• 16 اپریل, 2024

جوں جوں حضورؑ تقریر فرماتے جاتے تھے وہ بار بار سر ہلاتا اور سُبحان اللّٰہ سُبحان اللّٰہ کہتا تھا

جوں جوں حضورؑ تقریر فرماتے جاتے تھے وہ بار بار سر ہلاتا اور سُبحان اللّٰہ سُبحان اللّٰہ کہتا تھا اور ساتھ یہ بھی کہتا جاتا تھا کہ میں اب حضور کی مخالفت نہیں کروں گا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت چراغ محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد چوہدری امیر بخش صاحب کھارے کے رہنے والے تھے۔ یہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نے مسجد اقصیٰ میں ایک بڑی لمبی تقریر فرمائی۔ ظہر کے بعد کا وقت تھا۔ مَیں مسجد کی شمالی جانب کی دیوار پر بیٹھا تھا۔ میرے ساتھ گاؤں کا ایک اول درجے کا مخالف تھا جس کے زیرِ سایہ اس وقت گاؤں کا ایک آدمی تھا جو سخت مخالف تھا۔ جوں جوں حضور تقریر فرماتے جاتے تھے وہ بار بار سر ہلاتا اور سُبحان اللہ سُبحان اللہ کہتا تھا اور ساتھ یہ بھی کہتا جاتا تھا کہ میں اب حضور کی مخالفت نہیں کروں گا۔ حضور جو فرما رہے ہیں سب سچ ہے۔ دو چار دن بعد میں اُسے ملا اور دریافت کیا کہ بتاؤ اب کیا رائے ہے؟ کہنے لگا معلوم نہیں، اُس وقت تو مجھے حضور کی ہر بات درست معلوم ہوتی تھی اور اب نہیں۔

(ماخوذاز روایات حضرت چراغ محمد صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد5 صفحہ15)

جن کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دینا چاہے اُن کے دل پھر اس طرح سخت ہو جاتے ہیں۔ حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بقا پوری جب قادیان آئے تو اُنہوں نے دیکھا کہ قادیان والوں کو کس طرح آزمایا جائے۔ اب آزمانے کا انہوں نے طریقہ جو نکالا، کہتے ہیں مجھے خیال ہوا کہ علماء میں سے ایک بڑے عالم کو دیکھا اور خود مدّعی مسیح اور مہدویت کی بھی زیارت کی۔ اُن کو تو دیکھا، بڑے عالم کو بھی دیکھا، اُن کو علم سے بھرا ہوا پایا، اخلاق میں اعلیٰ پایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا، اور اُن کی تو خیر کوئی مثال تھی ہی نہیں، اخلاق کا ایک سمندر تھے۔ تو اب یہاں کے عام لوگوں کی بھی اخلاقی حالت دیکھنی چاہئے۔ چنانچہ اس امتحان کے لئے کہتے ہیں میں لنگر خانے چلا گیا جو اُس وقت حضرت خلیفہ اول کے مکان کے جنوبی طرف اور بڑے کنوئیں کی مشرق کی طرف تھا۔ لنگر خانے میں ایک چھوٹا سا دیگچہ تھا جس میں دال اور ایک چھوٹی سی دیگچی میں شوربہ تھا۔ میاں نجم الدین صاحب بھیروی مرحوم اُس کے منتظم تھے۔ مَیں نے میاں نجم الدین صاحب سے کھانا مانگا تو انہوں نے مجھے ایک روٹی اور دال دی۔ مَیں نے کہا مَیں دال نہیں لیتا، گوشت دو۔ میاں نجم الدین صاحب مرحوم نے دال اُلٹ کر گوشت دے دیا۔ (دال واپس ڈال دی، گوشت ڈال دیا بغیر کچھ کہے)۔ لیکن مَیں نے پھر کہا کہ نہیں نہیں دال ہی رہنے دو۔ تب انہوں نے گوشت اُلٹ کر دال ڈال دی۔ (پھر واپس کیا گوشت، پھر دال ڈال دی)۔ اور گوشت اور دال کے اس ہیر پھیر سے میری غرض یہ تھی کہ تا مَیں کارکنوں کے اخلاق دیکھوں۔ مطلب یہ نہیں تھا کہ مجھے دال پسند ہے یا گوشت پسند ہے۔ اتنی دفعہ دال اور گوشت کو بدلوایا کہ دیکھنا یہ چاہتے تھے کہ ان کے اخلاق اچھے ہیں کہ نہیں۔ یہ کہیں غصے میں آ کر یہی دال کی پلیٹ تو نہیں میرے اوپر پھینک دیں گے۔ تو مَیں نے بیٹھ کر کھانا کھایا اور وہاں کے مختلف لوگوں سے باتیں کیں۔ منتظمینِ لنگر کی ہر ایک بات خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلانے والی تھی، یہ فقرہ دیکھیں کہ منتظمینِ لنگر کی (جو بھی کارکنان تھے وہاں اُن کی) ہر ایک بات خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلانے والی تھی۔ اس سے بھی میرے دل میں گہرا اثر ہوا۔ اب یہ تھی نیکی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے صحابہ میں اپنے ساتھ رہنے والوں میں پیدا کی۔ دوسرے دن صبح قریباً تمام کمروں سے قرآنِ شریف پڑھنے کی آواز آتی تھی۔ فجر کی نماز میں مَیں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور یہ نظارہ بھی میرے لئے بڑا دلکش اور جاذبِ نظر تھا۔

(مأخوذ از روایات حضرت مولوی محمدابراہیم صاحبؓ بقاپوری رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد8 صفحہ10، 11)

پس یہ نظارے ہیں جو اِن دنوں میں بھی، جلسے کے دنوں میں خاص طور پر ہم میں نظر آنے چاہئیں، اور کارکنان کو بھی خاص طور پر نوٹ کرنا چاہئے کہ اُن کی ہر بات، اُن کا ہر عمل ایسا ہو جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ حقیقت میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی ہے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک تعلق پیدا کیا ہے۔ اور پھر یہ باتیں زندگی کا مسلسل حصہ ہونی چاہئیں کہ نمازیں بھی ہوں، قرآنِ کریم کی تلاوت بھی ہو اور پھر نہ صرف اِن تین دنوں میں، بلکہ گھروں میں جا کر بھی ان کو جاری رہنا چاہئے۔

حضرت منشی محبوب عالم صاحب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں لاہور سے قادیان گیا کیونکہ مَیں حضرت صاحب کو روزانہ خط لکھا کرتا تھا اس واسطے حضرت اقدس کو بھی میرے ساتھ بہت محبت ہو گئی۔ جب کبھی میں لاہور سے جاتا فوراً ہی مجھے شرفِ ملاقات بخشتے۔ کبھی مجھے اندر بلاتے، کبھی خود باہر تشریف لاتے۔ ایک دفعہ مَیں قادیان گیا تو حضورؑ مسجد مبارک میں تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ آپ یہاں بیٹھ جائیں مَیں آپ کے لئے کچھ کھانا لاتا ہوں۔ چنانچہ مَیں کھڑکی کے آگے بیٹھ گیا۔ حضورؑ اندر تشریف لے گئے کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد سویّوں کی ایک تھال اپنے دستِ مبارک میں اُٹھائی ہوئی میرے لئے لے آئے اور فرمانے لگے، یہ ابھی آپ کے لئے اپنے گھر والوں سے پکوا کر لایا ہوں۔ مَیں بہت شرمسار ہوا کہ حضورؑ کو تکلیف ہوئی مگر دل میں مَیں خوش بھی ہوا کہ حضرت اقدس کے دستِ مبارک سے مجھے یہ پاکیزہ غذا میسر ہوئی ہے۔ چنانچہ میں نے سویّاں کھائیں اور بہت خدا کا شکر ادا کیا۔ پھر حضورؑ نے مجھے رات کو فرمایا آج آپ یہیں سوئیں، چنانچہ مسجد کے ساتھ کے کھڑکی والے کمرہ میں اکیلا سویا مگر مجھے رات بھر نیندنہ آئی اور میں جاگتا ہی رہا۔ اور دعائیں کرتا رہا اور دل میں خیال کرتا تھا کہ میرا یہاں سونا کسی غفلت کا موجب نہ ہو، تا کہ حضرت کو روحانی طور پر یہ معلوم نہ ہو جائے کہ مَیں سویا رہا ہوں۔ اسی خوف سے مَیں جاگتا رہا اور درود شریف پڑھتا رہا اور دعائیں کرتا رہا اور جب چار بجے تو حضورؑ خود میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ آپ جاگیں اب نماز کا وقت ہونے والا ہے۔ مَیں تو پہلے ہی جاگتا تھا اُٹھ کھڑا ہوا اور مسجد مبارک میں آ گیا۔ اتنے میں اذان ہوئی اور حضرت صاحب بھی اندر سے تشریف لائے۔

(مأخوذ از روایات حضرت منشی محبوب عالم صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد9 صفحہ220تا222)

حضرت میاں وزیر خان صاحب ولد میاں محمد صاحب افغان غوری لکھتے ہیں کہ ایک روز 1895ء یا 1896ء کی بات ہے، حضرت صاحب اور مولوی صاحبان یعنی مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب، مولوی محمد احسن صاحب اور چند دوست جن میں مَیں بھی تھا، گول کمرے میں کھانا کھا رہے تھے کہ کھانے کے وقت قیمہ بھرے ہوئے کریلے آئے۔ حضرت صاحب نے ایک ایک کر کے تقسیم کر دئیے۔ دو رہ گئے اور مجھے کوئی نہیں دیا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ مجھے تو نہیں دیا۔ بڑے بڑے مولویوں کو دے دیا ہے، مجھے نہیں دیا۔ حضرت صاحب نے معاً دونوں کریلے اُٹھا کر میرے آگے رکھ دئیے۔ مَیں نے عرض کی حضور بھی لے لیں۔ آپ نے فرمایا نہیں، آپ کھائیں۔

(ماخوذ از روایات حضرت میاں وزیر خان صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 14صفحہ 363، 364)

تو فوراً ایسی صورتحال بعض دفعہ ہوتی تھی کہ خیال آیا اور ادھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُن کے خیال کے مطابق، خواہش کے مطابق یا جو بھی اگر کوئی بدظنی پیدا ہوئی ہو تو اُس کو دور کرنے کے لئے فوراً وہ عمل کر دیا۔

(خطبہ جمعہ 24؍ جون 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 جون 2021