔ چنانچہ حضرت ابراہیمؑ کے خاندان کا ا س ملک سے خا ص تعلق بھی اس خیال پر کچھ روشنی ڈالتا ہے۔پس ان کو ہر وقت خیال رہتا تھا کہ ایسا نہ ہو کوئی قوم زبردست ہو کر اصل با شندو ں سے یا کسی اور قو م سے مل کر ہم سے مل کر ہم کو اس ملک سے نکال دے۔ پس جب بنی اسرائیل کی بڑھتی ہوئی طاقت انہوں نے دیکھی تو ارادہ کیا کہ کسی طرح اس کو روکا جائے۔ چنانچہ انہوں نے بنی اسرائیل کو طرح طرح کے دکھ دینے شروع کئے اور علاوہ ان کے بچے قتل کرنے کے کل کی کل قوم سے اینٹیں پاتھنے کا کام لینا شروع کیا اور ان کے مشغول رکھنے کے لئے دو شہر فسوم اور رعمسیس تیار کروانے شروع کر دئیے۔ جن میں سے مؤخرالذ کر شہر اس وقت کے فرعون کے نام پر تھا اس شخص کا بیٹا منفتاح وہ مشہور شخص ہے جس نے ایک نبی کی مخالفت کر کے اپنا ہی نہیں بلکہ اپنے باپ دادوں کا نام بھی بد نام کر دیا کیونکہ بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک بڑھی کہ ‘‘ہر فرعون راموسیٰ’’کی مثل نے تو گویا ہر ایک فرعون کو ظالم وخود سر ہی قرار دے دیا۔یہ شخص بڑا متکبر تھا۔اور اسے بھی اپنے باپ کی طرح عمارتیں بنانے کا بہت شوق تھا۔جس کا ایک با عث تو یہ تھا کہ بنی اسرا ئیل کام میں لگے رہیں دوسرے اس وقت اردگر د کے بادشاہوں سے صلح ہونے کی وجہ سے اسے فرصت بھی بہت تھی اورتیسر ے اس خاندان میں عمارتیں بنوانے کا شوق مدتوں سے چلا آیا تھا۔چنانچہ لفظ فرعون بھی اصل میں آراوراو سے مرکب ہے جس کے معنے ہیں ‘‘بڑامکان’’ اول تو یہ لفظ صرف مکانوں پر ہی بولا جاتا تھا لیکن غالباً آخر میں شاہی قلعہ کی عظمت کو دیکھ کر اسی کے لئے یہ لفظ مخصوص ہو گیا اور شاہی قلعہ کے بعد خود بادشاہ پر یہ لفظ بولا جانے لگا۔چنانچہ اس وقت بھی اس کی ایک مثال ہے۔اعلیٰ سلطان روم کے وزراءکو باب عالی کہتے ہیں۔ غرض یہ کہ امن کی زندگی ،خاندانی شوق اور پھر بنی اسرائیل کو کام میں لگائے رکھنے کے خیال نے فرعون منفتاح کو بھی عمارتوں کی تعمیر کی طر ف متوجہ رکھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نبی اسرائیل میں بڑی کمزوری اور پست ہمتی پھیل گئی اور ان کے دل فرعون کے ڈر سے مرعوب ہو گئے۔ چنانچہ قرآن شریف میں ہے قَالَ اَصۡحٰبُ مُوۡسٰۤی اِنَّا لَمُدۡرَکُوۡنَ ﴿ۚ۶۲﴾

(الشعراء: 62)

حالانکہ نا امیدی اور مجبوری کمزور سے کمزور انسان کو مقابلہ پر ابھار دیتی ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل اس وقت ایسے پست ہمت ہو گئے تھے کہ ان میں ایسے موقعہ پر بھی جرأت دکھانے کی جرأت باقی نہ تھی۔جب یہ حالت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان وعدوں کے مطابق جو حضرت ابراہیم ؑ سے ان کی اولاد کے متعلق کئے تھے ایک شخص کو پیدا کیا۔جس کا نام اس کے والدین نے موسیٰ رکھا۔موسیٰؑ کی پیدا ئش کے وقت بچوں کے قتل کا حکم ظالم بادشاہ کی طرف سے عام ہو رہا تھا۔ان کی والدہ بھی خائف تھیں کہ کوئی گھڑی میں یہ بچہ بھی ظالموں کے ہاتھ سے قتل کیا جائے گا۔کہ اللہ تعالیٰ نے بموجب آیت شریفہ وَاَوْ حَیْنآ اِلیٰ اُمِ مُوْسیٰوَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی اَنۡ اَرۡضِعِیۡہِ ۚ فَاِذَا خِفۡتِ عَلَیۡہِ فَاَلۡقِیۡہِ فِی الۡیَمِّ وَلَا تَخَافِیۡ وَلَا تَحۡزَنِیۡ ۚ اِنَّا رَآدُّوۡہُ اِلَیۡکِ وَجَاعِلُوۡہُ مِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۸﴾(القصص:8)(اور ہم نے وحی کی والدہ موسیٰؑ کی طرف کہ اس کو دو دھ پلا اور جب توڈرے اس کی جان کے متعلق تو اسے دریا میں ڈال دے اور ڈر نہیں اور نہ غم کھا میں اسے تیری طرف واپس لاؤں گا۔ اور رسولوں کی جماعت میں داخل کروں گا)۔انہیں اللہ تعالیٰ نے ظالموں کے ہاتھوں سے بچالیا۔پھر یہ ہؤا کہ دریا کے کنارے پر ان کوفرعون کی لڑکی نے دیکھا اور اس کو ان پر رحم آیا۔ ان کو نکال کر پالنے کا ارادہ کیا جیسا کہ قرآن شریف میں ہے۔ فَالۡتَقَطَہٗۤ اٰلُ فِرۡعَوۡنَ لِیَکُوۡنَ لَہُمۡ عَدُوًّا وَّحَزَنًا ؕ اِنَّ فِرۡعَوۡنَ وَہَامٰنَ وَجُنُوۡدَہُمَا کَانُوۡا خٰطِئِیۡنَ ﴿۹﴾(القصص:9) یعنی اسے اٹھا لیا فراعنہ کی ا ولاد میں سے کسی نے تاکہ ہو ان کے لئے دشمن اور غم کا با عث۔ تحقیق فرعون اور ہامان اورا ن کا لشکر خطا کار تھے۔فرعون نے مارنا چاہا لیکن بیٹی کی د لجوئی یا کسی اور غرض کے لئے اس کی بیوی شفیع ہوئی اور ان کو بیٹا بنا لینے کا ارادہ ظاہر کیا اور قتل سے روکا۔چنانچہ قرآن شریف میں ہے۔ وَقَالَتِ امۡرَاَتُ فِرۡعَوۡنَ قُرَّتُ عَیۡنٍ لِّیۡ وَلَکَ ؕ لَا تَقۡتُلُوۡہُ ٭ۖ عَسٰۤی اَنۡ یَّنۡفَعَنَاۤ اَوۡ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا وَّہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۰﴾(القصص:10) دودھ پلانے کے لئے آپ کی وا لدہ ہی مقرر ہوئیں۔اس لئے بچپن ہی سے آپ کو فراعنہ اور نبی اسرائیل کے تعلقات کا حال معلوم ہوتا رہا۔اور خوب اچھی طرح ذہن نشین ہو گیا کہ اس و قت ان کی حالت جانوروں سے بدتر ہے۔ بڑے ہوئے تو شہزادگی کی زندگی بسر کرنے کی وجہ سے قویٰ خوب مضبوط اور خیالات عالی تھے۔ مظلوموں کی مدد پر ہر وقت تیار رہتے۔ ایک دفعہ دیکھا کہ ا یک عبری سے ایک فرعونی لڑرہا ہے۔آپ سے اس کا ظلم نہ دیکھا گیا۔ بڑھ کر اس فرعونی کومکامارا اور اتفاقاًوہ ایسے مقام پر لگا کہ وہ مر گیا۔

دو سرے دن پھر دو شخصوں کو لڑتے دیکھا جن میں سے ایک وہی کل والا عبری تھا۔ آ پؑ نے فرمایا کہ تو بڑا شوخ ہے۔روزلڑائی کرتا ہے۔ یہ کہہ کر ان دونوں کی طرف لپکے۔اس نے سمجھا مجھے بھی مارنے آتے ہیں۔ بول اٹھا کہ آپؑ نے جیسے کل فلاں کو مارا تھا آج مجھے بھی مارنا چاہتے ہیں آ پ ؑ سمجھے کہ اب بات کھل گئی اور فراعنہ سے لڑائی کی ابتدا ہوگئی مصر کو چھوڑ کر ایک اور ملک میں آگئے جہاں قر یباً دس سال رہے اور اللہ تعا لیٰ کا حکم پاکر ملک مصر میں واپس آئے۔راستہ میں فرعون کی ہدایت کا کام سپر دہؤا۔ اب یہ وہ فرعون نہ تھا جس کے عہدمیں یہ بھاگے تھے۔ بلکہ رعمسیس کے بعد اس کا بیٹا منفتاح بیٹھا تھا۔چنانچہ حضرت موسیٰؑ اس کے پاس پیغام الٰہی لے کرپہنچے اور حکم الٰہی کے ماتحت بڑی نرمی سے عرض کیا کہ آپ کے رب کی طرف سے ہم رسول ہیں کہ آپ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج د یں۔یہ کل واقعہ قرآن شریف میں یوں ہے : اِذۡہَبَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی ﴿ۚۖ۴۴﴾ فَقُوۡلَا لَہٗ قَوۡلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوۡ یَخۡشٰی ﴿۴۵﴾ قَالَا رَبَّنَاۤ اِنَّنَا نَخَافُ اَنۡ یَّفۡرُطَ عَلَیۡنَاۤ اَوۡ اَنۡ یَّطۡغٰی ﴿۴۶﴾ قَالَ لَا تَخَافَاۤ اِنَّنِیۡ مَعَکُمَاۤ اَسۡمَعُ وَاَرٰی ﴿۴۷﴾ فَاۡتِیٰہُ فَقُوۡلَاۤ اِنَّا رَسُوۡلَا رَبِّکَ فَاَرۡسِلۡ مَعَنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ۙ وَلَا تُعَذِّبۡہُمۡ ؕ قَدۡ جِئۡنٰکَ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ وَالسَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الۡہُدٰی ﴿۴۸﴾ اِنَّا قَدۡ اُوۡحِیَ اِلَیۡنَاۤ اَنَّ الۡعَذَابَ عَلٰی مَنۡ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی ﴿۴۹﴾ قَالَ فَمَنۡ رَّبُّکُمَا یٰمُوۡسٰی ﴿۵۰﴾ قَالَ رَبُّنَا الَّذِیۡۤ اَعۡطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلۡقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی ﴿۵۱﴾

(طٰہٰ:44-51)

یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ وہارونؑ کوفرمایا کہ تم دونوں فرعون کی طرف جاؤکہ وہ سرکش ہو رہا ہے۔پس دونوں اس سے بڑی نرم باتیں کرو تاکہ وہ ان پر عمل کرے اور ڈرے۔ان دونوں نے عرض کیا کہ اے ہمارے رب ہم توڈرتے ہیں کہ وہ ہمارے معاملہ میں ز یا دتی سے کام نہ لے اور حضور کے پیغام کے مقابل سرکشی کام میں نہ لائے۔ فرمایا کہ تم اس بات سے خوف مت کرو۔میں تمہارے ساتھ ہوں سنتا ہوں اور د یکھتا ہوں پس اس کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم تیرے رب کی طرف سے رسول ہیں۔پس تو ہمارے ساتھ نبی اسرائیل کو بھیج دے ا ور انہیں عذ ا ب مت دے۔ہم تیرے پاس دلائل بھی لائے ہیں جو تیرے رب کی طرف سے ہیں اور سلامت وہی رہتا ہے جو ہدایت کے پیچھے چلے۔ ہماری طرف وحی کی گئی ہے کہ جو جھٹلائے یامنہ پھیرے اس کے لئے عذاب ہو گا(فرعون نے ان کی بات کی کچھ پرواہ نہ کی اور بحث شرو ع کر دی ) اس نے کہا اے موسیٰ تمہارا رب کون ہے (وہ حضرت ہارونؑ کی طرف مخاطب بھی نہیں ہوا معلوم ہوتا ہے۔ وہ ان کو نغوذ باللہ بہت حقیر جانتا تھا۔لیکن حضرت موسیٰؑ چونکہ قلعہ میں رہتے رہے تھے اور اس کے بھائیوں کی طرح پرورش پاتے رہے تھے اس لئے ان کو مخا طب کیا) آپؑ نے جواب دیا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر ایک چیز کوپیدا کیا اور پھر اسے راہ دکھائی۔

اس مباحثہ کے بعد آپس میں اور جھگڑے ہوتے رہے لیکن فرعون نے قطعاً اس کی پرواہ نہ کی اور بنی اسرائیل کو دکھ دہی اور ایذاء رسانی میں بڑ ھتا گیا اور یہاں تک کہ بنی اسرائیل چلاّ اٹھے کہ اے موسیٰؑ تیرے آنے سے تو ہمارے دکھ اور بھی بڑھ گئے ہیں آخر معاملہ جب حد سے بڑھ گیا تو ا للہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کوحکم دیا کہ اب ملک مصر سے راتوں رات نکل بھاگو۔چنانچہ وہ ایک رات مصر سے چلے اور شام کا رستہ لیا۔خشکی کا را ستہ جس میں آجکل نہر سویز نکالی گئی ہے دور تھا۔جلدی میں سمندر کے ساحل کی راہ لی اتنے میں فرعون منفتاح کو خبر ہو گئی وہ پیچھے بھاگا اورکنا رہ سمنددپر ان کو جالیا۔نبی اسرائیل تو گھبراگئے لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم سے موسیٰؑ نے ان کو سمندر میں گھس جانے کاحکم دیا۔ پانی پھٹ گیا۔اور و ہ بیچ میں سے صاف نکل گئے۔فرعون کوبھی یہ نظارہ دیکھ کر دلیری پیدا ہوئی۔اور وہ بھی مع لشکر اند ر گھس گیا۔لیکن ایک دفعہ گھسنے کے بعد پھر با ہر نکلنا نصیب نہ ہوا۔ایک ہی لہر سی آئی کہ اسے مع لشکر کے بہا کر لے گئی۔قرآن شریف میں آتا ہے کہ اس موقعہ پر اس نے کہا کہ اٰمَنۡتُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیۡۤ اٰمَنَتۡ بِہٖ بَنُوۡۤا اِسۡرَآءِیۡلَ وَاَنَا مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ(سورةیونس:91)(یعنی میں ایمان لے آیا کہ کو ئی معبود نہیں سوا ئے اس کے کہ جس پر نبی اسرائیل ایمان لائے۔اور میں فرما نبرداروں میں سے ہوں لیکن یہ وقت تو بہ کا نہ تھا۔بہت سے ا یسے مواقع تو بہ کے ملے پر اس نے قدر نہ کی ہر دفعہ شرارت میں ترقی ہی کی۔پس جب عذاب آہی گیا۔اور پانی نتھنوں سے نیچے اتر گیا تو اب توبہ کا کون سا مو قعہ تھا۔اس لئے فرماتا ہے۔کہ آٰلۡـٰٔنَ وَقَدۡ عَصَیۡتَ قَبۡلُ وَکُنۡتَ مِنَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ﴿۹۲﴾ فَالۡیَوۡمَ نُنَجِّیۡکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوۡنَ لِمَنۡ خَلۡفَکَ اٰیَۃً ؕ وَاِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ النَّاسِ عَنۡ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوۡنَ ﴿۹۳﴾(یونس:92-93)یعنی اب تو توبہ کرتا ہے اور پہلے نافرمانیاں کر چکا ہے۔ اور فسادیوں کے گروہ میں شامل رہا ہے۔ پس آج کے دن ہم تیرے بدن کو نجات دیں گے۔تاکہ تو اپنے پچھلوں کے لئے نشان ہو اور لوگوں میں سے اکثر ہماری نشانیوں سے غافل ہیں اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کی لاش غرق ہونے سے بچ گئی بلکہ سمندر کے باہر جا پڑی اور اس کے لشکریوں نے اسے اٹھا کر دفن کیا۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے کہ جس کا جود قرآن شریف کے سوا اور کہیں نہیں پایا جاتا۔نہ توریت میں کہیں اس کا ذکر ہے نہ انجیل میں اور نہ انبیاء ؑ کی کتب میں۔لیکن یہ ثابت کرنا کہ آج سے تین ہزار سال پہلے ا یک شخص کی لاش دریا سے نکلی تھی یا نہیں؟ بہت مشکل تھا۔مگر جو کچھ خدا تعالیٰ فرمائے اس کے سچا ہونے میں بھی کچھ کلام نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے یہ سامان بنا دیا کہ اس زمانہ میں جبکہ ہر ایک علم کی ترقی ہو رہی ہے۔ آثار قدیمہ کی تحقیقات کا شو ق بھی بہتوں کو لگا ہوا ہے ایسے لوگوں میں سے بعض آدمی مصر کے آثار قدیمہ کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔انہیں میں سے ایک شخص مسٹر لا ر یٹ نے مقابر فراعنہ میں 1898ءمیں ایک بادشاہ کو تابوت میں پڑا پایا۔اور جو کچھ اس پر لکھا ہؤا تھا اسے پڑھ کر معلوم کیا کہ یہ’’خون ا تن‘‘با دشاہ کی لاش ہے۔ لیکن چونکہ ’’ہیر فلیف‘‘ خط میں اکثر دھوکا ہو جاتا ہے۔ اس لئے مسٹر جروف کے سامنے اس نے یہ معاملہ پیش کیا جس نے ا س لفظ کو ریان با پڑھا۔دونوں کے تنازعہ کو دور کرنے کے لئے ہیرو کو بلایاگیا۔اور اس کے ساتھ اور علماءبھی تھے جب انہوں نے وہ حروف د یکھے تو فوراً بول اٹھے کہ ’’یہ ریان با ہے۔ریان با موسیٰ کا فرعون تھا۔‘‘اس تابوت کو اور کھولا گیا۔تو اس پر منفتاح بھی لکھا ملا۔جو فرعون موسیٰ کا دوسرا نام تھا۔اب تو سب کو یقین ہو گیا کہ یہ وہی ہے فوراً وہ لاش قاہرہ دارالخلافہ مصر میں لائی گئی۔اور وہاں کے عجائب خانہ کے ایوان قیصری میں رکھی گئی جس میں کہ اور بہت سے بادشاہوں اور بیگمات کی لاشیں رکھی گئی ہیں اس تحقیقات سے زمانہ قدیم کے آثار کے متلاشیوں کو تو جو خوشی ہوئی ہو گی وہ سمجھ میں آہی سکتی ہے مگر مسلمانوں کے لئے تو اس تحقیقات نے بڑی بڑ ی خوشیوں کے دروازے کھول دئیے ہیں۔کیونکہ جو بات آج سے تیرہ سو سال پہلے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمائی تھی۔ وہ آج پایۂ صداقت کو پہنچ رہی ہے کیونکہ جیسا کہ میں اوپر بیان کر آیا ہوں فرعون کے جسم کے محفو ظ رہنے کی خبر سوائے قرآن شریف کے اور کسی کتاب میں نہیں ہے پس آج اس لاش نے نکل کر اسلام کی سچائی پر ایک بیّن دلیل قائم کر د ی ہے کہاں تین ہزار سال کا مردہ اور کہاں اس کی نسبت یہ بتا دینا کہ یہ آنے والی قوموں کے لئے ہدایت کا باعث ہو گا۔کچھ کم تعجب کی بات نہیں۔ یہ لاش عمدگی سے مسالہ لگی ہوئی ہے۔(مصر میں ایک خاص قسم کا مسالہ ہوتاہے جسے لگادینے سے مردہ لاش ہزاروں سال تک بھی خراب نہ ہوتی تھی اور اس مسالہ کی بدولت فرعون کی لاش بھی ہم تک پہنچی ہے اس مسالہ کی لگی ہوئی لاش ممی کہلاتی ہے ) اور فرعون کی شکل اچھی طرح سے پہچانی جاتی ہے اور بہت سی علامتیں جن کا ذکر کتب تواریخ میں تھا اس میں پائی جاتی ہیں اس کی تصویر بھی بعض اخباروں میں چھپی ہے لیکن وہ ہمیں دستیاب نہیں ہو سکی اس لئے یہاں نہیں دیجا سکتی۔ورنہ اگر کہیں سے مل جاتی۔ تو ہم کو بڑی خوشی ہوتی کہ ہم اس کو بھی شائع کر دیتے تا کہ لوگ دیکھتے کہ یہ وہ شخص ہے جو آج سے تین ہزار سال پہلے سمندر میں غرق ہوا تھا اور جس کی نسبت قرآن شریف میں بتایا گیا تھا کہ اس کی لاش بچ گئی ہے اور محفوظ رکھی ہوئی ہے اور یہ کہ ایک زمانہ میں وہ مل بھی جائے گی۔اور لوگوں کے لئے عبرت کا باعث ہو گی۔اور اس طرح ایک پیشگوئی میں گویا پانچ باتیں بتائی گئی تھیں۔

اول تو یہ کہ فرعون کی لاش سمندر میں بہہ نہیں گئی بلکہ وہ سلامت باہر پہنچ گئی کیونکہ سمندر میں ڈونبے والے کا اکثر تو یہی حال ہوتا ہے۔ کہ یا تو اسے جانور کھا جاتے ہیں اور یا وہ دور دراز بہہ جاتا ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ وہ بلا کسی قسم کے نقص کے کنارہ پر لگا دی گئی تھی۔

دوسری بات یہاں سے یہ معلوم ہوئی کہ اس کو مسالہ بھی لگایا گیا تھا۔کیونکہ یہ بھی ممکن تھا کہ اسے مسالہ نہ لگایا جاتا۔جیسا کہ اس فرعون منفتا ع کے باپ رعمسیس کی لاش کو مسالہ نہیں لگایا گیاتھا۔ کیونکہ وہ کوڑھ کی وجہ سے بہت گل گیا تھا اور اسی طرح یہ ضروری نہ تھا کہ ہر ایک بادشاہ کی لاش کو مسالہ لگایا جائے۔پس آیت قرآن شریف کے اس حصہ یعنی لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَةً سے صاف ثابت ہے کہ اسے مسالہ بھی لگایا جائے گا۔کیونکہ اگر مسالہ نہ لگایا جاتا تو وہ اس وقت تک گل سٹر جاتی ہم تک پہنچتی ہی کیونکر۔

تیسرے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ آخر زمانہ تک محفوظ بھی رہے گی۔کیونکہ یہ بھی کچھ ضروری نہیں کہ سب مسالہ والی لاشیں آج تک محفوظ رہیں۔ ہزاروں لاکھوں لاشیں تھیں جو مسالہ دار تھیں لیکن ضائع ہو گئیں۔کیونکہ ایک زمانہ مصر میں ایسا آیا ہے کہ جو رات کو شمع کی بجائے مسا لہ دار لاشوں کے ٹکڑے جلاتے تھے۔ کیونکہ وہ ایسی عمدہ جلتی ہیں کہ جیسے کا فوری شمع اور اور بھی کئی ذریعے ہیں جن سے وہ ضائع ہو سکتی ہیں۔ پس اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتاتھا کہ وہ لاش ہر قسم کی مہلک چیزوں سے بچ کر پچھلے لوگوں تک پہنچ بھی جائے گی۔

چوتھے یہ معلوم ہوا کہ نہ صرف وہ محفوظ رہے گی بلکہ وہ مل بھی جائے گی کیونکہ اگر کسی کھوہ یا غار میں پڑی رہتی تو لوگوں کے لئے کس نفع کا باعث ہو سکتی تھی۔

پانچوں یہ کہ وہ مل کر پہچانی بھی جائے گی کیونکہ ’’نشان‘‘تبھی ہو سکتی تھی کہ اگر اس کی شناخت بھی ہو جاتی۔اگر بالفرض وہ مل بھی جاتی۔مگر اس کی شناخت نہ ہوتی۔تب بھی اس میں نقص رہ جاتا۔

پس اس ایک آیت میں پانچ آیتیں ہیں جو قرآن شریف کی سچائی کی دلیل ہیں او رمؤمنوں کے لئے ازدیاد ایمان کا باعث ہیں۔ پس اس لاش پر مجھے سخت تعجب ہے کہ جب اس میں جان تھی تب تو اس نےہزاروں کو گمراہ کیا ہوگا لیکن روح سے جدا ہو کر اور ہزاروں سال تہہ تہ زمین میں رہ کر اس میں کیا کیمیائی اثر پیدا ہو گیا کہ آج یہ لاکھوں کے ازدیاد ایمان کا باعث ہو گئی۔

(انوار العلوم جلد1 صفحہ 293-299)

گناہ سے نجات کا طریق

کہتے ہیں چور جس گھر پر کھانا کھالے وہاں چوری نہیں کرتا۔ حالانکہ چور ایسا ذلیل ہے کہ کوئی شریف آدمی اس کے ساتھ بیٹھنا گوارا نہیں کرتا تو پھر جس کا تم روز کھاتے ہو اسی کی نمک حرامی کرو تو اس چور سے بدتر ہو یا نہیں۔کان ،حلق ،زبان،منہ ،پانی،سب کچھ خدا کا دیا ہو مگر محبت کریں اَوروں سے اور اپنے حقیقی محسن کو بھول جائیں۔ کس قدر شرم اور افسوس کی بات ہے۔

کیا لطیف نکتہ معرفت ہے اس حکایت میں جو میں نے پچھلے دنوں پڑھی کہ ابراہیم ادہمؒ کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ مجھ سے گناہ نہیں چھوٹ سکتے۔ آپ نے فرمایا چھ باتیں بتاتا ہوں ان پر عمل کرو پھر بے شک گناہ کرلیا کرو(۱)جب تو خدا کا گناہ کرے تو خدا کا بنایا ہوا رزق نہ کھائیو(۲)دوسرا یہ کہ اگر خدا کا گناہ کرنا ہے تو خدا کے ملک میں نہ رہیو(۳)یہ کہ اگر خدا کا گناہ کرنا ہے تو خدا سے چھپ کر کیجئو(۴)چہارم یہ کہ اگر خدا کا گناہ کرنا ہے تو پھر منکر نکیر جب سوال کریں تو ان سے انکار کر دینا کہ میں تمہارے سوالوں کا جواب نہیں دیتا(۶)ششم یہ کہ جب تجھے دوزح میں ڈالنے لگیں تو اڑبیٹھنا کہ میں تو یہاں نہیں جاتا۔

اس نے عرض کیا کہ حضور یہ تو نہیں ہو سکتا۔فرمایا پھر کیسی بے حیائی اور بے شرمی ہے کہ تو اسی کا رزق کھاتا ہے اسی کی زمین پر رہتا ہے پھر مو ت کا مالک نہیں اور پھر اس کے سامنے اس کے احکام کو ٹالتا ہے۔

(انوار العلوم جلد1 صفحہ 373-374)

خدا سے زیادہ پیارا کوئی نہیں

تقویٰ ایک ایسی نعمت ہے کہ جس شخص کو حاصل ہو پھر وہ اس کے مقابل میں دنیا کی کسی چیزکی پرواہ نہیں کرتا چنانچہ ایک بات حضرت اقدس ؑ کی مجھے یاد آگئی۔ آپ لوگوں کا حق ہے کہ آپ کو سنائی جائے۔کیونکہ اگرچہ میرا حضرت سے دو ہرا یعنی جسمانی بھی اور روحانی بھی تعلق ہے۔ مگر رو حانی لحاظ سے آپ بھی ان کے بیٹے ہیں۔آپ کی نوٹ بک میں نے دیکھی۔ آپ کا معمول تھا کہ جب کوئی پاک خیال پاک جذبہ دل میں اٹھتا تو آپ لکھ لیتے۔اس نوٹ بک میں خد ا کو مخاطب کر کے لکھا ہے۔

’’اومیرے مولیٰ !میرے پیارے مالک! میرے محبوب! میرے معشوق خدا!دنیا کہتی ہے تو کافر ہے۔مگر کیا تجھ سے پیار ا مجھے کوئی اور مل سکتا ہے۔اگر ہو تو اس کی خاطر تجھے چھوڑدوں۔ لیکن میں تو دیکھتا ہوں کہ جب لوگ دنیا سے غافل ہو جاتے ہیں۔جب میرے دوستوں اور دشمنوں کو علم تک نہیں ہوتا کہ میں کس حال میں ہوں۔اس وقت تو مجھے جگاتا ہے۔اور محبت سے پیار سے فرماتا ہے کہ غم نہ کھا۔میں تیرے ساتھ ہوں۔ تو پھر اے میرے مولیٰ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس احسان کے ہوتے پھر میں تجھے چھوڑدوں۔ ہر گز نہیں ہر گز نہیں‘‘۔

(انوار العلوم جلد 1 صفحہ 375-376)

دائیں طرف کا لحاظ

آنحضرتﷺ فداہ نفسی کی یہ بھی عادت تھی کہ آپ ؐ ہمیشہ دائیں طرف کا لحاظ رکھتے۔ کھانا کھاتے تو دائیں ہاتھ سے۔ لباس پہنتے تو پہلے دایاں ہاتھ یا دایاں پاؤں ڈالتے۔جوتی پہنتے تو پہلے دایاں پاؤں پہنتے۔ غسل میں پانی ڈالتے توپہلے دائیں جانب۔ غرض کہ ہر ایک کام میں دائیں جانب کو پسند فرماتے۔ حتیٰ کہ جب آپؐ کوئی چیز مجلس میں بانٹنی چاہتے تو پہلے دائیں جانب سے شروع فرماتے۔اور اگر اس قدر ہوتی کہ صرف ایک آدمی کو کفایت کرتی تو اسے دیتے جو دائیں جانب بیٹھا ہوتا۔

اور اس بات کا اتنا لحاظ تھا کہ حضرت انس ؓفرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے لئے ایک بکری کا جو گھر میں رہتی تھی دودھ دوہا اور اس کے بعد دودھ میں اس کنویں سے پانی ملایا جو میرے گھر میں تھا۔پھر رسول اللہﷺ کو وہ پیالہ دیا گیا۔اس وقت آپﷺ کے بائیں جانب حضرت ابوبکر ؓ اور دائیں جانب ایک اعرابی تھا آپﷺ نے اس میں سے کچھ پیا۔پھر جب پیالہ منہ سے ہٹایا تو حضرت عمرؓ نے اس خوف سے کہ کہیں اس اعرابی کو جو آپﷺ کے دائیں جانب بیٹھا تھا نہ دے دیں عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ابوبکرؓ آپ کے پاس بیٹھے ہیں انہیں دے دیجئے گا۔لیکن آپﷺ نے اس اعرابی کو جو آپﷺ کے دائیں جانب بیٹھا تھا وہ پیالہ دیا اور فرمایا کہ دایاں دایاں ہی ہے۔

(تجریدبخاری باب فی الشرب)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ دائیں جانب کا کتنا لحاظ رکھتے تھے جو آپﷺ کی پاک فطرت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ فطرت انسانی میں دائیں کوبائیں پر ترجیح دینا رکھا ہے اور اکثر ممالک کے باشندے باوجود آپس میں کوئی تعلق نہ رکھنے کے اس معاملہ میں متحد ہیں اور دائیں کو بائیں پر ترجیح دیتے ہیں۔اور چونکہ آنحضرتﷺ کی فطرت نہایت پاک تھی اس لئے آپﷺ نے اس بات کی بہت احتیاط رکھی۔

ایک اور حدیث بھی آپﷺ کی اس عادت پر روشنی ڈالتی ہے۔ سہل بن سعد ؓ فرماتے ہیں کہ آنحضر تﷺ کے پاس ایک پیالہ لایا گیا جس میں سے آپ نے کچھ پیا اس وقت آپ کے دائیں جانب ایک نوجوان بیٹھا تھا جو سب حاضرین مجلس میں سے صغیر السن تھا اور آپ کے بائیں طرف بوڑھے سردار بیٹھے تھے پس آپ نے اس نوجوان سے پوچھا کہ اے نوجوان کیا تو مجھے اجازت دیتاہے کہ میں یہ پیالہ بوڑھوں کو دوں۔ اس نوجوان نے جواب دیا کہ یارسول اللہ میں آپﷺ کے تبرک کے معاملہ میں کسی اور کے لئے اپنا حق نہیں چھوڑ سکتا۔ اس پر آپ نے وہ پیالہ اسی کو دے دیا اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ آپﷺ دائیں طرف کا ایسا لحاظ رکھتے کہ بائیں طرف کے بوڑھوں کو پیالہ دینے کے لئے آپﷺ نے اول اس نوجوان سے اجازت طلب فرمائی اور اس کے انکار پر اس کے حق کو تسلیم کیا۔

(انوارالعلوم جلد 1 صفحہ 453-454)

سچے مرید

اگر کسی شخص نے سچے مرید اور کامل متبع دیکھنے ہوں تو آنحضرتﷺ کے صحابہؓ کودیکھے جو اپنے جان و مال کو رسول کریمﷺ کے نام پر قر با ن کر دینے میں ذرا دریغ نہ کرتے تھے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عضل اور قارة دو قبیلوں کے کچھ لوگ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کیا کہ ہماری قوم اسلام کے قریب ہے آپﷺ کچھ آدمی بھیجئے جو انہیں دین اسلام سکھائیں۔آپﷺ نے ان کی درخواست پر چھ صحابہؓ کو حکم دیا کہ وہاں جا کر انہیں اسلام سکھائیں۔ اور قرآن شریف پڑھائیں۔ان صحابہ ؓ کا عامر بن عاصمؓ کو امیر بنایا۔جب یہ لوگ صحابہؓ کو لے کر چلے تو راستہ میں ان سے شرارت کی اور عہد شکنی کر کے ہذیل قبیلہ کے لوگوں کو اکسایا کہ انہیں پکڑ لیں۔ انہوں نے ایک سو آدمی ان چھ آدمیوں کے مقابلہ میں بھیجا۔ صحابہ ؓ ایک پہاڑ پر چڑھ گئے۔ کفار نے ان سے کہا کہ وہ اتر آئیں وہ انہیں کچھ نہ کہیں گے۔حضرت عامرؓ نے جواب دیا کہ انہیں کافروں کے عہد پر اعتبار نہیں وہ نہیں اتریں گے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ہماری حالت کی رسول اللہﷺ کو خبر دے مگر چھ میں سے تین آدمی کفار پر اعتبار کر کے اتر آئے۔ مگر جب انہوں نے ان کے ہاتھ باندھنے چاہے تو ایک صحابیؓ نے انکار کر دیا کہ یہ خلاف معاہدہ ہے مگر وہاں معاہدہ کو ن سنتا تھا اس صحابیؓ کو قتل کر دیا گیا باقی دو میں سے ایک کو صفو ان بن امیہ نے جو مکہ کا ایک رئیس تھا خرید لیا اور اپنا غلام کر کے نطاس کے ساتھ بھیجا کہ حرام سے باہر اس کے دو بیٹوں کے بدلہ قتل کر دے۔ نسطاس نے قتل کرنے سے پہلے ابن الدشنہؓ (اس صحابی) سے پوچھا کہ تجھے خدا کی قسم سچ بتا کہ کیا تیرا دل چاہتا ہے کہ تمہارا رسول اس وقت یہاں ہمارے ہاتھ میں ہواور ہم اسے قتل کریں اور تو آرام سے اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں میں بیٹھا ہو۔ ابن الدشنہ ؓ نے جواب دیا کہ میں توبہ بھی پسند نہیں کرتا محمد(ﷺ ) وہاں ہوں جہاں اب ہیں (یعنی مدینہ میں)اور ان کے پاؤں میں کوئی کانٹا چبھے اور میں گھر میں بیٹھا ہؤا ہوں۔ اس بات کو سنکر ابوسفیان جو اس وقت تک اسلام نہ لایا تھا وہ بھی متاثر ہو گیا اور کہا کہ میں نے کسی کو کسی سے اتنی محبت کرتے ہوئے نہیں دیکھا جتنی محمد(ﷺ ) کے صحابی محمد(ﷺ) سے محبت کرتےتھے۔

یہ وہ اخلاص تھا جو صحابہؓ کو آنحضرتﷺ سے تھا اور یہی وہ اخلاص تھا جس نے انہیں ایمان کے ہر ایک شعبہ میں پاس کرا دیا تھا اور انہوں نے خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔ اے احمدی جماعت کے مخلصو! تم بھی مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک رسول کریمﷺ اور پھر مأ مور ِوقت مسیح موعود سے ایسی ہی محبت نہ رکھو۔

(انوار العلوم جلد 1 صفحہ552-553)

(محمد انور شہزاد)

پچھلا پڑھیں

شکریہ احباب برائےقرارداد ہائے تعزیت بر شہادت شہدائے مہدی آباد برکینا فاسو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مارچ 2023