• 11 مئی, 2024

پیاری امی زینب اختر مرحومہ اہلیہ چوہدری محمد یعقوب کُلّا

یَغْفِرُ اللّٰہُ لَہُ وَ یَجْعَلِ اللّٰہُ الْجَنَّۃِ الْعُلْیَاءُ مَثْوَاہ

چھوڑنی ہوگی تجھے دنیائے فانی ایک دن
ہر کوئی مجبور ہے حکمِ خُدا کے سامنے

ماں اس جہاں میں خُدا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ مائیں تو سب کی اچّھی ہی ہوتی ہیں مگر خاکسار جس عظیم ہستی کے تعلق میں یہ چند پیاری پیاری یادیں تحریر کر رہا ہے وہ میری ماں ومُشفق مربی ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین منتظمہ بھی تھیں جنہوں نے نہ صرف خود مطالعہ و بعد از تحقیق احمدیّت قبول کرنے کی سعادت پائی بلکہ اپنی ساری اولاد کی مثالی تربیّت کے ذریعے نظام جماعت کی اطاعت اور بانیٔ جماعت و خلفاء سلسلہ کی محبت کُوٹ کُوٹ کر ہمارے دلوں میں بھر دی۔

ہماری والدہ زینب اختر صاحبہ کی پیدائش مارچ 1938ء بمقام کالووالی (نزد شاہ تاج شوگر ملز، منڈی بہاؤ الدین) میں ہوئی۔ آپ کے والد مولوی نور احمد صاحب (مولوی فاضل +حکیم) اور دادا زبدۃ الحکما میاں غلام رسول صاحب کا تعلق ایسے مذہبی گھرانے سے تھا جو دیگر دنیاوی علوم کے ساتھ حکمت کے شعبہ سے بھی گہرا شغف رکھتے تھے۔ امی جان نے باقاعدہ نصابی تعلیم کسی مدرسہ یا سکول سے تو نہ پائی مگر اُس زمانہ کے مروّجہ طریق کے مطابق گھر پر ہی تھوڑی بہت عربی ا ور اُردو سیکھی۔ چونکہ مطالعہ کتب کا شوق بچپن سے ہی تھا لہٰذا اس بنا پر اُردو زبان بڑی روانی سے پڑھ لکھ لیتی تھیں۔

ہمارے حقیقی نانا و نانی جان تو احمدی نہ تھے مگر ہماری والدہ کے تایا مکرم صوبیدار عبدالغنی صاحب نے دورانِ ملازمت احمدیّت قبول کرنے کا شرف پایا جن کا شمار تحریکِ جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں ہے۔ اپنے تایا جان کی پُر حکمت باتوں و اندازِ تبلیغ سے متاثر ہو کر سلسلۂ احمدیّت کے بنیادی لٹریچر کے مطالعہ کے بعد مزید تسلّی کی خاطر آپ اپنے تایا جان کے ہمراہ 1951ء کے جلسہ سالانہ میں شرکت کے لئے ربوہ گئیں تو وہاں جلسہ کے ماحول سے متاثر ہو کر بیعت کرنے کا فیصلہ کیا۔ امی جان بڑے اشتیاق سے ذکر کرتیں کہ ضلع گجرات کی مستورات سے ملاقات کے وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ مٹی کے کچے مکان کی چھت تلے ‘‘پرالی’’پر تشریف فرما تھے۔ دورانِ ملاقات حضورؓ کے نورانی چہرہ کو دیکھتے ہی امی جان نے بلا تعامل حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر عین عالم جوانی میں بیعت کاشرف پایا جس کے بعد گویا آپ کی زندگی کی کایا ہی پلٹ گئی۔ جماعتی کتب کا بغور مطالعہ کرتے ہوئے آپ نے دینی و فقہی مسائل سے مزید آگاہی حاصل کی۔

بیعت کے دو سال بعد آپ کے تایا جان کے ایک مخلص احمدی دوست و علاقہ کی بااثر شخصیت چوھدری خوشی محمد کُلّا صاحب موضع مونگ کی سچی خواب کی بنا پر اُن کے بیٹے محمد یعقوب کُلّا صاحب سے آپ کا رشتہ طے پایا اور یوں ہمارے والدین ستمبر 1953ء میں رشتہ ازدواج میں مُنسلک ہوئے۔ شادی کے بعد مونگ آکر زمیندارا ماحول، سماجی مصروفیات و گھریلو ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ آپ نے صدر جماعت محترم سید حیدر شاہ صاحب سے بہت تھوڑے عرصہ میں قرآن مجید کا لفظی و بامحاورہ ترجمہ سیکھا۔اپنے تایا جان، اپنے خسر محترم اور شاہ صاحب سے فیوض پانے کی بدولت امی جان ان تینوں بزرگوں کے احسانات کا تذکرہ ہمیشہ انتہائی تعظیم سے کرتیں اور زندگی بھر ان کے لئے دُعا گو رہیں۔نماز فجر کے بعد روزانہ تلاوت قرآن کریم آپ کی پختہ عادت تھی نیز دوسروں کو قرآن کریم پڑھانا اور قرآن کریم کی حقیقی تعلیم کو سمجھنا و سمجھانا آپ کاخاص شغف تھا۔

مسجد احمدیہ مونگ کے نزدیکی اور ہمارے محلہ او راس سے ملحقہ گھروں کی بچیوّں کی اکثریّت اور بعض گھروں کی دو نسلوں نے بھی بلا تفریق مَسلک آپ سے قرآن کریم پڑھا۔ اسی طرح آپ نے اپنے اکثر سُسرالی عزیزوں اور ان کے بچوّں کو بھی قرآن کریم پڑھایا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن و لڑکپن میں نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد مسجد سے گھر آنے پر سب سے پہلے امی جان کے ہاتھ کا ‘‘دھڑڑکا’’(مکھن و پنیر سمیت گاڑھی لسّی)پینے کو ملتا جس کی چاشنی و لذّت کا احساس آج تک ہے۔ پھر ہم سب بھائی بہنوں کو امی جان قرآن مجید پڑھاتیں۔ بعد ازاں ناشتہ و سکول روانگی کے ساتھ ہی دیگراحمدی و غیر احمدی بچے یسرناالقرآن و قرآن مجید پڑھنے کے لئے آناشروع ہو جاتے۔ عمر کے آخری حصہ میں قوّتِ بینائی کمزور پڑنے کے باوجود ٹی وی پر یا کسی سے تلاوتِ قرآن کریم سننے پر ساتھ ساتھ خود ہی بغیر دیکھے بڑی روانی سے ترجمہ کرتی جاتیں تاکہ ساتھ دوسرے سننے والوں کو بھی فائدہ پہنچے۔ امی جان کو قرآنیِ تعلیم سے گویا عشق تھا۔

آپ اوائل عمری سے ہی نماز پنجگانہ ادا کرنے والی اور جوانی کی عمر سے ہی تہجد گزار تھیں۔ عمومی طور پر شفیق ماں مگر اولاد کی تعلیم و تربیت کے ضمن میں بوقتِ ضرورت اُستانی نما سخت منتظمہ تھیں۔ جیسا کہ ہمارے گھر میں فجر کی اذان ہوتے ہی سب افرادِ خانہ کے بستر لپیٹ کرایک طرف سنبھال دینا ایک مروّجہ طریق رہا تاکہ مرد و بچے بر وقت مسجد پہنچیں اور خواتیں گھر میں ہی نمازِ فجر کی ادائیگی و تلاوتِ قرآن کریم کے فوراً بعد اپنے اپنے کام بروقت سمیٹ سکیں۔

ہمارے والد صاحب کی تعیناتی بسلسلہ ملازمت اکثر و بیشتر اپنے آبائی علاقہ سے بہت دُور رہی، کبھی مشرقی پاکستان، کبھی سندھ تو کبھی صوبہ سرحد میں اور بعدازاں بحرین و سعودی عرب میں بھی مقیم رہے۔ اس سارے عرصہ میں مشترکہ خاندانی نظام کے تحت امی جان نے اپنی اولاد کی بہترین پرورش کی نیز دینی و دنیاوی اعتبار سے اولاد کی مثالی تربیّت کے ساتھ ساتھ بفضلہ تعالیٰ اپنی ساری اولاد کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ کیا۔ اس سارے عرصہ کے دوران امی جان اور ہمیں ہمارے دادا جان کی سر پرستی و شفقت بھی حاصل رہی۔ دونوں میں یہ قدرِمشترک تھی کہ دونوں نے ازخود مطالعہ و تحقیق کر کے احمدیّت قبول کرنے کی سعادت پائی تھی۔ دونوں ہی تعلیم کے خواہاں، اعتدال پسند و عمدہ اخلاق کے مالک اور صائب الرائے وجود تھے۔

آج سے تقریباً نصف صدی قبل جب ہمارے اضلاع کے دیہاتی لوگ لڑکیوں کو سکول وکالج بھیجنا معیوب سمجھتے تھے، ایسے مشکل دورا ور نامساعد حالات میں بھی امی جان تعلیم نسواں کے حق میں تھیں اور اسی مقصد کے تحت عارضی طور پر ربوہ میں رہائش اختیار کر کے بیٹیوں کو نصرت گرلز ہائی سکول میں داخل کرایا بغرض حصولِ تعلیم۔ ربوہ منتقل ہونے کی بنا پر ہمارا آبائی گھر خالی تھا۔ خدائی تقدیر کے عین مطابق اسی عرصہ میں غالباً 1979ء یا 1980ء کے موسم گرما میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہراحمدؒ کی سربراہی میں مرکزی و فد کی آمد پر جماعت احمدیہ مونگ میں ایک بہت بڑی مجلس سوال و جواب کا انعقاد ہوا۔ جس میں احمدی احباب سمیت علاقہ بھر سے غیر احمدی شرفا کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ مجلس سوال جواب کے لئے پنڈال تو مکرم راجہ بہادر خا ں صاحب کے احاطہ میں تھا مگر ہمارا گھر خالی و کشادہ ہونے کی بنا پر مہمانانِ گرامی و شر کائے مجلس کے قیام و طعام کی خدمت کی سعادت ہمارے حصّہ میں آئی۔ اس موقع پر ہم خاص طور پر ربوہ سے مونگ پہنچے تھے اور گھر کی صفائی و دیگر انتظامات امی جان کی ہدایات کے تحت سر انجام پائے۔

امی جان نے سلسلہ کی اکثر کُتب پڑھ رکھی تھیں۔جماعتی اخبار و رسائل کا مطالعہ تو ا ُن کا روز مرّہ کا معمول تھا۔ آپ کی یادداشت بُہت اچھی تھی،تبلیغ کی غرض سےکئی قرآنی آیات و احادیث آپ کو ازبر تھیں دُرثمین، کلام محمود او ردُرعدن کے بہت سے اشعار آپ کو زبانی یاد تھے جو کہ موقع کی مناسبت سے بر محل سناتیں۔حکیمانہ نسخے توخاندانی وراثت کے طور پر آپ کا اثاثہ تھے ہی۔دیگر عزیزوں سمیت اپنی اور بچوّں کی چھوٹی موٹی بیماریوں کا علاج گھر پر ہی کر لیتیں، خال خال ہی ڈاکٹر کے ہاں جانا ہوتا۔

امی جان پہلے لجنہ اماء ا ﷲمونگ کی سالہا سال تک سیکریٹری مال رہیں اور بعد ازاں آپ کو لمبے عرصہ تک بطور صدر لجنہ اماءا ﷲخدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ تربیّتِ اولاد کی غرض سے’’ تشحیذالاذہان‘‘ ا ور’’مصباح‘‘ مستقلاً گھر لگوا رکھے تھے۔جماعتی کتب بھی وقتاًفوقتاًخرید ی جاتیں اور روز نامہ الفضل مسجد سے لا کرپڑھنے کے بعد واپس کر دیا جاتا۔شروع سے ہی ہمارے گھر میں بڑے سائزکی ڈش انٹینا کے ذریعے ایم۔ٹی۔اے کی نشریات باقاعدگی سے دیکھی جاتیں۔اِس آسمانی مائدہ سے گھر کےافرادسمیت دیگرغیراحمدی عزیز واقارب بھی کبھی کبھی مُستفید ہوتے رہتے۔جب تک جلسہ سالانہ پاکستان کا انعقادہوتا رہا،امی جان سمیت ہم لوگ اکثر جلسہ میں شرکت کرتے۔ 2006ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں امی جان کوشمولیّت کی سعادت نصیب ہوئی،جہاں آپ کو مقاماتِ مقدسہ دیکھنے اور بیت الدّعا میں خصوصی طورپر دُعا کے مواقع بھی ملے۔

1995ء تا 1997ء تقریباً دوتین سال میری اور میرے اہل و عیّال کی خوش قسمتی رہی کہ یہاں سوئٹزرلینڈ میں ہمیں والدین کے ساتھ رہنے کا موقع میسر رہا۔اس دوران بچوّں کو اپنی دادی جان سے اُردو زبان او رقرآ ن مجید پڑھنے کا بھی موقع ملا۔ 1997ء میں میرے والدین واپس پاکستان تشریف لے گئے۔

می جان ایک خلیق و نیک بخت اور دعا گو وجود تھیں۔ پاکیزگی و صفائی کا خاص خیال رکھنے والی، دیندار، انتہا درجہ کی سلیقہ شعار، ماہِ رمضان کے روزوں کی پابند حتیٰ کہ ماہِ شوال کے چھ روزے بھی اہتمام سے رکھتیں۔ دورانِ رمضان آپ کو قرآنِ مجید کے کئی دَور کرنا نصیب ہو تے۔ صدقہ وخیرات اور چندہ جا ت کی بروقت ادائیگی کرتیں اور بسااوقات چندہ کی رقم بچوّں کے ہاتھ سے سیکریٹری مال کو دلواتیں تاکہ بچوّں میں بھی مالی قربانی کی اہمیت اُجاگر ہو۔ وقت کی پابند ی کرنے والی تھیں۔ پُر پیچ گفتگو و جھوٹ سے آپ کو سخت نفرت تھی۔ صاف سیدھی اور دوٹوک بات کرتیں۔ اکثر کہتیں کہ کبر و جھوٹ کو کبھی پھل نہیں لگتا بلکہ عاجزی او ر سچ کو ہی ہمیشہ پھل لگتاہے۔ اکثر اکٹھے ہونے کے موقع پر ہمیں اور اپنے نواسے نواسیوں و پوتے پوتیوں کو اپنی زندگی کے تجربات اور قبولِ احمدیّت اور اس کے اثمار بہت دلکش انداز میں بیان کرتیں۔
امی جان کی بہت ہی پیاری عادت تھی کہ کھانا بہت آرام سے ٹھہر ٹھہر کر تناوّل کرتیں اور نماز تو انتہائی سکون اور خشوع و خضوع سے ادا کرتیں اور دورانِ نماز خدا تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کے ساتھ گِڑگڑا کر دعائیں کرتیں۔ آپ انتہائی زیر ک و معاملہ فہم خاتون تھیں جوکہ امورِ خانہ داری کے علاوہ دینی و دنیاوی امور سے بھی بخوبی آگاہی رکھتی تھیں۔ ہمسائیوں و عزیزوں کے چھوٹے موٹے گھریلو جھگڑوں میں صلح صفائی و لین دین کے معاملات انصاف کے تقاضوں کے مطابق نمٹانا بھی آپ کاخاص وصف تھا۔ امی جان کا اپنے غیر احمدی میکہ والے تقریباًسبھی رشتہ داروں ا ور اُن کی اولاد سے بہت ہی پیار کا تعلق رہا۔ اُن میں سے بعض کی آپ فیاضیانہ طریق پر مالی مدد کرتیں۔ چند ایک کو بغرضِ روزگار آپ نے مالی انتظام کر کے مشرقِ وسطی اور یورپی ممالک میں بھی بجھوایا۔ اسی طرح آپ نے اپنی تمام قیمتی وراثتی جائیداد اپنے غیر احمدی بھتیجوں کو تحفةً ہبہ کردی۔ وہ سب عزیز بھی آپ سے بے حد عزت و پیار سے پیش آتے۔ غیر احمدی عزیزوں سے اس قدر قربت کے تعلقات اور ان میں سے کئی کی خواہش و اظہار کے باوجود امی جان کو ہر گز یہ گوارہ نہ تھا کہ آپ کی اولاد میں سے کسی کا رشتہ غیر از جماعت رشتہ داروں میں طے پائے۔ اپنے رکھ رکھاؤ، سلیقہ، بصیرت و دیانت کی بدولت عز یز و اقارب اور جاننے والوں میں آپ کا ایک خاص مقام و احترام تھا اور ایسے ہی اوصاف کی بنا پر اپنے گھروں میں آپ مکمل با اختیار تھیں۔

امی جان گوناگوں صفات کی مالک تھیں۔ محبتِ الٰہی، عشقِ رسولﷺ، احمدیّت کی سچی عاشق اور حضرت مسیح موعودؑ و خلافتِ احمدیہ سے دِلی محبت و عقیدت رکھنے والی متقی و پرہیز گار وجود تھیں۔ احمدیّت کے معاملہ میں انتہائی غیور اور دلیل کے ساتھ بات کرنے والی داعی الی اللہ۔ ’’اوّل خویش بعد درویش‘‘کے مصداق اپنے غیر احمدی رشتہ داروں اور اپنے زیر اثر خواتین کو تبلیغِ احمدیّت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتیں۔ احمدی و غیر احمدی عزیز بلا تفریق سبھی اپنے نومولود بچوّں کے نام بڑی چاہت کے ساتھ آپ سے تجویز کرواتے۔آپ ہر ایک سے خداترسی، تواضع، سادگی رحمت و شفقت سے پیش آتیں۔ مالی تحریکات میں شمولیّت و قرآنی تعلیم ’’اِیۡتَآیٴِ ذِی الۡقُرۡبٰی‘‘ کے تحت بلاتفریق مسلک اپنے قریبی رشتہ داروں اور جاننے والوں کی خبر گیری سے کبھی لاپرواہ نہ رہتیں۔ اپنے مالی وسائل میں رہتے ہوئے محتاج و ضرورت مند کی مالی معاونت ضرور کرتیں۔ گویا حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ حقوق العباد کا بھی پورا خیال رکھتیں۔

امی جان کی اسی قسم کی خوبیوں کی گواہی اپنے ا ور غیر نہ صرف آپ کی زندگی میں دیتے رہے بلکہ آپ کی وفات کے بعد بھی احمدی و غیر احمدی عزیز، برادری کے رشتہ دار، محلے دار اور آپ کی جوانی کی عمر کی سہیلیاں اور دوسرے جاننے والے بھی دیتے ہیں۔ آپ کی وفات پر تعزیت کے لئے آنے والوں کا تانتابندھا رہا جن میں سے خواتین کی بھاری تعداد آپ کے بھلائی کے کاموں کے ضمن میں آپ کا ذکر خیر میری ہمشیر گان و اہلیہ سے کرتی رہیں۔ اکثر یت نے بتایا کہ انہوں نے زینب اختر صاحبہ سے قرآن مجید پڑھا۔ کسی نے امورِ خانہ داری کے تعلق میں اُن سے کچھ سیکھا، کسی نے اُن سے کڑھائی، سلائی یا سلیقہ مندی کا کوئی اور ہنر اُن سے سیکھا، تو کسی نے بوقتِ ضرورت اُن سے مالی مدد پائی، تو کسی نے تھوڑی بہت دنیاوی تعلیم پائی۔ غرض بلا تفریق کسی نہ کسی رنگ میں اپنے جاننے والوں کے لئے امی جان ایک نافع النّاس وجود تھیں۔

میں جب بھی خیریت دریافت کرنے کے لئے امی جان کو فون کرتا تو اپنا احوال بتانے یا بیماری کی تشویش کے اظہار کی بجائے میرے بیوی بچوّں سمیت دوسرے بھائی بہنوں کا حال پوچھ کر تسلی پانے کے بعد اپنی صحت کے ضمن میں صرف اتنا کہتیں کہ اللہ کا بڑا فضل ہے شکر ہے بس شوگر کا لیول تھوڑا سا زیادہ ہے۔ غرض ہر حا ل میں اللہ کی شکرگزاری کا اظہار کرتیں۔ جب تک گاؤں میں ٹیلیفون کی سہولت نہ تھی تو مسلسل خط لکھتیں۔ خط کے آغاز میں دیگر دعاؤں کے علاوہ یہ دعا خصوصیت و تواتر سے لکھتیں کہ ’’تمہیں اللہ دین و دنیا کی نعمتوں سے مالامال کرے اور اپنے غیب سے حلال و پاکیزہ رزق عطا کرے۔‘‘ اپنی والدہ کی ایسی دعاؤ ں ہی کی قبولیّت کے اثمار ہم سمیٹ اور کھا رہے ہیں۔ والدین کے ہمراہ مجھے سوئٹزرلینڈ و یورپ سمیت پاکستان میں بھی سفر کے بہت مواقع میسر رہے۔ وہ سارے سفر میری یادوں کا دلکش سرمایہ ہیں۔ دوران سفر امی جان کے بیان کردہ واقعات و باتوں کا ہر ہر لفظ و فقرہ اسلام و جماعت احمدیہ سے محبت و وفا کا عکاس ہوتا۔

امی جان کا اصرار تھا کہ زندگی کے آخری چند ماہ و سال وہ اپنے گھر مونگ میں بسر کرنا چاہتی ہیں۔ اُن کی خواہش و اصرار کے پیشِ نظر 2019ء سے یعنی تقریباً تین سال سے آپ کا قیام پاکستان میں تھا۔ اسی طرح ہمارے ماموں کے بچوّں کو بھی امی جان کی خدمت کا موقع ملا اور وقتاًفوقتاًہم سارے بھائی بہنوں کو بھی پاکستان میں امی جان کے پاس رہ کر اُن کے علاج معالجہ و خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ باوجود اپنی بیماری و تکلیف کے ایوب بھائی جان بھی مئی جون میں چند ہفتے پاکستان رہ کر امی جان کی خدمت بجالاتے رہے۔ اسی طرح چھوٹے بھائی عزیزم ناصر محمود اور ہماری ہمشیر گان بھی خدمت کی توفیق پاتی رہیں۔

سال 2022ء کے آغاز پر جنوری کے پہلے ہفتے میں امی جان کو فالج کا حملہ ہؤا۔ چند منٹ کے اندر ہی فوری طبی امداد و مناسب علاج کی سہولت میسر آنے پر آپ کی طبیعت سنبھلنے لگی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے چند ہفتوں کے اندر‘‘واکر’’کی مدد سے چلنے لگیں اور تیزی سے صحت یاب ہو رہی تھیں کہ ایک دن بغیر واکر کی مدد سے صحن میں چہل قدمی کرتے ہوتے بہت خوش تھیں کہ اللہ نے فضل کیا ہے۔ شکرِ خدا وندی بجا لاتے ہوئے خوشی سے آپ کا چہرا کھل اُٹھا۔ اُس دن میں نے شاید اپنی پیاری والدہ کے چہرے پر آخری خوشی کی گلابی لہر محسوس کی۔ پچھلے دو سال میں خوش قسمتی سے مجھے بمع اہلیہ پاکستان امی جان کے پاس رہنے کا نسبتاً زیادہ موقع میسر رہا۔ میرا مشاہدہ رہا کہ باوجود ضعیف العمری و بیماری کے آپ نماز کی ادائیگی میں سُستی نہ کرتیں۔ مزاج پر سی و تیمارداری کے لئے آنےوالوں کے لئے چائے پانی کا انتظام، اسی طرح کام کرنے والی عورتوں سمیت کچھ محتاجوں کی طرف توجہ دلا کر مالی مدد کرواتیں۔

سال 2022ء رمضان کے آخر ی عشرہ میں مجھے مجبوراًچند دنوں کے لئے سوئٹزرلینڈ آنا پڑا۔ روانہ ہوتے وقت میں نے ایک معقول رقم اخراجات کی غرض سے امی جان کو پیش کی۔ تقریباًروزانہ ہی فون پر رابطہ ہوتا۔ اتفاق سے عید الفطر والے دن توبات نہ ہو سکی مگر اگلے دن بات ہونے پر بتایا کہ ہفتہ بھر قبل والی رقم تو میرے گھر سے روانہ ہونے کے فوراًبعد ہی سیکریٹری مال کو گھر بُلوا کر امی جان نے اپنے تمام چندہ جات، فدیہ،فطرانہ و صدقہ کی مدمیں ساری رقم ادا کر کے اطمینانِ قلب پایا۔ چند دنوں بعد خاکسار کے مونگ پاکستان پہنچنے پر توجہ دلا کر عید الاضحی سے قبل ہی اپنے نام سے قربانی کے جانور کا انتظام کر وایا۔

جون کے آخری دنوں میں بظاہر تو آپ کی حالت قدرے بہتر نظر آتی تھی مگر بوجہ ذیابیطس کے مرض کے اندر ہی اندر گُردے بہت حد تک متاثر ہو رہے تھے۔ منڈی بہاؤالدین میں ہی کئی قسم کے ٹیسٹ و چیک اپ کے تحت آپ کے معالج سے آپ کا علاج معالجہ جاری رہا اور بعد ازاں سی۔ ایم۔ ایچ کھاریاں میں زیر علاج رہنے کے بعد امی جان بالآخر 3؍ جولائی 2022ء بروز اتوار کی صبح بعمر 84 سال اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

بُلانے والا ہے سب سے پیارا
اُسی پہ اے دل تو جاںفدا کر

امی جان کی صلہ رحمی، غریب پروری سمیت بے شمار خوبیوں و دیگر اوصافِ حمیدہ کی بدولت آپ کی نمازِ جنازہ میں احمدی دوستوں کے علاوہ غیر احمدی عزیز و اقارب و دیگر غیر از جماعت احباب کی بھاری تعداد نے بھی شرکت کی۔ آپ کا جنازہ مؤرخہ 6؍ جولائی 2022ء بعد از نمازِ عصر ہمارے آبائی قبرستان میں مربی صاحب ضلع نے پڑھایا۔

آپ کی تدفین آپ کے شوہر کے پہلو میں ہوئی۔ بعداز تدفین امیر صاحب ضلع نے دُعا کروائی۔

آپ کے تین بیٹے مکرم محمد ایوب کُلّاصاحب اور خاکسار طاہر محمود کُلّاسوئٹزرلینڈجبکہ مکرم ناصر محمود کُلّاصاحب آسٹریا میں رہائش پذیر ہیں۔

اسی طرح آپ کی تین بیٹیاں مکرمہ فہمیدہ خانم صاحبہ زوجہ مکرم محفوظ احمد بُٹر صاحب،مکرمہ مبارکہ خانم صاحبہ زوجہ مکرم محمد ارشد کلّا صاحب(فیسٹا) جرمنی اور مکرمہ ناہید خانم صاحبہ زوجہ مکرم مدثر احمد ضیاکسانہ صاحب (کیلگری)کینیڈا میں مقیم ہیں۔آپ کے بیٹے اور بیٹیاں بفضلہ تعالیٰ سبھی کَثِیرُ الْعَیال ہیں اور جماعت احمدیہ کے ساتھ اخلاص و وفا کا تعلق رکھتے ہیں۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’درخت کے سایہ کی اہمیت اُس کے کٹنے کے بعد ہی پتہ چلتی ہے۔‘‘

اوریہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ ’’چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے‘‘

سچ ہے کہ امی جان کی وفات کے بعد اُن کے مُجسم دعاگو وجود کی کمی کا اب شدّت سے احساس ہوتا ہے مگر ایسے میں حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی فرمودہ اس حدیث سے دل قرار پاتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل ختم ہو جاتے ہیں مگر تین عمل ختم نہیں ہوتے۔ اوّ ل صدقہ جاریہ، دوسرے ایسا علم جس سے فائدہ اُٹھایا جائے، تیسرے ایسی نیک اولاد جو اس کےلئے دُعا کرے۔‘‘

(حدیقۃ الصالحین از ملک سیف الرحمٰن صفحہ 577)

امی جان کے تعلق میں بہت پیاری پیاری یادوں و واقعات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو کہ دل و دماغ اور ذہن میں نقش ہیں مگر مضمون کی طوالت کے پیشِ نظر محض چند یادیں ہی بغرضِ دعا پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔

قارئین سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری والدہ سے بے پایا ں رحمت و مغفرت کا سلوک فرماتے ہوئے انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور انہیں حضرت محمدﷺ کی شفاعت نصیب ہو۔ اللہ تعالیٰ ہماری امی جان کو اپنے پیاروں میں شامل فرما کر جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے نیز ان کی نسلوں کو اپنے نیک بزرگوں کے پاک نمونوں کو اپناکر اعمالِ صالح بجا لاتے ہوئے بہترین احمدی بن کر مقبول خدمتِ دین کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

مغفرت بے حساب ہو جائے
مرحمت لا جواب ہو جائے

(طاہر محمود کُلّا۔سانکٹ گالن، سوئٹزرلینڈ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ