خاکسار نے ارشاد نبویؐ اُذکُرُ وا مَحاسِنَ مَوتاکُم (بحارالاانوار جلد72 صفحہ239) کے تحت اپنے بزرگ مرحومین کے ذکر خیر کی اشاعت کا سلسلہ روزنامہ الفضل میں عنوان وائز شروع کیا ہے۔ روزنامہ 2 جولائی 2021ء کے شمارہ میں ان مرحوم بزرگ اساتذہ کا ذکر خیر ہے جن سے خاکسار نے جامعہ احمدیہ کی تعلیم کے دوران کسب علم حاصل کیا۔ اس کی دوسری قسط مورخہ 6 نومبر 2021ء کو بعنوان ’’بعض مرحوم افسران کا ذکر خیر‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ جن میں ان بزرگ ناظران کا ذکر تھا۔ جن سے علمی و انتظامی فیض سے اپنی زندگی کو خاکسار نے آراستہ کیا۔ آج اس سیریز کی تیسری قسط بعنوان ’’چند امرائے جماعت کا ذکر خیر‘‘ پیش ہے۔ جن میں پاکستان میں مختلف مقامات پر خدمت دین بجا لاتے ہوئے ان شہروں کے امرائے جماعت سے واسطہ پڑا۔ ان سے روابط ہوئے اور ان کے ساتھ مل بیٹھ کر خدمت کرنے کا موقع ملا۔ خاکسار قسط 2 میں اپنے ان جذبات تشکر کا اظہار کر آیا ہے کہ خاکسار کو اپنے 44 سالہ دور خدمات دینیہ میں جن افسران، اساتذہ اور ایسے امراء جن کے ساتھ مل کر خدمت بجا لانے کی توفیق ملی سے واسطہ پڑا وہ ہمدرد، شفیق اور محبت کرنے والے اور ایک مربی کی عزت کرنے والے تھے۔ فجزاھم اللّٰہ تعالیٰ احسن الجزاء
پاکستان میں فیلڈ کے دوران صرف پانچ مقامات بدو ملہی، پیر محل، لاہور، پشاور اور اسلام آباد میں خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ آخری تین جگہوں پر تو مربی ضلع کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ اس عرصہ میں خاکسار کا آٹھ امراء سے تعلق رہا۔
مکرم خواجہ عبدالغنی
امیر جماعت ہائے حلقہ بدو ملہی ضلع سیالکوٹ
خاکسار کی پہلی تقرری جون 1978 میں ضلع سیالکوٹ کی ایک بہت بڑی جماعت بدوملہی میں ہوئی۔ مجھے اس بڑی جماعت میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ اس جماعت کے امیر جہاں لوکل جماعت کے امیر ہوتے تھے وہاں بدو ملہی جس میں اس وقت 22،20 جماعتیں ہوتی تھی اور امیر حلقہ بھی کہلاتے تھے۔ میری جس دن بدو ملہی حاضری تھی۔ ظہر کا وقت تھا۔ نماز کے لئے ایک چھوٹے قد کے سادہ طبیعت کے مالک، تہمند پہنی ہوئی ایک رعب دار شخصیت جن کے چہرے پر ایک مخصوص طرز کی مسکراہٹ نمایاں تھی۔ نماز کے لئے حاضر ہوئے۔ آپ اپنی دکان سے اٹھ کر مین بازار سے گزر کر نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد احمدیہ تشریف لاتے تھے۔ بازار سے احمدی احباب سے آپ میری آمد کی اطلاع پا چکے تھے۔ آتے ہی وضو کر کے صحن میں قدم رکھتے ہی بلند آواز سے السلام علیکم مربی صاحب کہہ کر ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ اھلاً و سہلا و مرحبا کہا اور فوری طور پر خدام کو مربی ہاؤس (جو مسجد سے ایک ملحقہ کمرہ تھا) کو صاف کرنے اور سامان رکھنے کا حکم فرمایا اور نماز کے بعد خاندانی تعارف حاصل کیا۔ یہ تھا خاکسار کے ساتھ موصوف کا پہلا تعارف۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تعلق مضبوط ہوتا گیا۔ میرے ایک کلاس فیلو آپ کے داماد بن گئے جن کی وجہ سے یہ تعلق مزید مربوط ہو گیا۔ آپ طبیعت کے گوغصیلے تھے۔ آواز بہت رعب دار تھی۔ مگر غصے کا اظہار کر کے جلد ہی نارمل طبیعت میں آجاتے اور چہرے پر ہنسی کے آثار نمایاں ہوتے۔ تہجد گزار، دعا گو وجود تھے۔ نماز بھی گریہ و زاری سے ادا کرتے۔ مربی کے کام سے خوش ہوتے اور حوصلہ بڑھاتے۔ مربّی کی عزت و وقار کا بہت خیال رکھتے۔ غیبت کی عادت نہ تھی۔ کسی کی بات دوسرے سے نہ کرتے اور جماعتی رقوم بہت احتیاط سے خرچ کرتے۔
اپنی دکان پر فارغ اوقات میں الفضل کا مطالعہ کرتے اور اپنے گاہکوں کو پڑھ کر بھی سنایا کرتے۔ ہر وقت آپ کے ہونٹ تسبیح وتحمید، استغفار اور درود شریف پڑھنے سے ہلتے رہتے تھے۔ آپ کو بعض سچی خوابوں بھی آیا کرتیں تھیں۔
مکرم رفیع الدین بٹ۔ امیر جماعت
ہائے احمدیہ حلقہ بد وملہی
مکرم خواجہ عبدالغنی صاحب کی وفات کے بعد بدو ملہی جماعت کے امیر مکرم رفیع الدین بٹ مقرر ہوئے۔ آپ CMA میں ملازم تھے اور ریل گاڑی پر روزانہ لاہور JOB پر جاتے تھے۔ بہت نرم مزاج، صاحبِ علم تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کر رکھا تھا اور ان کتب سے حوالے بھی دیا کرتے تھے۔ ایک بہت بڑی جماعت ہونے کے ناطے آ پکی کوشش ہوتی کہ ہر احمدی سے رابطہ رکھا جائے۔ شام دفتر سے واپسی پر سیدھے مسجد میں آ کر نماز مغرب ادا کرتے اور احباب سے رابطہ کرتے۔ جن کے گھروں میں جاتے دھیمی آواز سے بات کرتے اور دھیمی طبیعت کے مالک تھے۔ ہر ایک بات تحمل سے سنا کرتے۔ مربیان کی بہت عزت کرتے ان کی ضروریات کا بہت خیال رکھتے چونکہ اس وقت مربی ہاؤس Proper تو تھا نہیں۔ مربی ہاؤس کرایہ پر تھا جس میں آپ نے ضرورت کی اشیاء ڈلوائیں۔ جماعت کی رقوم کا اس حد تک خیال رکھتے تھے کہ گرمیوں کے دنوں میں مربی ہاؤس میں پنکھے کی ضرورت تھی۔ بد وملہی کا بازار بہت بڑا ہے اور ضرورت کی ہر چیز میسر ہوتی ہے۔ مگر آپ چند روپوں کی رقم بچانے کی خاطر لاہور سے پیڈسٹل پنکھا بڑھاپے کی عمر میں خود اٹھا کر لائے اور مربی ہاؤس میں پہنچایا۔ خاکسار کے ابا جان بھی محکمہ CMA میں افسر تھے۔ مکرم بٹ صاحب موصوف ابا جان کے کولیگ بھی رہے۔ آپ سےمحبت کا تعلق اس ناطےبڑھا۔ آپ جماعتی رقوم کے امین رہے۔
مکرم چوہدری حمید نصر اللہ خان مرحوم
امیرجماعت لاہور و ضلع
خاکسار جب 1990 میں سیر الیون مغربی افریقہ میں خدمات بجا لا کر پاکستان واپس آیا تو میرا تقرر لاہور دارالذکرگڑھی شاہو میں ہوا۔ اس وقت آپ مکرم چوہدری حمید نصر اللہ خان صاحب امیر تھے۔ میں نے اپنی تقرری کا خط انچارج دفتر امارت لاہور مکرم نذیر احمد راجوری کو دیا تو تھوڑی دیر بعد امیر صاحب مرحوم کا پیغام ملا۔ وہ یہ تھا کہ
’’خوش آمدید۔ خطبہ دینا مربی کا کام ہے۔ میں نے جب خطبہ دینا ہو گا بتا دیا کروں گا‘‘
پھر میں نے ساڑھے سات سالہ عرصہ میں دیکھا کہ مربی کے کام میں ذرا بھر مداخلت نہیں۔ آپ بہت کم خطبہ دیا کرتے تھے اور مسجد دارالذکر کے محراب میں بیٹھ کر خطبہ سنتے تھے۔ جب کبھی آپ کا خطبہ دینے کا ارادہ ہوتا تو مکرم میجر عبداللطیف صاحب مرحوم نائب امیر کی طرف سے پیغام ملتا کہ ’’آج امیر صاحب آ رہے ہیں‘‘ گویا کہ خطبہ دیں گے۔ حالانکہ وہ دارالذکر میں ہر جمعہ پڑھتے تھے۔ آپ قادر الکلام شخصیت تھے۔ فی البدیہہ نپا تلا مختصر کلام کرتے۔ ذرا ٹھہر ٹھہر کر بولتے گویا کہ سامعین کو مضمون ساتھ کے ساتھ سمجھا کر آگے بڑھتے۔ آپ کی تقریر دلوں پر اثر کر رہی ہوتی۔ آپ بہت با رعب شخصیت تھے۔ بہت مدبر، فراست رکھنے والے، دور اندیشی سے کام لینے والے، زیرک، معاملہ فہم اور سمجھدار تھے۔ آپ سامنے کم آتے مگر جماعت پر پورا ہولڈ رکھنے والے تھے اور با خبر رہتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے تمام حلقوں کا دورہ شروع کیا تا احباب سے روابط بڑھیں اور ان کی مشکلات کا علم ہو۔ آپ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ ایک خوبی جس کی آج کے دور میں بہت ضرور ت ہے اور میں مکرم مولانا سلطان محمو د انور صاحب کے ذکر خیر میں بھی لکھ آیا ہوں۔ زندگی میں مجھے ان دو آدمیوں نے اس خوبی کے حوالے سے خوب متاثر کیا۔
اور وہ غیبت اور چغلی سے پرہیز تھا۔ آپ کسی کی کمی، کمزوری کو یا کسی نے کوئی بات کی ہو کسی دوسرے سے نہ کرتے۔ اس خوبی کی آج بہت پر چار کی ضرورت ہے۔
مکرم میجر(ر) عبداللطیف۔ نائب امیر لاہور
آپ فوج سے ریٹائرڈ ہونے کی وجہ سے مزاجاً سخت طبیعت کے مالک تھے مگر کام کو منظم طریق سے کرنے کی مہارت رکھتے تھے اور ایک ڈسپلنڈ آدمی تھے۔ آپ سے جو پہلی دفعہ ملتا اسے سخت طبیعت کا ہی پیغام جاتا مگر دل کے نرم تھے اور مہمانوں کی دیکھ بھال کی طرف خصوصی توجہ دیتے اور بار بار سیکرٹری صاحب ضیافت سے پوچھتے رہتے۔ قادیان جلسہ سالانہ پر جانے والے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت اور رہائش بہت بڑا مرحلہ ہوتا تھا جس کی نگرانی فرماتے آپ روزانہ اپنی گاڑی پر باقاعدگی سے بلا ناغہ دفتر دارالذکر آتے۔ آپ صبح 9 بجے دارالذکر پہنچ جاتے اور ظہر کی نماز، با جماعت ادا کر کےجاتے۔ عمر کے اس حصہ میں جب آپ کے لئے ڈرائیونگ کرنا مشکل ہو گیا تب جماعت کی گاڑی پر آپ آتے۔ آپ کی اولاد نہ تھی۔ آپ نے اپنی کوٹھی واقع شمالی چھاؤنی جماعت کے لئے وقف کر دی تھی۔ جہاں نمازیں ہوتی رہیں اور کچھ حصہ میں مہمان خانہ بھی بنا دیا گیا۔ آپ نے بے شمار دفعہ قائمقام امیر کے فرائض بھی ادا کئے۔ دیانت دار افسر تھے۔ جماعت کی رقوم کی بہت حفاظت فرماتے اور احتیاط سے خرچ کرتے۔
مکرم چوہدری اعجاز نصر اللہ خان
نائب امیر لاہور
آپ ایک معزز فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے بھتیجے تھے آپ بیرسٹر تھے اور صاحب الرائے تھے۔ خاموش رہتے تھے مگر جب مشورہ مانگا جاتا تو بہت Solid مشورہ دیتے۔ آپ صاحب علم تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی کتب کا مطالعہ آپ کا خاص شغف تھا تاریخ لاہور کا خاص علم رکھتے تھے۔ وکالت کے شعبہ سے منسلک ہونے کی وجہ سے جماعت میں میاں بیوی کے درمیان ناچاقیوں کے کیسز آپ ڈیل کرتے تھے۔ چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی۔ دفتر میں روزانہ تشریف لاتے اور ظہر کی نماز باجماعت ادا کر کے واپس جاتے۔ آپ نائب امیر دوم تھے۔ نائب امیر اول سے بعض اوقات اختلاف ہو جاتا مگر جب نائب امیر اول کوئی فیصلہ کر دیتے تو بخوشی قبول فرماتے۔ آپ 28 مئی 2010ء کے واقعہ میں جام شہادت نوش فرما گئے۔
مکرم ارشاد احمد خان۔ امیر ضلع پشاور
مجھے آپ کے ساتھ بہت مختصر عرصہ کام کرنے کا موقع ملا۔ یعنی صرف 7 ماہ مگر خاکسار نے آپ کو بہت سی خوبیوں اور صلاحیتوں کا مالک پایا۔ آپ پیشہ کے اعتبار سے انجینئر تھے مگر قادر الکلام تھے۔ اپنا ما فی الضمیر بہت خوبصورتی سے اردو اور پشتو زبان میں یکساں طور پر ادا کرتے تھے۔ سوال و جواب کی محفلوں میں خوشی سے شامل ہو کر جوابات دیتے۔ گویا علمی شخصیت تھے آپ کے ہاتھ میں ہمیشہ چمڑے کا بیگ ہوتا جس میں کوئی نہ کوئی کتاب جس میں زیادہ تر روحانی خزائن ہوتی، ہمیشہ رہتی اور اس کا مطالعہ کرتے رہتے۔ سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ شلوار قمیض اور ویسٹ کوٹ کے ساتھ نظر آتے۔ سادگی کا یہ عالم تھا کہ مسجد کے اندر دریوں میں بیٹھ کر کام کرنے میں خوشی محسوس کرتے حتی کہ عاملہ میٹنگز بھی دریوں پر ہی ہو جاتیں۔ چونکہ پشاور ضلع کا امیر خیبر پختونخواہ کی دور دور کی جماعتوں کی بھی نمائندگی کرتا تھا۔ اس لئے آپ ان سے بھی روابط رکھتے۔ دورے کرتے مجھے بھی دور کے علاقوں میں انکے ساتھ دورے کرنے کی توفیق ملی۔
مکرم منیر احمد فرخ۔ امیر جماعت اسلام آباد
خاکسار کو اپنی پوری سروس میں میدان عمل میں مکرم منیر احمد فرخ صاحب مرحوم کے ساتھ کام کرنے کا بہت مزا آیا۔ خاکسا ر نے آپ سے بہت کچھ سیکھا بھی۔ آپ پیشہ کے اعتبار سے انجینئر تھے اور PTCL کے ساتھ منسلک تھے۔ آپ کو تربیتی نکتہ نگاہ سے نت نئے خیال اور زاویے سوچنے کا ملکہ حاصل تھا۔ ذہن بہت زرخیز تھا۔ قوت فیصلہ بھی بہت تھی۔ جو کام کرنا ہوتا ایک دو سے مشورہ کر کے فورا ً شروع کروا دیتے اور بعد میں مجلس عاملہ میں رکھ کر منظوری لیتے۔ جہاں آپ کے دور میں مختلف جماعتی کاموں کو وسعت ملی وہاں اللہ تعالیٰ نے بھی ان کےکاموں کی تکمیل کے لئے رقوم بھی عطا کیں اور آپ کابنایا ہوا کوئی پروگرام مالی دشواریوں کے باوجود نہیں رکا۔
خاکسار نے 1999 میں جب مربی ہاؤس کا چارج سنبھالا۔ تو آپ اس وقت حاضر سروس تھے اور شام کو دفتر بیت الذکر حاضر ہو کر ڈاک دیکھا کرتے تھے۔ اور جماعتی امور نپٹاتے۔ مگر جب سرکاری ملازمت سےریٹائرمنٹ لے لی تو پھر ہمہ وقت اپنے آپ کو جماعتی کاموں کےلئے وقف کر دیا۔ صبح تو باقاعدگی سے دفتر آنا شروع کر دیا اور کبھی کبھار شام کو بھی آجاتے۔ آپ چونکہ انجینئر تھے اس لئے تعمیراتی کاموں کی طرف آپ کی بہت توجہ رہی۔ اتنی بڑی اور پرانی جماعت ہونے کے با وجود مرکزی مسجد میں مربی ہاؤس نہیں تھا چونکہ خاکسار کو بھی روزانہ دفتری امور کے لئے G-8سے مسجد آنا پڑتا تھا۔ میں نے بھی مربی ہاؤس کی تعمیر کی درخواست کی تو مجھے کہنے لگے کہ ہاں ہاں دو مربی ہاؤسز کے نقشے بنے ہوئے ہیں۔ ذرا نکلوائیں دیکھتے ہیں۔ میں نے اس وقت کے محرر محمد اقبال صاحب سے نقشے طلب کئے تو انہوں نے مجھے دیتے ہوئے کہا کہ مربی صاحب!۔ ’’اے نقشے کئی واری نکلے اور کئی واری اندر گئے‘‘
میں نے انہیں مخاطب ہو کر کہا کہ ان شاء اللہ اب واپس اندر نہیں جائیں گے۔ میں نے سب سے پہلے خود غور سے نقشے دیکھے۔ جو فلیٹ نما چھوٹے چھوٹے دو گھروں پر مشتمل تھے۔ میں نے آپ کو نقشے دیتے ہوئے درخواست کی کہ دو کی بجائے ایک ہی مربی ہاؤس بن جائے تو بہتر رہے گا۔ ممکن ہے کہ کوئی بڑی فیملی والے مربی صاحب کا بھی تقرر ہو جائے۔ آپ نے میری اس گذارش سے اتفاق کرتے ہوئے نائب امیر مکرم ظفر اقبال قریشی صاحب کو بڑے اور وسیع مربی ہاؤس کے نقشہ کی تیاری کی ہدایت فرما دی اور احاطہ بیت الذکر میں تعمیراتی کاموں کا آغاز بھی مربی ہاؤس اور گیسٹ ہاؤس سے ہوا اور اب عالی شان مربی ہاؤس موجود ہے جس کا پہلا مکین خاکسار تھا۔ بعد ازاں غسل خانے اور ان کی بالائی منزل میں دفاتر بشمول مربی دفتر، پھر دفتر امیر و نائب امیر اور میٹنگ رومز اور پھر مسجد کی توسیع یہ آپ کے کارہائے نمایاں میں شامل ہیں۔ آپ اسلام آباد کے پانچویں امیر تھے اور پندرہ سالہ دور امارت میں ایسے ایسے کام کر گئے کہ اپنا نام امر کر گئے۔
علمی و تربیتی کاموں کی طرف آنے سے قبل تعمیراتی کاموں کے حوالہ سے ایک تربیتی نکتہ کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔ مکرم سید تنویر مجتبیٰ صاحب کے اکلوتے بیٹے سید منور مجتبیٰ مرحوم کی امریکہ میں
کا ر حادثہ میں وفات کے بعد آپ نے اپنے اس بیٹے کے نام سے منور کمپیوٹر ٹریننگ سنٹر کے نام سے ایک انسٹی ٹیوٹ بنانے کا ارادہ کیا تو مکرم امیر صاحب نے اس کے لئے الگ سے عمارت کا ایک حصہ الاٹ فرما کر افتتاحی تقریب کے لئے اس وقت کے ناظر اعلیٰ مکرم صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب کو دعوت دی۔ آپ جب پورا معائنہ کرنے کے بعد فنکشن کی جگہ (یعنی مسجد کے مین ہال کی طرف بڑھے) تو بر آمدہ میں ناظر صاحب اعلیٰ (حضور) نے پہنا جوتا اتارنے کی کوشش فرمائی تو امیر صاحب نے عرض کی کہ میاں صاحب! ہم اس بر آمدہ کو مسجد کا حصہ نہیں سمجھتے تو ناظر صاحب اعلیٰ (حضور) نے فرمایا!
’’میں تو سمجھتا ہوں اس لئے جوتا اتار کر جاؤں گا آپ نہ سمجھیں تو الگ بات ہے‘‘
آپ کے ذہن کی ایک خوبی یہ تھی کہ احاطہ مسجد کے اندر تعمیراتی کاموں میں کوئی جگہ خالی نہیں چھوڑی۔ اس کو درست مصرف میں لائے اور گیسٹ ہاؤسز اور مہمان خانے اور رہائش گاہیں بنا دیں۔ آپ کہا کرتے تھے کہ یہ دارالخلافہ ہے احمدی احباب ویزہ اور سیرو سیاحت کے لئے جبکہ طلبہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھنے کے لئے آتے ہیں۔ انکے لئے رہائش کا وسیع انتظام ہونا ضروری ہے۔ اس کے لئے آپ نے G-10 گیسٹ ہاؤس میں بھی وسعت کروائی۔ جیسا کہ میں اوپر ذکر کر آیا ہوں کہ جماعت کے ہر سیکرٹری، ذیلی تنظیموں کے تمام پروگرامز میں اپنی طاقت سے بڑھ کر تعاون فرماتے۔ میں نے بے شمار تربیتی پروگرام بنا کر آپ کو پیش کیے ہمیشہ Go ahead کا ہی اشارہ ملا۔ مشورہ بھی دیا اور مالی معاونت بھی فرمائی۔ مثلا ً مکرم محمد عبدالرؤف ریحان صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ ضلع کے تعاون سے خاکسار نے تبرکات کی نمائش کا اظہار فرمایا تو دل کھول کر تعاون فرمایا۔ مکرم سید تنویر مجتبیٰ صاحب سیکرٹری تعلیم القرآن کی معاونت سے قرآن نمائش کے اظہار پر نہ صرف خوشنودی کا اظہار کیا بلکہ ہر قسم کا تعاون فرمایا۔ علمی محافل کے انعقاد کے پروگرام پر بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مہمانوں کے لئے کھانوں کا انتظام بھی کرتے رہے۔
لائبریری کا منصوبہ یہ کہہ کر پیش کیا کہ دارالخلافہ ہے یہاں جماعت کی بڑی لائبریری ہونی چاہیے۔ تو اسے خوشی سے قبول کیا اور زیر تعمیر عمارت میں نقشے میں معمولی تبدیلی کر کے ایک وسیع ہال لائبریری کےلئے مختص کر دیا۔ بعد ازاں کتب کی دستیابی کے لئے وسیع رقم مختص کر دی ہے۔ رمضان المبارک میں نماز تراویح کے لئے مرکز سے حفاظ بلانے کی بات کی تو کہنے لگے منگوالیں اور خود ان کی رہائش مختص کرنے کے لئے مسجد کی مختلف جگہوں کا معائنہ کیا تا ہر طرح کی سہولت میسر آسکے۔
G-10 گیسٹ ہاؤس میں دوسرے حافظ قرآن کی رہائش دیکھنے کے لئے خاکسار کو ساتھ لے کر گئے۔ جماعتی نیوز لیٹر ہر ماہ شائع کرنے کی بات کی تو اسے قبول کر لیا۔ ایک دفعہ اطفال و ناصرات میں علمی مقابلہ جات کروانے کا پروگرام بنام بمپر پرائز پیش کیا کہ یوں احمدی بچوں اور بچیوں کی علمی استعدادوں میں اضافہ ہو گا تو اسے نہ صرف منظور فرمایا بلکہ کہا کہ اگر بائیک اور سونے کے بُندے خریدنے میں مشکل پیش آئے تو مجھے بتا دیں۔ گھٹیالیاں اور تخت ہزارہ میں جب شہادتیں ہوئیں تو دو گروپس جماعتی نمائندگی میں تعزیت کے لئے تشکیل دے کر خاکسا رکو گھٹیالیاں اور مکرم رانا رفیق احمد صاحب کو تخت ہزارہ کے گروپس کا انچارج مقرر فرما کر کہنے لگے کہ راستے میں بھوکا نہیں رہنا۔ کھانا وغیرہ کھا لیں۔ آپ کے د ور میں کتب کی اشاعت بھی بہت ہوئی۔ خاکسار کی 7 کے قریب کتب لجنہ اماء اللہ کے تحت شائع ہوئیں جن میں 700 احکام خدا وندی بھی شامل ہے۔ اس سلسلہ میں مکرمہ آپا ذاکرہ ناصر، صدر لجنہ ضلع نے بہت تعاون فرمایا۔ اس کے علاوہ میں نے جماعتی سطح پر جب بعض کتب کے منصوبے پیش کئے تو فورا ً منظور فرما کر آگے بڑھنے کو کہا جن میں تجہیزو تکفین کے متعلق ایک کتاب تھی۔ اس کے دو ایڈیشن منظر عام پر آئے۔ بعد ازاں سویڈن جماعت نے اس کا سویڈش ترجمہ کر کے کچھ تبدیلیوں کے ساتھ اپنے ہاں بھی شائع کر دیا۔
الغرض لکھنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے مگر طوالت کے ڈر سے بچتے ہوئے صرف اتنا عرض کروں گا کہ ایک دیانت دار افسر تھے۔ کام اور اپنی ذمہ داری کا بھی پورا حق ادا کرتے۔ سرکاری دفاتر میں ایک احمدی دیانت دار افسر کے نام سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ دعا گو، ہر ایک سے محبت کرنے والے تھے۔ رقت بہت جلد آپ کے چہرہ پر نمایاں ہو جاتی۔ اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقا م عطا فرمائے۔
مکرم ظفر اقبال قریشی۔ نائب امیر اسلام آباد
ربع صدی کے قریب آپ کو جماعت کی خدمت کی توفیق ملی جس میں بطور نائب امیر نمایاں ہے۔ آپ مسلسل روزانہ ہی بیت الذکر میں اپنے دفتر تشریف لاتے نہ سردی دیکھی نہ گرمی نہ آندھی اور نہ طوفان۔میں جب 1998 میں اسلام آباد آیا تو میں نے اپنے دفتر آنا شروع کیا تو آپ کو میں نے روز ہی وہاں پایا۔ اس وقت مکرم امیر صاحب سرکاری ملازمت کی وجہ سے صبح نہ آسکتے تھے اس لئے آپ حاضر ہو کر احباب جماعت سے ملاقات کرتے اور ان کے مسائل کا حل فرماتے۔ میں نے بارہا دیکھا کہ اگر کوئی کام نہیں تو دھوپ میں کرسی بچھا کر بیٹھ جاتے نیشنل اخبار، الفضل اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرتے رہتے اور ظہر کی نماز پڑھ کر جاتے۔
آپ پنجاب گورنمنٹ سے چیف انجنئیر ریٹائرڈ تھے اور بیوروکریٹ تھے طبیعت میں معمولی سختی تھی مگر احباب جماعت کے لئے نرم گوشہ رکھتے۔ بہت زیرک، ذہین، مردم شناس تھے اور صاحب الرائے تھے۔ انگریزی میں ڈرافٹ بہت اچھا تیار کرتے تھے ایمبیسیز و دیگر سر کاری دفاتر میں ڈاک کی جو آمد و رفت ہوتی وہ آپ ہی کی ڈرافٹڈ ہوتی تھی۔ موصی تھے حصہ جائیداد اپنی زندگی میں ہی ادا کر چکے تھے خاموش طبع تھے۔ مربیان کی بہت عزت کرتے چونکہ مہمان نوازی کا شعبہ آپ خود دیکھتے تھے تو مہمانوں کی طرف نظر رہتی ان کی دیکھ بھال کرتے جماعتی رقوم کے محافظ تھے۔ جماعتی رقوم کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کرتے مکرم امیر صاحب ان سے مشورہ بھی کرتے تھے آپ کو خاکسار نے کئی دفعہ امیر صاحب سے اختلاف کرتے دیکھا مگر جب امیر صاحب کوئی فیصلہ کر لیتے تو پھر خاموشی کے ساتھ سمعنا و اطعنا کی تصویر بن جاتے۔ آپ کسی سے مشورہ کرنے بھی عار محسوس نہ کرتے۔ خاکسار سے بارہا مختلف امور میں مشورہ کیا۔ آخری بیماری تک دفتر آتے رہے۔ گھر میں بیگم بیمار ہوگئیں تو اُن کو دفتر ساتھ لے آتےمگر دفتر آنا نہ چھوڑا۔ بیگم کی بیماری میں مکرمہ اہلیہ صاحبہ، مکرم مبارک احمد بھٹی نے ان کی خوب خدمت کی۔ فجزاھم اللّٰہ تعالیٰ
چونکہ مکرم امیر صاحب ہر سال جلسہ سالانہ برطانیہ پر سمعی و بصری کی ڈیوٹی کی خاطر جاتے تو آپ کو قائمقام کا شرف ملتا رہا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی وفات پر آپ نے بطور قائمقام جو انتظامات کئے وہ روشن تاریخ سے لکھے جائیں گے۔
جو کچھ خلاصتہ ًخاکسار مکرم منیر احمد فرخ صاحب کے حوالے سے لکھ آیا ہے ان تمام خدمات میں آپ کا بھی ہاتھ ہے۔ فجزاہ اللّٰہ تعالیٰ
اللہ تعالیٰ مرحومین کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلندکرتا رہے۔
(حنیف احمد محمود ۔ برطانیہ)