• 26 اپریل, 2024

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے 29 رمضان المبارک کے ایک درس سے ایک ایمان افروز واقعہ

رمضان المبارک کے مہینہ میں ربوہ میں عموماً نظارت اصلاح و ارشاد کے زیر انتظام مسجد مبارک میں درس قرآن کا ایک دور مکمل کیا جاتا تھا اور 29 رمضان المبارک کو خلیفہ وقت آخری تین سورتوں کا درس دیتے تھے اور دعا کرواتے تھے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے ایسے ہی ایک غیر مطبوعہ درس سے ایک ایمان افروز واقعہ پیش خدمت ہے:

حضور انور نے سورۃ الناس کے درس کے دوران یہ واقعہ بیان فرمایا تھا
’’… ہماری تاریخ میں ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک مجذوب پہاڑ کی کسی کھوہ میں رہتا تھا اور وہ کسی سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتا تھا ایک احمدی دوست اپنے کسی غیر از جماعت دوست کو تبلیغ کر رہے تھے تبلیغ کے دوران اس غیر از جماعت نے اصرار کیا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس وقت مانوں گا جب وہ مجذوب آپ کی تصدیق کردے لیکن اگر تم اسے ملنے کے لئے اس کے پاس گئے تو تمہیں بےنقط گالیاں دے گا اس لئے تم اس کی گالیاں سننے کے لئے تیار ہو کر جانا۔ اس احمدی کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ڈالی کہ جاؤ اس مجذوب سے تصدیق کروا لو۔ چنانچہ وہ اس مجذوب سے ملنے کے لئے اس کی کھوہ کی طرف گئے اور ابھی وہ اس کھوہ کے قریب بھی نہیں پہنچے تھے اور اسے سلام کرنے اور اپنی طرف متوجہ کرنے کا ابھی انہیں موقع نہیں ملا تھا کہ وہ مجذوب خود ہی کھوہ سے باہرنکل آیا اور نہایت گندی گالیاں دینی شروع کیں اور کہنا شروع کیا

دوڑ جاؤ دوڑ جاؤ
مرزا سچا ہے مرزا سچا ہے

گویا خدا تعالیٰ نے اسے خود ہی سوال سمجھا دیا اور جواب بھی سمجھا دیا اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصدیق کردی۔میں سمجھتا ہوں کہ ایسے واقعات بھی جماعت کی اس دعا کی قبولیت کے نشان ہیں جب ہمیں یہ ہدایت کی گئی تھی کہ تم دعا مانگو کہ میں پناہ مانگتا ہوں من شر الوسواس الخناس الذی یوسوس فی صدور الناس من الجنۃ والناس

ایسے وسوسہ ڈالنے والوں کے شر سے جو وسوسہ ڈال کر خود پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور یہ لوگ ان لوگوں میں سے بھی ہیں جو دنیوی یا دینی لحاظ سے اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں اور عوام سے بھی ہیں۔

اگر تاریخ میں ایسی مثالیں نہ ملتیں جن میں سے ایک مثال میں نے نمونہ کے طور پر بیان کی ہے تو کوئی کہہ سکتا تھا کہ تم یہ دعا تو کرتے ہو لیکن کیا پتہ کہ وہ دعا قبول بھی ہوتی ہے یا نہیں پس خدا تعالیٰ نے ایسی مثالیں پیدا کر دیں تا ہم کہہ سکیں کہ جب خدا تعالیٰ دعا سکھاتا ہے اور بندہ نیک نیتی سے دعا کرتا ہے تو وہ قبول ہو جاتی ہے۔

غرض من الجنۃ والناس کہہ کر بتایا کہ وسوسے ڈالنے والے خواہ عوام میں سے ہوں یا خواص میں سے یعنی وہ مل جل کر زندگی بسر کرنے والے ہوں یا تنہائی اور علیحدگی کی زندگی گزارنا پسند کرتے ہوں اگر تم ان کے شر سے پناہ لینا چاہتے ہو تو تمہیں میری طرف لوٹنا ہو گا اور مجھ سے دعائیں مانگنا ہوں گی مجھے میری طاقت اور ربوبیت کا واسطہ دینا پڑے گا پھر اگر تمہارے دل اخلاص سے بھرے ہوں گے تو تمہاری دعائیں قبول ہو جائیں گی اور تمہیں ان تمام فتنوں سے جن کا آخری دو سورتوں میں ذکر کیا گیا ہے محفوظ رکھا جائے گا‘‘

نوٹ: (فوٹو کاپی جو عاجز کے پاس ہےمیں درس کی ڈیٹ نہیں آئی تاہم آخر میں ایک نوٹ ہے)

آج بتاریخ 12/7/66 اس مضمون پر نظر ثانی کی گئی خاکسار (محمد صادق سماٹری)

(انجینئر محمود مجیب اصغر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مئی 2021