• 26 اپریل, 2024

رمضان المبارک کی روحانی اور پرمسرت یادیں (قسط اول)

رمضان المبارک کی روحانی اور پرمسرت یادیں
(قسط اول)

اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اپنی زندگی میں 64 سے زائد ایسے رمضان المبارک آئے ہیں جن کی یاد اور جن سے روحانی فائدہ اٹھانے اور ان میں خداتعالیٰ کے جو افضال مشاہدہ کئےان کا کچھ ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

میری پیدائش گولیکی ضلع گجرات کی ہے۔ کاغذوں میں مارچ 1951ء کی پیدائش کا اندراج ہے۔ میرے دادا جان سید پیر امیر احمد شاہ صاحب مرحوم اور ان کے بڑے بھائی سید پیر علی احمد صاحب ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ ہمارا خاندان گدی نشین تھا۔ ہمارے آباؤ اجداد کی بڑی گدی تھی۔ اس وقت بھی ہندوستان میں رجولی ضلع انبالہ کے علاقہ میں وہ قبر ہمارے بزرگوں کی موجود ہے جس پر ہماری گدی تھی اور پھر پارٹیشن کے وقت ہم رجولی سے گولیکی آکر آباد ہوئے۔

میرے دادا جان پیر سید امیر احمد صاحب نے دو تین سال گولیکی میں گزارے۔ ایک چھوٹی سی دکان کی مگر نہ تجربہ تھا او رنہ سرمایہ، تو وہ دکان نہ چلی۔ چنانچہ اسے چھوڑ چھاڑ کر چنی گوٹھ ضلع بہاولپور میں سٹیشن سے قریباً دو میل دور میرے دادا جان نے زمین خریدی اور ہماری سب کی رہائش وہاں ہو گئی۔ میری عمر اس وقت قریباً 3-4 سال ہو گی جب ہم چنی گوٹھ آکر آباد ہوئے۔

میرے دادا جان نے آتے ہی سب سے پہلے گھر کے باہر دروازہ کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی کچی مسجد بنوائی۔ رمضان المبارک کا تو مجھے کچھ یاد نہیں لیکن اپنے دادا جان کا عید کی نماز پڑھانا یاد ہے کہ الفضل سے پڑھ کر انہوں نے عید کا خطبہ دیا تھا۔ ہمارے اردگرد چونکہ کوئی احمدی خاندان نہ تھا اس لئے دادا جان، دادی جان والد صاحب والدہ مرحومہ اور دو چچا کے ساتھ یہ عید پڑھنا یاد ہے۔ میرے والد صاحب سید شوکت علی صاحب نے ہماری تعلیم کی خاطر چنی گوٹھ سے پندرہ میل دور ایک اور شہر میں آڈیرہ لگایا۔ اس شہر کا نام احمد پور شرقیہ تھا۔ یہاں پر اس وقت دو احمدی خاندان تھے۔ جو ہمارے گھر سے بہت دور تھے، یہ مکرم چوہدری رحمت اللہ صاحب مرحوم جو بعد میں امیر ضلع بہاولپور بھی بنے اور ان کے بہنوئی چوہدری نذیر احمد صاحب تھے۔ یہاں پر اس کے علاوہ کوئی اور احمدی اس وقت نہیں تھا۔ یہ بھی گھر سے دور تھا اور آنا جانا بہت مشکل تھا۔ والد صاحب چوہدری رحمت اللہ صاحب کے پاس زیادہ وقت گزارتے تھے۔ ان کا ڈپو تھا چینی اور آٹے کا جسے وہ چلاتے تھے۔

یہاں پر رمضان المبارک کی گہما گہمی یاد ہے۔ شہر میں صبح سحری کے وقت جگانے کے لئے سائرن بھی بجتا تھا۔ اور محلہ کی گلیوں میں پیپا (کنستر) بجا کر اٹھانے والے بھی پھرتے تھے اور بلند آواز میں نعتیں وغیرہ بھی پڑھتے تھے۔

خاکسار کو نماز باجماعت کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ محلہ کی مسجد میں جو غیراحمدیوں کی تھی ایک شام مغرب کے وقت میں وہاں چلا گیا اور نماز باجماعت پڑھ کر گھر آگیا۔ تو والدہ مرحومہ محترمہ سیدہ مریم صدیقہ نے پوچھا کہ کہاں گئے تھے میں نے بتایا کہ محلہ کی مسجد میں نماز پڑھ کر آیا ہوں میری والدہ نے کہا کہ ہم احمدی ہیں اور احمدی غیراحمدی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے اور بس انہوں نے اس طرح مجھے تعلیم دی۔

احمدی غیر احمدی کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے

اگلے دن میں پھر مسجد چلا گیا اور نماز پڑھی۔ واپس آیا تو والدہ نے پوچھا کیا آج پھر غیراحمدیوں کی مسجد میں گئے تھے، میں نے جواب دیا کہ ہاں لیکن میں نے آپ کی بات پر عمل کیا ہے۔ میں امام کے پیچھے بالکل کھڑا نہ ہوا تھا بلکہ امام سے ہٹ کر ایک طرف صف میں تھا۔ میری والدہ نے پھر مجھے اچھی طرح سمجھایا کہ اس کا مطلب یہ نہیں تھا۔ میری اپنی سمجھ تھی بچپن کی میں نے سمجھا کہ امام کے بالکل پیچھے نہیں کھڑا ہونا۔

بہرحال یہ رمضان کی بات تھی کہ مسجد جانے کا شوق تھا اور اس طرح والدہ نے پہلی دفعہ سمجھایا کہ احمدی غیراحمدی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے اور اس کا کیا مطلب ہے! جب میں نے اس مسجد میں جانا چھوڑ دیا تو امام کے بیٹے جو عمر میں مجھ سے کہیں بڑے تھے مجھے پوچھنے لگے کہ تم مسجد نہیں آتے۔ میں نے بتایا کہ میں احمدی ہوں اور میری نماز آپ کے امام کے پیچھے نہیں ہوتی۔ وہ کہنے لگا تو اچھا تم مرزائی ہو، کافر ہو۔ میں نے کہا کہ ہم کیسے کافر ہیں؟ میری نماز تو اسی طرح ہی ہوتی ہے جس طرح آپ لوگ پڑھتے ہیں۔ کہنے لگا کہ نہیں تم آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتے اور مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہو ان کے بعد۔ مجھے مسائل اور عقائد کا تو کچھ پتہ نہ تھا۔ نہ ہی ختم نبوت اور خاتم النبیین کا۔ یہ ضرور پتہ تھا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانتے ہیں اور اس وجہ سے احمدی ہیں۔ وہ کہنے لگا کہ نہیں قرآن میں ہے کہ آنحضور آخری نبی ہیں۔ میں نے کہا کہ دکھاؤ کہاں لکھا ہے؟ وہ چونکہ عمر میں مجھ سے بڑا تھا اور امام کا بیٹا تھا کہنے لگا کہ میرے پاس اس وقت قرآن نہیں ہے۔ میں نے کہا اگر قرآن میں یہ ہوتا تو ہم کیوں نہ مانتے، ہمارے پاس بھی قرآن ہے۔ میں نے اسے کہا کہ تم یہیں ٹھہرو میں گھر کے اندر گیا اور قرآن اٹھا لایا۔ حالانکہ میں کوئی قرآن پڑھا ہوا نہیں تھا نہ ہی مجھے ان مسائل کا علم تھا لیکن میں نے اسے بڑے زور دار الفاظ میں کہا کہ یہ لو قرآن اور دکھاؤ۔ وہ کچھ حیران ہوا، پتہ اسے بھی نہیں تھا۔ کہنے لگا کہ اپنے ابا سے پوچھ کر بتاؤں گا۔ اس کے بعد میں اس مسجد میں بالکل نہ گیا۔ ایک اس قسم کا یہ رمضان بھی آج تک یاد ہے جس میں میری والدہ نے مجھے دو باتیں سمجھائیں کہ ہم غیراحمدی کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے اور ہم احمدی اس وجہ سے ہیں کہ ہم نے مسیح موعود کو مانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

ہم بے شک شہر میں رہ رہے تھے رمضان اسی طرح گزرتا تھا لیکن عید کے موقع پر ہم سب پھر چنی گوٹھ دادا جان اور دادی جان کے پاس عید کرنے چلے جاتے اور دادا جان عید کی نماز پڑھاتے۔ میرے والد صاحب سید شوکت علی صاحب کو دیکھا کہ وہ عید کے موقع پر جو ہمسائیوں کے بچے ہوتے تھے انہیں عیدی ضرور دیتے۔ دادا جان پیر سید امیر احمد کی وفات کے بعد یہ بھی یاد ہے کہ میرے والد صاحب نے عید کی نماز پڑھائی اور الفضل سے ہی خطبہ عید دیا۔ یہ ایک دور تھا رمضان المبارک کا جس کی یاد ابھی زندہ اور تازہ ہے۔

اس کے بعد دوسرا دور شروع ہوتا ہے جب خاکسار وقف کر کے ربوہ آیا اور یہ نومبر 1966ء کی بات ہے۔ ربوہ پہلی مرتبہ ہی آیا تھا۔ اس سے قبل کبھی ربوہ آنے کا موقع نہیں ملا۔ خداتعالیٰ کے فضل سے آتے ہی اجتماع خدام الاحمدیہ میں شرکت کی اور پھر جامعہ میں داخلہ لیا۔

جامعہ احمدیہ ربوہ میں رمضان المبارک

ربوہ میں جامعہ میں 7 سالہ رمضان کی رونقیں اور روحانی ماحول دراصل ایسا ہے کہ جس کی یاد آج بھی اسی طرح زندہ ہے۔ یہ یاد نہ بھلائی جا سکتی ہے اور نہ ہی بھولے گی۔ ان شاء اللہ۔

رمضان المبارک کے بابرکت ایام سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب، تحریک اور تحریص میں ہمارے پیارے استاد اور پرنسپل جامعہ احمدیہ سید میر داؤد احمد صاحب مرحوم و مغفور کا بہت بڑا دخل ہے۔ آپ نے طلباء جامعہ کو مختلف پیرایوں میں، مختلف طریقوں سے اور پھر سب سے بڑھ کر اپنے عمل سے دکھا کر ہمیں رمضان سے استفادہ کی ترغیب دی۔ میں اپنے بارے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت سے لے کر آج تک رمضان سے جس قدر بھی استفادہ کی توفیق مل رہی ہے اس میں محترم میر داؤد احمد صاحب کا بہت بڑا دخل اور حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور اپنے پیاروں کے ساتھ جگہ دے۔ آمین۔

ربوہ میں ہوسٹل میں رہائش تھی۔ رمضان میں تہجد کے لئے بہت جلدی قریباً تمام طلباء اٹھتے تھے اور قریباً سب کو ہی بڑے جوش اور پرسوز انداز میں تہجد پڑھتے دیکھا۔

جامعہ رمضان کے دنوں میں صبح 8 سے 12 بجے تک لگتا تھا۔ یعنی اپنے اصل وقت سے کچھ وقت کم کر دیا جاتا تھا۔ رمضان میں تلاوت کرنے کا طریق یہ تھا کہ کوشش ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ قرآن شریف کی تلاوت کی جائے۔ ہر طالب علم اس کوشش میں مصروف نظر آتا تھا۔کیونکہ ایک بات محترم میر داؤد احمد صاحب اور دیگر اساتذہ کرام یہ بتاتے تھے کہ رمضان میں ایک تو وقت کا ضیاع بالکل نہ ہو اور دوسرے قرآن کریم کی تلاوت کثرت سے کی جائے۔ ہم ایسے کرتے تھے کہ جوں ہی ایک پیریڈ ختم ہوتا تو دوسرے استاد کے آنے تک تلاوت کرتے تھے یہ تو تھا جامعہ کے اندر۔ اس کے علاوہ صبح کو، شام کو، دوپہر کو جب بھی وقت ملتا تلاوت جاری رہتی۔ اور اس ثواب کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے کہ جو شخص قرآن شریف کا ایک حرف پڑھے گا اسے دس نیکیاں ثواب ہو گا۔ اور الم کی تیس نیکیاں شمار ہوں گی۔ اکثر طلباء کئی کئی مرتبہ خداتعالیٰ کے فضل سے قرآن کریم کی رمضان میں دہرائی کر لیتے تھے۔

مسجد مبارک میں درس القرآن

رمضان المبارک میں سب سے ضروری اور اہم بات مسجد مبارک میں درس القرآن میں شمولیت ہوتی تھی۔ محترم پرنسپل صاحب کی طرف سے ہدایت تھی کہ ہر ایک طالب علم جامعہ کو بلااستثناء درس میں شامل ہو۔ اس میں کوئی ڈھیل کوئی عذر اور کسی سستی کی گنجائش نہ تھی۔ خود پرنسپل صاحب بھی مسجد مبارک میں پہنچ کر وقت پر آکر بیٹھ جاتے تھے اور درس سنتے تھے۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کرنے والی ہے کہ میر صاحب مرحوم نے اپنے عملی نمونہ سے سمجھایا حالانکہ وہ تو خود قرآن جانتے تھے، تفسیر اور معانی جانتے تھے لیکن اس کے باوجود سارا ماہ رمضان میں درس میں شامل ہوتے۔ ہمیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تاکید تھی کہ درس کے نوٹس بھی لینے ہیں۔

مستقبل کے لئے ہمیں تیار کر رہے ہوتے تھے کہ تم نے جماعتوں میں جا کر درس دینا ہے اس وقت علماء کا درس سنیں۔ ساتھ کے ساتھ نوٹس بھی لیں یہ بھی آپ کی ایک ضروری ہدایت تھی جس پر طلباء عمل کرتے تھے۔

آپ نے درجہ ثانیہ کے طلباء سے لے کر اوپر تک کے طلباء کو یہ ہدایت بھی کر رکھی تھی کہ تفسیر صغیر میں اندر سفید کاغذ لگوائیں تا کہ ان پر نوٹس لکھے جا سکیں۔

ہمارے زمانہ میں جن بزرگوں کا درس ہوتا تھا ان میں سے یہ نام یاد ہیں:
حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب، حضرت مولانا قاضی نذیر احمد صاحب لائل پوری، سید میر محمود احمد ناصر صاحب اطال اللہ بقاء کم ۔ حضرت مولانا عبدالمالک خان صاحب، حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد مورخ احمدیت، مولانا بشیر احمد بشارت صاحب سندھی مرحوم، مولانا شیخ مبارک احمد صاحب، مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب، مولانا ظہور حسین صاحب بخارا، مولانا غلام باری سیف صاحب، مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب، مولانا نورالحق تنویر صاحب، مولانا نور الحق صاحب انور سابق مبلغ امریکہ، مکرم مولانا مبارک احمد صاحب مرحوم پروفیسر عربی جامعہ احمدیہ۔

ان بزرگوں اور اساتذہ کرام کا درس یاد ہے اور ان کا مخصوص انداز اور طرز بھی یاد ہے۔ اللہ تعالیٰ سب مرحومین کو جزائے خیر دے اور درجات بلند فرمائے۔ آمین

رمضان المبارک میں ہمارا قیام ہوسٹل جامعہ میں ہوتا تھا اس لئے ہر طالب علم خود اپنے وقت پر اٹھنے کا پابند تھا کہ تہجد پڑھے اور سحری وقت پر کھائے۔ تاہم صل علیٰ پڑھنا اور اٹھانا، یہ عمل بھی جاری رہتا تھا۔

جہاں تک ربوہ کا تعلق ہے۔ سارے محلہ جات میں صل علیٰ پڑھ کر تہجد اور سحری کے لئے جگانے کا خدام اور اطفال کی طرف سے انتظام ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ مسجد مبارک میں مکرم مولانا محمد صدیق صاحب مرحوم لائبریرین خلافت لائبریری کے مخصوص انداز میں لاؤڈ سپیکر پر اعلان کرنا بھی یاد ہے۔ احباب کرام سحری ختم ہونے میں 20 منٹ باقی رہ گئے ہیں۔

نماز تراویح کا انتظام ربوہ کی قریباً ہر مسجد میں ہوتا تھا تاہم جامعہ احمدیہ کے طلباء مسجد مبارک میں جا کر نماز پڑھنے کو ترجیح دیتے تھے اور محترم پرنسپل صاحب کی طرف سے حکم بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ خصوصاً آخری دو تین کلاسوں کے لئے یہ پابندی لازمی تھی۔

مسجد مبارک میں محترم قاری محمد عاشق صاحب، محترم قاری عاشق حسین صاحب، حافظ مظفر احمد صاحب، حافظ محمد صدیق صاحب کا تراویح پڑھانا یاد ہے۔

ایک اور خاص بات

محترم پرنسپل صاحب کی طرف سے جامعہ کے طلباء کو رمضان سے فائدہ اٹھانے کے لئے بعض اوقات اجتماعی نصیحت ہوتی تھی اس کے لئے باہر نوٹس بورڈ پر اعلان لکھ دیا جاتا تھا اور بعض اوقات انفرادی طور پر۔ اس میں ایک بات یہ تھی کہ افطاری سے چند منٹ قبل علیحدگی میں بیٹھ کر دعا کی جائے۔ یہ وقت قبولیت دعا کا ہوتا ہے اس پر اکثر طلباء عمل کرتے تھے اور اس کا بہت فائدہ ہوا ہے۔

مکرم میر داؤد احمد صاحب جو پرنسپل جامعہ تھے اس کے علاوہ بھی ان کے بعض اور دوسرے فرائض تھے۔وہ ہر طالب علم کو ہر وقت ان کے سوالوں کے جواب دینے کے لئے اتنے میسر نہ تھے جتنے دوسرے اساتذہ کرام ۔ دوسرے اساتذہ کرام ہر کلاس میں جاتے تھے اور پڑھانے کے ساتھ ساتھ طلباء کے سوالوں کے جواب بھی دیتے تھے۔ خصوصاً رمضان المبارک کے حوالہ سے بات ہو رہی ہے تو مکرم میر داؤد احمد صاحب کے علاوہ درج ذیل اساتذہ کرام نے بھی طلباء کی روحانی تربیت کے لئے اپنی پوری جدوجہد کے ساتھ ساتھ راہنمائی بھی فرمائی ان میں سرفہرست مکرم ملک سیف الرحمان صاحب، مکرم مولانا غلام باری صاحب سیف اور مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب ، مکرم مولانا نور الحق تنویر صاحب، مکرم مولانا ملک مبارک احمد صاحب ، مکرم مولانا محمد احمد صاحب جلیل اورمکرم مولانا محمد احمد صاحب ثاقب شامل ہیں۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء

نوافل پڑھنے کی تحریک

ہم طلباء جامعہ کو جہاں دوسری باتوں کی طرف رمضان میں توجہ دلائی جاتی تھی وہاں پر کثرت سے نوافل پڑھنے کی بھی تلقین ہوتی تھی اور خداتعالیٰ کے فضل سے جامعہ کی مسجد میں تو قریباً ہر نماز سے قبل یا جن نمازوں کے بعد نوافل پڑھنے جائز ہوتے، کثرت سے طلباء نوافل ادا کرتے۔ لیکن مسجد مبارک میں جا کر بھی نوافل کی ادائیگی کثرت سے ہوتی تھی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا درس القرآن

مسجد مبارک میں رمضان میں درس القرآن کے لئے دس علماء کو مقرر کیا جاتا تھا۔ ہر عالم تین دن درس دیتا تھا۔ گویا ہر ایک کے ذمے تین تین پارے درس دینا ہوتے تھے۔ 29 رمضان کو درس القرآن ختم ہوتا تھا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا درس بھی سننے کی توفیق ملی۔ آپ آخری 3سورتوں یعنی سورۃ الاخلاص اور معوذتین کا درس ارشاد فرماتے تھے۔ ایک دفعہ ایسا بھی ہوا کہ حضوررحمہ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ درس دینے کے بعد، آج میں دعا نہیں کراؤں گا تاکہ اس کی رسم ہی نہ پڑ جائے۔ اس لئے تمام احباب گھروں میں واپس جا کر افطاری کے وقت تک اپنا وقت انفرادی دعاؤں میں گزاریں۔

خاکسار کو یہ واقعہ اچھی طرح یاد تھا کہ ایسا ہوا ہے تاہم اس کی تصدیق کے لئے میں نے مکرم محترم مولانا محمدالدین صاحب ناز صدر صدر انجمن احمدیہ سے بذریعہ فون تصدیق کی ہے۔ انہوں نے جامعہ 1971ءمیں پاس کیا تھا اور اسی طرح مکرم منیر الدین شمس صاحب ایڈیشنل وکیل التصنیف لندن سے بھی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے جامعہ 1972ء میں جبکہ خاکسار نے 1973ء میں پاس کیا تھا۔

اعتکاف

محترم پرنسپل صاحب کی طرف سے اس بات کی بھی تحریک ہوتی تھی کہ طلباء مسجد مبارک میں اعتکاف بھی کریں۔ الحمدللہ خاکسار کو جامعہ میں تعلیم کے دوران متعدد مرتبہ مسجد مبارک میں اعتکاف کرنے کی بھی توفیق ملی۔

اعتکاف کے دوران قرآن مجید کی تلاوت، ذکر الٰہی، کتب حضرت مسیح موعودؑ کے مطالعہ کی توفیق کے علاوہ درس القرآن، نماز تراویح اور نماز تہجد کی سعادت ملتی رہی۔ سحری اور کھانا لنگر خانہ سے سب کے لئے آتا تھا۔ مگر جامعہ کے طلباء کے لئے حضرت سیدہ امۃ الباسط بیگم صاحب (بی بی باچھی) بلاناغہ ہر روز گھر سے افطاری بنوا کر بھجواتی تھیں۔ کبھی ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہو اکہ اعتکاف کے دوران وہاں آپ کی طرف سے افطاری نہ آئی ہو۔ فجزاھاا اللہ احسن الجزاء۔

ایک دفعہ تو یہ ہوا کہ جمعہ کے دن حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ بعض لوگ دعا گو بنے ہوئے ہیں اور لوگ ان کو ان کے خیموں میں کھانے پینے کی اشیاء دعا کی خاطر دے کر جاتے ہیں جوکہ درست نہیں ہے۔ اس شام کو جب محترم میر داؤد احمد صاحب کے گھر سے افطاری آئی تو میں نے واپس کر دی۔ عشاء کے وقت محترم میر داؤد احمد صاحب میرے پاس آئے اور فرمانے لگے کہ شمشاد تم نے آج افطاری کیوں واپس کی۔ خیریت تو ہے؟ میں نے کہا کہ آپ نے آج حضور کا خطبہ نہیں سنا؟ فرمانے لگے کہ سنا ہے۔ میں نے کہا کہ حضور نے فرمایا ہے کہ بعض لوگ دعا گو بنے پھرتے ہیں اور ان کے ٹینٹوں میں لوگ کھانے پینے کی چیزیں دعا کی خاطر دے کر جاتے ہیں یہ درست نہیں ہے۔ اس لئے میں نے افطاری واپس کر دی۔ (افطاری میں سموسے اور مٹھائی وغیرہ ہوتی تھی) میر صاحب مرحوم فرمانے لگے کہ مجھے اس بات کا علم ہے۔ وہ آپ کے لئے نہیں ہے۔ خدا آپ کو ان لوگوں میں سے نہ بنائے۔ میرا تعلق تو آپ کے ساتھ باپ بیٹوں جیسا ہے۔ میں نے عرض کی کہ مجھے تو کچھ معلوم نہیں کہ کیوں خطبہ تھا۔ بہرحال حضور نے فرمایا ہے اس کی تعمیل ضروری تھی۔ آپ اگر یہ فرما رہے ہیں تو ٹھیک ہے کل سے بھجو ادیں۔ اس طرح جب بھی اعتکاف میں بیٹھتے ہمیں افطاری محترم میر صاحب کے گھر سے بی بی باچھی بنا کر بھجواتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔ آمین

ایک دفعہ خاکسار نے مسجد مبارک میں اعتکاف کیا تو ایک دو دن بعد مکرم میر داؤد احمد صاحب نے خاکسار سے دریافت فرمایا کہ شمشاد اعتکاف کیسا گزر رہا ہے؟ عرض کی کہ اعتکاف تو ٹھیک گزر رہا ہے لیکن مجھے ایک بیماری ہے کہ میں چائے کا عادی نہیں ہوں اور آج کل گرمی بہت ہے لسّی کی ضرورت محسوس کرتا ہوں بس یہی بات ہوئی۔ اگلے دن صبح سحری کے وقت مکرم سید قمر سلیمان احمد صاحب (حضرت میر صاحب کے صاحبزادے) میرے لئے گھر سے بڑی مزیدار لسی لے کر آگئے اور پھر بقیہ ایام میں ایسا ہی ہر روز ہوتا رہا۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء

استاذی المکرم ملک سیف الرحمٰن صاحب کا ذکر آیا ہے تو ایک اور واقعہ ایسا ہوا ہے کہ غالباً اسی رمضان کا ذکر ہے جس کے بارے میں اوپر لکھا ہے کہ اس وقت تک شاید لنگر خانہ سے کھانے کا انتظام نہ ہوتا تھا۔ ہر معتکف اپنے کھانے کا خود انتظام کرتا تھا خصوصاً صبح کے وقت سحری کے لئے۔ میرے لئے دقّت تھی کہ میں کھانا کہاں سے منگواؤں اور وہ بھی اپنی پسند کا۔

میں نے استاذی المکرم ملک سیف الرحمٰن صاحب سے اس بات کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی فکر نہ کرو۔ نیز فرمایا کہ ہمارے گھر سے آپ کے لئے سحری کے وقت کھانا آجایا کرے گا۔ میں نے کہا یہ تو تکلیف ہو گی۔ فرمانے لگےکہ قطعاً نہیں۔ میں نے کہا کہ اچھا ایک شرط پر۔ فرمانے لگے کہ وہ کیا۔ میں نے بے تکلفی سے کہا کہ اس کے لئے میں نے اپنی دادی جان سے گاؤں سے دیسی گھی منگوایا ہے۔ اس کے آپ نے پراٹھے بنوانے ہوں گے۔ فرمانے لگےکہ ٹھیک ہے۔ میں نے غالباً نصف کلو دیسی گھی ایک بوتل میں ڈال کر مکرم ملک صاحب کے حوالے کر دیا اور آپ کے گھر سے روزانہ دیسی گھی کے دو پراٹھے آنے لگے۔ اعتکاف گزر گیا تو خاکسار ملک صاحب کے گھر شکریہ ادا کرنے گیا تو محترم ملک صاحب نے مجھے مزید تحائف دے دیئے اور کاغذوں کے اندر لپٹی ایک بوتل بھی۔ میں نے وہ بوتل وہیں کاغذ سے علیحدہ کر کے دیکھی تو حیران رہ گیا کہ یہ تو وہی گھی کی بوتل ہے اور اسی طرح ہے۔ میں نے حیرانگی سے ملک صاحب محترم سے پوچھاکہ یہ کیا؟ فرمانے لگےکہ شاہ جہاں ثواب تو پھر پورا لینا چاہئے تھا۔ (محترم ملک صاحب خاکسار کو ‘‘شاہ جہاں’’ کے نام سے پکارتے تھے۔) اللہ تعالیٰ محترم ملک صاحب اور ان کی اہلیہ کو بہت جزا دے اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ بہت محبت کرنے والے تھے۔

ایک اور واقعہ یاد آیا کہ ایک دفعہ اعتکاف کی درخواست دی لیکن خاکسار سے پہلے ہی مسجد مبارک میں مطلوبہ تعداد پوری ہو چکی تھی۔ خاکسار نے سوچا کہ مسجد مبارک کی بجائے جامعہ سے نزدیک تعلیم الاسلام ہائی سکول کی مسجد میں اعتکاف کر لیتے ہیں شاید کچھ اور طلباء بھی تھے۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ مکرم مولانا عبدالستار صاحب حال مبلغ انچارج کولمبیا میرے کلاس فیلو ہیں وہ ضرور تھے۔ ہم نے سکول کی مسجد میں اعتکاف کیا۔ 29 رمضان کو شام کے وقت خبر پھیل گئی کہ عید کا چاند نظر آگیا ہے۔ خاکسار اور مولانا ستار خان صاحب نے اپنے بستر باندھے اور ہوسٹل واپس پہنچ گئے۔ لیکن ابھی پہنچے ہی تھے کہ اعلان ہو گیا آج چاند نظر نہیں آیا روزہ کل ہو گا۔ چنانچہ ہم نے اپنے بستر دوبارہ سروں پر اٹھائے اور مسجد گئے اور اگلے دن شام کو اعتکاف پورا کر کے واپس آئے۔

اعتکاف کی بات ہو رہی ہے تو یہ واقعہ بھی لکھ دوں کہ 1986ء میں خاکسار مغربی افریقہ میں 8 سال خدمات بجا لا کر واپس ربوہ آیا تو غالباً اپریل کا مہینہ تھا جس میں رمضان المبارک آیا۔ خاکسار نے نظارت اصلاح و ارشاد میں اعتکاف کی درخواست دے دی جو منظور ہو گئی ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی اجازت سے خاکسار کو امیر المعتکفین مقرر کر دیا گیا۔ غالباً 35-40 احباب ہوں گے اعتکاف کے لئے جو مسجد مبارک میں تھے۔ خاکسار نے ایک دن سوچا کہ ان احباب سے تعارف تو کروں کہ کون کون ہیں کہاں کہاں سے ہیں۔ خاکسار ایک بہت ہی مخلص نوجوان سے ملا۔ اس کے حالات سنے، وہ 6 ماہ قبل احمدی ہوا تھا۔ اس نے اپنے اخلاص کے واقعات سنائے۔ خاکسار نے وہ باتیں سن کر کہ یہ نو احمدی ہے 6 ماہ ہی ہوئے ہیں حضور انور کو سیدھا لندن اطلاع کر دی۔

حضور کی طرف سے فوری طور پر نظارت اصلاح و ارشاد کو ہدایت آئی کہ ایسا شخص جس کو احمدی ہوئے 6 ماہ ہوئے ہیں مسجد مبارک میں انہیں اعتکاف کی اجازت نہیں دینی چاہئے تھی۔ آئندہ کے لئے یہ ہدایت ہے کہ کسی نواحمدی کو مسجد مبارک میں اعتکاف کی اجازت نہ دی جائے۔ (الفاظ میرے ہیں۔ ہدایت یہی تھی)

ربوہ میں مختلف اوقات میں قیام کے دوران

پہلا دور جس کا ذکر ہوا ہے وہ جامعہ کا دور تھا۔ اس کے بعد خاکسار کو وقتاً فوقتاً ربوہ میں قیام کرنا پڑا اپنی ڈیوٹی کی وجہ سے مثلاً نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ میں مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ پھر نظارت اشاعت میں مکرم حضرت قاضی محمد نذیر صاحب جو لائل پوری کے نام مشہور تھے ۔ اس وقت بھی رمضان ربوہ میں گزارنے کا موقع ملا۔ اس کی یادداشت کچھ یوں ہے:
1974ء میں جب جماعت کو قانونی طورپرغیرمسلم قرار دیا گیاتواس کے کچھ عرصہ بعد جماعت پر پابندی لگا دی گئی کہ لاؤڈ سپیکر کا استعمال منع ہے۔ اس وقت تک رمضان میں مسجد مبارک ہی میں درس ہوا کرتا تھا۔ مگر اس پابندی کیوجہ سے پھر سب کا ایک جگہ اکٹھے ہو کر درس سننا مشکل ہو گیا۔ مسجد مبارک کے علاوہ محلہ کی دیگر مساجد میں درس کا انتظام ہوا۔

چنانچہ خاکسار کو ایسے تین مواقع یاد ہیں۔ محلہ دارالرحمت غربی میں ایک انتظام تھا۔ یہاں کے صدر حلقہ اس وقت مکرم بشیر احمد سیفی صاحب تھے۔ انہوں نے نظارت اصلاح و ارشاد سے اجازت لے کر خاکسار کی ڈیوٹی اپنے محلہ کی مسجد میں درس القرآن کی لگوائی۔ خداتعالیٰ کے فضل سے یہاں رمضان المبارک کے ایام میں کچھ دن درس القرآن کی توفیق ملی۔

اس کے علاوہ مسجد اقصیٰ میں بھی درس القرآن کی ڈیوٹی لگی۔ مکرم رشید احمد صاحب ارشد جو کہ آج کل لندن میں چینی ڈیسک کےانچارج کےطورپر کام کر رہے ہیں ان کا درس دینا بھی مسجد اقصیٰ میں یاد ہے۔

اسی طرح رمضان المبارک میں محلہ دارالعلوم غربی میں لجنہ کے تحت درس القرآن دینا یاد ہے۔ مکرم عبدالکریم صاحب شرما یہاں کے محلہ کی مسجد کے امام ہوتے تھے۔ آپ سابق مبلغ بلاد مشرقی افریقہ رہے ہیں۔ بہت نرم طبیعت کے مالک تھے۔ ان کی بیگم صاحبہ محلہ کی صدر لجنہ تھیں انہوں نے اصلاح و ارشاد سے اجازت لی۔ اور اس طرح خاکسار روزانہ ایک پارہ کا درس صرف لجنہ کو ان کے گھر میں دیتا رہا۔ الحمدللہ علیٰ ذٰلک۔

مسجد راجیکی میں بھی کچھ عرصہ درس دیا ہے۔ مسجد راجیکی کے سامنے ہی مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب بی اے وکیل المال اول تحریک جدید کا گھر تھا۔ ان کے علاوہ ایک اور خادم سلسلہ مکرم چوہدری فضل احمد صاحب جو نظارت تعلیم القرآن و وقف عارضی کے شعبہ میں مکرم مولانا حضرت ابوالعطاء صاحب کےساتھ کام کرتے تھے، وہ بھی اسی محلہ میں رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہر دو کے درجات بلند فرمائے۔ یہ دونوں بزرگ محبت سے پیش آتے اور درس کو سراہتے تھے۔ فجزاھما اللہ احسن الجزاء۔

یہ تو تھا دوران تعلیم رمضان المبارک کی ایک جھلک جو ربوہ اور ہوسٹل سے تعلق رکھتی تھی۔

میدان عمل میں رمضان المبارک

خاکسار نے جامعہ یکم مئی 1973ء میں پاس کیا۔ کچھ دنوں کے لئے حدیقۃالمبشرین میں کام کیا اور ایک دو ہفتہ ادارۃ المصنفین کے شعبہ میں مکرم مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب کے تحت ہماری ساری کلاس نے قرآن شریف کی اشاعت میں کام کیا۔ اس کے بعد خاکسار کی تقرری نظارت اصلاح و ارشاد مقامی میں ہوئی۔ محترم مولانا احمد خان صاحب نسیم ناظر اصلاح و ارشاد مقامی تھے۔ آپ نے جون 1973ء میں خاکسار کی تقرری لاٹھیانوالہ ضلع لائل پور، حال فیصل آباد کی۔ یہ گاؤں فیصل آباد سے 10-12 میل کے فاصلہ پر تھا۔ میری والدہ محترمہ نے خاکسار کے لئے ایک بستر بند اور ایک صندوق تیار کردیا۔ بستر بند میں بستر، گدا، چادر اور تکیہ اور کچھ کپڑے رکھ دیئے۔ صندوق میں میری کتابیں تھیں۔

لاٹھیانوالہ میں رمضان المبارک

اب میدان عمل میں یہ پہلی جگہ تھا۔ یہ جماعت خداتعالیٰ کے فضل سے بہت مشہور جماعت تھی۔ جماعت کا رعب اور دبدبہ تھا۔ یہاں احمدیوں میں مکرم چوہدری محمد علی صاحب جوچیئرمین کہلاتے تھے، صدر جماعت تھے۔ مکرم چوہدری محمد شریف صاحب ایک بزرگ معمر شخص تھے۔ بہت ہی مخلص تھے۔ صدر صاحب کو سب لوگ گاؤں میں چیئرمین صاحب کہتے تھے۔ اور مکرم چوہدری محمد شریف صاحب کوساری خواتین ماما اور سارے مرد چاچا کہہ کر پکارتے تھے۔ اس کے علاوہ مکرم بابا رحیم بخش صاحب، مکرم مستری رحمت اللہ صاحب، مکرم ہدایت نمبردار صاحب، ان کےبھائی مکرم غلام رسول صاحب، مکرم چوہدری سید احمد صاحب جو مکرم چوہدری محمد علی صاحب کے بھائی تھے مکرم مولوی سردار صاحب، مکرم فضل الٰہی صاحب اور ان کے بھائی مکرم محمد دین صاحب، مکرم احمد دین صاحب، مکرم رحمت علی صاحب یہ سب بزرگ اب وفات پا چکے ہیں اور دیگر احباب بہت مخلصین کی جماعت ہے۔ خداتعالیٰ کے فضل سے یہاں پر مسجد ہے۔ اور اس وقت حالات اچھے تھے۔ احمدیت کی کوئی زیادہ مخالفت نہ تھی۔البتہ 1974ء میں کچھ مخالفت ہوئی اور وہ بھی باہر سے مولوی منگوا کر انہوں نے ہمارے خلاف تقریریں کروائیں۔

یہاں پر پہلا رمضان آیا۔ خاکسار کے اندر رمضان اس طرح کرنے کا شوق تھا جس طرح ربوہ میں 7 سال دیکھا تھا۔ یہاں پر خاکسار نے روزانہ ایک پارہ درس دیا۔ نماز ظہر و عصر کے وقت حاضری تو کم ہوتی تھی کیونکہ سب زمیندار طبقہ تھا اس لئے زمینوں پر کھیتی باری کے لئے چلے جاتے تھے۔ میں ظہرکی نماز کے لئے ان کے کھیتوں ہی پر چلا جاتا تھا وہاں سب کو اکٹھا کر کے نماز ظہر پڑھا دیتا۔ نماز عصر کے بعد مسجد میں درس شروع کرتا اور مغرب کی نماز سے قبل ختم کر دیتا۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ گاؤں میں جس قدر لوگ ہوتے تھے ساری خواتین، بچے اور مرد، غیرازجماعت اور اپنی جماعت کے لوگ وہ گھروں میں درس سن لیتے کیونکہ لاؤڈ سپیکر کی آواز سارے گاؤں میں چلی جاتی تھی۔ یہ پہلا موقعہ تھا میرا بھی اس طرح پورے قرآن کا درس دینے کا۔ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں درس ہوتا تھا۔ گاؤں کے غیرازجماعت نے اسے بہت پسند کیا۔ الحمدللہ

یہاں پرسب سے بڑا فائدہ لاؤڈ سپیکر کا تھا۔ نماز فجر سے بہت پہلے خاکسار آن کر لیتا اور اعلان کرتا کہ صبح ہو رہی ہے، نماز کا وقت ہے۔ آنحضرت ﷺ بستر سے جاگتے وقت یہ دعا پڑھتے تھے۔ آپ بھی یہ دعا پڑھیں اور جاگ جائیں اور نماز کے لئے مسجد آئیں۔ اس کے دو فائدہ ہوئے ایک تو یہ کہ ہمارے احمدی بھی مسجد آجاتے اور غیراحمدی اپنی مسجد چلے جاتے جنہوں نے نماز پڑھنی ہوتی۔ دوسرے یہ کہ صبح اٹھنے کی دعا گاؤں کے غیراحمدی لوگوں، خواتین اور بچوں نے بھی یاد کر لی۔ اسی طرح رات کو بھی خاکسار عشاء اور تراویح کے بعد اعلان کرتا کہ رات کو سونے کی دعا آنحضرت ﷺ یہ پڑھا کرتے تھے۔ یہ دعا بھی سب گاؤں والوں نے یاد کر لی اور اس کا بہت اچھا اثر ہوا۔

نماز عشاء کے بعد درس حدیث یا درس ملفوظات کا یہاں پر موقع ملتا تھا۔ اس پر جماعت کی حاضری بہت اچھی ہو جاتی تھی۔ درس 10-12 منٹ کا ہوتا تھا کیونکہ صبح کو پھر لوگوں نے تہجد اور سحری کے لئے اٹھنا ہوتا تھا۔ جب خاکسار درس ختم کرتا تو کوئی نہ کوئی شخص یہ ضرور کہتا کہ شاہ صاحب یا مربی صاحب درس کا مزا تو ابھی آنا شروع ہوا تھا اور آپ نےختم بھی کر دیا۔ خاکسار کہتا کہ صبح بھی تو اٹھنا ہے۔ اب بس اتنا ہی کافی ہے۔

یہاں کا ایک اور واقعہ ہے کہ بارشیں شروع ہو گئیں۔ کافی دن بارش ہوتی رہی۔ لوگوں کےمکانات کچے تھے، گرنے لگے۔ ایک دن خاکسار نے سوچا کہ لاؤڈ سپیکر پر بارش بند ہونے کی جو آنحضرت ﷺ کی دعا ہے وہ پڑھی جائے چنانچہ مسجد میں تو خاکسار اکیلا تھا۔ لاؤڈ سپیکر آن کیا اور اعلان کیا کہ آنحضرت ﷺ کی یہ دعا میں پڑھتا ہوں آپ میرے ساتھ ساتھ سب لوگ دہراتے جائیں۔ خاکسار نے چند مرتبہ دعا پڑھی۔ لوگوں نے بھی دہرائی۔ خداتعالیٰ نے فضل کیا اور بارش تھم گئی۔ اس کا بھی وہاں کے غیرازجماعت لوگوں پر بہت اچھا اثر ہوا۔ الحمدللہ۔ بلکہ میرے وہاں سے چلے جانے کے بعد ایک دفعہ پھر اس قسم کی بارشوں کا سلسلہ ہوا تو غیرازجماعت لوگوں نےوہاں احمدیوں سے کہا کہ تم اپنے پہلے مربی شاہ صاحب کو بلاؤ جو دعا کریں اور یہ سلسلہ بارشوں کا ختم ہو۔ یہ مجھے لاٹھیانوالہ کے احباب نے بعد میں بتایا تھا۔

لاٹھیانوالہ میں خاکسار نے رمضان المبارک میں وقف زندگی کی بھی تحریک کی۔ اس وقت مرکز کی طرف سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی ہدایت پر امراء اضلاع اور مربیان کو ہدایت ہوئی تھی کہ جماعتوں میں وقف زندگی کی بھی تحریک کریں تا زیادہ سے زیادہ میٹرک پاس بچے جامعہ احمدیہ میں داخل ہوں۔

خاکسار چونکہ ابھی جامعہ سے فارغ ہی ہوا تھا اور لاٹھیانوالہ پہلا سٹیشن تھا جامعہ کے ماحول سے بہت مانوس تھا۔ باوجودیکہ جامعہ سے فراغت ہو چکی تھی لیکن دل اسی ماحول سے اٹکا ہوا تھا۔ چنانچہ خاکسار نے یہاں پر وقف زندگی کی تحریک کی اور میرے حساب سے بات بھی آئی گئی ہوگئی۔ یعنی اس وقت کسی نے اس کاResponse نہ دیا۔ لیکن خداتعالیٰ کے فضل سے لوگوں کے دلوں میں یہ بات بیٹھ گئی اور کچھ لوگوں نے دل ہی دل میں اپنے بچوں کو وقف کرنے کی نیت کر لی کیونکہ میٹرک کی شرط تھی اور بچے ابھی چھوٹے تھے۔

چنانچہ جب میں لاٹھیانوالہ سے تبدیل ہو کر واپس مرکز ربوہ آنے لگا تو واپسی میں 4-5 دن کی تاخیر ہو گئی۔ جماعت والے بھی اور غیرازجماعت بھی خاکسار کی الوداعیہ دعوتیں کر رہے تھے۔ جس دن صبح خاکسار ربوہ جانے لئے تیار بیٹھا تھا تو قریباً صبح 8۔9 بجے کا وقت ہو گا مسجد کے باہر جماعت کے لوگوں کا مجمع لگا ہوا تھا۔ سب ملنے کے لئے آرہے تھے تو اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جیپ آکر مسجد کے سامنے رکی۔ وہ جیپ مکرم مولانا احمد خاں نسیم صاحب ناظر اصلاح و ارشاد مقامی کی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ میں آپ کو لینے آیا ہوں۔ تمہارا 4-5 دن سے انتظار کر رہا تھا۔ سوچا خود جا کر لے آؤں۔ میں تو تیار ہی بیٹھا تھا۔ آپ نے جب اتنا مجمع دیکھا تو فرمانے لگے کہ اچھا تم ان سب لوگوں کے ساتھ بس اڈہ تک چلو میں وہاں تمہارا انتظار کرتا ہوں۔ مسجد سے بس اڈہ قریباً نصف میل پر تھا۔ خاکسار کا سامان تو جیپ میں رکھ دیا گیا تھا۔ میں اب احمدی دوستوں اور غیراحمدی لوگوں کےساتھ بس اڈہ کی طرف جارہا تھا۔ ابھی نصف راستہ ہی طے کیا ہو گاکہ پیچھے سے ایک شخص کی آواز آرہی تھی کہ شاہ صاحب! ذرا رک جاؤ۔ شاہ صاحب! ذرا رک جاؤ۔ انتظار کرو۔

میں نے مڑ کر دیکھا کہ ایک شخص اپنے ایک چھوٹے سے بچے کے ساتھ بھاگا آرہا ہے۔ اس نے سر پر ایک چھوٹا سا ٹرنک بھی اٹھایا ہوا ہے اور بستر بھی ہے۔ میں رک گیا۔ جب وہ نزدیک آیا تو وہ مکرم ہدایت علی نمبر دارصاحب تھے۔ (نمبردار وہ مشہور تھا حقیقت میں نمبردار نہ تھا) وہ اپنے بیٹے کو جس کا نام جمیل احمد تھا، ساتھ لئے ہوئے تھا جس کی عمر قریباً چار یا پانچ سال تھی۔ مجھے کہنے لگا کہ شاہ صاحب! لو میرا بیٹا ساتھ لے جاؤ اب یہ تمہارا ہے۔ مجھے بات کی کچھ بھی سمجھ نہ آئی کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ میں نے کہا کہ نہیں میں تو نہیں لے جا سکتا۔ کہنے لگے کہ آپ نے وقف زندگی کی تحریک کی تھی تو میں یہ اب آپ کو دیتا ہوں اسے سلسلہ کے کاموں میں لگا لیں۔

مجھے اس وقت کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کیا کروں۔ میں تو خود اکیلا تھا شادی بھی ابھی نہیں ہوئی تھی، گھر بھی نہیں تھا۔ جا بھی میں مرکزی گاڑی میں رہا تھا کیا کروں؟ بس اسی لمحہ دل نے فیصلہ کیا کہ ٹھیک اس کو اپنے ساتھ لیا اور گاڑی میں بٹھا لیا۔

ربوہ پہنچ گئے۔ ربوہ میں میری والدہ اور چھوٹا بھائی اور چھوٹی بہن کرایہ کے گھر میں رہتے تھے۔ میں نے گھر جا کر امی سے کہا کہ امی اب یہ بھی بیٹا ہی ہے اس کو آپ نے رکھنا ہے اور ساری بات بتائی۔

اب اس بچے کی عمر ہی کیا تھی کہ میں اس کو وقف کر دیتایا سلسلہ کے سپرد کر دیتا۔ خاکسار نے اپنی امی سے کہا کہ پہلے اس کو سکول میں پڑھاتے ہیں، چنانچہ اس کو سکول میں داخل کرادیا اور یہ ہمارے گھر میں بچوں کی طرح رہنے لگا۔ اس نے غالباً پانچویں تک سکول میں تعلیم حاصل کی۔ پھر خاکسار نے سوچا کہ اس کو حافظ کلاس میں داخل کرادیتا ہوں۔ چنانچہ اس کو حافظ کلاس میں داخل کرادیا گیا۔ اس کے والدین بہت خوش ہوئے اور اس طرح یہ بچہ ہمارے گھر میں پلا۔ حافظ کلاس کی۔ میرا چونکہ لاٹھیانوالہ سے واپس آکر تھوڑے ہی دن میں نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ کے تحت کرونڈی ضلع خیرپور سندھ تبادلہ ہو گیا۔ حفظ قرآن کے دوران اس بچے کو خداتعالیٰ کے فضل سے پاکستان کی مختلف جماعتوں میں جا کر رمضان میں تراویح پڑھانے کے بھی مواقع میسر آئے۔ جب اس نے قرآن شریف حفظ کر لیا تو واپس اپنے گاؤں چلا گیا۔ اس دوران خاکسار کا تبادلہ کرونڈی سے مرکز اور پھر مرکز سے گھانا ہو گیا۔

میرے کہنے کا مطلب ہے کہ وقف کی تحریک لوگوں کے دلوں پر اثر کرتی ہے۔ یہ تو ایک بچہ کا واقعہ ہے اس کے بعد خداتعالیٰ کے فضل سے 3-4 بچوں کو یہاں سے وقف کرنے اور مربی بننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ جو اب بھی خدمت سلسلہ بجا لا رہے ہیں۔ الحمدللہ علیٰ ذٰلک۔

لاٹھیانوالہ میں رمضان اور جماعت کے دوسرے کاموں میں خصوصاً عزیزم اسد اللہ چوہدری صاحب نے اور مکرم عبدالرزاق صاحب جو ڈی سی کے نام سے مشہور تھے، اور چند اور نوجوانوں نے میری بہت خدمت کی ہے۔ عزیزم اسد اللہ تو آج کل آسٹریلیا میں ہیں اورانہیںاللہ تعالیٰ نے بعد میں لاٹھیانوالہ جماعت کا صدر بھی بنایا۔ مکرم چاچا محمد شریف صاحب جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے ان کے تینوں بیٹوں حفیظ احمد، منیر احمد مرحوم اور بشیر احمد نے بھی بہت خدمت کی۔ بشیر احمد ایک حادثہ میں معذور ہو گئے وہ آجکل لندن میں ہیں اور ان کے دو بیٹے حفاظت خاص میں خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح چوہدری محمد علی صاحب چیئرمین کے دو بیٹوں نے اور اب ان کے بچے بھی واقفِ زندگی ہیں جامعہ میں تعلیم حاصل کی ہے اور خدمت بجا لا رہے ہیں۔ الحمدللہ

کرونڈی ضلع خیرپور

خاکسار ایک سال لاٹھیانوالہ میں خدمت کی سعادت پانے کے بعد نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ کے تحت کرونڈی ضلع خیرپور تعینات ہوا۔ یہاں پر بھی خداتعالیٰ کے فضل سے بہت اچھی مخلص جماعت ہے۔ یہاں پر جماعت کے صدر مکرم مقبول احمد صاحب تھے جو ایک تاجر پیشہ تھے اور خاندان میں سے صرف اکیلے احمدی تھے۔ یہاں پر مضبوط جماعت تھی۔ مسجد تھی لیکن چھوٹی اور کچی۔ اسے پختہ بنانے کا کام بھی ہو رہا تھا۔ فنڈز اور مسجد کی اجازت مل چکی تھی۔ اس کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا اس میں خاکسار کو مدد کرنے کی توفیق ملی۔

یہاں پر بھی خاکسار نے 3 رمضان گزارے اور ربوہ کی طرز پر ہی رمضان گزارنے کی توفیق ملی۔ یہاں پر لاؤڈ سپیکر نہ تھا۔ عصر اور مغرب کے درمیان حاضری ہوتی تھی۔ مرد و خواتین کی الگ الگ جگہ تھی مسجد میں۔

روزانہ ایک پارہ کا درس خاکسار دیتا تھا ۔ یہاں پر بعض احباب کے بچوں نے بعد میں وقف بھی کیا مثلاً اقبال پیرکوٹی صاحب کے بیٹے مکرم محمد اکبر صاحب نے وقف کیا۔ جامعہ میں تعلیم حاصل کی اور اب افریقہ میں خدمت بجا لا رہے ہیں۔ پھر ایک اور بہت مخلص دوست مولوی عبدالکریم صاحب ہوتے تھے۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر پاشا صاحب جو اس وقت فضل عمر ہسپتال ربوہ میں خدمت بجا لا رہے ہیں۔ یہ مکرم داؤد صاحب سٹیشن ماسٹر کے بھانجے ہیں۔ محمد یونس صاحب کے بیٹے، محمد صدیق صاحب بھی ۔ اس کے علاوہ ایک اور دوست ماسٹر رشید احمد صاحب ہوتے تھے ان کے بیٹے فضل الٰہی صاحب کو وقف کر کے جامعہ میں پڑھنے کی توفیق ملی اورپھر قریباً 30 سال خدمات بجا لا کر ریٹائرہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے دوسرے بیٹے عبدالعزیز صاحب نے بھی وقف کیا اورپاکستان میں مربی کے طور پر خدمات بجا لا رہے ہیں۔ کیونکہ کرونڈی میں قیام کے دوران اس بات کی بھی بار بار تحریک کی گئی تھی کہ احباب اپنے بچوں کو وقف کریں۔ خداتعالیٰ نے یہ سارے پھل عطا فرمائے۔ الحمدللہ

کرونڈی میں مکرم مولوی عبدالحق صاحب شہید کا خاندان آباد تھا۔ یہاں پر شہید مرحوم کے دو بیٹے اور بیوہ رہتی تھیں۔ مکرم ثناء اللہ صاحب اور مکرم چاچا یعقوب۔ مکرم ثناء اللہ صاحب اور ان کے بیٹے نصیر احمد صاحب اور چاچا یعقوب اور دیگر احباب ہر وقت خدمت کے لئے کمربستہ رہتے تھے۔ جماعتی کام جو ہوتا تھا مکرم نصیر احمد صاحب اور مکرم یعقوب صاحب بہت کام کرتے تھے۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔

کرونڈی میں قیام کےد وران جمال پور، بھریا روڈ، لاکھا روڈ، مہدی آباد،گوٹھ رحیم بخش، گوٹھ عبدالسلام عمر ، باندی وغیرہ بھی جانا ہوتا تھا۔

گھانا مغربی افریقہ میں رمضان المبارک

خاکسار کی تقرری گھانا مغربی افریقہ کے لئے ہوئی اور مئی 1978ء میں خاکسار کے ساتھ ایک اور مربی مکرم حمید احمد ظفر صاحب ہم دونوں گھانا روانہ ہوئے۔ ایک رات ہم نے نیروبی میں قیام کیا وہاں پر اس وقت مکرم مولانا محمد منور صاحب امیر و مشنری انچارج تھے انہوں نے ہمیں ایئرپورٹ سے لے لیا اور مشن ہاؤس لے کر آئے اور خوب مہمان نوازی کی یہ رشتہ میں میری اہلیہ کے پھوپھا تھے۔ اگلے دن ہمارا جہاز نائیجیریا کے لئے روانہ ہوا۔ نائیجیریا میں اس وقت مکرم محمد اجمل شاہد صاحب امیر اور مشنری انچارج تھے۔ ان کے ساتھ مرحوم مفتی احمد صادق صاحب بھی خدمات بجا لا رہے تھے۔ یہاں پر دو راتیں قیام کیا اور پھر ہمارا اگلا مستقر گھانا میں اکراکا ہوائی اڈا تھا۔ ایئرپورٹ پر ہمیں مکرم مولانا عبدالوہاب بن آدم صاحب امیر و مشنری انچارج اور مکرم مولانا غلام احمد صاحب خادم حال مبلغ انگلستان، لینے آئے ہوئے تھے۔ ان دنوں میں گھانا کی جماعت نے قرآن شریف شائع کیا تھا۔ خاکسار اور حمید احمد ظفر صاحب اور مکرم غلام احمد خادم صاحب کو تین چار ماہ قرآن شریف کے سلسلہ میں خدمت کی سعادت ملی۔ اس کے بعد رمضان آ گیا۔ مکرم امیر وہاب ابن آدم صاحب نے حمید احمد ظفر صاحب کی تقرری تو کماسی میں کردی اور وہ مستقلاً کماسی چلے گئے۔ خاکسار کی عارضی تقرری ایک گاؤں نیانکروم میں کردی۔ یہ رمضان کے آنے سے صرف دو دن پہلے ہوا۔ خاکسار کو صدر جماعت کے نام خط مکرم محترم امیر صاحب نے دیا کہ وہاں جا کر انہیں دے دوں۔ کیونکہ وہ کافی ریموٹ جگہ تھی۔ ڈاک کا اس طرح انتظام بھی نہ تھا۔

خاکسار نے اپنا بوریا بستر لپیٹا اور خط لے کر روانہ ہو گیا۔ راستہ میں سویڈرو کا شہر تھا۔ یہاں ہمارا ایک بہت بڑا ہسپتال ہے اس کے انچارج مکرم ڈاکٹر لئیق احمد فرخ صاحب تھےحال کینیڈا۔ خاکسار ان کے پاس چلا گیا۔ کیونکہ یہاں سے بس تبدیل کر کے آگے نیانکروم جانا تھا۔ اور بس کا اڈہ ان کے ہسپتال کے بالکل سامنے تھا۔ اومنی بس کی (گورنمنٹ بس) سروس ہوتی تھی۔

انہوں نے مجھ سے خط لیا اور اپنے کسی آدمی کو دے کر فوراً نیانکروم بھیجا تاکہ انہیں میری آمد کی اطلاع ہو جائے۔ خاکسار کو انہوں نے ایک رات اپنے پاس ہی رکھا۔ اگلے دن وہ اپنی کار میں اپنی اہلیہ کے ساتھ مجھے لے کر نیانکروم روانہ ہو گئے، عصر کے کچھ دیر قبل ہم نیانکروم پہنچ گئے۔ الحمدللہ

صدر جماعت کو ملے، وہ انگریزی نہ جانتے تھے بلکہ سارے گاؤں میں احمدیوں میں سے کوئی بھی انگریزی نہ جانتا تھا۔ چنانچہ ایک نوجوان ملے اس کا نام اسحاق تھا۔ اسے میرے لئے بطور ہاؤس بوائے اور ترجمان رکھا گیا۔

مکرم ڈاکٹر لئیق احمد صاحب اور ان کی اہلیہ نے سویڈرو سے آتے ہوئے میرے لئے کچھ کھانا اور مٹھائی تیار کر کے ساتھ رکھ لی تھی۔ جو مجھے انہوں نے رمضان کے لئے دے دی اور خود واپس چلے گئے۔

نیانکروم میں رمضان المبارک

دراصل اب یہاں سے میرے اصل کام کا آغاز ہوتا ہے اب میں تھا اور جماعت تھی۔ ادھر میرا یہ حال کہ ایک تو مجھے بھی انگریزی صحیح طور پر نہ آتی تھی۔ ماحول بھی بالکل مختلف تھا جہاں میرا ٹھکانہ تھا یعنی گھر وہ گاؤں کے ایک طرف تھا۔ اور وہاں سے لوگ اپنے کھیتوں کی طرف جاتے تھے۔ مکان کی شکل کچھ اس طرح تھی کہ نیچے زمین سے ستون اٹھے ہوئے تھے اور ان ستنوں پر فرش ڈال کر مکان بنایا ہوا تھا۔ اس مکان میں ایک بہت بڑا کمرہ اور ایک برآمدہ تھا۔ کمرے کے اندر خاکسار کا بستر تھا۔ وہاں سے مسجد چارپانچ منٹ کے فاصلے پر تھی۔

اگلے دن رمضان شروع ہونے والا تھا۔ رات کو مسجد میں گئے جماعت کے دوستوں سے تعارف ہوا۔ اب اس وقت ٹوٹی پھوٹی انگلش سے گزارا ہورہا تھا اور مکرم اسحاق صاحب میرے ہاؤس بوائے کے علاوہ میرے ترجمان بھی تھے۔

اگلے دن صبح ہی میں نے اسحاق صاحب سے کہا کہ وہ میرے گھر آجائیں۔ صبح دس بجے کے قریب وہ آئے۔ میں نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا اور اسے کہا کہ دیکھو میرا لہجہ شائد تم نہ سمجھ سکو، انگریزی میں، اسلئے میں تمہارے سامنے قرآن شریف انگریزی میں ترجمہ اور جو کچھ میں نے کہنا ہو گا وہ لکھ لیا کروں گا۔ پھر میں آپ کو سنایا کروں گا اور جب مسجد میں جا کر درس دیا کروں گا۔ اس سے ایک تو آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں دوسرے لوگوں کو صحیح پیغام پہنچ جائے گا۔ چنانچہ خاکسار صبح ایک ڈیڑھ گھنٹہ اس کے ساتھ بیٹھ کر انگریزی میں بات چیت کرتا۔ وہ مجھے سمجھاتا کہ یہ لفظ ایسے کہنا ہےا وریہ لفظ ایسے۔ پھر شام کو ایک گھنٹہ اور اس کے ساتھ انگریزی میں لگاتا جس میں ریاض الصالحین کا ترجمہ چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ کا، میں اسے پڑھ کر سناتا تاکہ جہاں تلفظ کی ادائیگی میں مجھ سے غلطی ہو وہ بتا دے اور وہ بھی سمجھ جائے کہ نفس مضمون کیا ہے۔ تاکہ شام کو درس حدیث کے وقت سمجھانے میں آسانی رہے۔

چنانچہ رمضان کا پورا مہینہ اسی طرح چلتا رہا۔ مکرم اسحاق صاحب کے ساتھ صبح و شام قرآن کریم کا ترجمہ اور حدیث کا ترجمہ پڑھ کر سنانے اور الفاظ کی ادائیگی کی مشق ہوتی رہی اور یوں ایک مہینہ کی لگاتار کوشش کے بعد عید الفطر کے اگلے دن جماعت نے پروگرام بنایا کہ ہم کھلے بندوں اس گاؤں میں تبلیغ کریں۔ اس کے لئے پیراماؤنٹ چیف سے ہمارے وفد نے جا کر ملاقات کی اور تبلیغ کے لئے اس کے پیلس کے سامنے ہی اجازت بھی لی۔ چنانچہ یہ پہلا موقع تھا کہ خاکسار نے دو تین سو کے مجمع میں تبلیغ کی اور احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ پیراماؤنٹ چیف بھی اس میں خود موجود تھے اور گاؤں کے دیگر عیسائی بھی۔ ہماری جماعت کے لوگ تو تھے ہی۔ الحمدللہ۔

اس گاؤں کی ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ ہماری مسجد کے علاوہ غیراحمدیوں کی بھی مسجد تھی، یعنی اور مسلمان بھی تھے۔ رات کو دو تین بجے ہمارے لوگ بھی اور ان کے لوگ بھی گاؤں کی مختلف گلیوں میں لوگوں کو جگانے کے لئے آوازیں لگاتے تھے۔ وہ قرآنی آیات تو نہ پڑھتے تھے مگر اپنی زبان میں ترجمہ کرتے پھرتے اور لوگوں کو تبشیر و انذار کرتے تھے تالوگ نیند سے بیدار ہوں اور اٹھ کر عبادت اور سحری کریں۔

خاکسار نے اوپر مکرم ڈاکٹر لئیق احمد صاحب فرخ کا ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب مع اہلیہ دوسرے تیسرے دن میرے پاس چکر لگاتے اور دو تین دن کا کھانا اور مٹھائی لے آتے تھے اور یہ خدمت انہوں نے پورے رمضان میں کی ہے۔ دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہے اور ان دونوں کے لئے جذبات تشکر اور دعائیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے حضور سے اس نیکی کی خاص جزا دے۔ آمین

نیانکروم کے ساتھ بہت سی یادیں وابستہ ہو چکی ہیں ایک تو میرا پہلا سٹیشن تھا۔ دوسرے رہائش کی وجہ سے میرے کمرہ کے ساتھ جو برآمدہ تھا اس میں ایک بہت بڑا میز رکھا ہوا تھا اور ہمارے سب احمدی بھائی دیہاتی تھے۔ کھیتی باڑی کرتے تھے وہ شام کو جب کھیتوں سے واپس آتے تو ہر ایک میرے لئے اپنے کھیت سے تازہ چیزیں لے کر آتا مثلاً گنا، مرچ، بھنڈی، توری، ٹماٹر، انناس، پپیتا، یام، کنٹومرے، سبز پتے، انڈے، جس شخص کے پاس جو چیز بھی ہوتی بڑے اخلاص کے ساتھ وہ لے کر آتے۔ اور اس بڑے میز پر رکھ دیتے۔ ایسے لگتا تھا کہ گویا میرے پاس بھی فروٹ اور سبزی کی منڈی لگی ہوئی ہے۔ فریج وغیرہ تو تھا نہیں اب اس ساری چیزوں کا کیا کیا جائے۔

جو دوست صبح کے وقت خاکسار کو ملنے آتے، خاکسار یہ چیزیں ان میں تقسیم کر دیتا کیونکہ شام کو اور چیزیں آجاتی تھیں۔ کچھ اپنے ہاؤس بوائے اسحاق کو دے دیتا کہ وہ اپنے گھر لے جائے اور دوستوں میں تقسیم کر دے اور کچھ مکرم ڈاکٹر لئیق صاحب کو دے دیتا۔ یہ ان سب بھائیوں کا اخلاص تھا۔ سب کو معلوم تھا کہ میں صرف اکیلا آدمی ہوں، کھا نہ سکوں گا یا میرے لئے بہت زیادہ ہے مگر ان کی محبت اور اخلاص کی یہ ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔

خاکسار نے یہاں پر رمضان کا مہینہ گزارا اور پھر رمضان کے چند دن بعد مکرم امیر صاحب کا پیغام آیا کہ واپس آجاؤ۔ خاکسار کی تقرری ایک اورشہر کر دی گئی ہے۔ لیکن اس جگہ خاکسار کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اور تجربہ بھی حاصل ہوا۔ الحمدللہ۔ اس کی یاد کبھی بھلائی نہ جا سکے گی۔

یہاں پر نہ بجلی تھی اور نہ ہی گھر میں کچن وغیرہ۔ پانی بھی بارش کا استعمال کرنا ہوتا تھا اور وہ سارا مہینہ بارشوں کا ہی تھا۔ الحمدللہ کہ ساری جماعت نے اخلاص کا مظاہرہ کیا، بہت عزت دی، خدمت کی۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔

یہ گھانا میں میرا پہلا تجربہ رمضان شریف کا، درس دینے کا اور انگریزی زبان سیکھنے کا اور ماحول سے مانوس ہونے کا تھا۔

کوفوریڈوا میں رمضان المبارک

نیانکروم سے واپس آکر خاکسار کی تقرری مکرم امیر صاحب نے کوفوریڈوا میں کی یہ شہر تھا اور ریجنل ہیڈ کوارٹر اور حکومتی سطح پر ایسٹرن ریجن کا دارالخلافہ تھا۔

یہاں پر بھی خداتعالیٰ کے فضل سے ایک بہت ہی مخلص جماعت ہے۔ یہاں کے صدر مسٹر علی رئیس تھے جو بہت ہی مخلص دوست تھے۔ یہ بھی انگریزی نہ جانتے تھے۔ یہاں پر مشن ہاؤس ایک کرایہ کا مکان تھا۔ جس میں مبلغ کی رہائش تھی ایک کمرہ میں اور برآمدہ میں پانچوں نمازیں اور جمعہ ہوتا تھا۔ ایک اور کمرہ تھا جس میں آفس تھا۔ اور جماعت کے عہدے دار بھی آکر کام کرتے تھے۔ خصوصاً جنرل سیکرٹری صاحب اور سیکرٹری صاحب مال اور سرکٹ مبلغ۔

کوفوریڈوا سے 6 میل دور ایک اور گاؤں تھا۔ یہاں پر ایک دوست مکرم عبدالحکیم شوسئیں تھے جو اچھی انگریزی جانتے تھے۔ وہ جمعہ کے دن خطبہ کا مقامی زبان میں ترجمہ بھی کرتے تھے۔ (جاری)

(سید شمشاد احمد ناصر مربی سلسلہ احمدیہ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مئی 2021