• 10 مئی, 2024

کامل اولیاء مردان خدا،کبریت احمر وجودوں کے چار بین کمال

حاصل مطالعہ
کامل اولیاء مردان خدا،کبریت احمر وجودوں کے چار بین کمال

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف لطیف تریاق القلوب میں تحریر فرماتے ہیں:
‘‘یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جب کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل عظیم اور کرم عمیم سے کسی شخص کو اپنی خلعت ولایت اور رتبہ کرامت سےمشرف اور سرفراز فرماتا ہے تو چار چیزوں سےاس کو جمیع اس کے ابناء جنس اور تمام ہمعصر لوگوں سے امتیاز کلی بخشتا ہے اور ہر ایک شخص جووہ امتیاز اس کے شامل حال ہوتی ہے۔اس کی نسبت قطعی اور یقینی طور پر ایمان رکھنا لازم ہو جاتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے ان کامل بندوں اور اعلی درجہ کے اولیاء میں سے ہے جن کو اس نے اپنے ہاتھ سے چناہے ہے اور اپنی نظر خاص سے ان کی تربیت فرمائی ہے اور وہ چار چیزیں جو کامل اولیاء اور مردان خدا کی نشانی ہے۔ چار کمال ہیں جو بطور نشان اور خارق عادت کے ان میں سے پیدا ہوتے ہیں اورہر ایک کمال میں وہ دوسروں سے بین اور صریح طور پر ممتاز ہوتے ہیں بلکہ وہ چاروں کمال معجزہ کی حد تک پہنچے ہوئے ہوتے ہیں پر اور ایسا آدمی کبریت احمر کا حکم رکھتا ہے اور اس مرتبہ پر وہی شخص پہنچتا ہے جس کو عنایت ازلی نے قدیم سے دنیا کےفائدہ پہنچانے کے لیے منتخب کیا ہو اور اور وہ چار کمال جو بطور نشان یا چار معجزہ کے ہیں جو ولی اعظم اور قطب الاقطاب اور سید الاولیاء کی نشانی ہے یہ ہیں

اول کمال: یہ کہ امورغیبیہ بعد استجابت یا اور طریق پر اس کثرت سے اس پر کھلتے رہیں اور بہت سی پیشگوئیاں ایسی صفائی سے ظہور پذیر ہو جائیں کہ اس کثرت مقدار اور صفاء کیفیت کے لحاظ سے کوئی شخص ان کا مقابلہ نہ کرسکے اور ان کی کمی اور کیفی کمالات میں احتمال شرکت غیر بکلی معدوم بلکہ محالات میں سے ہو۔یعنی جس قدر اس پر اسرار غیب ظاہر ہوں اور جس قدر اس کی تائید میں آسمان اور زمین اور انفس اور افاق میں خوارق ظہور پذیر ہوں بکلی غیر ممکن ہوجو ان کی نظیر کوئی دکھلا سکے یا ان کمالات میں مقابلہ پر کھڑا ہوسکے اور اس قدر علم غیوب الٰہیہ اور کشف انوار نامتناہیہ اور تائیدات سماویہ بطور خارق عادت اور اعجاز اور کرامت اس کو عطا کی جائے کہ گویا ایک دریا ہے جو چل رہا ہے اور ایک عظیم الشان روشنی ہے جو آسمان سے اتر کر زمین پر پھیل رہی ہے اور یہ امور اس حد تک پہنچ جائیں جو بہ بداہت نظر خارق عادت اور فائق العصر دکھائی دیں اور یہ کمال کمال نبوت سے موسوم ہے۔

دوسرا کمال:دوسرا کمال جو بطور نشان کے امام الاولیاء اور سید الاصفیاء کے لیے وہ فہم قرآن اور معارف کی اعلیٰ حقیقت تک وصول ہے۔ یہ بات ضروری طور پر یاد رکھنے کے لائق ہے کہ قرآن شریف کی ایک ادنیٰ تعلیم ہے اور ایک اوسط اور ایک اعلیٰ اور جو اعلیٰ تعلیم ہے وہ اس قدر انوار معارف اور حقائق کی روشن شعاعوں اور حقیقی حسن اور خوبی سے پر ہے جو ادنی ٰیا اوسط استعداد کا اس تک ہرگز گزر نہیں ہو سکتا۔بلکہ وہ اعلیٰ درجہ کے اہل صفوت اور ارباب طہارت فطرت ان سچائیوں کو پاتے ہیں جن کی سرشت سراسر نور ہوکر نور کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔سو اول مرتبہ صدق کا جو ان کو حاصل ہوتا ہے دنیا سے نفرت اور ہر ایک لغو عمل سے طبعی کراہت ہے اور اس عادت کے راسخ ہونے کے بعد ایک دوسرے درجہ پر صدق پیدا ہوتا ہے۔جس کو انس اور شوق اور رجوع الی اللہ سے تعبیر کرسکتے ہیں اور اس عادت کے راسخ ہونے کے بعد ایک تیسرے درجہ کا صدق پیدا ہوتا ہے جس کو تبدل اعظم اور انقطاع اتم اور محبت ذاتیہ اور فنا فی اللہ کے درجہ سے تعبیر کرسکتے ہیں اور اس عادت کے راسخ ہونے کے بعد روح حق انسان میں حلول کرتی ہے اور تمام پاک سچائیاں اور اعلیٰ درجہ کے معارف و حالات بطریق طبیعت و جبلت بکمال وجد و شرح صدر اس شخص کے نفس پاک پر وارد ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور عمیق در عمیق معارف قرآنیہ و نکات شرعیہ اس شخص کے دل میں جوش مارتے اور زبان پر جاری ہوتے ہیں اور وہ اسرار شریعت اور لطائف طریقت اس پر کھلتے ہیں جو اہل رسم اور عادت کی عقلیں ان تک پہنچ نہیں سکتیں۔کیونکہ یہ شخص مقام نفحات الہٰیہ پر کھڑا ہوتا ہے اور روح القدس اس کے اندر بولتی ہے اور تمام کذب اور دروغ کا حصہ اس کے اندر سے کاٹا جاتا ہے کیونکہ یہ روح سے پاتا اور روح سے بولتا اور روح سے لوگوں پر اثر ڈالتا ہے اور اس کے حالت میں اس کا نام صدیق ہوتا ہے۔کیونکہ اس کے اندر سے بکلی کذب کی تاریکی نکلتی اور اس کی جگہ سچائی کی روشنی اور پاکیزگی اپنا دخل کرتی ہے اور اس مرتبہ پر اعلیٰ درجہ کی سچائیوں کا ظہور اور اعلیٰ معارف کا اس کی زبان پر جاری ہونا اس کے لئے بطور نشان کے ہوتا ہے۔اس کی پاک تعلیم جو سچائی کے نور سے خمیر شدہ ہوتی ہے۔دنیا کو حیرت میں ڈالتی ہے۔اس کے پاک معارف جو سر چشمہ فنا فی اللہ اور حقیقت شناسی سے نکلتے ہیں تمام لوگوں کو تعجب میں ڈالتے ہیں اور اس قسم کا کمال صدیقیت کے کمال سے موسوم ہے۔یاد رہے کہ صدیق وہ ہوتا ہے جس کو سچائیوں کا کامل طور پر علم بھی ہو اور پھر کامل اور طبعی طور پر ان پر قائم بھی ہو۔ مثلاً اس کو ان معارف کی حقیقت معلوم ہو کہ وحدانیت باری تعالیٰ کیا شے ہے اور اس کی اطاعت کیا شے ہے اور محبت باری عزا اسمہ کیا شے اور شرک سے کس مرتبہ اخلاص پر مخلصی حاصل ہو سکتی ہے اور عبودیت کی کیا حقیقت ہے اور اخلاص کی حقیقت کیا اور توبہ کی حقیقت کیا اور صبر اور توکل اور رضا اور محویت اور فنا اور صدق اور صفا اور تواضع دو اور سخا اور ابتہال اور دعا اورعفو اور حیا اور دیانت اور امانت اور اتقاء وغیرہ اخلاق فاضلہ کی کیا کیا حقیقتیں ہیں۔پھر ماسوا اس کے ان تمام صفات فاضلہ پر قائم ہو۔

تیسرا کمال جو اکابر اولیاء کو دیا جاتا ہے مرتبہ شہادت ہے اور مرتبہ شہادت سے وہ مرتبہ مراد ہے جبکہ انسان اپنی قوت ایمان سے اس قدر اپنے خدا اور روز جزا پر یقین کر لیتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھ سے دیکھنے لگتا ہے۔تب اس یقین کی برکت سے اعمال صالحہ کی مرارت اور تلخی دور ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی ہر ایک قضاء وقدر بباعث موافقت کے شہد کی طرح دل میں نازل ہوتی ہے اور تمام صحن سینہ کو حلاوت سے بھر دیتی ہے اور ہر ایک ایلام انعام کے رنگ میں دکھائی دیتا ہے۔سو شہید اس شخص کو کہا جاتا ہے جو قوت ایمانی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا مشاہدہ کرتا ہو اور اس کے تلخ قضاء و قدر سے شہد شیرین کی طرح لذت اٹھاتا ہے اور اسی معنے کے رو سے شہید کہلاتا ہے اور یہ مرتبہ کامل مومن کے لئے بطور نشان کے ہے اور اس کے بعد ایک چوتھا مرتبہ ہے۔

چوتھا مرتبہ بھی ہے جو کامل اصفیاء اور اولیاء کو اکمل اور اتم طور پر ملتا ہے اور وہ صالحین کا مرتبہ ہے اور صالح اس وقت کسی کو کہا جاتا ہے جبکہ ہر ایک فساد سے اس کا اندرون خالی اور پاک ہو جائے اور ان تمام گندے اور تلخ مواد کے دور ہونے کی وجہ سے عبادت اور ذکر الٰہی کا مزہ اعلیٰ درجہ کی لذت کی حالت پر آ جائے۔کیونکہ جس طرح زبان کا مزہ جسمانی تلخیوں کی وجہ سے بگڑ جاتا ہے ایسا ہی روحانی مزہ روحانی مفاسد کی وجہ سے متغیر ہو جاتا ہے اور ایسے انسان کو کوئی لذت عبادت اور ذکر الٰہی کی نہیں آتی اور نہ کوئی انس اور ذوق اور شوق باقی رہتا ہے۔لیکن کامل انسان نہ صرف مواد فاسدہ سے پاک ہو جاتا ہے بلکہ یہ صلاحیت بہت ترقی کر کے بطور ایک نشان اور خارق عادت امر کے اس میں ظاہر ہوتی ہے۔ غرض یہ چار مراتب کمال ہیں جن کو طلب کرنا ہر ایک ایماندار کا فرض ہے اور جو شخص ان سے بکلی محروم ہے وہ ایمان سے محروم ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے سورت فاتحہ میں مسلمانوں کےلئے یہی دعا مقرر کی ہے کہ وہ ان ہر چہار کمالات کو طلب کرتے رہیں اور وہ دعا یہ ہے۔اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم اور قرآن شریف کے دوسرے مقام میں اس آیت کی تشریح کی گئی ہے اور ظاہر فرمایا گیا ہے کہ منعم علیہم سے مراد نبی اور صدیق اور شہید اور صالحین ہیں اور انسان کامل ان ہر چہار کمالات کا مجموعہ اپنے اندر رکھتا ہے۔

(تریاق القلوب صفحہ 417-423)

(محمد داوٴد بھٹی۔ مبلغ سلسلہ تنزانیہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ